تاریخ گُم گَشتہ،ہندسوں میں خدا کی معرفت (3)۔

مائیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق
سن 1048ء میں، غیاث الدین ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشا پوری فارس کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوا۔ یہ ہری بھری وادی بینالود کے ناہموار پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ بستی تھی۔ نئی سلجوقی حکومت نے اسے دارالخلافہ بنایا۔ اس شہر کی یہ حیثیت دس سال تک برقرار رہی۔
یہ لڑکا، جوبچپن سے علم ریاضی اور علم فلکیات میں گہری دلچسپی لے رہا تھا، مسلم ریاضی دانوں کے سلسلے میں منفرد مقام پر پہنچا۔ وہ واحد مسلم ریاضی داں تھا جس کی روح شاعر تھی۔ وہ روزمرہ انسانی زندگی پرگہری فلسفیانہ نگاہ بھی رکھتا تھا۔ طبیعت اُس کی رومانوی تھی۔ یہ آزاد روی کبھی کبھی روایات پرضرب بھی لگاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب وہ سرپرستوں کی تحریک پر ہندسوں کے راز کھوج رہا تھا، خود ملامتی اور شاعرانہ سی کیفیت اُس پر طاری رہی۔ دنیا اُسے عمر خیام کے نام سے جانتی ہے۔ خیام سے مراد خیمہ ساز ہے، یہ اُس کا خاندانی پیشہ تھا۔
سلجوق وہ پہلے حکمران تھے، جو وسطی ایشیا میں بتدریج فارسی وعربی ثقافت پرغالب آئے، وہ معاشرت وثقافت جسے عباسیوں نے پروان چڑھایا تھا۔ اب وسطی ایشیائی مسلم دنیا کے لیے اسلام کے ترجمان بن کر سامنے آرہے تھے۔ ترک سلجوق اب کوئی اجڈ بربر نہ تھے بلکہ کئی تہذیبوں اور سنہرے ادوار کے پروردہ تھے۔ وہ ایک نئی ترک فارسی دنیا تخلیق کررہے تھے۔ مختلف حکومتوں کے سائے تلے اس سلسلے کی کئی صورت بنیں اور بگڑیں، یہ نو صدیوں تک حکمران رہے۔ سلجوق شاہی خاندان اور اناطولیہ، فارس، اور شام میں اُن کے اثرات گیارہویں سے چودھویں صدی تک واضح محسوس کیے گئے۔ تیمور اور اُس کے جانشینوں کا دور 1336ء سے 1405ء تک قائم رہا۔ عثمانی ترک خلافت 1299 ء سے1922ء تک قائم رہی۔ مغلوں کا سلسلہ 1483ء سے1857ء تک برصغیر پر حکمران رہا۔
عمر خیام کی پیدائش سے بہت پہلے نیشاپور کے قریب فیروزہ کی ایک بہت بڑی کان کھودی گئی۔ سرامک اور نیلے ٹائلوں کی صنعت چل پڑی، کاروانوں کی تجارت بہت بڑھ گئی، یہ شہر امیر ہوگیا۔ نیشاپور نیلگوں ہوگیا، نہ صرف آسمان سے بلکہ مساجد کے گنبدوں اور محلوں کی چھتوں پر بھی نیلا رنگ غالب آرہا تھا۔ جیومیٹری پربھی یہ رنگ چھاگیا تھا۔ خیام کے وقتوں سے پہلے، نیشاپور کی تجارت نے مال و دولت میں اُسے بغداد اور قاہرہ کا ہم پلہ کردیا تھا۔ مگر اس شہرکے سب لوگ امیر نہیں تھے۔ خیام کا خاندان غرباء میں شامل تھا۔ عمر خیام نے نوجوانی میں اپنا زیادہ تر قیمتی وقت راتوں میںگھر کی چھت پر گزارا، جب وہ بے داغ آسمان کو گھنٹوں تکا کرتا تھا، اس مشاہدے میں چند تیرتے بادلوں یا ریگستانوں کی اڑتی دھول کے سوا کچھ حائل نہ تھا۔ گیارہویں صدی کے نیشاپور میں، جاڑے میں جلتی لکڑی کے دھویں کے سوا کوئی شے ستاروں کی ٹمٹماہٹ میں آڑے نہ آتی تھی۔ خیام کی نگاہوں میں بے شمار ستاروں کا اتھاہ سمندر تھا، ان کہکشاؤں سے ہر رات کے رازونیاز تھے۔ تاروں بھرآسمان مسحور کن منظرہوتا تھا، خاص طورپر کسی غریب لڑکے کے لیے یہی تفریح کے لمحات ہوتے تھے۔
