محمد عباس انصاری
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو کے متعلق اصولی و تفصیلی ہر قسم کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہی بات دینِ اسلام کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو عموماً عقائد، عبادات، خاندانی نظام، معاشرتی نظام، معاشی نظام، سیاسی نظام اور عدالتی نظام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام نظام باہم ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں، جس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نظام کے متاثر ہونے سے ایک مسلمان کی ساری زندگی متاثر ہوسکتی ہے۔ عقائد کی خرابی سے جہاں ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے، وہیں معاشرتی نظام بگڑنے سے صحیح اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا۔
اللہ نے جن و انس کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اللہ کی بندگی کریں۔ بندگی کے تقاضوں میں یہ ہے کہ انسان اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرے۔ ان حقوق کی ادائیگی جنگلوں یا غاروں میں رہ کر نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے انسانوں کے درمیان رہنا پڑے گا اور انسانوں سے رشتے داریاں اور دوستیاں قائم کرنی پڑیں گی جسے ہم اجتماعیت کہتے ہیں۔ اجتماعیت کی پہلی سیڑھی خاندان اور اس کا نظام ہے۔ اسلام سب سے پہلے فردکا ارتقا چاہتا ہے، پھر خاندان کا ارتقا، جس سے معاشرے کا ارتقا ہوگا، جس کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل ہوگی اور جسے عالمی سطح پر مقام حاصل ہوگا۔ اس اسلامی ریاست سے اسلامی ثقافت کا ظہور ہوگا، تب جاکر حقِ بندگی ادا ہوگا۔ اجتماعیت کی ابتدا خاندان سے ہوتی ہے۔ خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی یونٹ ہے۔ معاشرے کی ترقی و نشوونما کا انحصار جہاں خاندان پر ہے، وہیں معاشرے کی تنزلی و انتشار کا انحصار بھی اسی خاندان پر ہے، کیوں کہ خاندان ہی معاشرے کی اساسی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی سے معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ جس قدر خاندان کی اکائی مضبوط اور مستحکم ہوگی اسی قدر معاشرہ اور ریاست مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔ خاندان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خاندان کی بقا اور تحفظ کو شریعت کے بنیادی مقاصد میں شمار کیا گیا ہے، اور اسلامی تعلیمات کا ایک مکمل شعبہ جو مناکحات یا اسلام کے عائلی نظام سے موسوم ہے، اس مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ایک تہائی سے زائد احکام عائلی نظام کو منضبط کرنے کے لیے آئے ہیں۔ نکاح و طلاق اور ازدواجی مسائل پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ سورۃ البقرۃ، سورۃ النساء، سورۃ النور، سورۃ الاحزاب اور سورۃ التحریم میں یہ تفاصیل درج ہیں۔ خاندان انسانی معاشرے اور انسانی تہذیب کا سنگِ بنیاد ہے، اسی پر معاشرہ کھڑا ہوگا اور اسی کی بنیاد پر ریاست بنے گی۔ اگر خاندان کی تعمیر میں کوئی ٹیڑھ رہ جائے تو یہ اثر اوپر تک محسوس ہوگا۔ قرآن خاندان کے ادارے کو مضبوط اور مستحکم کرنا، اور اسے صحیح بنیادوں پر کھڑا کرنا چاہتا ہے جس میں کسی طرح کا عدم توازن اور کوئی اونچ نیچ نہ ہو، نہ کوئی ظلم و زیادتی اور نہ کوئی کمزوری اور اضمحلال کا شکار ہو۔ خاندان میاں بیوی، بچوں، والدین اور سسرالی رشتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ترجمہ) ’’اوروہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔‘‘ (سورۃ الفرقان 54)۔
