”مے ڈے، مے ڈے، مے ڈے“۔۔۔ پائلٹ مے ڈے کی کال دے چکا ہے۔ 342 مسافر سوار ہیںٍ پرواز کی سیکو ر ٹی پر مامور سیکورٹی اہلکاروں سمیت عملے کے ارکان اس کے علاوہ ہیں۔ پرواز کے ٹیک آف کے وقت موسم مثالی حد تک قابلِ رشک تھااور کسی بُرے موسمی حالات کی پیش گوئی بھی نہیں کی گئی تھی، معمول کے خراب موسم کا اندازہ تھا۔ بڑا جہاز ہے، ڈبل ڈیکر،پرواز سے پہلے ہر طرح کا فٹنس سرٹیفکیٹ لے لیا گیا تھا،تمام شعبوں نے اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد”اوکے“ کی رپورٹ دی تھی۔ پائلٹ کافی سینئرہے اور اس سے پہلے جہاز اڑانے کا وسیع تجربہ بھی رکھتا ہے، یہاں تک کہ معاون پائلٹ کے عدم تعاون اور دو نمبریوں کے باوجود انتہائی خراب موسم اور طوفانوں سے بھی جہاز کو نکالنے کے فن سے واقف ہے، اور سخت گرج چمک یہاں تک کہ جب آسمانی بجلی گررہی تھی، تب بھی جہاز کو تن تنہا بحفاظت اتارنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ زمینی عملے اور ماہرین نے بھی تب پائلٹ کی مکمل مدد اور رہنمائی کی تھی۔ پائلٹ کے سینئر ہونے کی وجہ سے پرواز کے راستے میں آنے والے کم وبیش تمام ممالک کے سول اور ملٹری ایوی ایشنز اور ائیر ٹریفک کنٹرول کرنے والے اعلیٰ حکام اور زمینی عملے کے ساتھ ان کے مثالی تعلقات تھے اور ان کے تجربے اور اچھے رویّے کی وجہ سے سب ہی ان کی عزت اور احترام کرتے تھے اور قد کاٹھ اور تگڑا ہونے کی وجہ سے لوگ ان سے ڈرتے بھی تھے۔
نئی پرواز کے ٹیک آف کرنے سے پہلے معاون پائلٹ کا انتخاب بھی اچھی طرح سوچ بچار کے بعد کیا گیا تھا۔ پہلے سے موجود تمام معاون پائلٹ کسی نہ کسی وجہ سے فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کرپائے تھے۔ کچھ کرپشن کی وجہ سے فارغ ہوگئے، کچھ سزا پاگئے اور کچھ ان کے رویوں کی وجہ سے تحریری امتحان اور انٹرویو میں فیل قرار پائے۔ جس نئے معاون پائلٹ کا انتخاب کیا گیا، وہ بین الاقوامی پرواز سے پہلے کے لازمی گھنٹے پورے کرچکے تھے اور کئی ایک اندرون ملک آزمائشی پروازوں میں بھی وہ اپنے سینئرز کو مطمئن کرچکے تھے۔ کیرئیر بھی بے داغ تھا، ایمان داری کے چرچے تو عام تھے، سب سے بڑھ کر معاون پائلٹ بہت پُرعزم تھا کہ اسے جب بھی موقع ملا وہ ماضی کے ریکارڈ توڑدے گا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا اسٹیمنا بھی بہتر تھا، لیکن معاون پائلٹ کے بارے میں ایک کنسرن پر تمام شعبے متفق تھے کہ معاون پائلٹ لچک دار رویہ نہیں رکھتا اور سب کچھ کے بارے میں دو اور دو چار کی طرح سوچتا ہے۔ ناگہانی حالات میں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار نہیں کرے گا۔ بائیس سال کا فیلڈ تجربہ بھی رکھتا ہے۔ دورانِ پرواز دیگر ممالک سے راستہ بھی لینا پڑتا ہے تو مزاج کی وجہ سے مشکلات ہوسکتی ہیں۔ یہ تمام کنسرنز معاون پائلٹ کی سیکرٹ فائل میں لکھے ہونے کے باوجود سینئر پائلٹ کا خیال تھا کہ نہیں اس وقت جہاز کے لیے نیا معاون پائلٹ وقت کی ضرورت ہے۔ نئے خون کی ضرورت ہے۔ قابلِ رشک قیادت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ معاون پائلٹ کو جہاز اڑانے کا عملی تجربہ اس سے پہلے کا نہیں ہے، اس لیے اتنے بڑے جہاز میں فی الوقت معاون پائلٹ کی خدمات نہ لی جائیں، تاہم سینئر پائلٹ نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے نئے معاون پائلٹ کا انتخاب کیا۔ کو پائلٹ کی یہ پہلی بین الاقوامی انڈی پینڈنٹ پرواز ہے۔ پائلٹ نے معاون پائلٹ کو کئی طویل لیکچر دئیے۔ اپنے تجربے کی روشنی میں اس پروفیشن کی کئی باریکیوں کے بارے میں اور دورانِ پرواز پیش آنے والی مشکلات سے نمٹنے کے لیے اہم رموز سے بھی آگاہ کیا۔ بہت سے گُر سکھائے، خاص طور پر لچک دار رویّے کے فوائد سے بھی بریف کیا، اور یہ بھی بتایا کہ کبھی بھی ائیر پاکٹس اور طوفان سے قبل از وقت بچنا ہے۔ سامنے سے آنے والے طوفانوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنا رخ وقتی طور پر موڑ لینا اور خراب موسموں سے کبھی نہ ٹکرانا، اور جب بھی متعلقہ شعبے آپ کو رپورٹس ارسال کریں، ان پر اعتماد کرنا اور ان پر غور کرکے اگلی منصوبہ بندی کرنا، اور جن پائلٹس کو مسترد کیا گیا ہے اور جنہیں آف لوڈ کیا گیا ہے، ان کے داؤ پیچ سے بچنا اور کبھی بھی ان کو اکٹھے نہ ہونے دینا، کیونکہ ان کی ٹریڈ یونین بہت بڑا مافیا ہے۔ وہ آپ کو چلتے جہاز سے اتارنے کی کوشش کریں گے۔
سب کچھ سمجھنے اور سننے کے بعد پائلٹ اور معاون پائلٹ نے سفر شروع کیا۔ پرواز بالکل ہموار تھی اور اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی، پانچ گھنٹے پرواز کا دورانیہ تھا کہ اچانک سوا گھنٹے کے بعد ہی پرواز انتہائی ناہموار ہوگئی۔ دوران ِ پرواز خراب موسم کی اطلاع قبل ازوقت کنٹرول ٹاور سے موصول ہوچکی تھی۔ راستے میں آنے والے دیگر ممالک کے حکام نے بھی بچ بچا کر نکل جانے کا مشورہ دیا اور کچھ آف لوڈ کیے گئے مسافروں کی طرف سے کی گئی منصوبہ بندی اور ان سے درگزر کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ سینئر پائلٹ نے بھی ان باتوں پر دھیان دینے اور ان مشوروں پر عمل کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن معاون پائلٹ نے کسی کی ایک نہ سنی اور یہی کہا کہ جن کی وجہ سے پرواز کا یہ حال ہوا، ان سے مدد نہیں لی جائے گی اور سفر جاری رکھا جائے گا۔ پرواز کا رخ موڑنے کا کہا گیا۔ دورانِ پرواز سینئر پائلٹ بھی ایک خاص حد سے زیادہ اپنی من مانی نہیں کرسکتا۔ جہاز میں کثیرالجہتی قسم کے ایشوز پیدا ہوچکے ہیں، سوفٹ ویئر اور کمیونی کیشن سسٹم میں بھی وائرس آچکا ہے۔ پیغامات جو بھیجے جارہے ہیں، وہ صحیح طور پر سمجھے نہیں جارہے یا پھر معاون پائلٹ سمجھنے کے باوجود سمجھنا نہیں چاہ رہا، اور اپنے آئی ٹی انجینئرز کے ذریعے سسٹم کو صحیح کرنا چاہتا ہے۔ مسئلہ صرف عام مسافروں کا نہیں ہے، بلکہ جہاز میں سینئر پائلٹ اور سیکورٹی کے اعلیٰ حکام بھی سوار ہیں، جن کی اپنی زندگیاں بہت قیمتی ہیں۔ ائیرپورٹ ابھی دور ہے، کنٹرول ٹاور کنفیوژ ہے، پائلٹ کنٹرول ٹاور سے بدستور رابطے میں ہے، کبھی کبھی یہ رابطہ منقطع بھی ہوجاتا ہے،پھر بحال ہوتا ہے پھر منقطع ہوتا ہے۔ غیر یقینی کی صورت حال ایسی ہے کہ پرواز کو لینڈنگ کی اجازت نہیں مل رہی، کیونکہ موسم بے اعتبار بھی ہے اور بدستور بدلتا ہوا بھی۔ موسم کے معمول پر آنے کی کوئی مستند پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔
پرواز کے دورانیے میں ابھی بھی پونے چار گھنٹے پڑے ہیں۔ فیول کا کوئی ایشو نہیں، بس پرواز کو کچھ دیر کے لیے موسمی طوفان سے نکال کر محفوظ روٹ پر لے جائیں، کیونکہ زمینی عملے کے کچھ حکام بھی عدم تعاون پر ہیں۔ گو کہ سول اور ملٹری ایوی ایشن کا محکمہ ابھی بھی رہنمائی کررہا ہے اور متبادل روٹ میپ دے رہا ہے، لیکن معاون پائلٹ اپنی بات پر بضد ہے۔ اچانک معمولی آسمانی بجلی گرنے سے کمیونی کیشن نظام بھی معمولی سا متاثر ہوا ہے، لیکن یہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ سینئر پائلٹ نے معاون پائلٹ کو مشورہ دیا ہے کہ آپ دو گھنٹے آرام کریں اور آن لائن اپنے ساتھی ماہرین سے مشورہ بھی کرلیں۔ معاون پائلٹ ریٹائرنگ روم میں دو گھنٹے آرام اور مشاورت کے بعد واپس آیا اور پھر اپنا موقف دُہرایا کہ وہ اکیلے ہی اس پرواز کو لے کر آگے جائیں گے اور سفر جاری رکھیں گے۔ سینئر پائلٹ کو بھی انہوں نے جواب دے دیا ہے اور مسافروں سے براہِ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انہیں طوفانوں سے ڈرایا جارہا ہے۔ زمینی عملے کی طرف سے عدم تعاون کی دھمکی دی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ میں ان کی باتیں مان لُوں‘ صورت حال انتہائی گمبھیر ہے۔ سینئر پائلٹ کو بار بار کہا جارہا ہے کہ آپ فضا میں چکر لگاتے رہیں، نیچے بھی صورت حال غیر معمولی ہے۔
محکمہ سیاسی موسمیات کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی کے مضافات میں مطلع بدستور ابر آلود ہے، گرج چمک اور طوفان کا یہ سلسلہ مزید 9 دن تک جاری رہے گا۔ اس لیے سینئر پائلٹ معاون پائلٹ کو پیار محبت سے ہینڈل کررہا ہے تاکہ موسم بہتر ہوتے ہی وہ اکیلے فیصلہ کریں اور جہاز کو بحفاظت اتار لیں، تاکہ مسافر بھی بچ جائیں اور پائلٹ اور معاون پائلٹ بھی۔ مے ڈے کال آن ہے۔
(صابرشاکر ۔ روزنامہ دنیا۔19نومبر2019ء)