بابری مسجد: بھارتی سپریم کورٹ کا متعصبانہ فیصلہ، عالم اسلام کی ”سفاکانہ“ خاموشی

اتنے بڑے سانحے کو جس طرح نظرانداز کیا گیا ہے اور اس پر جس طرح کی خاموشی پورے ملک میں دیکھنے میں آئی ہے، وہ نہایت کربناک ہے

عین اُس وقت جب پاکستان میں یومِ اقبال کو فراموش کرکے یک طرفہ خیر سگالی اور روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 9 نومبر کو کرتارپور راہداری کا افتتاح وزیراعظم پاکستان عمران خاں اپنے ہاتھوں سے کررہے تھے، بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس امر پر مہرِ تصدیق ثبت کردی کہ بھارت اب پوری طرح انتہا پسند ہندو سوچ کے تسلط میں جا چکا ہے جہاں اقلیتوں خصوصاً مسلمان اقلیت کے لیے زندہ رہنا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر بنایا جارہا ہے، اور اس صورتِ حال کو پروان چڑھانے میں وہاں کی صرف ہندو انتہا پسند جماعتیں ہی پیش پیش نہیں بلکہ وہاں کی حکومت، عدالتیں اور پورا نظامِ کار ان کا ہم نوا اور سرپرست ہے۔ 27 برس قبل 6 دسمبر 1992ء کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے دور میں 1527ء میں تعمیر ہونے والی تاریخی بابری مسجد کو شہید کرنے کا جو کارنامہ انتہا پسند ہندو تنظیموں کی نگرانی میں سرانجام دیا گیا تھا، اور جس کے بعد اس لاقانونیت پر احتجاج کرنے کی پاداش میں پورے بھارت میں مسلمانوں کو جس طرح ہندو اکثریت کی طرف سے ظلم و جبر اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور تشدد کے واقعات میں دو ہزار کے قریب مسلمانوں کو موت کی آغوش میں سلا دیا گیا تھا، 9 نومبر کو بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس تمام لاقانونیت، ظلم، جبر اور تشدد پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔
بھارتی سپریم کورٹ نے محفوظ شدہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ متنازع زمین پر ہندوؤں کا دعویٰ جائز ہے، تاریخی شواہد کے مطابق یہ رام کی جنم بھومی ہے، مسلمانوں کو ایودھیا میں بابری مسجد کی تعمیر کے لیے 5 ایکڑ متبادل جگہ دی جائے۔ عدالت نے مرکز اور اترپردیش کی ریاستی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس متبادل زمین کا انتظام کریں۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے 3 ماہ میں ٹرسٹ قائم کرنے اور ایودھیا کے حوالے سے ایکشن پلان تیار کرنے کی ہدایت بھی دی۔ بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے نرموہی اکھاڑے کا دعویٰ مسترد کردیا، جب کہ عدالت نے شیعہ وقف بورڈ املاک کی درخواست بھی مسترد کردی۔ بھارتی عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس رنجن کوگوئی کا کہنا تھا کہ 5 رکنی بینچ کا بابری مسجد کیس کا فیصلہ متفقہ ہے۔ بینچ میں ایک مسلمان جج جسٹس ایس عبداللہ بھی شامل تھے۔ جسٹس کوگوئی نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہندو ایودھیا کو رام کی جنم بھومی کہتے ہیں، جب کہ مسلمان اس جگہ کو بابری مسجد کہتے ہیں، عقیدے کی بنیاد پر حقِ ملکیت طے نہیں ہوگا، ملکیت کا فیصلہ صرف قانونی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ آثارِ قدیمہ کے مطابق ایودھیا کی بابری مسجد 1527ء میں کسی خالی زمین پر نہیں بنائی گئی تھی، آثار قدیمہ کے مطابق مسجد کے نیچے کسی مندر کے باقیات تھے اور محکمے نے اس کے ثبوت بھی پیش کیے، لیکن آثارِ قدیمہ نے یہ نہیں کہا تھا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر اس کے اوپر تعمیر کی گئی تھی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ بابری مسجد خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی، مسجد کے نیچے غیر اسلامی عمارتی ڈھانچہ موجود تھا، مسلمانوں نے کبھی بھی بابری مسجد پر قبضہ نہیں کھویا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ 1856ء تک بابری مسجد کی جگہ پر باقاعدگی سے نماز کی ادائیگی کے ثبوت نہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ استغاثہ مسجد کے اندرونی حصوں میں ادائیگیِ نماز کا ثبوت نہ دے سکا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ہندوؤں کو بابری مسجد کی 2.77 ایکڑ اراضی دی جائے، جب کہ بھارتی حکومت کی نگرانی میں مسجد کی جگہ مندر بنے گا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ 3 ماہ میں بھارتی حکومت بورڈ تشکیل دے کر اسکیم تیار کرے۔ جسٹس کوگوئی نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ 1949ء میں بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنا عبادت گاہ کی بے حرمتی کا عمل تھا، اور 1992ء میں اسے منہدم کیا جانا قانون کی خلاف ورزی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 1949ء میں مسلمانوں کو مسجد سے بے دخل کیے جانے کا عمل قانون کے تحت نہیں تھا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کا زمین کو 3 حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ عقیدے پر بات کرے، عبادت گاہوں کے مقام سے متعلق ایکٹ تمام مذہبی برادریوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 16 اکتوبر کو بابری مسجد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
بابری مسجد کیس کے مسلمان فریق مسلم وقف بورڈ نے نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وکیل ظفر یاب جیلانی نے کہا ہے کہ ہم عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن تحفظات برقرار ہیں۔ عدالت کا فیصلہ ہمارے حق میں نہیں۔ 5 ایکڑ زمین ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، ہماری شریعت کے مطابق ہم اپنی مسجد کسی کو نہیں دے سکتے، مسجد اللہ کی ہے اور اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت ِ عظمیٰ کے فیصلے میں تضاد ہے۔ جن ثبوتوں کو ہندوؤں کے حق میں لیا گیا وہیں مسلمانوں کے ثبوت مسترد کردیے گئے۔ وکیل ظفر یاب جیلانی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ نماز ہوئی، پھر کیسے نظرانداز کردیا۔ ہمارا مؤقف سمجھا نہیں گیا، ہمیں متبادل زمین نہیں چاہیے۔ علاوہ ازیں آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور بھارتی لوک سبھا کے رکن اسد الدین اویسی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتِ عظمیٰ مقدم ہے لیکن خطا سے مبرا نہیں، اپنے حق کے لیے لڑ رہے تھے، ہمیں مسجد کے لیے 5 ایکڑ زمین کی خیرات کی ضرورت نہیں ہے، بھارت کا مسلمان اتنا گیا گزرا نہیں کہ وہ مسجد کی تعمیر کے لیے 5 ایکڑ نہ خرید سکے۔ ہمیں کسی سے بھیک کی ضرورت نہیں ہے، مسلمان مسجد کی تعمیر کے لیے خود زمین خرید سکتے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج، ممتاز قانون دان مرکنڈے کاٹجو نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی تاریخ کا کم تر فیصلہ قرار دیا، کیونکہ اس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی تائید کرتے ہوئے واضح جارحیت کی حمایت کی گئی ہے۔ مرکنڈے کاٹجو کی رائے میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے ذریعے خطرناک رجحان کی بنیاد رکھ دی ہے، پانچ سو سال قبل مندر گراکر مسجد تعمیر کرنے کی بات احمقانہ ہے، ایسی باتیں کچھ لوگوں کے ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے ہیں۔ قبل ازیں بھارت کے بین الاقوامی شہرت کے حامل ممتاز ماہرِ آثارِ قدیمہ و تعمیرات مسٹر ورما نے عدالت میں دلائل سے ثابت کیا کہ یہ رپورٹ نمبر 130 سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کسی رام مندر کو گراکر تعمیر کی گئی تھی۔ مستند ماہرِ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے انہوں نے عدالت میں اس دعوے کو چیلنج کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کی جگہ بنائی گئی ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے نمائندوں اور انصاف پسند ہندو دانشوروں کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل یقیناً غنیمت ہے، مگر مسلم ممالک نے اس معاملے سے مجموعی طور پر جس لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ”امتِ مسلمہ“ کا تصور اب قصہئ پارینہ ہوچکا ہے، اب دنیا میں آباد مسلمان ہونے کے دعویدار دو ارب کے قریب انسان مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہیں، دیگر ممالک کی بات تو بعد کی ہے خود پاکستان میں حکومت اور عوام کی سطح پر اتنے بڑے سانحے کو جس طرح نظرانداز کیا گیا ہے اور اس پر جس طرح کی خاموشی پورے ملک میں دیکھنے میں آئی ہے، وہ نہایت کربناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی حکومتی جارحیت کے خلاف مسلمانانِ عالم کا لاتعلقی اور سفاکانہ خاموشی کا رویہ ہی کچھ کم اذیت ناک نہیں کہ اب بابری مسجد کے معاملے پر بھی ”ہمیں کیا“ کا طرزِعمل اپنا لیا گیا ہے۔ ایک سچے مسلمان کے جذبات کے عکاس بزرگ شاعر محترم عنایت علی خاں کے بقول ؎

