خانہ کعبہ کا غلافِ اوّل

ایسی شخصیت کا تذکرہ جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا امتی ہونے کا شرف حاصل ہے

ڈاکٹر محمد نوید ازہر-انتخاب: کلیم اکبر صدیقی
تُبَّع اول حِمْیَری، یمن کا عظیم الشان اور نیک دل بادشاہ تھا۔ وہ ایک زبردست لشکر کا مالک تھا۔ جب وہ فتوحات کے لیے نکلا تو اس کے ساتھ ایک لاکھ تینتیس ہزار گھڑ سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ فوج تھی۔ اس کثیر لشکر کے ساتھ وہ جس ملک یا شہر پر چڑھائی کرتا، لوگ خوف زدہ ہوجاتے اور اطاعت میں سر خم کردیتے۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتا، وہاں سے دس دانا آدمی منتخب کرکے بطور مشیر اپنے ساتھ رکھتا۔
جب وہ ممالک کو زیرِ نگیں کرتا ہوا مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہوا، تو اہلِ مکہ اس کے لائولشکر کو دیکھ کر ذرا بھی مرعوب نہ ہوئے۔ اُس وقت اُس کے پاس چار ہزار حکماء اور علماء بھی تھے۔ تُبَّع نے اپنے وزیر عَمارِیس کو بلا کر پوچھا کہ اہل مکہ کے دلوں پر اس لشکر جرار کا خوف کیوں نظر نہیں آ رہا؟
عماریس نے کہا کہ یہ عربی لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں، جنہیں سوجھ بوجھ نہیں۔ ان کے ہاں ایک خانہ کعبہ ہے، اس کی وجہ سے احساسِ مفاخرت میں مبتلا ہیں، یہ اس میں جاکر شیطان اور بتوں کو سجدہ کرتے ہیں۔
اس بات نے تُبَّع کو غصہ دلایا۔ اس نے خانہ کعبہ مسمار کرنے، وہاں کے مردوں کو قتل کرنے اور عورتوں کو غلام بنانے کا ارادہ کرلیا۔
عین اسی وقت اُس کے سر میں درد پیدا ہوگیا، جس کے ساتھ ناک، کان، منہ اور آنکھوں سے نہایت بدبودار پیپ بہنے لگی جس کی شدت کے باعث کوئی شخص لمحہ بھر کے لیے بھی اُس کے پاس نہ ٹھہر سکتا۔ اس بیماری نے اس کی نیند چھین لی۔
اس نے تمام حکماء اور علماء کو بلایا تاکہ اس بیماری کا علاج دریافت کرے، لیکن سب اس مرض کی تشخیص اور علاج سے عاجز آگئے اور کہنے لگے: ’’یہ کوئی آسمانی امر ہے جس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔ ہم دنیاوی امور کے ماہر ہیں، امورِ آسمانی کو ٹالنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘‘
بادشاہ روز بروز بیمار سے بیمار تر ہوتا چلا گیا اور تمام احتیاطیں اور تدبیریں ناکام ہوتی چلی گئیں۔ آخرِکار ایک رات سب علماء کا سردار، وزیر کے پاس آیا اور کہا کہ اگر بادشاہ مجھ سے کوئی بات پوشیدہ نہ رکھے تو میں اسے بیماری کا علاج بتا سکتا ہوں۔
وزیر اس کی بات سن کر خوش ہوا اور بادشاہ کی اجازت کے بعد اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بادشاہ کے پاس لے گیا۔ عالم نے رازدارانہ لہجے میں بادشاہ سے پوچھا کہ کیا اس کے دل میں کعبۃ اللہ کے بارے میں کوئی برا خیال تو نہیں آیا؟
بادشاہ نے اعتراف کرلیا کہ اس کے دل میں کعبۃ اللہ کو نقصان پہنچانے کا خیال آیا تھا۔ اس عالم نے اسے اس ارادے سے باز رہنے کی نصیحت کی اورکہا کہ یہی آپ کی بیماری کا سبب ہے۔ اس گھر کا مالک زورآورہے اور دلوں کے راز جانتا ہے۔ اس گھر کو نقصان پہنچانے کا ہر خیال دل سے نکال دیں، پھر آپ کے لیے دنیا اور آخرت میں خیر ہی خیر ہے۔ یہ سن کر بادشاہ نے صدقِ دل سے توبہ کی اور کہا کہ میں تمام مکروہات کو دل سے نکال کر تمام بھلائیوں اور نیکیوں کی نیت کرتا ہوں۔ ابھی وہ عالم دین بادشاہ کے خلوت خانے سے باہر بھی نہ نکلا تھا کہ بادشاہ کی تکلیف رفع ہوگئی اور وہ صحت یاب ہوگیا۔
اب تُبَّع کے دل میں خانہ کعبہ کی عظمت پیدا ہوگئی اور وہ دینِ ابراہیمی پر ایمان لے آیا۔ اس نے خانہ کعبہ کے سات غلاف تیار کروائے۔ وہ خانہ کعبہ کو غلاف پہنانے والا پہلا شخص تھا۔ اس نے اہلِ شہر کو بلایا اور حفاظتِ کعبہ کی تاکید کی۔ وہاں سے تُبَّع یثرب کی سرزمین کی طرف روانہ ہوا۔
