بقول ارشد بیگ، طاہر مسعود ان لوگوں میں شامل ہیں جو بازی پلٹنے کا عزم رکھتے ہیں‘ جامعہ کراچی نے اس فکر کی تعمیر کی۔ روزنامہ جسارت کے ادبی صفحے نے میدان سجایا‘ عام آدمی کو ادب سے متعارف کرانے میں ’’جسارت‘‘ کے ادبی صفحے نے خشتِ اوّل کا کردار ادا کیا۔ طاہر مسعود اس صفحے کے لیے مشہور ادیبوںسے انٹرویو کرتے جو بڑے کانٹے کے ہوتے۔ برادر طاہر مسعود قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پاکستان کو ٹوٹتے دیکھا اور اس دکھ اور کرب کو محسوس کیا جو خوابوں کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔
اس دکھ اور کرب کا اظہار ان کے کالموں سے عیاں ہے‘ وہ معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں ’’ہم اور ہمارا معاشرہ دورِ زوال سے گزر رہے ہیں کم و بیش زندگی کے تمام ہی شعبے میں انحطاط‘ بدنظمی و بے ترتیبی اس درجہ ہے کہ رہنے سہنے کے اعتبار سے ہماری قوتِ برداشت تقریباً جواب دے جاتی ہے۔ اکثر صورتوں میں اس کے ذمے دار ہم خود ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہم ہر معاشرتی اور سماجی خرابی کا ذمہ دار ’’نظام‘‘ (System) کو ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ کر لیں اور یہ نہ سوچیں کہ ’’نظام‘‘ اگر خراب ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم خود خراب ہیں‘ ہمارے رویے اور معاملات صحت مند نہیں‘ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم عادات و اطوار اور معاملات کے اعتبار سے برے ہوں اور سسٹم اچھا ہو جائے۔‘‘ میں یہی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک ہم نے جو معاشرہ بنایا ہے‘ خواہ اخلاقی یا مادی اعتبار سے‘ اس نے ہمیں ذہنی اور قلبی اعتبار سے بے سکون اور بے خواب کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’’تبدیلی‘‘ کی خواہش تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ انسان ہی اس روئے زمین پر ایک ایسی مخلوق ہے جو خود کو اور اپنے ماحول کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ تبدیلی کی یہ خواہش جب شدید ہو کر ہمارے اعمال میں ڈھل جائے گی اور جب ہمارا قول عمل بن جائے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں ان اذیتوں سے نجات نہ مل جائے جس کے لیے ہم ترس رہے ہیں:۔
جل رہا ہے برسوں سے آندھیوں کے بیچ
اک چراغ طاقِ تعلقات میں
(ظفر)
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیراہتمام ’’ہم اور ہمارا معاشرہ‘‘ کی تقریب اجرا کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی‘ صدارت ڈاکٹر معین الدین عقیل نے فرمائی۔ نظامت کے فرائض معروف ادیب، صحافی حنیف عابد نے انجام دیے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے صدارتی خطبے میں کہا کہ ڈاکٹر طاہر مسعود کی شناخت ایک استاد‘ مصنف اور محقق کی ہے انہوں نے مشاہیر کے انٹرویوز بھی کیے اور خاکے بھی لکھے جو ان کے شگفتہ طرزِ اسلوب سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی تاثراتی تحریریں بھی کمال کی ہیں۔ اردو صحافت میں بھی انہوں نے یادگار تحقیقی کام کیا ہے۔ اس کتاب میں بنیادی موضوع معاشرہ ہے یہ جب اسے دیکھتے ہیں اور اس معاشرے میں رہنے والوں کے دکھ کو محسوس کرتے ہیں تو یہ مضطرب ہوجاتے ہیں۔ ہر شعبے کا حال برا ہے‘ تعلیم اور ہمارا نظام تعلیم کیا ہے‘ کیا کسی کو اس درستی کا خیال ہے‘ ان کا یہ سوال بہت اہم ہے۔ اگر ہمارا نظامِ تعلیم قومی تقاضوں کے مطابق ایک ہوتا تو ہم ایک ترقی یافتہ قوم ہوتے‘ تعلیم کو قومیائے جانے‘ کوٹہ سسٹم اور قومی زبان کو اہمیت نہ دے کر آج ہم نے اپنا یہ حال کر لیا ہے کہ آج نااہل اساتذہ جو اپنے فرائض سے غافل ہیں وہ ہمارے لیے صحافی بناتے ہیں‘ ادیب بناتے ہیں اب وہ کیسے ہوں گے یہ آپ خود سوچیے۔ ہمیں تعلیم اور تعلیمی نظام کے لیے اخلاص سے اس کی خامیاں دور کرنی ہوں گی تب ہی ہم اس معاشرہ کو بنا سکیں گے جس کا خواب ڈاکٹر طاہر مسعود اور ہم دیکھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ ڈاکٹر طاہر مسعود ایک نفیس شخص ہیں‘ یہ کبھی دو قدم آگے جاتے ہیں پھر ایک قدم پیچھے آجاتے ہیں‘ کبھی ایک قدم آگے جاتے ہیں اور دو قدم پیچھے آجاتے ہیں‘ انہیں سمجھنے کے لیے ان کی پوری زندگی کو سمجھنا ہوگا‘ یہ زود نویس بھی ہیں زرخیز ذہن کے مالک بھی‘ ان کے ہاں ٹھہرائو بھی ہے اور احساس بھی اور اتنے حساس کہ کوئی بات نہ بھی ہو تو یہ اسے اپنے لیے سوہانِ روح بنا لیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالموں میں میرا ذکر بھی کیا اور جب انہیں لگا کہ کچھ زیادتی ہوگئی ہے تو مجھے اپنے گھر بلایا اور انواع و اقسام کے کھانوں سے تواضع کی میں نے کہا کہ اگر بھابی کو تکلیف نہ ہو تو بھائی ایسا ذکر کرتے رہا کرو۔
