قطرے سے گہر ہونے تک

سوانح حیات : قطرے سے گہر ہونے تک
مصنف : انجینئر انصار الحق گہرا عظمی
صفحات : 740 قیمت:1500 روپے
ملنے کا پتا : 21 ڈی اسٹریٹ، متصل خیابان تنظیم،
فیز 5 ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کراچی
فون : 021-35831585
ناشر : جہانِ حمد پبلی کیشنز، کراچی
ایک اچھی سوانح حیات نہ صرف اس کے لکھنے والے کا روزنامچہ ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے عہد کے معاشرتی، سماجی، ثقافتی، سیاسی ماحول کی عکاس بھی ہوتی ہے، اور اُن تہذیبی روایتوں کی آئینہ دار بھی جو اُس وقت کے معاشرے میں رائج رہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اوّلین مشیر قانون فضل حق قریشی مرحوم کے صاحبزادے انجینئر انصار الحق قریشی عرف پُھنّن علمی وادبی حلقوں میں گہراعظمی کے نام سے معروف ایک حلیم الطبع، شائستہ، بردبار نفیس انسان ہیں، اچھے نثر نگار ہونے کے ساتھ زودگو شاعر بھی ہیں۔ آپ اسلامی فکر و فلسفہ کی ترویج و اشاعت میں مشغول رہتے ہیں۔ حمدیہ، نعتیہ شاعری کے حوالے سے 1987ء سے 2015ء تک11 شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، جبکہ ’’سرورِ کائناتؐ‘‘ کے عنوان سے منظوم سیرت، ’’خلفائے راشدینؓ‘‘ منظوم سوانح حیات، ’’تذکرہ انبیا کرامؑ‘‘ کی اشاعت کی سعادت بھی انہیں حاصل ہے۔ طنز و مزاح کے حوالے سے شعری مجموعہ ’’اُبالِ خاطر‘‘ 2017ء میں اور ’’خواہ مخواہ‘‘ 2018ء میں اشاعت پذیر ہوئے۔
’’قطرے سے گہر ہونے تک‘‘ ایک علم دوست گھرانے کی تہذیبی روایتوں کے امین، اسلامی شعائر کے پاس دار، نیک نام، ثابت قدم، اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے صاحبِ قلم کی خودنوشت ہے۔ بقول دوست محمد فیضی ’’وہ ایک باہمت انسان ہیں جنہوں نے ہجرت کی سختیاں جھیلیں اور ایک نئی سرزمین پر صرف اپنی قابلیت اور محنت سے مقام بنایا، ان کی داستانِ حیات میں جہاں ان کے اہلِ خاندان کے لیے فخر و مسرت کے بے شمار مواقع ہیں، وہاں عام قارئین کے لیے پڑھنے کے علاوہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے لامحدود امکانات ہیں۔ میں ان کی کتاب کے ذریعے دراصل ایک پہلو کو عام کرنا چاہتا تھا کہ یہ تاثر کہ موجودہ حالات میں کوئی شخص دیانت دار، اصول پرست اور حق گو ہوکر سرکاری ملازمت کر ہی نہیں سکتا بالکل غلط ہے۔ ان کی طویل سرکاری ملازمت کا دورانیہ ثابت کرتا ہے کہ قابلیت، صلاحیت، حکمت اور اہلیت مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنا راستہ بنالیتے ہیں۔‘‘
دو حصوں پر مشتمل اس خودنوشت کے پہلے حصے میں 175 عنوانات کے تحت حالات و واقعات درج ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ ضمیمہ جات کے طور پر 18 ضمیمے شامل ہیں جن میں ضمیمہ نمبر4 قابلِ توجہ ہے، جس میں روح، عقل، وحی اور غیب کے بارے میں مولانا احتشام الحق تھانوی کے جامع، عالمانہ خیالات اور توضیحات شامل ہیں۔
بھارت کے صوبہ اترپردیش (یو پی) کے ضلع اعظم گڑھ سے شروع ہونے والا گہر اعظمی (مقیم کراچی) کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔ صفحہ 224 پر ’’من آنم کہ من دانم‘‘ کے عنوان سے رقم طراز ہیں:۔