شوہر اور بیوی دونوں پر یکساں فرض ہے کہ وہ سسرال کے حقوق ادا کریں۔ ان حقوق میں عمدہ طرزِعمل، جسمانی فائدہ اور مالی فائدہ پہنچانا شامل ہے۔ شوہر کسی کا داماد ہوتا ہے اور بیوی کسی کی بہو ہوتی ہے۔ داماد اگر نیک بخت ہو تو دل کو خوش کردیتا ہے، دل کو موہ لیتا ہے، اور اگر نیکوکار نہ ہو تو دل کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تین داماد تھے۔ حضرت عثمانؓ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ داماد تھے جو مال دار بھی تھے، سخی بھی تھے اور حیادار ایسے تھے کہ فرشتے بھی شرما جاتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آپؓ کے نکاح میں آئی تھیں اس لیے انہیں ’’ذوالنورین‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے جس طرح دامادِ رسولؐ ہونے کا اعزاز دو مرتبہ پایا اسی طرح ہجرت کا شرف بھی دو مرتبہ حاصل کیا۔ جن اصحاب نے مشرکین و کفار کے ظلم و جبر سے تنگ آکر ہجرت کی اُن میں آپؓ اپنی زوجہ حضرت رقیہؓ کے ساتھ شریک تھے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوطؑ کے بعد عثمانؓ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اہلِ بیت کے ہمراہ ہجرت کی‘‘۔ دوسری ہجرت آپؓ نے مدینہ طیبہ کی طرف کی۔ اس طرح آپؓ ’’ذوالنورین‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ذوالہجرتین‘‘ بھی ہوئے۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور میرا رفیق عثمانؓ ہے۔ (جامع ترمذی۔ جلد دوم۔ حدیث نمبر 1664)۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اے میرے پروردگار! آپ عثمانؓ سے راضی ہوجایئے، بے شک میں ان سے راضی ہوں‘‘ (سیرۃ ابن ہشام)۔ ہم سیرتِ عثمان غنیؓ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ داماد ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیٹیوں کے سلسلے میں کبھی کوئی شکایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لے کر نہیں آئے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ داماد کو سسر کی بیٹی یعنی اپنی بیوی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ حتی الامکان وہ یہ کوشش کرے کہ اس کی ذات سے بیوی کے واسطے سے خسر یا ساس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ ایک داماد کو اس طرح سے ہونا چاہیے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے رنجش ہوگئی تو آکر کہنے لگیں کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حضرت علیؓ سے شکایت ہے۔ آپؐ نے پہلے ان کو سمجھایا بجھایا، کہا کہ دیکھو اپنے شوہر کی اطاعت کرو اور گھر چلی جائو۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر بچی آکر اپنے باپ، ماں، بہن، بھائی سے آکر کوئی بات کہے اور شوہر کی شکایت کرے اور اس کے گھر والوں کی شکایت کرے تو اس کی شکایت پر کان نہ دھرتے ہوئے اور اس کی بات کا ایکشن نہ لیتے ہوئے اسے واپس کردینا چاہیے۔ اگر معاملہ بہت زیادہ سیریس ہوگیا ہے تو بیٹھ کر اس کو سنجیدگی سے حل کرلیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت فاطمہؓ حضرت علیؓ کی شکایت لے کر آئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاکید فرمائی کہ تمہیں اپنے شوہر کی اطاعت کرنی چاہیے اور جائو گھر چلی جائو۔ میاں بیوی کے درمیان بگاڑ اور ماحول کی خرابی کا ایک سبب سسرال والے بھی ہوتے ہیں۔ جاکر لڑکی نے اپنے بھائی سے کچھ کہہ دیا تو اُس کے شوہر کی بات سنے بغیر بھائی ایکشن لے لیتا ہے اور لڑکی کے گھر والے داماد کی مخالفت کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اپنی بہن، بیٹی کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس سے شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات تو رہتے ہیں لیکن مزید خراب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کبھی کبھی سسرال کے لوگ بھی میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کا محرک بنتے ہیں۔ یہ تعلق بڑا ہی نازک اور بڑا ہی لطیف ہوتا ہے۔ اس کو بڑے قاعدے سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ شوہر کے گھر والے ہوں یا سسرال کے لوگ… بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ اس ماحول کو انہیں برقرار رکھنا ہے۔ ماحول کبھی بھی بگڑ سکتا ہے اور معاملہ کبھی بھی سیریس ہوسکتا ہے۔