اپنے گرد و پیش پر ان کی گہری نظر ہے‘ دائیں بازو سے تعلق رکھنے کے باوجود مخالف ادیبوں‘ مخالف نظریات کے حامل دانشوروں سے ملنے کے آداب جانتے ہیں اور بڑی محبت سے ملتے ہیں۔ سوال اٹھانا اور ان کے جوابات تلاش کرنا ان کا مستقل کام ہے‘ یہ اپنے مرکز سے جڑے ہوئے ہیں‘ دائیں بائیں بھی دیکھتے ہیں مگر مرکز نہیں چھوڑتے۔ میں ان کی کتاب جس میں 34 مضامین شامل ہیں‘ اسے تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ پہلا حصہ مذہب سے متعلق ہے جس میں انہوں نے فرقہ بندی اور دوسرے مذہبی مسائل پر گفتگو کی ہے۔ یہ ایسی گفتگو کرتے ہیں جو شاید لبرل لوگ بھی نہ کرسکتے ہوں۔
دوسرا حصہ ادب سے متعلق ہے انہوں نے حسن عسکری‘ سلیم احمد پر بات کی ہے یہ بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ اس بدذوقی کا بھی ذکر کرتے ہیں جب نسیم حجازی کا موازنہ قرۃ العین حیدر سے کیا جاتا ہے‘ انہوں نے ادبی رسائل کے زوال پزیر ہونے کا بھی جائزہ لیا ہے وہ انہیں مواد سے نہیں بلکہ انہیں پیش کرنے کے طریقے بھی بتاتے ہیں۔
تیسرا حصہ تعلیم اور تحقیق سے متعلق ہے‘ انہوں نے اس کتاب میں جو سوال اٹھائے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان پر بحث ہوتی رہنی چاہیے۔
ڈاکٹر نگار سجاد نے کہا کہ میں نے تفصیل سے یہ کتاب پڑھی ہے اس میں ایسی سنجیدگی نظر آتی ہے جو ان کے مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔ انہوں نے اپنے انٹرویوز میں جو سوال اٹھائے ہیں ان کے جوابات سے زیادہ مزا ان کے سوالوں سے آتا ہے۔
یہ خود مجسم سوال ہیں‘ 270 صفحات کی کتاب میں بڑے سوال ہیں اور سوال دردِ دل رکھنے والا ہی اٹھاتا ہے۔ انہوں نے ان کے جوابات بھی دیے ہیں اور حل بھی پیش کیا ہے۔ یہ کتاب آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے کتاب کو معیاری طور پر شائع کیا ہے اور قیمت بھی مناسب رکھی ہے۔
خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ اسلام اور پاکستان سے محبت ان کی پہچان ہے‘ انہوں نے مختلف کتابیں تصنیف کی ہیں جو سب اہمیت کی حامل ہیں۔ بحیثیت صحافی اور استاد انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئی معاشرہ کتنا ہی خراب کیوں نہ ہو اگر سوال اٹھانے والے ہوں گے تو اس میں تبدیلی ممکن ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو کرکے بتایا ہے کہ اچھے آدمی کے بغیر فلاحی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ میں انہیں کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ کتاب علمی اور ادبی حلقوں میں مقبول ہوگی۔
پروفیسر توصیف احمد خان نے کہا کہ انہوں نے بڑا اہم کام کیا ہے‘ ان پر تنقید بھی ہوتی ہے اور تحسین بھی۔ انہوں نے بتایا کہ اچھے مسلمان کا بیانیہ کیا ہونا چاہیے‘ دوسرے مذاہب کو برا بھلا کہنے کے بجائے ان کی اچھی باتوں پر توجہ دی جائے‘ ان کا بیانیہ نئی نسل کو پہنچانا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے یونیورسٹیوں کے مسائل پر بھی کھل کر بات کی ہے۔ یہ سوال اٹھاتے ہیں‘ اساتذہ تنظیمیں‘ طلبا تنظیمیں مافیا کیوں بن جاتی ہیں۔ مہاتما گاندھی پر بھی ان کی تحریر ہے۔
یہ بڑے محبت والے انسان ہیں میرا ان سے محبت کا تعلق کئی دہائیوں سے ہے‘ ہمیں نوجوانوں کو اس کتاب کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پریس کلب ادبی کمیٹی کے سیکرٹری علاء الدین خانزادہ نے کہ اکہ انہوں نے یہاں آکر ہمیں جو عزت دی ہے ہم اس کے لیے متشکر ہیں ہمارے دروازے تمام ادیبوں‘ شاعروں‘ دانشوروں کے لیے کھلے ہیں‘ یہاں آکر وہ بات کرسکتے ہیں جو اور کہیں نہیں کی جاسکتی۔
تقریب میں بڑی تعداد میں اربابِ علم و دانش نے شرکت کی۔