سرزمین ِیثرب اُن دنوں ایک صحرا پر مشتمل تھی، جہاں صرف پانی کا ایک چشمہ تھا۔ اس کے علاوہ نہ کوئی عمارت تھی، نہ کوئی پودا، نہ کوئی جاندار وہاں بستا تھا۔ تُبَّع نے چشمے کے پاس پڑائو ڈال دیا۔ وہاں لشکر کے سب علماء اور حکماء جمع ہوئے، جو مختلف شہروں سے منتخب کرکے ہمراہ رکھے گئے تھے۔
ان میں وہ صاف باطن، دینِ الٰہی کا خیرخواہ، رئیس العلماء بھی تھا جس نے بادشاہ کو عظمتِ کعبہ سے روشناس کروایا تھا اور اسے بلائے مرض سے نجات دلائی تھی۔ باہم مشورہ کرنے کے بعد چار ہزار میں سے چار سو علماء الگ ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہم اب یہاں سے واپس نہیں جائیں گے، چاہے ہماری جان چلی جائے۔ وہ آکر بادشاہ کے دروازے پر کھڑے ہوگئے اور کہا: ہم نے اپنے شہر چھوڑے اور مدتوں بادشاہ کے ساتھ رہے اور اس مقام تک پہنچے کہ یہاں موت نصیب ہو۔ اب ہم نے عہد کیا ہے کہ اس جگہ کو نہیں چھوڑیں گے، چاہے بادشاہ ہمیں قتل کردے یا جلا ڈالے۔
بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ معلوم کرو کس چیز نے انھیں آگے چلنے سے روک دیا ہے۔ مجھے ان کی ضرورت ہے اور میں ان سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔
وزیر نے انھیں جمع کیا اور اس کا سبب پوچھا، تو انھوں نے بتایا کہ ’’کعبۃ اللہ کی بزرگی جس ہستی کی مرہونِ منت ہے، جس کا اسمِ گرامی محمد ہوگا، جو امام الحق، صاحب ِشمشیر و ناقہ، صاحبِ تاج و عصا، صاحبِ قرآن و قبلہ، صاحبِ لواء و منبر اور صاحبِ کلمہ لا الٰہ الا اللہ ہوگی، وہ ہستی پیدا تو مکہ میں ہو گی لیکن قیام اس جگہ کرے گی۔ وہ شخص خوش نصیب ہو گا جو اس ہستی پر ایمان لائے گا۔ ہم اس امید پر یہاں فروکش ہو گئے ہیں کہ ہم یا ہماری نسلیں ان کی زیارت سے مشرف ہو جائیں۔‘‘
وزیر علماء کی گفتگو سن کر بہت متاثر ہوا۔ اس کے دل میں بھی آرزوئوں کے چراغ جلنے لگے اور اسی سرزمین پر آباد ہونے کی خواہش پیدا ہو گئی۔
چند روز کے بعد بادشاہ نے روانگی کا حکم دیا تو ان حضرات نے چلنے سے انکار کر دیا۔ وزیر نے جب بادشاہ کو اس کا سبب بتایا تو بادشاہ کے دل پر بھی بڑا اثر ہوا۔اس نے مزید ایک سال تک اسی جگہ قیام کرنے کا حکم دے دیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔بادشاہ کے حکم سے وہاں چار سَو مکانات تعمیر کیے گئے۔
ہر ایک عالم دین کو ایک مکان دیا گیا۔ ہر ایک کے لیے ایک لونڈی خرید کر آزاد کی گئی۔ ان علماء سے ان کے نکاح کیے گئے اور ان کی نسلوں سے اس شہر کو آباد کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا، تاکہ جب وہ ہستی جلوہ افروز ہو تو یہ لوگ ان کے خدام میں شامل ہو جائیں۔
ایک عالی شان مکان بطور خاص نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تعمیر کیا گیا جسے رئیس العلماء کے سپرد کیا گیا تاکہ وہ اس ہستی کے انتظار میں عارضی طور پر اس میں قیام کرے۔ بادشاہ نے ان علماء کو پورا پورا خرچ دیا اور کہا کہ مجھے امورِ سلطنت یہاں مستقل طور پر قیام کرنے کی اجازت نہیں دیتے، البتہ آپ لوگ اس ہستی کے ظہور تک اسی جگہ پر قیام فرما رہیں۔ اب تُبَّع نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایک خط لکھا، جس کا مضمون یہ تھا:
’’بنام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپؐ پر اور آپؐ پر نازل شدہ کتاب پر ایمان لاتا ہوں۔ میں آپؐ کے دین کو قبول کرتا ہوں اور آپؐ کی سنت پر چلتا ہوں۔ میں آپؐ کے رب، جو ہر چیز کا رب ہے، پر ایمان لاتا ہوں۔ میں ایمان اور اسلام کی ان تمام شرائط کو قبول کرتا ہوں جو آپؐ اپنے رب کی طرف سے لائے ہیں۔ اگر میں آپؐ کی زیارت سے مشرف ہوجائوں تو زہے قسمت! اور اگر میری زندگی وفا نہ کرے تو آپؐ روزِ قیامت میری شفاعت فرمائیں اور مجھے بھول نہ جائیں۔ میں آپؐ کی اولین امت ہوں اور آپؐ کی بیعت کرتا ہوں۔ آپؐ کی آمد سے بھی پہلے آپؐ پر ایمان لاتا ہوں۔ میں آپؐکی ملت میں سے ہوں اور آپؐ کے باپ ابراہیمؑ کی ملت میں سے ہوں۔‘‘