قرآن میں دس مقامات پر حکم دیا گیا ہے کہ رشتے داروںکا حق ادا کرو۔ سسرال کے افراد داماد کے قرابت دار ہیں، لہٰذا ان کے حقوق کی ادائیگی داماد پر فرض ہے۔ بیوی کے تمام معاملات کا اختیار شوہر کے پاس ہے، لہٰذا بیوی کو اس کے ماں باپ اور اقربا کے حقوق ادا کرنے کی اجازت دے۔ سسرال بچوں کا ننھیال ہے، لہٰذا مرد کو چاہیے کہ بچوں کو سسرال سے مربوط رکھے تاکہ بچے بھی قرابت داری کا حق ادا کرسکیں۔ یہ بچوں کا حق بھی ہے اور سسرال کا حق بھی، جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں درج ہے۔
ایک رشتہ نسبی ہوتا ہے اور ایک رشتہ سسرالی ہوتا ہے۔ کسی بھی عقل مند سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ سسرال والے، شوہر کی جو بیوی ہے، بیوی کے اہلِ قرابت ہیں، اور یہی سسرال والے شوہر کے بچوں کے ننھیالی رشتہ دار ہیں۔ اس طرح ایک تو ان سے دامادی رشتہ ہے اور دوسرا رحم کا رشتہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’عنقریب تم لوگ مصر فتح کرو گے، وہ ایسی جگہ ہوگی جہاںقیراط کا رواج ہوگا، جب تم لوگ اس کو فتح کرلیناتو وہاں کے رہنے والوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آنا، کیوں کہ تمہارا ان سے رحم کا رشتہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم۔ 56 باب وصیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الجزء: 7، ص 190)۔
حضرت اسماعیلؑ کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو صفاء سے مروہ اور مروہ سے صفاء کی طرف دوڑی تھیں، اللہ رب العالمین نے اس کو شعائرِ اسلام میں سے بنا دیا۔ سعی بین الصفاء و المروہ کو ضروری قرار دیا۔ یہ سرزمین مصر ہی کی تھی۔ اسی طرح آپؐ کے بیٹے ابراہیم کی والدہ ماریہ قبطیہ مصر ہی کی تھیں۔ فاتح مصر عمرو بن عاصؓ نے جب مصر کو فتح کیا تو پادریوں سے یہ کہا کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ساتھ بھلائی اور حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے کیوں کہ آپ سے دامادی رشتہ ہے۔ مصر کے پادری بیک آواز کہنے لگے کہ جس نے اتنی دوری کے رشتے کا پاس و لحاظ کیا ہے، یقیناً وہ نبی ہوگا۔ دعوتِ الی اللہ کی راہ میں مالی و بدنی قربانیاں آپ کے سسرال والوں نے دی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت داماد:۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتوں میں جلیل القدر صحابہ کے علاوہ مشرکین اور یہود و عیسائی بھی تھے، اور جن سے آپؐ کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ آپؐ نے اپنی پہلی بیٹی کا نکاح اپنی سالی کے بیٹے ابوالعاصؓ سے کیا تھا۔ یہ مثال ہے اپنے سسرالی رشتوں سے مزید گہرے تعلقات کی۔ آپؐ اپنے سسرال کی بہت تکریم بھی کرتے تھے۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ صفیہؓ رو رہی تھیں۔ وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حفصہؓ نے فخر سے کہا تھا وہ صفیہؓ سے افضل ہیں کیوں کہ ان کا نسب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: اے صفیہؓ تم نے یوں کیوں نہیں کہا کہ تمہارے والد ہارونؑ، چچا موسیٰؑ اور شوہر محمدؐ ہیں۔ اور پھر حفصہؓ کو نصیحت کی کہ وہ آئندہ سے ایسی بات نہ کہیں (ترمذی، جلد سوم)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سسرالی رشتے داروں کو تحفے تحائف بھیجا کرتے تھے اور اپنی ازواج کو بھی کہتے کہ اپنے رشتے داروں کو تحفے تحائف دیں۔ امامہ بنتِ حمزہؓ کی کفالت جعفرؓ نے کی، کیوں کہ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیوی اس بچی کی خالہ ہے، جب کہ کفالت کے لیے علیؓ و زید بن حارثؓ بھی دعویدار تھے۔ (بخاری کتاب الصلح، حدیث 1219)۔
آپؐ نے سسرالی رشتوں کے ساتھ احسان کا رویہ اپنایا جس کی مثال ایک حدیث سے ملتی ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب جویریہ بنتِ حارث بن المصطلق سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور جب لوگوں نے یہ سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ سے نکاح کرلیا تو انہوں نے وہ تمام قیدی (بنی مصطلق کے) جو ان کے قبضے میں تھے، انہیں چھوڑ دیا اور آزاد کردیا، اور کہنے لگے کہ یہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال والے ہیں، ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی اپنی قوم پر جویریہؓ سے زیادہ، کہ ان کے سبب سے سو قیدی بنی المصطلق کے آزاد ہوگئے (سنن ابودائود۔ جلد سوم۔ حدیث نمبر 540)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سسرالی رشتے داروں اور ازواجِ مطہرات کی سہیلیوں کی آمد پر اظہارِ مسرت کرتے تھے (صحیح مسلم۔ جلد سوم، حدیث نمبر 1781)۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی بہن حضرت ہالہ بنت ِ خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے کی اجازت مانگی تو آپؐ کو حضرت خدیجہؓ کا اجازت مانگنا یاد آگیا تو آپؐ اس کی وجہ سے خوش ہوئے اورفرمایا: اے اللہ یہ تو ہالہ بنتِ خویلد ہیں۔ سسرالی رشتے دار بلا تکلف آپؐ کے گھر آتے جاتے تھے۔ معذور اور عمر رسیدہ لوگوں سے خود جاکر ملتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر ابوقحافہؓ سیدہ عائشہؓ کے دادا کو اسلام قبول کرنے کے لیے لایا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ان کو کیوں تکلیف دی، میں خود ان کے پاس جاتا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ بیوی کے کمزور اور بیمار رشتے داروں کے پاس جانا، یہ مرد کی ذمہ داری ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ آپؐ نے اپنی سب سے بڑی بیٹی کی شادی سسرال میں کی ہے۔ اس لیے کہ آپ کے داماد حضرت ابوالعاص جو بعد میں ایمان لائے، وہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی بہن یعنی آپؐ کی سالی کے بیٹے ہیں۔ گویا کہ آپؐ نے اپنی بڑی بیٹی کی شادی سالی کے بیٹے سے کی۔ آپؐ کا یہ اسوہ بتا رہا ہے کہ اگر سسرال کے اندر معقول رشتہ موجود ہو لڑکی یا لڑکے کا تو انہیں ترجیح دی جائے تاکہ سسرالی رشتے کے اندر اور استواری آئے، سسرالی تعلق اور زیادہ مضبوط ہو، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ جب آپؐ کے اوپر پہلی وحی اتری تو آپؐ گھبرا گئے اور آپؐ کو ایسا لگا کہ جیسے آپؐ ضائع ہوجائیں گے، تو آپؐ کی تسلی و تشفی کے لیے حضرت خدیجہؓ نے سب سے پہلے ورقہ بن نوفل سے مشورہ کیا اور آپؐ کو اُن کے پاس لے گئیں جو رشتے میں حضرت خدیجہؓ کے چچیرے بھائی ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ حسانہ مزنیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ملاقات کرنے کے لیے آئیں اور بڑی دیر تک آپؐ ان سے بات چیت کرتے رہے اور ان کے حالات دریافت کرتے رہے۔ جب حسانہ مزنیہ چلی گئیں تو حضرت عائشہؓ نے سوال کیا کہ وہ عورت کون تھی، جس سے آپؐ بات چیت فرما رہے تھے اور اُس کے حالات دریافت کررہے تھے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ حسانہ مزنیہ تھی، میری پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ کی سہیلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سسرالی رشتے کا اتنا پاس و لحاظ کرتے تھے کہ اگر بیوی کی سہیلی بھی آجاتی تو آپؐ اس کا ادب و احترام، تعظیم و تکریم کرتے تھے۔
حضرت خدیجہؓ آپؐ کی بیوی تھیں۔ شعب ابی طالب میں محصور رہیں، جسمانی و بدنی تکلیف انہوں نے اٹھائی۔ مکہ سے مدینہ کی طرف جب آپؐ نے ہجرت فرمائی تو ساتھ میں آپؐ کے سسر حضرت ابوبکر صدیقؓ جو غارِِ یار ہیں، غارِِ ثور میں تقریباً تین دن رہے۔ ہجرت کے پورے سفر میں آپؐ کی رفافت نصیب ہوئی۔ جب کسی زہریلے جانور نے حضرت ابوبکرؓ کو کاٹ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹی ہوئی جگہ کے اوپر اپنا لعابِ دہن لگایا اور آپؓ کو شفاء ہوئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کو پتا چلا کہ قدموں کے نشانات کی تتبع کرتے ہوئے جواسیس یہاں تک پہنچ چکے ہیں۔ گھبراکر حضرت ابوبکرؓ نے کہا ’’ہم لوگ غار میں ہیں، اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدم کے نیچے کی طرف دیکھ لیا تو ہم پکڑے جائیںگے‘‘۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے ہی اطمینان کے ساتھ فرمایا ’’ابوبکر تمہارا کیا خیال ہے ان دو آدمیوں کے بارے میں جن کا تیسرا اللہ رب العالمین ہے، اور قرآن مقدس نے خود کہا ’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔(سورۃ توبہ40/9) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول حضرت ابوبکرؓ کی تسلی و تشفی کے لیے تھا۔ اور جب آپ نے ہجرت کا سفر شروع کیا تو آپؐ کی سالی محترمہ حضرت اسماء بنتِ ابی بکر کے سلسلے میں ابن سعد نے ذکر کیا ہے: ’’حضرت اسماءؓکھانا تیار کرکے لے جایا کرتی تھیں، اور جب توشہ دان کا منہ باندھنا ہوا تو اپنی کمر کا پٹہ پھاڑ کر دو حصے کردیے اور اس سے توشہ دان باندھ دیا گیا، اس وجہ سے ان کو ’’ذات النطاقین‘‘ کا لقب بھی ملا۔
