ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ کہیں جسے، ڈاکٹر حسن قاسم مراد

پروفیسر نگار سجاد ظہیر
آج شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی میں اپنے ہردلعزیز استاد پروفیسر ڈاکٹر حسن قاسم مراد صاحب کے انتقال پر منعقدہ تعزیتی نشست میں اپنے خیالات کا اظہار کتنا مشکل مرحلہ تھا، یہ کچھ میرا دل ہی جانتا ہے۔
بھوپالی تہذیب کا چلتا پھرتا نمونہ، خوش اخلاق، خوش لباس، خوش شکل، خوش گفتار، شفیق، ہمدرد اور علم کا ودیا ساگر… یہ تھے پروفیسر ڈاکٹر حسن قاسم مراد، جن کو میں نے اپنے یونیورسٹی کے اساتذہ میں سب سے زیادہ آئیڈیالائز کیا۔
بھوپال میں 1935ء میں پیدا ہوئے، آٹھویں جماعت تک وہیں پڑھا۔ جب یہ خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آیا تو کراچی میں طرح اقامت ڈالی۔ میٹرک انہوں نے کراچی سے کیا۔انٹر ایس۔ایم۔آرٹس کالج سے کیا جو اُس وقت کراچی کے صف ِاوّل کے کالجوں میں شمار ہوتا تھا۔بی اے (کے دو سال اردو کالج سے اور تیسرا سال) کراچی یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں کیا اور فرسٹ ڈویژن کے ساتھ سیکنڈ پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد 1958ء میں اسی شعبے سے ایم اے کیا اور اس بار فرسٹ ڈویژن کے ساتھ فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔اس کے ساتھ ہی شعبہ اسلامی تاریخ میں اسسٹنٹ لیکچرر بھرتی ہو گئے۔
1964ء میں پہلی بار کینیڈا گئے تو میک گل یونیورسٹی سے ایم۔اے کیا۔ اور ایم اے کی تھیسس لکھی۔ اس کے بعد دوسری بار پھر پی ایچ ڈی کرنے گئے اور 1981ء میں ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان “Ethico Religious Ideas of Umer 2” یعنی ’’حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے اخلاقی و مذہبی تصورات‘‘ ہے۔
آپ دو بار شعبے کے صدر ہوئے اور شعبے میں علمی فضا کو غالب کرنے کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ پہلی بار شعبے میں تصوف، فلسفہ،کلام اور جدید افکار کے پیپر متعارف کرائے گئے۔ اس سے قبل ہمارے شعبے میں یہ مضامین نہیں پڑھائے جاتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے تحقیق کرنے والے طلبہ کے لیے ایک اضافی زبان سیکھنے کا آغاز بھی کیا اور اس حوالے سے عربی، فارسی اور ترکی کی تدریس شروع ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر کر نہیں پائے۔ مثلاً آپ ریسرچ کے طلبہ کے لیے Research Methodologyکا کورس متعارف کروانا چاہتے تھے مگر ان پر یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ کورس پڑھائے گا کون؟ کوئی سبجیکٹ ایکسپرٹ نہیں تھا۔اسی طرح بہت سے منصوبے ان کے دل میں…یا زیادہ سے زیادہ کاغذات میں دفن ہو گئے۔
وہ کڑھتے تھے کہ یہاں جامعہ کا ماحول علمی نہیں ہے…یہاں کوئی علمی کام کیا جائے تو کئی طبقوں سے برداشت نہیں ہو گا۔شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال اسلام آباد میں رہے، پھر اپنے بیٹوں کے پاس کینیڈا چلے گئے۔اور پچھلے ہفتے وہیں سے ان کے انتقال کی خبر آ گئی۔
جب میں 1975ء میں شعبہ اسلامی تاریخ میں بی اے آنرز میں داخل ہوئی تو مراد صاحب کو بس آتے جاتے ہی دیکھا کرتی تھی، کیونکہ وہ ایم۔اے کو پڑھاتے تھے جبکہ ہم ابھی آنرز میں تھے۔ ایم اے میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے بنو امیہ کا کورس پڑھایا۔ ان کا پڑھانے کا انداز اس قدر شاندار تھا کہ ان کی کلاسیں طلبہ سے بھری رہتیں۔ بنو امیہ کی تاریخ کو انہوں نے جس مہارت سے پڑھایا، اور جس مہارت سے وہ اس انتہائی Controversial موضوع پر اظہارِ خیال کرتے، وہیں سے میں نے انہیں آئیڈیلائز کیا، اور جب شعبہ اسلامی تاریخ میں میری تقرری ہوئی تو بنوامیہ کا کورس ہی پڑھانے کے لیے منتخب کیا۔
جب میری تقرری ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے سبط حسن کی کتاب ’’نویدِ فکر‘‘ تحفے میں دی اور اپنے ہاتھ سے لکھا:۔
’’شعبے میں آمد کے موقع پر
ایک بہتر علمی اور تحقیقی مستقبل کی امید کے ساتھ‘‘۔
پھر کئی برس مجھے ڈاکٹر صاحب سے استفادے کا موقع رہا۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جن کا گہرا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ یہ چار بھائی تھے خرم مراد، حسن قاسم مراد، مسلم سجاد، اور اسماعیل اسامہ۔ پہلے مراد صاحب کا تعلق بھی جماعت اسلامی اور جمعیت سے تھا، لیکن میک گل میں ان کی قلب ماہیت ہوگئی۔ کریٹکل اپروچ نے انہیں مقید فضائوں سے نکالا۔ مستشرقین کو پڑھنے کے نتیجے میں وہ غور و فکر کی جن منازل سے گزرے یہ ان کی شخصیت کا دلچسپ مطالعہ ہوسکتا ہے۔
آج شعبے میں جس طرح مختلف شعبوں کے اساتذہ نے اظہارِ خیال کیا اور ان کو خراج تحسین پیش کیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں اچھے ناموں سے اُسی وقت یاد کیا جائے گا جب آپ اخلاق اور علم کے کسی درجے پر فائز ہوں گے۔

رفتید ولے نہ از دل ما