کتاب: : صحافی کے سفرنامے
تالیف : ضیا شاہد
ضخامت : 280 صفحات قیمت:1200 روپے
ناشر : قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل،بینک اسٹاپ،
والٹن روڈ، لاہور چھائونی
فون : 03000515101-03234393422
برقی پتا : qalamfourdation3@gmail.com
ان کا اصل نام تو ضیا محمد ہے، مگر صحافتی دنیا میں ضیا شاہد کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی جائے پیدائش اگرچہ سندھ کے ضلع شکارپور کا علاقہ گڑھی یاسین ہے جہاں انہوں نے 4 جنوری 1945ء کو آنکھیں کھولیں، تاہم آبائی تعلق بھارتی پنجاب کے مشہور شہر جالندھر سے ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ تعلیم کے میدان میں بی اے آنرز اور ایم اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا، جب کہ پاکستان کی اردو صحافت میں بھی انہوں نے نت نئے تجربات کے ذریعے خوب خوب نام کمایا تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر اور گفتگو میں بھی ملکہ رکھتے ہیں۔ ضیا شاہد کے آبائی ضلع جالندھر ہی سے تعلق رکھنے والے ممتاز شاعر، پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم نے شعر و ادب میں اپنی خدمات کے متعلق بجا طور پر دعویٰ کیا تھا کہ ’’دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے‘‘… جناب ضیا شاہد کی طبعی عمر اب پون صدی کو چھو رہی ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے تمام عمر صحافت ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ اوائلِ عمر ہی میں، غالباً ساٹھ کی دہائی میں صحافت کے میدانِ کارزار میں قدم رکھا اور اپنے وقت کے باوقار اور بااعتماد روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں مترجم کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔ یوں صحافت میں ان کی خدمات کا قصہ بھی نصف صدی سے کچھ زائد ہی پر محیط ہے، کم بہرحال نہیں۔ ’’تسنیم‘‘ کے بعد اپنے وقت کے کم و بیش تمام اہم اخبارات و جرائد میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور اقدام، کوہستان، حالات، اردو ڈائجسٹ، کہانی، مغربی پاکستان، صحافت، نوائے وقت اور جنگ جیسے اخباری اداروں میں مختلف حیثیتوں اور مختلف شعبوں میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد مشکل حالات میں ایک نئے اخبار روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کی داغ بیل ڈالی اور بطور چیف ایڈیٹر اسے کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا، مگر کچھ دیر بعد انہیں اندازہ ہوا کہ بطور ملازم خواہ چیف ایڈیٹر ہی کیوں نہ ہو، اب مزید ان کے لیے کام کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ وسائل نہ ہونے کے باوجود روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے نام سے اپنے ذاتی اخبار کا آغاز کیا، جہاں انہوں نے نئے نئے تجربات کیے، اچھوتے خیالات کو آزمایا اور نئی صحافتی روایات کو متعارف کرایا۔ یوں اس نئے روزنامہ نے عوام میں قبولِ عام کی سند حاصل کی، اور ضیا شاہد نے مختصر عرصے میں اپنے اخبار کو قدیم اور بڑے بڑے اخبارات کے مقابل لا کھڑا کیا۔ ان کے قائم کیے ہوئے اس ادارے کا شمار آج ملک کے مسلمہ بڑے صحافتی اداروں میں ہوتا ہے، اور ملک کے تمام اہم اور بڑے شہروں سے روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے علاوہ انگریزی میں ’’دی پوسٹ‘‘، سندھی میں روزنامہ ’’خبرون‘‘، پنجابی میں روزنامہ ’’خبراں‘‘ اور دوپہر کا روزنامہ ’’نیا اخبار‘‘ اس ادارے کی مطبوعات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ’’چینل فائیو‘‘ کے نام سے ٹی وی چینل بھی اسی ادارے کا حصہ ہے۔
بھرپور عملی صحافت کے ساتھ ساتھ ضیا شاہد نے صحافتی تنظیموں کی سیاست میں بھی سرگرمی سے حصہ لیا اور مالکانِ اخبارات کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے سینئر نائب صدر اور انجمن مدیرانِ جرائد (سی پی این ای) کے صدر کے مناصب پر فائز رہے۔