تاروں سے اُس کی دوستی رومانوی تھی، مگر تلخ زمینی حقائق نے اُس کے پیر جکڑ رکھے تھے۔ وہ وقت آیا کہ خیام کے والد دنیا سے رخصت ہوئے۔ والدہ اور اُس پر چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمے داری آپڑی۔ عمر خیام کی ماں جانتی تھی کہ اُس کا یہ بیٹا غیر معمولی ذہین ہے اوربڑے کاموں کے لیے پیدا ہوا ہے، وہ اُسے خیمے کی سلائی میں لگانا نہیں چاہتی تھی۔ یہ وہ دن تھے کہ جب نیشاپور میں کوئی نوجوان اگر ذہین اور باصلاحیت ہوتا تھا، امام موفق کی شاگردی میں چلا جاتا تھا۔ جوبھی امام موفق کی شاگردی میں آجاتا تھا، اُس کا مستقبل روشن ہوجاتا تھا، خواہ کسی پیشے سے اُس کا تعلق ہو۔ امام موفق خراسان میں باصلاحیت نوجوانوں کی امید تھا۔
امام موفق نے سب سے پہلے عمر خیام کی ریاضی کا امتحان لیا، جس میں وہ کامیاب ہوا۔ اور پھراس تاریخ ساز نوجوان کی صلاحیتیں ابھرتی چلی گئیں۔ تاہم اس کی بیشتر کہانیاں تاریخ میں گم ہوگئیں۔ عمر خیام خود بھی اس حقیقت سے ناآشنا رہاکہ وہ مدرسہ موفق میں تعلقات کا ایسا تکون تشکیل دے رہا تھا، جو ہزار سال تک علمی حلقوں میں زیربحث رہے گا۔ تعلقات کے اس تکون کا کوئی دستاویزی ثبوت باقی نہیں رہا۔ اس لیے اکثریت اسے داستان گوئی سمجھتی ہے۔ تاہم کچھ مؤرخین اور دانش وروں نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے۔
موفق کے مدرسے میں عمر خیام کی دوستی حسن ابن صباح سے ہوئی، وہ ایک نامعلوم جنونی شخص کا دولت مند بیٹا تھا۔ امام موفق کے توسط سے عمر خیام کی معروف استاد نظام الملک سے بھی غیر معمولی رسم وراہ ہوئی۔ یہ داستان کہتی ہے کہ نیشاپور میں ایک غلام لڑکی تھی، اُس کا نام دریا تھا، حسن ابن صباح اور عمر خیام دونوں ہی اُس پر دل ہار بیٹھے تھے، کامیابی عمر خیام کا مقدر بنی۔
تاہم یہ سب وقت کی دھول میں اِدھراُدھر بکھر گئے۔ عمر خیام نے مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے وسطی ایشیائی شہروںکا رخ کیا۔ بلخ زرتشت کی جائے پیدائش اور قدیم فارسی تہذیب کی سرزمین، شاہراہ ریشم کی گزرگاہ سمرقند جہاں سے ہرجانب تجارت کی راہ نکلتی تھی، یہ دونوں شہر عمر خیام کے علمی مسکن بنے۔ اُن ہی برسوں کی بات ہے جب عمر خیام نے ریاضی کے فارمولوں پرکام شروع کیا۔ وہ ہندسوں کے بنیادی اصولوں کو جاننا چاہتا تھا۔ اُس نے موسیقی کے ریاضیاتی ڈھانچے پر بے مثال کام کیا، اور’شرح مشکل من کتاب الموسیقی‘ جیسی وقیع کتاب تصنیف کی۔ عمر خیام سے پہلے اور بعد، صدیوں تک موسیقی محض ایک فن سمجھی جاتی تھی، یا زیادہ سے زیادہ ریاضی اور سائنس میں ایک اضافہ خیال کی جاتی تھی۔ خاص طورپر بازنطینی اور عرب فارسی میں آٹھ لہروں والی موسیقی کا کلیہ معروف تھا۔ یہ ریاضیاتی فارمولوں میں موسیقی کے صوتی اثرات کے جائزوں تک محدود سمجھا جاتا تھا۔ فیثاغورث نے موسیقی، ریاضی، اور علم فلکیات کے باہمی تعلق سے بننے والے دائروں کے کلیے وضع کیے تھے۔ اُس کا خیال تھا کہ زمین اور آسمانی کروں کے درمیان فاصلہ مکمل طورپرایک سُریلا آہنگ ہے۔ اس کلیہ کی مسلمانوں نے بے مثال طبیعاتی تشریح کی۔
