مولانا محمد خان شیرانی کو پہلی دفعہ اُس وقت دیکھا جب وہ کوئٹہ کے ٹائون ہال کے لان میں ایک جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ یہ ضیا الحق کا دور تھا۔ یحییٰ بختیار کی صدارت میںیہ جلسہ ہورہا تھا۔ اُس وقت مولانا محمد خان شیرانی کی داڑھی سیاہ تھی۔ ایک دن وہ خانہ فرہنگ کوئٹہ میں تشریف لائے۔ میں اتفاق سے خانہ فرہنگ کے ڈائریکٹر سے ملنے آیا ہوا تھا، لائبریری میں مولانا شیرانی کو سلام کیا تو انہوں نے مجھے پہچان لیا۔ میں روزنامہ مشرق میں کالم لکھتا تھا اور تصویر چھپتی تھی اس لیے وہ جانتے تھے اور میرے کالم پڑھتے تھے۔ وہ باقر صدر کی کتاب تلاش کررہے تھے۔ انہیں بتایا کہ یہ کتاب یہاں کی لائبریری میں موجود نہیںہے، چلیں ڈائریکٹر خانہ فرہنگ سے ملاقات کرتے ہیں۔ ہم دونوں ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ان دونوں کے درمیان ترجمانی میرے ذمے تھی۔ مولانا شیرانی اُس وقت فارسی سے اتنے بلد نہ تھے۔ اُن کے ذہن میں ایران کے حوالے سے بے شمار سوالات تھے، جو وہ کرتے گئے اور ڈائریکٹر ان کو جواب دیتے رہے۔ دوسرے دن ڈائریکٹر خانہ فرہنگ سے ملا تو محمد خان شیرانی کے حوالے سے کہاکہ مولانا سخت متعصب آدمی ہیں، لیکن یہ جمعیت علمائے اسلام میں روشن فکر آدمی ہیں۔ وہ خوب ہنسے اور میری بات ان کو پسند نہیں آئی۔ فروری میں انقلابِ ایران کی تقاریب ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے مجھے بلایا اور کہاکہ کچھ نام دیں جو ہمارے مہمان ہوں گے۔ میں نے عبدالحق بلوچ سابق امیر جماعت اسلامی بلوچستان اور مولانا محمد خان شیرانی کے نام دیے تو انہوں نے کہاکہ شادیزئی صاحب! مولانا شیرانی تو سخت متعصب شخص ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ایران کا انقلاب چونکہ امام خمینی نے برپا کیا ہے اور وہ عالم دین ہیں، اس انقلاب میں علماء کا بڑا کردار ہے اور محمد خان شیرانی کا تعلق بھی علماء سے ہے اور ان کی پارٹی مذہبی ہے، وہ انقلاب کو دیکھیں گے اور مشاہدہ کریں گے تو متاثر ہوجائیں گے۔ میرے اصرار پر انہوں نے اسلامی انقلاب کی تقریبات میں انہیں مدعو کرلیا۔ مولانا شیرانی نے انقلاب کا مشاہدہ کیا تو وہ متاثر ہوگئے اور دورے کے بعد انہوں نے انقلاب کی زبردست حمایت کی۔ یوں جمعیت میں مولانا شیرانی کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے۔ ایران کے صدر آیت اللہ خامنہ ای نے پاکستان کا دورہ کیا تو میں نے خانہ فرہنگ کے ڈائریکٹر سے کہاکہ مولانا شیرانی کو اسلام آباد کی تقریبات میں شریک کریں، تو انہیں صدر کے دورے میں دعوت دی گئی۔ وہ جب لوٹے تو متاثر تھے اور مختلف مواقع پر بولنا شروع کیا تو اُن کے حلقوں میں یہ رائے پیدا ہوئی کہ مولانا کو پیسے دیے گئے ہیں۔ اور ان کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا گیا۔ مولانانے اس کی کوئی پروا نہیں کی اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ 1988ء کے انتخابات میں مولانا محمد خان شیرانی سیاست کے میدان میں داخل ہوگئے اور قومی اسمبلی میں چلے گئے، جہاں ان شرکت اور خطابت نے ان کی شخصیت کو جِلا بخشی، وہ ایک روشن فکر شخصیت بن گئے، پھر بلوچستان جمعیت کے مستند لیڈر بن کر ابھرے۔ 