صحافتی دنیا میں اُن کے بعض انقلابی اقدامات اور ذاتی خیالات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر اُن کی فنی پختگی، محنت، کام سے لگن، منفرد خیالات آزمانے اور آئے روز نئے تجربات کرنے کے حوصلے کے اُن کے مخالفین بھی معترف ہیں۔ مشکل حالات میں راستہ نکالنے میں انہیں زبردست مہارت حاصل ہے۔ زیرنظر کتاب ’’صحافی کے سفر نامے‘‘ ضیا شاہد کے بطور صحافی اور مدیر بیرونی دنیا کے دوروں کی روداد ہے جسے سپاٹ انداز کے بجائے انہوں نے رواں دواں انداز میں تحریر کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے کے دوران قاری خود کو اُن کے ساتھ ساتھ چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔ پوری کتاب میں اُن کی ذات نمایاں دکھائی دیتی ہے کہ اس میں انہوں نے زیادہ تر اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات ہی بیان کیے ہیں جن کے بارے میں وہ ’’یہ سفر نامے۔ یہ تجربے۔ یہ مشاہدات‘‘ کے عنوان سے کتاب کے پیش لفظ کے آغاز ہی میں یوں وضاحت کرتے ہیں:
’’ہر روز دنیا میں ہزاروں لوگ سفر کرتے ہیں، لیکن ہر مسافر کا سفر کرنے کا مقصد ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ صحافی کے یہ سفرنامے جو کتابی شکل میں آپ کے سامنے پیش ہیں بنیادی طور پر مشاہدات پر مبنی ہیں۔ میں جس ملک میں بھی گیا، اس کے اداروں کو دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں ان کے ادارے کتنے مختلف ہیں۔
ایک پاکستانی کی حیثیت سے میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ہم بھی دنیا کی دوسری ترقی یافتہ قوموں کی طرح اپنے اداروں کو مضبوط بنائیں، کیونکہ اداروں ہی پر کسی ملک کے نظامِ حکومت کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ بنیاد ہی آپ کو اس بات کا سبق دیتی ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی جگہ پر کیا خرابی پائی جاتی ہے اور اسے ہمیں اسے کیسے دور کرنا ہے؟ معیشت ہو یا معاشرت، سماجیات ہو یا عام رہن سہن، امریکہ ہو یا برطانیہ، چین ہو یا افغانستان، ہند چینی کے ممالک لائوس، کمبوڈیا ہوں یا ہانگ کانگ یا تھائی لینڈ… میری آنکھ ہر جگہ یہ تلاش کرتی رہی کہ یہاں کیا کمی ہے اور ہمارے ہاں کیا کمی ہے؟ اگر ادارے مضبوط ہوں تو ملک مضبوط ہوتے ہیں۔ معاشرت مضبوط ہو تو معاشروں کی اصلاح ہوتی ہے۔
غرض کہ میں نے دنیا کا جو حصہ بھی دیکھا اس خیال سے دیکھا کہ یہاں کا وزیراعظم ہائوس کیسا ہے۔ یہاں کا سرکاری ادارہ کیا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں کا گھر کیسا ہے۔ یہاں کا سرکاری گھر اور دفتر کیسا ہے؟ یہاں کی سیاست کیا کہتی ہے؟ اور پھر ان سب کو اپنے ملک میں اپنے شعبے کے ساتھ ملا کر دیکھا کہ ہم کیوں پیچھے ہیں۔ ہمارے اندر کیا خامی رہ گئی ہے۔ اس طرح صحافی کے یہ سفرنامے جس کا پہلا حصہ پیش خدمت ہے، دوسرا حصہ زیر ترتیب ہے، بہت کچھ سیکھنے کے لیے رہنمائی دیتے ہیں۔‘‘
’’صحافی کے سفر نامے‘‘ کے اس پہلے حصے میں امریکہ، برطانیہ، چین، افغانستان، لائوس، کمبوڈیا، ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ کے اسفار کی روداد، حالات و واقعات کی تصویرکشی اور مصنف کی مصروفیات کا تذکرہ ہے، جس کے دوران جہاں ان ممالک کی تاریخ اور جغرافیہ سے آگاہی ملتی ہے وہیں وہاں کے حالات سے پاکستان کا موزانہ بھی جاری رہتا ہے… یوں قاری بیرونِ ملک رہ کر بھی اجنبیت محسوس نہیں کرتا۔
کتاب میں شامل تمام سفر نامے مفید معلومات اپنے اندر سموئے ہوئے اور دلچسپی کا عنصر لیے ہوئے ہیں، تاہم کتاب میں ان سفرناموں کی تاریخِ وقوع، تاریخِ تحریر یا تاریخِ اشاعت کسی کا بھی کہیں اندراج نہ ہونے سے ایک تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ دنیا میں آج کل تبدیلیاں جس تیزی سے رونما ہورہی ہیں ان کے پیش نظر کسی واقعے کے پس منظر اور پیش منظر سے مکمل آگاہی کے لیے اس کے زمانۂ وقوع سے آگاہی ہو تو اس کی تفہیم بہتر اور آسان ہوجاتی ہے۔ کتاب کے آغاز، وسط اور آخر میں چھ، چھ اور آٹھ صفحات پر مشتمل رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں، تاہم اگر یہ تصاویر صرف تین جگہ جمع کردینے کے بجائے جہاں کہیں تحریر میں کسی مقام یا واقعہ کا ذکر آتا ہے، ان کے ساتھ ساتھ پھیلا کر شائع کی جاتیں تو زیادہ مؤثر اور مفید ہوسکتی تھیں۔ کتاب عمدہ کاغذ پر خوبصورت رنگین اور بامعنی سرورق اور گردپوش کے ساتھ شائع کی گئی ہے اور پڑھنے والوں کے لیے معلومات اور دلچسپی کا وافر سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