ناصر محمود
میں برطانیہ میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جو اسرائیل سے ہجرت کرکے وہاں پہنچا تھا۔ بہن بھائیوں میں میرا نمبر چوتھا اور آخری تھا، یوں کچھ لاڈلا بھی تھا۔
یہودی مذہب میں بھی ہر مذہب کی طرح سوال کرنے کو بہت برا جانا جاتا ہے، اور سوال کو مذہب یا خدا کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے۔ ادھر میں تھا کہ سوال نہ کروں تو کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ والدین میری اس عادت سے بہت تنگ تھے، وہ حتی الامکان میرے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتے اور آخرکار وہی امرت دھارا استعمال کرتے جو ساری دنیا کے والدین کرتے ہیں، یعنی پٹائی۔ میرے بہن بھائیوں کو جب بھی اور جو بھی ملتا اُن کی سب سے پہلی ترجیح اُسے کھانا ہوتی تھی، جبکہ میں جب تک پوچھ نہ لوں کہ کس نے دیا ہے؟ کیوں دیا ہے؟ اور کتنا دیا ہے؟ کھاتا نہیں تھا۔ والدہ اکثر جب مجھے کوئی چیز دیتیں تو سوال سے پہلے ہی کہتیں تیری خالہ نے دیا ہے، ان کی بیٹی کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے اور سارے رشتہ داروں کو دیا ہے، اور اب مر، کھا لے۔
مذہب کے معاملے میں ان کو کوئی خاص علم نہیں تھا۔ وہ ہوں ہاں کرکے چپ ہوجاتے، یا جو کہانی سنی ہوتی، سنادیتے۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ میں مطمئن ہوا یا نہیں ہوا۔ البتہ یہودیت میں اسلام کی طرح ذرا ذرا سی بات پر کان پکڑ کر نکال نہیں دیا جاتا کہ یہ کافر ہوگیا، بلکہ آپ یہودی ہیں اور عمل کریں یا نہ کریں آپ کی یہودیت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اسرائیل میں حکومت ہمیشہ سے بے عمل یہودیوں کی رہی ہے، اور یہ مسئلہ میں نے جتنے مذاہب تبدیل کیے سب میں دیکھا کہ ہر مذہب میں حکومت بے عمل لوگوں کی ہی ہے۔ باعمل لوگ صرف جلنے کڑھنے کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔ عوام میں ان کی پذیرائی نہیں اور حکومت چلانے کی ان میں صلاحیت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت چلانے کے لیے جس وسعتِ قلب و نظر کی ضرورت ہے وہ ان میں نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے مقدر میں ہی لوگوں کو کوسنا اور خود بھی جلنا کڑھنا ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں یوسف علیہ السلام نے تنِ تنہا کس طرح کافروں سے بھرے ملک میں حکومت کرلی، کس طرح پورے ملک کو اپنے ذاتی محاسن اور نظم و ضبط، عدل و انصاف سے حکومت کرکے مسلمان کردیا۔ کہاں وہ پیغمبر اور کہاں آج ان کے نام لیوا…!
یہودیت کے تالاب سے نکل کر میں نے عیسائیت کے سمندر میں چھلانگ لگادی۔ اس سے کوئی خاص طوفان تو برپا نہیں ہوا، کیونکہ یہودی سے عیسائی ہونا، یا عیسائی سے یہودی ہونا ایک معمولی تبدیلی سمجھا جاتا ہے، جس طرح مسلمانوں میں فقہ کی تبدیلی ہوتی ہے، بندہ کسی بھی امام کی پیروی کرے، رہتا مسلمان ہی ہے۔ مگر میرے سوالوں کا جواب عیسائیت کے پاس بھی نہیں تھا، اور میں زیادہ دیر وہاں بھی ٹک نہ پایا۔ ایک سکھ دوست کی دوستی نے جو کہ میرا یونیورسٹی کا کلاس فیلو تھا، مجھے سکھ بنالیا۔ میرے سوالات نے اُسے بھی سکھ مذہب سے فارغ کردیا، اور میں گیا تو اکیلا تھا مگر سکھ ازم سے نکلنے والے دو تھے، اب دو آدمیوں کو مذہب کی تلاش تھی۔
میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا، اگرچہ نسلی تعصب کی وجہ سے جو کہ مسلمانوں کے خلاف ہمارے خون میں شامل ہے، قرآن کو پڑھنا میرے لیے ایک قیامت سے گزرنا تھا۔ لیکن میں جوں جوں قرآن کو پڑھتا گیا، میرے اندر کے میل اور میرے سوالوں کی کاٹ کم ہوتی چلی گئی۔ قرآن تو بھرا ہی جوابوں سے ہے، وہ سوال بھی خود کرتا ہے، اس لیے دوسروں کو سوال سے منع کرتا ہے، اور جواب بھی خود دیتا ہے۔ انسانی ذہن آج جن سوالوں تک پہنچا، قرآن نے صدیوں پہلے ان سوالوں کو اٹھاکر ان کا تسلی بخش جواب دے دیا ہے۔ مگر میرا مسئلہ مسلمان ہونے کے بعد شروع ہوا۔
میں مسلمان تو برطانیہ میں ہی ہوگیا تھا اور میں یہ چاہتا تھا کہ کسی مسلمان ملک میں جاکر اسلام کو عملی طور پر دیکھوں۔ میرے والد صاحب جو دس سال پہلے 1977ء کے زمانے میں پاکستان میں برطانوی سفارت خانے میں اتاشی کے طور پر کام کرچکے تھے، انہوں نے جب سنا کہ میں مسلمان ہوچکا ہوں اور سعودی عرب جانے کا سوچ رہا ہوں تو انہوں نے مجھے بلاکر کہاکہ اگر تم مسلم ملک میں جانا چاہتے ہو تو پھر پہلے پاکستان جائو، یہ وہ واحد ملک ہے جو اسلام کی بنیاد پر بنا ہے اور تمہیں اسلام کو سمجھنے میں جتنی مدد اس ملک سے ملے گی کہیں اور ممکن نہیں ہے۔ اب اللہ جانتا ہے اس مشورے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے، مگر میں اُن کے مشورے پر پاکستان کی طرف چل نکلا۔
کراچی پہنچ کر میں نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کیا۔ ایک سروس بوائے سے میں نے اپنا مقصد بیان کیا کہ میں اس نیت سے پاکستان آیا ہوں اور کوئی اچھا سا ادارہ جو مجھے اسلام کو سمجھنے میں مدد دے اس کی تلاش میں ہوں، اگر تم مجھے گائیڈ کرسکتے ہو تو تمہاری مہربانی ہوگی، اور اگر ایک دو چھٹیاں لے لوگے تو میں ان کے پیسے بھی تمہیں دے دوں گا۔ سروس بوائے نے میرا انٹرویو شروع کیا اور پوچھا کہ میں کون سا مسلمان ہوا ہوں تاکہ متعلقہ اسلام کے کسی ادارے کو وزٹ کیا جائے۔ میں، جس کی ساری زندگی سوال کرتے گزری تھی، اس سوال پر ہی چکرا کر رہ گیا کہ میں کون سا مسلمان ہوا ہوں؟
میں نے اُسے بتایا کہ میں نے قرآن پڑھا ہے اور اس کے مطابق اللہ کو ایک مانا ہے۔
محمدؐ کو اللہ کا رسول مانا ہے اور مرنے کے بعد اٹھنے اور حساب کتاب پر ایمان لایا ہوں۔ اللہ نے جبریل علیہ السلام کے ذریعے قرآن نازل کیا ہے جو اللہ کا کلام ہے۔ اب تم بتائو کہ یہ کون سا اسلام ہے؟ وہ بولا: اس سے کام نہیں چلے گا، اتنا سارا اسلام پاکستان میں نہیں چلتا، اس کے ساتھ کچھ اور ضروریات بھی ہیں جن کے لیے آپ کو ہمارے ایک عالم سے ملنا ہوگا۔ اگلے دن وہ مجھے کراچی کی ایک جامعہ میں لے گیا جہاں ایک بہت موٹے تازے بزرگ بیٹھے تھے جو سبز پگڑی پہنے ہوئے تھے، انہوں نے مجھ سے تفصیل پوچھی اور میرے علم میں یہ اضافہ کیا کہ چونکہ ہندوستان میں اسلام کچھ بزرگوں کے ذریعے آیا ہے، ان بزرگوں کے بارے میں میرا عقیدہ اگر خراب ہوا تو میں مسلمان نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا انہوں نے مجھے ایک بندے کے سپرد کیا جو مجھے کسی درگاہ لے گیا جہاں میرے نفس کا تزکیہ کرنا مقصود تھا۔ وہ غالباً منگھوپیر کی درگاہ تھی اور جامعہ کے مہتمم نے مجھے وہاں کے سجادہ نشین کے نام رقعہ دیا تھا، وہ میں نے ان کے سپرد کردیا۔ مجھے غسل دلوایا گیا، سبز کپڑے پہنائے گئے اور میری انگلیوں میں چار انگوٹھیاں جو مختلف رنگوں کے پتھروں سے مزین تھیں، پہنا کر میری بیعت لی گئی اور ایک ڈنڈا میرے ہاتھ میں پکڑایا گیا اور اسلام میں داخل کرلیا گیا۔
صبح صبح مجھے ناشتے کے بعد ریلوے اسٹیشن لے جایا جاتا جہاں آنے جانے والے مسافروں کو مجھے اسلام کی دعوت دینی تھی، اور ساتھ بتانا تھا کہ میں کن کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہوں۔ یہ معمول کوئی دو ماہ رہا، اس دوران میں نے جب بھی قرآن کی تلاوت اور مطالعہ کرنے کی کوشش کی میرا انگلش ترجمے والا قرآن بڑے پیار اور ادب کے ساتھ میرے ہاتھ سے لے کر واپس میرے سامان میں رکھ دیا گیا اور بتایا گیا کہ قرآن نے جو کام کرنا تھا وہ کردیا ہے، اب آپ کو تربیت کی ضرورت ہے، مطالعے کی نہیں۔
دو ماہ بعد کی بات ہے، جب میں ریلوے اسٹیشن پہنچا تو وہاں ایک تبلیغی جماعت ریل گاڑی میں سے اتر رہی تھی۔ میں نے جب ان کو اپروچ کرنے کی کوشش کی تو میرے گائیڈ نے میرا ہاتھ سختی سے پکڑلیا اور کہاکہ ان کے قریب مت جائو۔ یہ بات جماعت کے ایک ساتھی نے بھی محسوس کرلی اور وہ اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر میری طرف لپکے۔ سلام کے بعد انہوں نے مصافحہ کیا اور بہت شستہ انگلش میں مجھ سے پوچھا کہ میںکہاں سے ہوں اور کیا میں مسلمان ہوں؟ بعد میں پتا چلا کہ وہ ڈاکٹر تھے۔ میرے جواب کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا سامان کدھر ہے؟ میں نے بتایا کہ اس بھائی کو پتا ہے، کسی درگاہ پر ہے۔ اب باقی جماعت بھی اپنا سامان لیے ہمارے اردگرد کھڑی ہوگئی۔
میرے گائیڈ کو ہاتھ پائوں پڑے ہوئے تھے، وہ بار بار واپس چلنے کے لیے اصرار کررہے تھے، مگر اب واپسی پر ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے جو میرا سامان لے کر مجھے ساتھ لے جانے آئے تھے، کیونکہ میں نے ان کے ساتھ جانے پر رضامندی کا اظہار کردیا تھا۔ وہاں سے سامان کس مشکل سے چھُوٹا یہ الگ داستان ہے، مگر وہاں مکالمے کے دوران مجھے پتا چلا کہ ایک دوسرے کی نظر میں یہ دونوں مسلمان نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک میں اب تک مشرکوں کے چنگل میں تھا، اور سجادہ نشین مجھے بتارہے تھے کہ تُو اب مرتد ہوگیا ہے اور اسلام سے خارج ہوکر جارہا ہے۔ مگر مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جب میں اسلام میں اپنی مرضی سے داخل ہوا ہوں تو میری اپنی مرضی اور نیت کے بغیر کوئی مجھے اسلام سے نکال کیسے سکتا ہے! جو مرضی سے آیا ہے مرضی سے جائے گا۔ اعلان کے ساتھ داخل ہوا ہے، اعلان کے ساتھ خارج ہوگا۔ خیر سوالات کی چکی جو قرآن پڑھ کر بند ہوگئی تھی، مسلمانوں میں آکر بہت تیزی سے چل پڑی تھی۔ مجھے جماعت کے ساتھ فوراً رائے ونڈ روانہ کردیا گیا جہاں میں نے دو ماہ کے لگ بھگ تو رائے ونڈ میں گزارے جو مختلف ممالک سے آنے والی جماعتوں سے خصوصی ملاقاتوں اور باہم تبادلہ خیالات میں گزرے، جبکہ چالیس دن ایک جماعت کے ساتھ لگائے۔ یہاں کا ماحول بہت اچھا تھا۔ لوگ بہت ہی خلوص اور محبت سے پیش آتے تھے اور ہر وقت اللہ اللہ کے چرچے چلتے تھے۔ ہر جمعرات کو مرکز کے باہر کتابوں کے اسٹال لگتے تھے جن پر خریداروں کا بہت رش رہتا تھا۔