ذات کا آئینہ دیکھا تو حیرانی ہوئی
میں نہ تھا گویا کوئی مجھ سا تھا میرے روبرو

من آنم کہ من دانم ایک فارسی ضرب المثل ہے جس کے معنی ہیں کہ ’’میں جیسا ہوں خود ہی جانتا ہوں‘‘۔ میں کیسا ہوں، کیا ہوں، اس کے لیے میں اپنی ایک پرانی ڈائری میں (17اگست 1960ء کو) لکھے ایک روزنامچہ سے اقتباس پیش کرتا ہوں جس سے آپ اندازہ لگالیں گے کہ آپ مجھے کتنا جانتے ہیں:
’’انصار عجیب آدمی ہے… سوچ رہا ہوں آج ان حضرت کے متعلق بھی کچھ خامہ فرسائی ہوجائے۔ حضرت خودکو احساسِ برتری کا شکار بتلاتے ہیں اور اپنے آپ کو عقل مند ترین اشخاص میں شمار کرتے ہیں، حالانکہ حکیم جالینوس کہہ چکے ہیں کہ ’’احمق کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو دانا خیال کرتا ہے‘‘۔ میں تو ان کی کمزوریوں سے واقف ہوں، ان سے بڑھ کر بے وقوف انسان تو شاید ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ ان کی بناوٹی باتیں اچھے اچھوں کو زیر کرلیتی ہیں، لیکن جب کسی کے مقابلے پر آتے ہیں تو ایسا چت کرتے ہیں کہ کپڑے جھاڑنے میں کافی دیر لگتی ہے۔ خود کو بہت معصوم ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان کی نگاہیں اتنی بے باک ہیں کہ مجھے تنبیہ کرنی پڑتی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ واقعی عجیب آدمی ہیں۔ یہ میں ہوں یا انور کے خیال میں اتنا بڑا بے اصول آدمی شاید پیدا ہی نہیں ہوا۔ انکساری اتنی دکھاتے ہیں کہ بس کچھ کہا ہی نہیں جاسکتا، دوسروں کی برائی کرنے سے یہ نہیں چوکتے پھر بھی امید یہی رکھتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔ رات میں خود تو سوتے نہیں، دوسروں کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں۔ وقت کی پابندی ضرور کرتے ہیں، لیکن دوسروں سے اس کی توقع نہیں رکھتے۔ بیمار یہ رہتے ہیں اس لیے کہ میری باتوں پر عمل نہیں کرتے اور جو جی میںآتا ہے کربیٹھتے ہیں، پھر روتے ہیں۔ تب مجھے ان پر ہنسی آتی ہے، لیکن میں ہنستا نہیں، اس لیے کہ میں ان کا ہم زاد اور دم ساز ہوں، مجھے کچھ ان سے ضرورت سے زیادہ محبت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زندگی کے عاشق اور خوشیوں کے شیدائی ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ پھول کی خاطر یہ ہمیشہ کانٹے سے الجھنے میں پہل کرتے ہیں۔‘‘
حصہ دوئم میں گہر اعظمی کی ذات اور شاعری سے متعلق مشاہیرِ ادب کی آرا، مضامین اور منظوم تبصرے شامل ہیں۔
رئیس امروہوی لکھتے ہیں: ’’باضابطہ شاعر نہ ہونے اور فنِ عروض سے ناآشنائی کے باوجود گہر صاحب کے کلام میں عجب قسم کا سوز و گداز اور جذب و اثر پایا جاتا ہے۔ ایسے بے ساختہ مصرعے ہیں کہ سبحان اللہ۔