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

کاش ”امتِ مسلمہ“ نام کی کوئی چیز زندہ ہوتی۔ کاش اسلامی کانفرنس کی تنظیم ہی کے وجود میں کچھ سانس باقی ہوتی۔ کاش اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں میں ہی غیرتِ ملّی بیدار ہوتی تو آج ساری مسلم دنیا ”ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم“ کی تصویر بنی دکھائی نہ دیتی۔ اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھایا جاسکتا تھا، اقوام متحدہ میں لے جایا جا سکتا تھا، عالمی عدالتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا تھا، عالمی امن، انسانی اور اقلیتوں کے حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی کے علَم برداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑا جا سکتا تھا…… مگر اس سب کچھ کے لیے پہلے اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا، جو گہری نیند سوچکا ہے۔

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اسے اسلام کی حقانیت کا واضح ثبوت ہی قرار دیا جائے گا کہ جس شخص نے بابری مسجد کو گرانے کی مہم کی قیادت کی تھی وہ اور اس مہم میں شامل دیگر دو افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔ اس آدمی کا نام داس سبہری سنگھ تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے محمد عامر کا نام اختیار کر لیا۔ وہ آر ایس ایس کا ایک مشہور لیڈر تھا۔ وہ ہی تھا جو پھاوڑا لے کر سب سے پہلے مسجد کے گنبد پر چڑھا تھا۔ محمد عامر کے دوست محمد عمر کا اسلام قبول کرنے سے پہلے نام یوگندر پال تھا۔ تیسرا شیو پرشاد بجرنگ دل کا یوتھ لیڈر تھا۔ اس نے مسجد کے انہدام میں جنونیوں کی طرح کام کیا لیکن اس سانحہ کے بعد اس کی سوچ نے پلٹا کھایا اور وہ شارجہ پرواز کر گیا جہاں اس نے بھی اپنے پہلے دو ساتھیوں کی طرح اسلام قبول کر کے محمد مصطفی نام رکھ لیا۔