خیام علمی سفر کے آغاز ہی میں مسلم عقلیت پرستوں اور کلام الٰہی کی ابدیت پر یقین رکھنے والوں کے درمیان علم الٰہیات، فلسفہ، سائنس، شیعہ سنی سیاسی کشمکش ، نظریاتی کشاکش سے بخوبی واقف تھا۔ اُس نے اپنا ہی ایک فلسفہ وضع کیا، جو سات صدیوں بعد کی یورپی تحریک روشن خیالی سے زیادہ مختلف نہ تھا۔ تاہم وہ خدا پرایمان رکھتا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ کائنات فطری قوانین کی پابند ہے، جنھیں مطالعہ اور تحقیق سے جانا جاسکتا ہے۔ اُس نے کہا کہ خدا طبیعاتی نظام میں مداخلت نہیں کرتا۔ عقلیت پرستی اور قرآن کی ابدیت پر یقین رکھنے والوں کی بحث نے ہر دانشور کوکسی نہ کسی حد تک متاثر کیا تھا۔ خیام کے دور میں سلجوقیوں اور عباسیوں کا جھکاؤ عقلیت پرستی کی جانب ہوچکا تھا۔ شیعہ فاطمی بھی عقلی علوم کی جانب گہرا رجحان رکھتے تھے۔ ان سلسلوں کے مسلم حکمران اور فاتحین کھلے دل ودماغ کے حامل تھے، وہ معاشرہ سازی میں رواداری اورہم آہنگی کی اہمیت سمجھتے تھے۔ تاہم خیام ہی کی زندگی میں عباسی خاصے کمزور پڑچکے تھے، اور اموی بہت دور اندلس میں تھے۔ امویوں کی علم و تحقیق میں غیر معمولی توجہ اور حمایت نے کئی جانشین پیدا کیے، فاطمیوں سے فارس اور ایشیا کے سنہرے ادوار میں یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔
بلخ، سمرقند اور نیشاپور میں عمر خیام نے ’مکعبی مساوات‘ کے حل کے طریقوں پرکام کیا۔ ایسے ’مکعبی مساوات‘، جنھیں جدید ریاضی کے طالب علم ہزار سال بعد سمجھنے کے قابل ہوسکے۔ ایک مکعبی مساوات ایک کثیرالاسمی مساوات ہے، جس میں تیسری نامعلوم قوت کارفرما ہوتی ہے۔ اس کی مساوات میں ایک مثال یوں ہے: + 200* = 20^ + 2000۔ درحقیقت یہ بیضوی شکل کو دائرے میں قطع کرتی ہے۔ خیام نے دوطرفہ توسیع (binominal expansion) دریافت کی، ایک اہم فارمولہ جو قوت میں کئی گنا اضافہ واضح کرتا ہے۔ اُس نے متوازی خطوط پر Euclid کے کلیوں پر تنقید لکھی۔ اُس کی تحریروں نے یورپ کا رخ کیا، اور non-euclidean geometry کی بنیاد بنیں۔ علم فلکیات میں بھی عمر خیام کا کام بے مثال ہے، مگر یہ خاصا پیچیدہ بھی ہے۔ اُس کے طریقوں نے کیلنڈر کومزید بہتربنایا، جس سے حکومت اور تجارت کے کام مزید آسان ہوئے۔ لیکن زندگی عمر خیام کے لیے ناقابلِ یقین ہی رہی۔ گاہے بہ گاہے اُسے دولت مند اور طاقت ور لوگوں کی جانب سے اہم کام تفویض کیے گئے تھے، مگر اُسے اپنی بقاء کے لیے آخر تک سرپرستوں پر انحصار کرنا پڑا۔ سمرقند میں معروف قاضی ابوطاہر نے اُس کی سرپرستی کی، اس دوران اُس نے الجبرا پر کافی کام کیا، مگر یہ عارضی تھا۔ جیسا کہ عمرخیام نے بعد میں لکھا: ’’میں خود کو الجبرا کی تحصیل کے لیے وقف نہ کرسکا، اور اُس کی وجہ متواتر رکاوٹیں تھی، اُن چند لوگوں کے گروہ کی جانب سے، جو ہمیں اہلِ علم کی صحبت سے محروم کردینا چاہتے ہیں… تحقیق اور علم میں کمال حاصل کرنے سے روک دینا چاہتے ہیں‘‘۔