پھر سالانہ اجتماع شروع ہوگیا، اسٹالوں کی تعداد بھی بڑھ گئی اور خریداروں کا رش بھی بہت زیادہ ہوگیا۔ میں عصر کی نماز کے لیے وضو کرکے آرہا تھا کہ میری نظر ایک اسٹال پر کھڑے ایک نوجوان پر پڑی جو اپنی ہیئت اور کیفیت دونوں میں الگ تھلگ نظر آرہا تھا، مجھے دیکھتے ہی اس نے سلام دعا کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ میں نومسلم ہوں؟ میں نے مسکرا کر اثبات میں جواب دیا اور ایک کتاب جو انگلش میں تھی، اٹھالی۔ کتاب کا ٹائٹل تھا ’’ٹووارڈز انڈر اسٹینڈنگ اسلام‘‘۔ جونہی میں نے کتاب پر قیمت دیکھی اور اسے پیسے دینے کے لیے بٹوہ کھولا، جھٹ پٹ کہیں سے ڈنڈا بردار جوان نمودار ہوئے اور اس جوان کو اسٹال ہٹانے کا حکم دیا۔ اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر جوانوں نے اس کا اسٹال الٹ دینے کی دھمکی دی جس پر اس نے بے چارگی سے اپنا اسٹال سمیٹنا شروع کردیا۔ میں نے اسے پیسے دینے کی کوشش کی مگر اس نے لینے سے انکار کردیا اور کہنے لگا کہ میں اسے اس کی طرف سے گفٹ سمجھوں، اور کتاب کی قیمت اپنی جیب سے نکال کر اس نے پیسوں والے لفافے میں ڈال دی۔ میں زندگی بھر اس جوان کو نہیں بھول سکا جو شاید میری طرح اب بوڑھا ہوچکا ہوگا، یا اللہ کو پیارا ہوچکا ہوگا۔ مگر میں نے ہمیشہ اسے اپنی دعائوں میں یاد رکھا ہے۔ اسے اللہ نے میرے لیے ہی بھیجا تھا، اور جب کام ہوگیا تو ہٹانے والے بھی پہنچ گئے۔ میں نے ڈنڈا بردار محافظوں سے پوچھا کہ آپ نے اسے کیوں بھگا دیا؟ کہنے لگے یہ ہمارا ایریا ہے اور یہاں کوئی اسٹال ہماری مرضی کے بغیر نہیں لگایا جاسکتا، اس کے لیے انتظامیہ کی اجازت ضروری ہے۔ نیز یہ گمراہ لوگ ہوتے ہیں جن کا نشانہ آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں جن کو اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا، ورنہ یہاں اجتماع والے کبھی ایسے اسٹال کو گھاس نہیں ڈالتے۔ اب اس کتاب کا مطالعہ ایک مسئلہ بن گیا۔ میں نے اندازہ کیا کہ ان حضرات کا جاسوسی کا نظام بہت تیز ہے، آپ کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ کبھی خدام اور کبھی رہنما کے نام پر ایک بندہ ہمیشہ آپ کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ انہیں اطلاع مل گئی تھی کہ میں نے کون سی کتاب خریدی ہے۔ اب پہلے تو مجھے صاحبِ کتاب کے بارے میں بتایا گیا کہ اسلام کے بارے میں اس کے خیالات کس قسم کے تھے، اور وہ کوئی عالم بھی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ نیز یہ بھی جتایا گیا کہ یہ وقت میں نے امانت کے طور پر اللہ کو دیا ہوا ہے، اس لیے صرف وہی کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں جو بزرگ تجویز کریں، یعنی فضائل اعمال، فضائل صدقات، حیات الصحابہ اور ریاض الصالحین۔