جلال الدین قاسمی فرماتے ہیں کہ جب میں نے غارِ ثور کے اندر سے نگاہ اوپر اٹھائی جس وقت میں عمرہ پہ گیا ہوا تھا، تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، یہ سوچ کر کہ ایک صنفِ نازک آپؐ کی سالی اسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کس طرح چھپ چھپا کر مکہ سے چل کر، وہ بھی پیدل دشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہوئے، اس پہاڑ کے اوپر کیسے چڑھی تھیں اور ٹفن کیسے پہنچایا تھا۔ تو ہجرت کی راہ میں قربانیاں آپؐ کے سسرال والوں نے دیں۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؐ کے داماد ہیں، انہوں نے اللہ کے راستے میں کتنا مال خرچ کیا وہ ہم سے مخفی ہے۔ اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآنِ مقدس میں جہاں بھی حقوق و فرائض کی آیت ہے، وہاں اللہ نے حق کو وصول کرنے کے بجائے حق ادا کرنے کی زیادہ تاکید کی ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد مبارک ہے ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچا دو، اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو‘‘(النساء 58)۔ اللہ رب العالمین نے یہ نہیں کہا کہ اگر تمہارا حق کسی پر ہو تو جبراً وہ حق تم وصول کرلو۔ طریقہ کچھ بھی ہو۔ بلکہ حقوق کو وصول کرنے کے بجائے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ فرمایا: ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانت والوں کو ان کی امانتیں ادا کردو، قرابت داروں کو ان کا حق دے دو‘‘ (النساء 58)۔ کہیں یہ نہیں کہا کہ اگر تمہارا حق کسی کے اوپر ہو تو جبراً وصول کرلو۔ تو جب حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم نسبی رشتوں کی بھی حفاظت کریں، اور جو لوگ نسبی رشتوں سے ہم سے جڑے ہوئے ہیں، اُن کے حقوق کا خیال رکھیں، ان کے بھی حقوق کا ہم پاس و لحاظ کریں۔ ان تمام واقعات پر ذرا غور فرمایئے تو ایک معاشرتی زندگی کا عجیب و غریب نکتہ اور سبق ملتا ہے۔ وہ نکتہ اور سبق یہ ہے کہ ایک طرف تو آپؐ اپنی بیوی کے جذبات کا احترام کررہے ہیں، دوسری طرف ان کے خاندان کے لوگوں کی تکریم فرما رہے ہیں تاکہ بیوی کو یہ احساس ہو کہ اس گھر میں شوہر کی نظر میں میری بڑی عزت ہے، بڑی تکریم ہے، اور اس کے گھر کے اندر میرے والدین اور میرے گھر والوں کی بھی بڑی عزت ہے۔
حضرت میمونہ بنتِ حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے ایک لونڈی آزاد کی۔ مسلم شریف کی روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے لونڈی آزاد کردی، اسے اپنے ماموں کو دے دیا ہوتا۔ لیکن بخاری شریف کی روایت میں ’’اختک‘‘ کا لفظ ہے کہ اگر تم اس لونڈی کو آزاد کرنے کے بجائے اپنی بہن کو دے دیتیں، اور تمہاری بہن اس سے فائدہ اٹھاتی تو تمہارا اجر بڑھ جاتا۔ آپ دیکھ رہے ہیں! اپنی سالی کو وہ لونڈی دینے کی بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سسرالی رشتے کا کس قدر خیال رکھتے تھے۔
اسلام میں رشتے کی بنیاد انتہائی پائیدار ہے، اس کے لیے مرد وعورت دونوں پر ذمہ داریاں اور ایک دوسرے پر دونوں کے جائز حقوق متعین کیے گئے ہیں جن سے خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور معاشرے میں امن و سکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ گھر میں بیوی اور اولاد ایک امانت ہیں، اسلامی خطوط پر ان کی تربیت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، کل قیامت کے دن آپ کو اپنے ماتحتوں کے متعلق جواب دینا ہے، اس لیے اپنے آپ کو ایک ذمے دار اور دیندار شوہر بنائیں، اپنی بیوی کو پاک باز اور تقویٰ شعار بیوی بنائیں، اپنے بچوں کو نیک اور فرماں بردار اولاد بنائیں اور اپنے گھر کو ایک مثالی گھر بنائیں۔