آزادی مارچ اور دھرنا پلان بی،بلوچستان میں شاہراہوں کی بندش

”نوجوان کسی کے آلہ کار نہ بنیں“۔ مولانا شیرانی کا اخباری بیان!!۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) نے تحریک انصاف کی حکومت اور مقتدر حلقوں کو پریشانی اور اضطراب میں مبتلا کردیا۔ جے یو آئی نے اسلام آباد دھرنے کے لیے طویل عرصہ مشق و ریاضت کی۔ ملک کے مختلف شہروں میں ملین مارچ کے نام سے بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا۔ آخری اجتماع 28 جولائی کو کوئٹہ میں ہوا۔ بلاشبہ جم غفیر شریک تھا جو پہلے کوئٹہ کی شاہراہوں پر نہ دیکھا گیا تھا۔ اس موقع پر اکتوبر 2019ء میں اسلام آباد کی طرف مارچ کا باقاعدہ اعلان ہوا۔ یوں جمعیت علمائے اسلام کی ہر سطح کی تنظیم نے تیاریاں شروع کردیں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان جمعیت علمائے اسلام کے گڑھ ہیں۔ اس کی پارلیمانی حیثیت ان دو صوبوں میں قائم ہے۔ بلوچستان کے اندر جے یو آئی انتہائی فعال پارلیمانی کردار رکھتی ہے۔ حکومتوں کو بنانے اورگرانے میں اس کا کردار تسلیم شدہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام وفاقی حکومت کو سلیکٹڈ کہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی، سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا مؤقف رکھتی ہے۔ تحریک انصاف اور بلوچستان کی حکومت پر اسٹیبلشمنٹ نوازی کا الزام ہے۔ چناں چہ مستقبل کی صورت گری کی بنیاد بلوچستان میں پڑی جب نون لیگ، پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت کے خلاف 2018ء کے شروع میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی، اور ان کی حکومت کو چلتا کیا گیا۔ عدم اعتماد کی اس تحریک کی اہم کھلاڑی جمعیت علمائے اسلام تھی، جس کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل بھی شریک تھیں۔ ان جماعتوں نے فوائد و مراعات حاصل کیں۔ اس طرح اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ بلوچستان عوامی پارٹی بنی، جس نے جولائی2018ء کے عام انتخابات میں کامیاب ہوکر بلوچستان میں حکومت بنالی۔ گویا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اسٹیبلشمنٹ نواز سیاست کی برائی میں شامل رہی ہے۔
غرض27 اکتوبر سے آزادی مارچ کا آغاز ہوا اور 13نومبر کو مولانا فضل الرحمٰن نے کور کمیٹی کا فیصلہ سناتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ پلان بی کے لیے بے اثر اور نمائشی احتجاج کا اعلان کردیا گیا جس میں ملک بھر میں اہم قومی شاہراہوں کی بندش شامل تھی۔ بلوچستان کے اندر 14 نومبر سے کوئٹہ چمن، کوئٹہ کراچی، کوئٹہ تفتان، کوئٹہ ژوب، کوئٹہ ڈی جی خان اور کوئٹہ جیکب آباد شاہراہ کی مختلف مقامات پر بندش کا شیڈول دیا گیا۔ اس کے تحت شاہراہیں بند کی گئیں۔ بلوچستان کے اندر پلان بی میں جے یو آئی کے ساتھ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی شامل رہی، جبکہ عوامی نیشنل پارٹی دکھائی نہیں دی۔ جے یو آئی ہی جانتی ہے کہ دھرنے میں اے این پی کی شمولیت اور سنجیدگی کس قدر تھی۔ البتہ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اس تحریک کا پوری طرح حصہ تھی اور ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کنٹینر پر مولانا فضل الرحمٰن کا آخر وقت تک ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ یاد رہے پیپلز پارٹی،نون لیگ اور اے این پی نے رہبر کمیٹی میں پلان بی کی مخالفت کی تھی۔ بدھ 6 نومبر 2019ء کو جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا محمد خان شیرانی کا بیان اخبارات میں چھپا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غیبی قوتوں سے امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔ یہ الفاظ مولانا شیرانی نے بلوچستان کے علاقے صحبت پور میں پارٹی کے لوگوں سے بات چیت میں کہے۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ ’’ہمیں اپنے جماعتی نظم و ضبط کے مطابق کارکنوں سے بہتر رابطے اور اصل کام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘‘۔ اہم بات مولانا نے یہ کہی کہ ’’دھرنا مارچ جس طرح گیا تھا اسی طرح واپس آجائے گا۔ کسی بھی جماعت کی اصل طاقت کارکن اور جماعتی ضابطہ و تربیت ہے۔ روزِ اوّل سے کہہ رہا ہوں کہ نوجوان کسی کے آلہ کار نہ بنیں‘‘۔ گویا واقعی دھرنے کے شرکاء بڑے جذبات اور ارادوں کے ساتھ گئے تھے اور ان کی واپسی فی الواقع بڑی مایوس کن تھی۔ اب اگر مولانا چاہیں بھی تو دوبارہ اس طرح کا احتجاج منظم نہیں کرسکتے۔ اپنی جماعت سے اپنی قیادت پر انگلی اٹھی ہے کہ نوجوان کسی کے آلہ کار نہ بنیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ پیپلز پار ٹی اور نون لیگ کا احتجاج اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز تک محدود تھا۔ جے یو آئی نے مقتدر حلقوں پر ثابت کردیا کہ سیاسی کارکن سڑکوں کو میدان بنانے پر اب بھی قادر ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے لیے مزید کوئی سیاسی خطرہ نہیں رہا ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی کے الزام کا جواب بھی ضروری ہے، جس میں انہوں نے پارٹی کارکنوں کو کسی کا آلۂ کار نہ بننے کی تلقین کی تھی۔ 16 نومبر کے اخبارات میں چودھری پرویزالٰہی کی یہ باتیں بھی لائقِ توجہ ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ’’انڈر اسٹینڈنگ‘‘ کے تحت اسلام آباد مارچ ختم کیا۔ حکومت کے ساتھ مولانا کی گفتگو ہمارے ذریعے ہوئی اور معاملات طے ہونے کے بعد مولانا اسلام آباد سے روانہ ہوئے، اور مولانا فضل الرحمٰن کو ہم نے (چودھری برادران) جو دے کربھیجا وہ امانت ہے۔ یہ گفتگو چودھری پرویزالٰہی نے 15نومبر کو جیو ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے کی تھی۔ یہاں جماعت اسلامی کا حزبِ اختلاف کی اس تحریک کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ بھی صائب ثابت ہوا۔ سینیٹر سراج الحق مولانا فضل الرحمٰن کو بتاچکے کہ تحریک کا فائدہ کسی اور کو حاصل ہوگا۔ اُن کے مطابق جماعت اسلامی پہلے ہی وفاقی حکومت کے فیصلوں، اقدامات، گرانی، علی الخصوص مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کے باب میں سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے۔ بقول سراج الحق کے، جماعت اسلامی کسی ایسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی کہ جس کے نتیجے میں پھل کسی اور کی جھولی میں گرے۔ غرض بلوچستان کے اندر جے یو آئی اسٹیبلشمنٹ نواز جماعت سے خود کو دور نہیں کرسکتی۔ شنید ہے کہ جب سے مولانا عبدالواسع صوبے کے امیر بنے ہیں اُن کے جام حکومت سے روابط بنے ہیں۔ ناممکن نہیں کہ بلوچستان کے اندر جمعیت علمائے اسلام حزب ِاختلاف سے نکل کر حکومت کا حصہ بن جائے، اور جے یو آئی بلوچستان نے مارچ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں جماعتی مفاد کے لیے اسٹیبلشمنٹ نواز حلقوں کا ساتھ دیا جس میں بلوچستان ہارس ٹریڈنگ کا مرکز بنا تھا۔