دوستو جب مجھے کعبے کا بلاوا آیا
بس یہی وردِ زباں تھا کہ خدایا آیا

ڈاکٹر جمیل جالبی کتاب ’’خیر البشرؐ‘‘ کی تقریظ میں رقم طراز ہیں :’’گہر کے کلام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ اظہارِ عقیدت کے ساتھ ساتھ اپنے عصر، اپنے معاشرے، دنیائے اسلام اور پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کو بھی اپنی نعت کا موضوع بناتے ہیں جو دعا کی صورت میں ان کا کلام پڑھنے والے کے دل کی آواز بن جاتی ہے۔ وہ اپنے نعتیہ کلام سے مسلمانوں کی اصلاحِ احوال کی صورت بھی پیدا کرتے ہیں۔ وہ ان بنیادی قدروں کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں جن سے انسان مسلمان بنتا ہے اور سارے عالم پر چھا جاتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کہتے ہیں: ’’مدتوں کے بعد ایک ایسا مجموعہ نظر سے گزرا ہے جو عقل اور دل دونوں کو سیراب کرتا ہے اور اس بات پر ہمارے یقین کو پختہ تر کردیتا ہے کہ علم کے بغیر نہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، نہ مرتبہ محمدِ عربیؐ کی آگاہی مل سکتی ہے، اور نہ رب العالمین، رسولِ رب العالمینؐ اور عالمین کا رشتہ سمجھ آسکتا ہے۔ مجھے اس بات نے بھی متاثر کیا کہ شاعر نے اپنے استاد پروفیسر اقبال عظیم اور اپنے دوست و رفیق آفتاب عظیم کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے۔ یہ بھی سنت ِرسولِ کریمؐ ہے، آقاؐ کا ارشاد ہے ’’من لایشکرالناس لایشکراللّٰہ۔‘‘
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے تعارفی کلمات میں لکھا: ’’فاضل مصنف ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر ہیں، ورنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ کو شاعری میں ڈھال دینا کوئی آسان کام نہ تھا اور وہ بھی اس طرح کہ واقعات اور حالات بھی بیان ہوجائیں اور شعری محاسن بھی پوری طرح برقرار رہیں۔ یہ یقینا ایک عظیم اور منفرد کام ہے۔‘‘
خواجہ رضی حیدر کتاب ’’ہادیِ برحقؐ‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان کے لہجے میں سادگی اور پرکاری موجود ہے، ان کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے جیسے گہر اعظمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کی ایک اعلیٰ ترین صفت کو اپنی شاعری اور اظہار کی اساس بنالیا ہے ،جیسا کہ خود انہوں نے اس صفت کو اپنی نعت کے ایک شعر میں اس طرح منظوم کیا ہے:۔

گفتگو تھی دل نشیں اُن کی، مدلل پُر اثر
بات کرتے مختصر، ہرگز اسے دیتے نہ طول‘‘

کتاب میں پروفیسر اقبال عظیم، مدیر تکبیر صلاح الدین، محسن بھوپالی، پروفیسر محسن ملیح آبادی، پروفیسر جاذب قریشی، پروفیسر ہارون الرشید، ایس ایم معین قریشی، احمد حسین صدیقی، حسنین کاظمی، اعجاز رحمانی، قیصر نجفی، یاور مہدی، انوار عزمی، طاہر سلطانی، محمود عالم صدیقی و دیگر اصحاب ِقلم کے تبصرے بھی شامل ہیں، جبکہ تنویر پھول اور راغب مراد آبادی کا منظوم اظہار خیال بھی ہے۔
740 صفحات پر محیط اس خود نوشت کا انتساب انہوں نے اپنے برادرِ عزیز پروفیسر ڈاکٹر ریاض الحق قریشی کے نام کیا ہے۔ فلیپ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے رقم کیا ہے ’’آج ان کا نام حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا ایک اہم حوالہ ہے اور قرآنی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کے تابندہ نقوش پر مبنی کئی کتابیں اور بھی شامل ہوگئی ہیں‘‘۔
سفید آفسٹ پیپر پر عمدہ طباعت، رنگین سرورق کے ساتھ مجلّد اس کتاب کی قیمت 1500 روپے ہے۔