شر سے خیر نکالنے کا ہنر سیکھیے

محمد رضی الاسلام ندوی
کتنی عجیب بات ہے کہ جب کوئی گروہ کسی حادثے سے دوچار ہو، وہ غم سے نڈھال ہورہا ہو اور اس پر مایوسی طاری ہو، تب اس سے کہا جائے کہ تم اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو، اس میں تمھارے لیے خیر پنہاں ہے…… لیکن غور کیا جائے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے، بلکہ یہ زندہ و تابندہ حقیقت ہے۔ انسانی تاریخ میں بارہا اس کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے اور قرآن مجید نے اسے ایک اصول کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
ہجرتِ مدینہ کے پانچویں سال مسلمان ایک حادثے سے دوچار ہوئے۔ دشمنوں نے ان کے پیغمبر کی عزت پر داغ لگانا چاہا۔ افواہ تیزی سے گشت کرنے لگی۔ بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ مدینہ کے ماحول میں سخت کشیدگی پیدا ہوگئی۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی، جس نے حقیقت سے پردہ اٹھادیا اور دشمن اپنی سازش میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ اس موقع پر قرآن مجید نے جہاں واقعہ کے تمام پہلوؤں پر بھرپور تبصرہ کیا، وہیں صاف الفاظ میں یہ بھی بتادیا کہ اسے اپنے حق میں شر نہ سمجھو، بلکہ یہ باعثِ خیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ”اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو، بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے۔ (النور:11)
بابری مسجد کے بارے میں ہندوستان کی سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے وہ بظاہر یہاں کے مسلمانوں کے بارے میں ’شر‘ معلوم ہورہا ہے۔ ان کی مسجد، جس کی تعمیر جائز زمین پر کی گئی تھی، جس میں کئی سو برس تک پابندی سے نماز ادا کی جاتی رہی تھی، اس پر غاصبانہ قبضہ کیا گیا، اسے دن کی روشنی میں ڈھادیا گیا، اور اب انہیں اس سے محروم کرکے اسے مندر بنانے کے لیے دے دیا گیا ہے۔ اس صریح زیادتی پر ان کے دل مغموم ہیں اور وہ بڑی بے چارگی محسوس کررہے ہیں، لیکن انھیں چاہیے کہ وہ اس واقعے کو اپنے حق میں ’خیر‘ سمجھیں اور اسے تعمیری اور مثبت رخ دینے کی کوشش کریں۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کے حق میں ’شر‘ دکھائی دے رہے تھے، مگر بعد میں ان کے بطن سے ’خیر‘ رونما ہوا۔ خانہ کعبہ میں سیکڑوں بت پوجے جاتے تھے، لیکن بعد میں وہ توحید کا مرکز بنا۔ طائف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو لہولہان کیا گیا، لیکن بعد میں پورا طائف حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا۔ یہودی قبیلوں بنو قینقاع اور بنو نضیر کو جلاوطن کرنے کے بعد خیبر اسلام دشمنوں کا گڑھ بن گیا تھا، لیکن بعد میں وہاں اسلام کا جھنڈا لہرایا۔ چنگیز و ہلاکو نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور دجلہ و فرات کا پانی انسانی خون سے سرخ ہوگیا، لیکن بعد میں وہ اسلامی تہذیب کا ترجمان بنا۔ تاتاریوں نے ہزاروں مسلمانوں کا خون کیا اور ان کی یلغار نے مسلمانوں کو ذلت و خواری کے عمیق غار میں دھکیل دیا، لیکن بعد میں خود تاتاری قوم اسلام کی پاسبان بن گئی۔ اندلس میں آٹھ سو برس تک مسلم حکمرانی کے بعد مسلمانوں کا وہاں سے یکدم صفایا کردیا گیا، لیکن اندلس یورپ میں علم و ہنر کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنا۔
اِس وقت یہ موقع نہیں کہ مسلم قیادت پر الزامات لگائے جائیں، جیسا کہ بہت سے لوگ کررہے ہیں۔ اس وقت یہ کہنے کا موقع نہیں کہ اگر یہ کیا جاتا تو ایسا نہ ہوتا، اگر فلاں کی بات مان لی گئی ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں۔ غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کا بڑا جانی نقصان ہوا تھا، بعض لوگوں کی طرف سے اسی طرح کی باتیں کہی گئی تھیں، جنھیں سورہ آل عمران میں نقل کیا گیا ہے، مثلاً اگر ہمیں قائدانہ اختیارات ہوتے تو اتنے لوگ جان سے ہاتھ نہ دھوتے (154)، اگر وہ میدانِ جنگ سے دور رہتے تو یوں نہ مارے جاتے (156)، اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ ہوتے (168)۔ قرآن مجید نے ان باتوں کو ’ظن الجاھلیۃ‘ (جاہلانہ گمان) قرار دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر تمھیں کوئی تکلیف پہنچ جائے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں یہ کرتا تو ایسا ہوجاتا، اگر یہ کرتا تو ایسا ہوجاتا، بلکہ یہ کہو کہ اللہ نے یہی مقدر کررکھا تھا، اور اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ’اگر‘ شیطان کا دروازہ کھول دیتا ہے۔“ (مسلم: 2664)اس موقع پر مسلم قیادت کو چاہیے کہ اپنا احتساب کرے، اپنے سابقہ کاموں کا جائزہ لے، جہاں جہاں اس سے کوتاہیاں ہوئی ہوں انھیں دور کرنے کی کوشش کرے۔ مستقبل میں ملک میں اسلام کی دعوت پھیلانے اور اللہ کا پیغام عام کرنے کے منصوبے بنائے، اور عام مسلمانوں کو چاہیے کہ قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے ان منصوبوں کو شرمندہئ تعبیر کرنے کے لیے پُرعزم ہوں۔ ان شاء اللہ ان کی سرگرمیاں رنگ لائیں گی اور ان کی جدوجہد سے ملک میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ و ما ذلک علی اللّٰہ بعزیز (اللہ کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں ہے)۔