حکومت نفسیاتی دباؤ کا شکار

وزیراعظم عمران خان کو چھٹی کے اعلان کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی

ملک کے سیاسی حلقے وزیراعظم عمران خان کے دو روز کے لیے چھٹی پر جانے کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ چونکہ اس اعلان میں یہ وضاحت بھی موجود نہیں ہے کہ وزیراعظم نے کس مقصد کے لیے یہ چھٹی لی ہے، اس لیے معاملہ زیادہ مبہم ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چھٹی کا باقاعدہ اعلان کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے، جبکہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک انہوں نے ایک بھی اعلانیہ چھٹی نہیں کی، بلکہ اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک کے قیام کے دوران بھی اپنے فرائضِ منصبی ادا کیے ہیں۔ بعض سیاسی حلقے اسے جناب وزیراعظم کا خاموش اور مہذب احتجاج قرار دے رہے ہیں، جبکہ بعض اسے اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کے نتیجے سے تعبیر کررہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اور عمران خان کے دستِ راست اسد عمر کی وزارت سے علیحدگی بھی ان فاصلوں میں اضافے کی طرف اشارہ کررہی تھی اور اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کی اچانک برطرفی بھی اس جانب ایک قدم تھا، لیکن اب برسرِاقتدار جماعت کو ناکامیوں کے بعد بے بسی کا سامنا ہے، اور پارٹی اور اُس کی قیادت شدید نفسیاتی دبائو کا شکار ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان سے بڑی اُمیدیں تھیں۔ وہ بڑے چاہ سے انہیں اقتدار میں لائی تھی۔ اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے 2018ء کے انتخابات سے قبل انتخابی عمل کے دوران اور نئی حکومت کے قیام کے لیے خاصی محنت کی تھی۔ انتخابات سے قبل الیکٹ ایبلز کو ہانک کر اس جماعت میں لایا گیا، بعض نے بڑی جماعتوں کے ٹکٹ واپس کردیے۔ انتخابی عمل کے دوران ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کا بھرپور الزام لگایا، خود تحریک انصاف کو بھی سندھ میں دھاندلی کی شکایت تھی۔ لیکن شاید حالات کا تقاضا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے اصرار کے باوجود اسمبلیوں سے استعفے دینے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے سے انکار کردیا، بلکہ تحریک انصاف کو حکومت بنانے اور چلانے کی نہ صرف پیش کش کی بلکہ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ڈالی۔ یہاں تک تو تحریک انصاف کا کام ٹھیک رہا، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس جماعت نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہ کیا۔ وہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی کنٹینر پر سوار تھی اور شدت پسند اپوزیشن کی طرح کے طرزِعمل کا مظاہرہ کررہی تھی۔ لانے والوں کو اگلے چند دن میں معلوم ہوگیا کہ اس جماعت کا تمام چھابا نعروں اور مقبولیت کے زعم سے بھرا ہوا ہے، یہاں ویژن کا شدید فقدان ہے، ٹیم ناتجربہ کار کارکنوں یا مفاد پرست نااہلوں سے بھری ہوئی ہے، کام کرنے کا انداز کرکٹ ٹیم جیسا بھی نہیں۔ حالانکہ یہاں 11 افراد کی ٹیم نہیں 22 کروڑ کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔ یہاں انگلی کے اشارے پر کسی کو اِن اور کسی کو آئوٹ نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اداروں کی بات کو سننا اور وزن دینا پڑتا ہے۔ چنانچہ نئی حکومت نے پورا ایک سال سابقہ حکومت کو گالیاں اور کوسنے دینے میں گزار دیا۔ اگلا سال شروع ہوا تو مخالفین کی اس انداز میں گرفتاریاں شروع ہوگئیں جن سے انتقام کا شک گزرنا لازمی تھا۔ حکومت نے شاید نیب کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش تو کی لیکن خود نیب کی کارکردگی پر نظر نہیں رکھی۔ چنانچہ نیب نعروں اور میڈیا ٹرائل سے سیاسی مخالفین کے خلاف فضا تو بناتا رہا، البتہ ٹھوس کیس بنانے میں ناکام رہا۔ چنانچہ بیشتر مخالفین کو عدالتوں سے ریلیف ملتا گیا، عملاً نیب اپنے کیس عدالتوں میں ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ یہ ناکامی ازخود حکومت کے کھاتے میں پڑ گئی۔ اس دوران حکومت عوام کو کوئی ریلیف بھی نہ دے سکی۔ 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں میں سے تاحال ایک گھر تعمیر ہوسکا نہ کسی کو ایک نوکری مل سکی۔ 10 ارب درخت لگانے کا وعدہ عملاً چند لاکھ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ پشاور میں اپنی شروع کی ہوئی میٹرو بس مکمل ہوسکی، نہ موجودہ حکومت لاہور میں سابقہ حکومت کی اورنج ٹرین کو چلا سکی۔ اسپتالوں میں مفت ادویہ ملنا بند ہوگئیں، میڈیا ہائوسز بند ہونے لگے اور ہزاروں صحافی اور میڈیا کارکنان بے روزگار ہوکر سڑکوں پر آگئے۔ ڈالر آسمان کو چھونے لگا، زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہونے لگے اور حالت یہاں تک پہنچی کہ ٹماٹر 250 روپے اور پیاز 100 روپے کلو ہوگئی۔ کوئی سبزی 70 روپے کلو سے کم نہ رہی۔ سانحہ ساہیوال کے بے گناہ مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے میں خود حکومت رکاوٹ بنی۔ عدالتی فیصلوں کو قبول کرنے کے بجائے حکومت کے کارندے اُن پر تنقید کرتے رہے۔ یہ صورت حال جہاں حکومت کی ناکامیوں کی چارج شیٹ میں اضافہ کررہی تھی وہیں اسے لانے والوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔ چنانچہ سیاسی حلقوں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے متبادل پر غور شروع کردیا، اور ممکنہ متبادلات کو سپورٹ کرنے کا آغاز کردیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے بڑی حد تک کامیاب دھرنے اور شو کو گہری نظر رکھنے والے سیاسی حلقے اسٹیبلشمنٹ کے کسی حصے کی حمایت سے تعبیر کررہے ہیں۔ حکومتی اتحادیوں کا حکومتی مؤقف سے کھلے عام انحراف بلاوجہ نہیں۔ چودھری برادران یک دم ایکٹو ہوگئے ہیں، شیخ رشید بھی مایوس نظر آرہے ہیں، بعض لوگ اگلے چند مہینوں میں تبدیلی کی نوید دے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس حکومت کا Beggining of the End شروع ہوگیا ہے، صرف طریقہ کار طے ہورہا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی امکان ہے کہ اگر حکومت اب بھی کچھ کارکردگی دکھادے تو یہ خطرہ ٹل سکتا ہے۔