آخرکار، سلجوقیوں کے دربار میں عمر خیام کی کتابوں نے توجہ حاصل کی یہ فارس کے شہر اصفہان میں ان کے عروج کا زمانہ تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ امام موفق کا پرانا دوست اور ماہرِ تعلیم نظام الملک ملک شاہ سلجوقی کے دربار میں وزیراعظم بنادیا گیا۔ علمی کامیابیوں اور اعلیٰ روابط کا نتیجہ یہ نکلاکہ سلطان نے عمر خیام کو اصفہان آنے کی دعوت دی، اور دربار میں بطور ریاضی دان اور ماہرِ علم فلکیات اونچا مقام عطا کیا۔
اصفہان میں خیام نے دیکھا کہ ہر جانب مساجد کے نیلے گنبد اورنیلے محلات تھے، جوسورج کی کرنوں میں یوں چمکتے تھے کہ نگاہیں خیرہ ہوجاتی تھیں۔ وہ طویل اونچ نیچ کے بعد آسودہ زندگی تک پہنچا تھا۔ کہاں ایک خیمہ ساز کا بیٹا اور کہاں شاہی دربارکا اتالیق، اور ایک ایسے شاہ کا دربار جوآدھی دنیا پر حاکم تھا۔
اصفہان میں عمر خیام کوایک رصدگاہ کی تعمیر اور کیلنڈر کی تشکیلِ نو کا کام سونپا گیا۔ سلطان ملک شاہ سلجوقی خود کوئی عالم نہیں تھا، اُس کی دلچسپی علمِ نجوم میں تھی۔ یہی وہ اصل محرک تھا، جس نے اُسے ماہرینِ فلکیات کی جانب مائل کیا تھا۔ وہ بطور حاکم اور فاتح یہ جاننا چاہتا تھا کہ ستارے اُس کے مستقبل کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ خیام نے انتہائی احتیاط سے اُسے تعلیم دی، اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ ستارے مستقبل کی کوئی پیشگوئی نہیں کرتے۔
ریاضی دانوں اور ماہرینِ فلکیات کی ٹیم کی رہنمائی کے بجائے، خیام نے خود ہی کیلنڈرکی تشکیلِ نو کا بیڑہ اٹھایا، وہ سمجھتا تھا کہ ایک بار وقت کا درست تعین ہوجائے تو نہ صرف مقدس ایام کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے گا بلکہ محصولات کے ریکارڈ بھی درست ہوجائیں گے۔ عمر خیام کی ساری زندگی میں، یہ 19 سال انتہائی خوشحالی میں گزرے۔ یہ اُس کی صلاحیتوں کے بھرپور اظہارکا زمانہ تھا۔
1079ء، یہ کمپیوٹرز کے بغیرہی شماریات میں بے مثال کامیابی کا سال تھا۔ عمر خیام نے سال کا عرصہ 365.242 19858156 ایام شمار کیا۔ اکیسویں صدی میں، ہبل ٹیلی اسکوپ کے سہارے، اٹامک گھڑیوں اور کمپیوٹرز کی مدد سے سال کا عرصہ 365.242190 ایام شمار کیا گیا، جوخیام کے شمار سے سیکنڈ بھر کا ہی فرق سامنے لاسکا۔ ایک اور بڑی کامیابی ’زمین کی گردش‘کی دریافت تھی، جس کی وضاحت عمر خیام نے ششدر حاضرین کی موجودگی میں کی۔ کہتے ہیں ان حاضرین میں معروف فلسفی الغزالی موجود تھا۔ عمر خیام نے حاضرین کو بتایا کہ کس طرح ستاروں کی ترتیب و ترکیب ہوئی، زمین کس طرح گردش کررہی ہے، اُس نے اپنی مثالوں میں ستاروںکے لیے شمعیں استعمال کیں۔