مجھے کتاب خطرے میں نظر آئی، اس کی حفاظت اب میرے لیے مسئلہ بن گئی تھی، پڑھنا تو دور کی بات ہے۔ مگر اس کے دیباچے نے ہی مجھے بتادیا تھا کہ میرے سوالوں کا جواب شاید اسی کتاب میں ملے گا۔
میں نے ایک بات تمام مذاہب میں دیکھی ہے کہ یہاں لوگ اللہ یا بھگوان یا یسوع مسیح کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے اللہ کے پاس جنت ہے، سورگ، پیراڈائز ہے، جہنم ہے، نرکھ ہے، ہیل ہے، حوریں ہیں، اپسرائیں ہیں، گویا یہ سارے اللہ کے نہیں بلکہ اللہ کی مٹھی میں موجود جنت کے متلاشی ہیں۔ حوروں کا ذکر کرتے ہوئے جو جتنا بوڑھا ہوتا ہے وہ اتنی زیادہ تفصیل سے حوروں سے ملاقات کی کیفیات بیان کرتا ہے۔ بعض دفعہ مجھے تصور میں ان کے چہروں پر رال ٹپکتی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے گوردوارے میں، چرچ میں، سینگاگ میں اور پھر یہاں جس طرح یہ تذکرے سنے مجھے مذہب سے گھن آنے لگی۔ سارے عیاش اور سیکس کے دیوانے… اللہ کو کون پہچانتا ہے، آج اللہ جنت دینے سے انکار کردے تو ان میں سے کوئی پلٹ کر اس کے احکامات پر عمل نہ کرے۔
میرے اندر ایک ملحد کروٹیں لینے لگا۔ وہ ملحد کسی دلیل کو اپنے آگے ٹھیرنے نہیں دیتا تھا۔ مذاہب میں نے سارے دیکھ لیے تھے، سب دنیا اور آخرت دونوں جگہ روٹی کے چکر میں تھے۔
میرے اندر ایک آگ بھڑک اٹھی۔ میرے اللہ تیری تلاش کسی کو نہیں؟ سب کی نظریں تیری جنت کی طرف ہیں، تیرے چہرۂ اقدس کا خیال کسی کو نہیں۔ مجھے اپنا اندر اور خدا دونوں افسردہ افسردہ سے لگے، جیسے جس چیز کو میں روتا ہوں خدا کو بھی اسی کا شکوہ ہے۔
میں جب پاکستان آیا تھا تو اسلام اور اللہ کے بارے میں قرآن کے حوالے سے ایک واضح تصور لے کر آیا تھا، اللہ پاک نے انسان کو محبت سے بنایا ہے اور محبت کی خاطر بنایا ہے۔ وہ انسان سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے اور ٹوٹ کر محبت چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ نماز کو محبوب سے ملاقات کے پس منظر میں دیکھا جائے اور اسی شوق و ذوق سے بن سنور کر جایا جائے، اور رب سے مکالمہ کرکے جانے کے بعد نہ صرف انسان کی ہستی کے اندر باہر اور قول و فعل میں اس ملاقات کی چاشنی پورا محلہ محسوس کرے بکہ ان کے چہروں پر نظر پڑے تو سجدوں کا نور و سرور دیکھنے والے کو اپنی جھلک دکھائے۔ گھر جاکر بھی دل مسجد میں اٹکا رہے اور پروگرام بن رہا ہو کہ اگلی ملاقات میں کیا کیا بات کرنی ہے، کیسے راضی کرنا ہے، کیسے سوری کرنا ہے۔ کیا یہی وہ لوگ نہیں جن کو عرش کے سائے تلے جگہ دی جائے گی؟ اللہ نے انسان کو اس کی دنیا کی زندگی میں ہر سہولت فراہم کی ہے، اگر انسان کے اندر اس کی فطرت میں کوئی پیاس رکھی ہے تو دنیا میں اسے بجھانے کا سامان بھی رکھا ہے۔ وہی اللہ جب اپنی رضا کے لیے کچھ قربان کرنے کو کہتا ہے، یا اپنی محبت میں کچھ چھوڑنے کو کہتا ہے تو ساتھ گارنٹی دیتا ہے کہ جس اللہ نے تمہاری دنیا کی ضرورتوں کی کفالت کی ہے وہی آخرت میں بھی تمہیں سامانِ زیست فراہم کرے گا، بیویاں بھی دے گا، گھر بھی دے گا، دنیا میں دنیا کی زندگی کی نسبت سے اور آخرت میں آخرت کی زندگی کی نسبت سے عطا فرمائے گا، فانی اس کی خاطر چھوڑوگے تو ابدی و باقی عطا کرے گا۔
(جاری ہے)