حضرت موسیٰ علیہ السلام

ابوسعدی
حضرت موسیٰ علیہ السلام (1520۔ 1400 ق م) بنی اسرائیل کے ممتاز انبیا میں سے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے تیسرے بیٹے لادی کی نسل سے تھے۔ ان کے والد عمران اور والدہ کا نام یوکبد ہے، جو نہایت برگزیدہ خاتون تھیں۔ یہ مصر میں فرعون کا دور تھا، جس نے خود ساختہ خدشات کے تحت بنی اسرائیل کی اولادِ ذکور کو پیدا ہوتے ہی قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ ان کی والدہ نے انھیں ایک صندوق میں بند کرکے دریائے نیل کی اس نہر میں بہا دیا جو فرعون کے محل کو جاتی تھی۔ فرعون کی بیوی آسیہؓ کی نظر اس صندوق پر پڑی تو فرعون کی اجازت سے وہ شاہی محل میں پرورش پاتے رہے، حتیٰ کہ یہیں جوان ہوئے۔ ایک مرتبہ ایک اسرائیلی پر ایک قبطی کے ظلم کو برداشت نہ کرسکے تو اسے ایک گھونسا مارا، جس سے وہ ہلاک ہوگیا، چنانچہ انھیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حضرت موسیٰ مصر سے نکل کر مدین چلے آئے اور حضرت شعیب علیہ السلام کے یہاں ٹھیرے اور یہیں پر ان کی شادی ان کی بیٹی صفورا سے ہوئی۔ وہ دس سال تک ان کی خدمت میں رہے، پھر مصر کو روانہ ہوئے۔ سردی کے موسم میں کوہِ طور کے قریب پہنچے تو رات کا وقت تھا۔ اچانک ایک سمت روشنی دیکھی تو آگ لینے گئے، مگر وہاں ایک درخت سے نور پھوٹ رہا تھا۔ یہیں پر انھیں نبوت کے لیے چنا گیا اور معجزات عطا ہوئے۔ عصا کو قوت دی گئی، لکنت ختم ہوئی اور بھائی ہارون علیہ السلام کو ان کا وزیر بنادیا گیا۔ مصر پہنچ کر فرعون کو دعوتِ حق دی۔ معرکہ حق و باطل برپا ہوا۔ جادوگروں کے مقابلے میں موسیٰ کو نصرت بخشی گئی۔ بنی اسرائیل پر سختیاں بڑھیں تو خروجِ مصر کا فیصلہ کیا۔ معجزانہ طور پر بنی اسرائیل خشک سمندر سے گزرے، مگر فرعون تعاقب کرتا ہوا اس میں غرق ہوا۔ بنی اسرائیل بیابانِ سینا میں داخل ہوئے، یہیں حضرت موسیٰ کو تورات ملی۔ 120 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تو بیابانِ سینا میں کوہِ پسگہ میں ، جو دریائے اردن کے کنارے واقع ہے، دفن ہوئے۔ بنی اسرائیل اور ان کی متعدد نافرمانیوں کی تفصیل قرآن مجید اور قصص القرآن میں جابجا ملتی ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

رنجیت سنگھ کا میراثی اور وزیر

مہاراجا رنجیت سنگھ کے ہاں سے ایک میراثی کو جب انعام ملتا تو اس کا وزیر بہت جلتا تھا اور ہر وقت مہاراجا کو اس سے برگشتہ کرنے کی تدبیریں سوچتا رہتا تھا۔ ایک دن وہ میراثی سے کہنے لگا: ہم تو تب جانیں جب تم مہاراج کو اُن کے منہ پر کانا کہہ دو، اس شرط پر کہ جتنی دفعہ تم کانا کہوگے اتنی ہی اشرفیاں انعام میں ملیں گی۔ میراثی دو مہینے دربار سے غیر حاضر رہا، جب آیا اور مہاراج کی خدمت میں حاضر ہوا تو مہاراج نے پوچھا: تم اتنے دن کہاں رہے؟ کہنے لگا: میں اپنے گائوں گیا تھا اور آتے ہوئے آپ کے گھر سے ہوتا آیا۔ مہاراج نے پوچھا: اچھا تو وہاں کی کوئی بات؟ میراثی کہنے لگا: مہاراج! کیا بتائوں آپ کی سالی بڑی شریر ہے، وہ ایسی بات کہتی تھی، جو میں زبان پر نہیں لاسکتا۔ مہاراج نے کہا: پھر بھی بتائو تو سہی کیا کہتی تھی؟ بہت اصرار پر میراثی کہنے لگا: وہ کہتی تھی سنائو کانے کا کیا حال ہے۔ یہ کہہ کر سامنے بیٹھے ہوئے وزیر کو انگلی کے اشارے سے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ کہہ لیا۔ پھر مہاراج سے مخاطب ہوکر کہنے لگا: میں نے آپ کی سالی کو بہت منع کیا لیکن وہ باز نہ آئی اور کہتی تھی: میں کہوں گی کانا، کانا، ہزار دفعہ کہوں گی۔ وزیر بہت گھبرایا اور میراثی سے کہنے لگا: بھئی اب بس کرو، میں تو لٹ گیا۔
(ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ، جون 2004ء)

دنیا

٭دنیا جس کے لیے قید خانہ ہے قبر اس کے لیے آرام دہ ہے۔ (حضرت عثمان غنیؓ)
٭جو شخص دنیا میں رہ کر دنیا کی محبت سے بچتا رہے اس نے اپنے آپ کو بھی فائدہ پہنچایا اور دوسروں کو بھی۔ (حضرت حسن بصریؒ)
٭دنیا کو جسم کی خاطر اختیار کرو اور آخرت کو دل کے لیے۔ (حضرت سفیان ثوریؒ)
٭اس دنیا کے اندر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے والا ایسا ہے جیسے اونٹ بٹھانے والا لخ لخ کرتا ہے، تو جو شخص دنیا میں غموں سے بچا اور فکروں سے دور ہے وہ عذابِ آخرت سے بہت قریب ہے اور ذلیل ہونے والا۔(حضرت ابوبکر شبلیؒؒ)
٭عقلمند وہ ہے کہ دنیا سے دستبردار ہوجائے اس سے پہلے کہ دنیا اس سے دستبردار ہوجائے۔ (حضرت شفیق بلخیؒ)

جھوٹ

ایک گڈریے کا لڑکا بڑا مسخرہ تھا۔ بکریاں چراتے چراتے جھوٹ موٹ چلّا اٹھتا:
’’لوگو دوڑو! میری بکریوں میں بھیڑیا آپڑا‘‘۔
دنیا کا دستور ہے کہ مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ لوگ دوڑ دوڑ کرگئے۔ جب دیکھا تو یہی معلوم ہوا کہ کم بخت ناحق بہکاکر لوگوں کو حیران کرتا ہے۔
ایک دن سچ مچ بھیڑیا ریوڑ میں آہی پڑا اور بے محابا لگا بکریوں کو چیرنے پھاڑنے۔ گڈریے کے لڑکے نے بہتیرا ہی بلبلا کر لوگوں کو پکارا۔ کوئی نہ آیا اور بھیڑیے نے تمام ریوڑ کا کام تمام کیا۔
حاصل: جھوٹ بولنے سے آدمی کا اعتبار جاتا رہتا ہے، کہ پھر لوگ اس کی سچی بات کا بھی یقین نہیں کرتے۔
(نذیر احمد دہلوی، منتخب الحکایات)