مگر دو دہائیوں بعدکچھ ایسے واقعات پیش آئے، جو عمر خیام کو پھر زمین پر لے آئے۔ عمرخیام کے اس زوال میں بچپن کے دوست حسن بن صباح کا بڑا ہاتھ تھا، جوغالباً خود بھی سلجوقی حکومت کا ایک وزیر تھا۔ تاریخ گُم گَشتہ اور مختلف ذرائع میں اصل کہانی خاصی دھندلا گئی ہے۔ روایتی ذرائع کہتے ہیں کہ حسن بن صباح نے اپنے پرانے محسن نظام الملک کو قتل کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا، اور ملک سے فرار ہوگیا۔ وہ بعد میں فارسی اسمٰعیلیوں کے ایک گروہ میں شامل ہوا اور پھر زیرزمین چلا گیا۔ یہ شیعہ گروہ سنی خلافت کے خلاف مزاحم تھا، اور جیسا کہ کچھ ذرائع الزام لگاتے ہیں، اس گروہ نے کئی سیاسی قتل کیے۔ اس قاتل اسکواڈ کا سرغنہ ابن صباح تھا۔ یہ تلخ حقیقت تھی کہ ابن صباح کے عقائد اورسیاسی نظریے سے نظام الملک انتظامیہ کی جنگ رہی۔ سلجوقیوں اور اسمٰعیلیوں میں یہ خونیں کشمکش طویل عرصہ چلی۔
اس طویل سیاسی کشاکش نے عمر خیام کی زندگی کو براہِ راست متاثر کیا۔ وہ بچپن کے دوست حسن بن صباح کی مخالف سمت پرکھڑا تھا۔ اس عجیب تکون کی تقدیرمیں مزید مشکلات در آئی تھیں۔
سن 1092ء میں، خیام کے عزیز دوست اور سرپرست نظام الملک، جس کے نام پرجامعاتِ نظامیہ کا پورا سلسلہ مسلم دنیا میں قائم ہوچکاتھا، کوقتل کردیا گیا۔ ایک ماہ بعد ہی سلطان شاہ سلجوقی میدانِ جنگ میں جان سے گیا۔ اُس کی بیوہ نے اقتدار سنبھالا، مگر نہ وہ نظام الملک کی سرپرست تھی اور نہ ہی اُس کے دوستوں کی دوست۔ یوں عمر خیام کو جبراً اصفہان کے دربار سے نکال دیا گیا۔
ایک طویل وقفے کے بعد، جب سلطان شاہ سلجوقی کا تیسرا بیٹا سلطان بنا، دارالحکومت مرو منتقل ہوا، عمر خیام کو پھر دربار میں جگہ ملی، شاہی سرپرستی میسر آئی۔ زندگی کے آخری چار سال عمر خیام نے علم اور تحقیق پر صرف کیے۔
علم فلکیات اور ریاضی میں بے مثال کام کے باوجود، عمر خیام کو اُس کی شاعری کے سبب یاد رکھا گیا۔ اُس کی رباعیات کے اصل معنوں پر آج تک تنازع چھڑا ہوا ہے۔
اپنی رباعیات میں عمر خیام نے انسانی وجود کو موضوع بنایا ہے، جسے بیسویں صدی میں عمر علی شاہ اور رابرٹ گریوز نے ترجمہ کیا:
ہم کیا ہوں گے، یہ لکھا جاچکا
اچھائی برائی سے بے نیاز، یہ قلم لکھتا جارہا ہے
روزِ اوّل ہی ساری منزلیں طے ہوچکیں
وہ عبادت گاہ جہاں میں بار بار جاتا ہوں، بلند وبالا ہے
ترکوں کا بنایا وہ گنبد، کہ جیسا آسماں سا چھایا ہو
جاہ وجلال کا ایک جہاں ہے
میرا ایماں مسلمانی سے ماوراء ہے
میرا ایماں ہے… فقط
یہ شاید بہت سی سماعتوں کوچونکا دے
کچھ دیر صحبتِ حبیب کی خاطر
میں زائرین سے دور ہوجاؤں
دستار بیچ آؤں
ایک جام کی خاطر تسبیح بیچ آؤں
محبوب کے قدموں میں جگہ پاؤں
وہ الزام دھرتے ہیں مجھ پر مرے الفاظ کے سبب
مگر وہ میں نہیں جو نظر آتا ہوں
میں وہ نہیں جومرے الفاظ ظاہر کرتے ہیں
کم ازکم میں منافق نہیں