1988ء کے بعد سے ایک طویل عرصے تک وہ بلوچستان میں اپنی پارٹی پر حاوی رہے اور مولانا فضل الرحمٰن ان کے مؤقف کو سنتے رہے اور حمایت کرتے رہے۔ بلوچستان میں ان کی مرضی سے پارٹی مختلف قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ اشتراک کرتی رہی۔ وہ پارٹی میں مولانا فضل الرحمٰن کے بعد دوسری مؤثر شخصیت بن گئے تھے اور ملکی سطح پر ابھر کر آگئے تھے۔ وہ جنرل پرویزمشرف کے بہت قریب چلے گئے۔ جنرل پرویزمشرف نے کوئٹہ کا دورہ کیا تو محمد خان شیرانی گورنر ہائوس میں مدعو تھے اور صف اوّل میں تشریف فرما تھے۔ جنرل پرویزمشرف نے اس موقع پر کھل کر کہاکہ میں بعض معاملات میں مولانا محمد خان شیرانی سے مشورے لیتا ہوں۔ اس موقع پر جنرل پرویزمشرف علماء پر سخت برسے اور کہاکہ یہ منافق ہیں۔اُن دنوں جنرل پرویزمشرف اور ایم ایم اے میں کشمکش چل رہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے سخت مخالف ہوگئے تھے اور ان کے درمیان دراڑیں پڑ گئی تھیں۔
بلوچستان میں مولانا شیرانی کے مدمقابل کوئی شخصیت ٹھیر نہ سکی۔ وہ اردو بڑی اچھی بولتے تھے اور مطالعہ اچھا تھا۔ وہ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کے بادشاہ گر تھے اور مولانا فضل الرحٰمن ان کی رائے کا بڑا احترام کرتے تھے۔ وزارتیں ان کی مرضی سے بنتی تھیں، سینیٹر کا انتخاب بھی مولانا ہی کرتے تھے۔ یہ ان کا دور تھا۔ پھر وہ مرکزی انتخابات میں پارٹی کے مرکزی امیر کے لیے کھڑے ہوگئے اور مولانا فضل الرحمٰن کے مدمقابل آگئے۔ یہ ان کے عروج کا نکتہ تھا، اور اس نکتے پر پہنچ کر وہ زوال کے نکتے کو بھی چھو رہے تھے۔ بڑی مشکل سے وہ دستبردار ہوئے،اور بزرگوں کے اصرار پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے فیصلہ کرلیا کہ اب شیرانی صاحب کو اُس مقام پر پہنچانا ہے جہاں سے انہوں نے سفر شروع کیا تھا۔ اس کے لیے منصوبہ بندی کی گئی اور صوبے میں ان کے مدمقابل ان کے مخالفین کو کھڑا کیا گیا، اور صوبائی قیادت سے انہیں محروم کردیا گیا، اور بالآخر 2018ء کے انتخابات میں صوبے سے ان کے حامیوں کو باہر کردیا گیا۔ یوں شیرانی صاحب کا سفر جہاں سے شروع ہوا تھا وہ دوبارہ وہیں پہنچا دیے گئے۔ مولانا واسع جو مولانا شیرانی کے دستِ راست تھے، انہوں نے بھانپ لیا کہ مولانا محمد خان شیرانی کے ساتھ زیادہ چلے تو اسمبلی میں نہیں پہنچ سکیں گے، یوں واسع صاحب نے بھی یوٹرن لیا اور مولانا کے دوبدو دست بستہ کھڑے ہوگئے۔ اور اب وہ مولانا محمد خان شیرانی کی جگہ پر ہیں۔ یہ مقام مولانا محمد خان شیرانی نے اپنی 40 سالہ جدوجہد سے بنایا تھا۔ ان کی علمی اور سیاسی شخصیت کو کوئی بھی چیلنج نہیں کرسکے گا اور نہ ان کے مقام تک پہنچ سکے گا۔ اب مولانا پارٹی کی صف میں کھڑے نظر نہیں آرہے ہیں، لیکن یہ دور شاید زیادہ دیر تک نہ چل سکے۔ وقت ایک بار پھر انہیں اُس مقام تک لے آئے گا جہاں سے وہ ہٹائے گئے تھے۔