مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور پر تقریباً چھ صدیاں گزر چکی ہیں۔ معمورۂ عالم خدا کے پیغمبروں کی معرفت حاصل کی ہوئی صداقتِ حق کو فراموش کرچکا ہے۔ تمام نوعِ انسانی خدا کے بجائے مظاہر پرستی میں مبتلا ہے۔ ہر قوم اور ملک میں نوعِ انسان سے لے کر نوعِ جمادات تک پرستش سرمایہ نازش بنی ہوئی ہے۔ کوئی انسان کو اوتار (خدا) کہہ رہا ہے تو کوئی بیٹا۔ اگر ایک گروہ مادہ پرست ہے تو دوسرا خود اپنی آتما (روح) کو ہی خدا سمجھ رہا ہے۔ سورج کی پوجا ہے۔ چاند اور ستاروں کی پرستش ہے۔ حیوانوں، درختوں اور پتھروں کی عبادت ہے۔ آگ، پانی، ہوا اور مٹی کے سامنے ناصیہ فرسائی ہے۔ غرض کائنات کی ہر شے پرستش اور پوجا کے لائق ہے، اور نہیں ہے تو ذاتِ واحد قابلِ پرستش نہیں ہے ،نہ اس کی احدیت کا تصور خالص ہے اور نہ صمدیت کا۔ اگر اس کو مانا بھی جاتا ہے تو دوسروں کی پرستش اور عبادت کے ذریعے۔ وہ اگر خالقِ موجودات ہے بھی تو انسان، درخت پتھر کے بل بوتے پر۔ غرض ساری دنیا میں اصل کارفرمائی مظاہر کی ہے اور ذاتِ حق میں صرف نام کے لیے۔ حقیقت سے چشم پوشی تھی، مگر مجاز کی عبادت گزاری شعار عام تھا۔ اور ہر طرف مَانَعْبُدُهُمْ اِلَّالِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللّٰهِ زُلْفَى(الزمر:3)
ہم ان کو نہیں پوجتے مگر اس کے لیے تاکہ وہ خدا کی جانب ہماری قربت کا ذریعہ بن جائیں ،کا مظاہرہ نظر آتا تھا۔
یہی وہ تاریک دور تھا جس میں سنتہ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے قانونِ ہدایت نے پھر ماضی کی تاریخ کو دہرایا اور غیرتِ حق نے فطرت کے قانونِ ردعمل کو حرکت دی۔ یعنی آفتابِ ہدایت، برجِ سعادت سے نمودار ہوا اور چہار جانب چھائی ہوئی شرک و جہالت اور رسم و رواج کی تاریکیوں کو فنا کرکے عالمِ ہست و بود کو علم و یقین کی روشنی سے منور کردیا۔
9ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء (جدید تحقیق کے مطابق 17 جون 569ء، دوشنبہ) کی صبح وہ صبح سعادت تھی جب مدنیت و حضارت سے محروم، بن کھیتی کی سرزمین مکے کے ایک معزز قبیلے (بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبدالمطلب کے یہاں آمنہ بنت ِ وہب کے مشکوئے معلی سے آفتابِ محمد مصطفیؐ نے ظہور کیا۔
خدایا وہ صبح کیسی سعادت افروز تھی جس نے کائناتِ ارضی کو رشد و ہدایت کے طلوع کا مژدئہ جاں فزا سنایا، تو وہ ساعت کیسی مبارک و محمود تھی جو معمورۂ عالم کے لیے پیغام ِبشارت بنی۔ عالم کا ذرہ ذرہ زبانِ حال سے نغمے گا رہا تھا کہ وقت آپہنچا کہ اب دنیائے ہست وبود کی شقاوت دور اور سعادتِ مجسم سے عالم معمور ہوا، ظلمت ِشرک و کفر کا پردہ چاک اور آفتاب ِہدایت روشن اور تاب ناک ہوا۔ مظاہر پرستی باطل ٹھیرے اور خدائے واحد کی توحید حیات قرار پائے!
(تعمیر افکار، کراچی، مارچ 2010ء)
تسلیم و رضا
ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا
پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا!
ظلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا
ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشو و نما کا!
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا!
جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مردِ خدا ملکِ خدا تنگ نہیں ہے
ظلمت کدہ: اندھیرا گھر۔
(1) پودوں کو دیکھو، ان میں شاخیں کس طرح فضا میں پھیلتی رہتی ہیں۔ گویا ہر شاخ زبانِ حال سے یہ پیچ دار نکتہ واضح کرتی رہتی ہے کہ پودوں کو فضا کی کشادگی اور وسعت کا احساس ہے۔ اگر یہ احساس نہ ہوتا تو وہ ہر طرف کیوں پھیلتے؟
(2) اور دیکھو، دانے کو مٹی کے اندھیرے گھر میں ڈال دیا جاتا ہے، لیکن وہ وہاں رہنا پسند نہیں کرتا بلکہ ہر لحظہ اسے یہی خیال رہتا ہے کہ نشوونما پاکر زمین سے باہر نکل آئے۔ گویا اسے بھی فضا کے کشادہ ہونے کا احساس ہے۔
(3)نباتات کے ان طور طریقوں سے تُو بھی سبق حاصل کر۔ فطرت کے جو تقاضے ہیں ان کی راہِ عمل کیوں روکتا ہے؟ انہیں بے تکلف پورا ہونے دے۔ تُو اپنے آپ کو تسلیم و رضا کا پابند بناتا ہے۔ کیا تسلیم و رضا کا مطلب یہ ہے کہ نشوونما کے فطری تقاضوں کو دبایا جائے؟ ہرگز نہیں۔ تسلیم و رضا کا مقصد اور ہے۔
(4) اگر تجھ میں نشوونما اور پھیلائو کی ہمت ہے تو خوب پھیل۔ فضا تیرے لیے تنگ نہیں۔ خدا کے بندے خدا کا ملک بہت وسیع ہے۔
نظم کا ماحصل یہ ہے کہ انسان کو اپنی طبعی اور فطری قوتوں سے انتہائی حد تک کام لینا چاہیے اور اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھنی چاہیے۔ اس کے بعد نتیجہ خدا کے فضل و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر انسان کا عمل خدا کی رضا کے عین مطابق ہو تو وہ خدا کے بھروسے پر مسلسل جدوجہد کرتا جائے۔ خدانخواستہ نتیجہ خلاف بھی ہو تو اس پر صبر کرے اور اپنی قوتِ عمل کو افسردہ نہ ہونے دے۔ تسلیم و رضا کا مفہوم یہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