تُبَّع نے اس خط کو بند کیا اور اس پر اپنی سنہری مہر ثبت کی، جس پر یہ الفاظ کندہ تھے:’’للّٰہ الامرُمن قبلُ و مِن بعد و یو مئذٍ یَفرحُ المومنون۔ بِنَصرِ اللّٰہ‘‘۔تُبّع نے اس مکتوب پر یہ سر نامہ لکھا:’’آخری نبی، رب العالمین کے رسول، حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام۔ تُبَّع اول حِمیَربن وردع کی طرف سے۔‘‘
تُبَّع نے یہ خط اس عالم کو دیا جس نے مکہ مکرمہ میں اسے اس کی بیماری کا حل بتایا تھا اور اسے نصیحت کی کہ ’’اسے سنبھال کر رکھ لو، اسے سرکارِ رسالت مآب کی خدمت میں پیش کردینا، اگر تمہاری زندگی ساتھ نہ دے تو اسے اپنی اولاد میں منتقل کردینا۔‘‘
تُبَّع وہاں سے روانہ ہوگیا اور ہندوستان کے ایک شہر غلسان میں وفات پائی۔ تُبَّع کے یوم وفات کے ٹھیک ایک ہزار برس بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ اعلانِ نبوت کے تیرہ برس بعد آپؐ سرزمین ِیثرب پر جلوہ گر ہوئے۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں آپؐ کے انتظار میں چار ہزار علماء دیدہ و دل فرشِ راہ کیے بیٹھے رہے۔ اسی جگہ کو آج مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے۔ تمام انصارِ مدینہ انھی علماء کی اولاد میں سے تھے۔ تُبَّع بادشاہ کا خط نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے پاس آ پہنچا، جن کا سلسلہ نسب اس رئیس العلماء سے ملتا تھا جسے بطور امانت خط دیا گیا تھا۔ ان کی رہائش اسی مکان میں تھی جو ایک ہزار برس پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لا رہے تھے، تو سب انصارِ مدینہ آپؐ کا استقبال کرنے کے لیے شہرسے باہر نکل کر مکہ مکرمہ کے راستے پر کھڑے ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی قبیلہ بنی سُلَیم کے پاس تھے، حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کے مشورے پر سب سے امانت دار شخص ابولیلیٰ ؓکو وہ خط دے کر آگے بھیجا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھتے ہی پہچان لیا اور بغیر کسی ابتدائی تعارف کے فرمایا:’’ابو لیلیٰ تم ہو؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:’’تُبَّع اول کا خط تمہارے پاس ہے؟‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ سکے۔ دل میں کہنے لگے یہ عجیب بات ہے، کہیں یہ جادو کا کمال نہ ہو اور مجھ سے امانت پہنچانے میں غلطی نہ ہوجائے۔ چنانچہ انھوں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ کیونکہ میں آپ کو پہچانتا نہیں۔
آپؐ نے ان کے وہم کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں محمد رسول اللہ ہوں۔ وہ خط لائو۔‘‘ ابولیلیٰؓ نے ایک رحل میں بحفاظت رکھا ہوا خط نکال کر پیشِ خدمت کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت خوشی کے عالم میں اسے دستِ اقدس میں لیا اور حضرت علیؓ سے فرمایا:’’اسے کھولیں اور پڑھ کر سنائیں۔‘‘
خط کا مضمون سماعت فرمانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نیک بھائی، مرحبا! نیک بھائی مرحبا! نیک بھائی خوش آمدید۔‘‘
اس واقعے کی تفصیل سیرت النبیؐ کے موضوع پر اہم کتاب ’’شرف المصطفیٰ‘‘، از ابی سعد عبد الملک بن ابی عثمان محمد بن ابراہیم الخر کوشی نیشاپوری (متوفی:406ھ)مطبوعہ:دار البشائر الاسلامیہ، بیروت، لبنان، جلد اول، صفحات 93 تا 105 پر موجود ہے۔ زرقانی علی المواہب کے مطابق یہ بادشاہ الہامی کتاب ’’زبور‘‘ کا پیروکار تھا۔
(بشکریہ اردو ڈائجسٹ،اگست:2018ء)