کشمیر: جارحانہ سفارتی ڈپلومیسی اختیار کی جائے

کشمیر فورم کے چیئرمین اور آئی آئی ایس ایس آر کے ڈائریکٹر جاوید الرحمان ترابی سے انٹرویو

ریاست کشمیر میں سیاسی، ادبی اور علمی شعبے میں پروفیسر الیف الدین ترابی کا نام بہت معتبر حوالہ ہے۔ انہوں نے کشمیر کا مقدمہ بڑی جرأت کے ساتھ لکھا اور دنیا بھر میں بیان کیا۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ ان کا بنایا ہوا ادارہ ہے۔ یہ پودا اب ان کے صاحب زادے جاوید الرحمان ترابی کی نگرانی اور عملی سرپرستی میں کام کررہا ہے۔ یہاں ریسرچ کا کام مسلسل جاری ہے۔ آج کشمیر کے جو حالات ہیں ان پر جاوید الرحمان ترابی سے گفتگو ہوئی جو نذرِ قارئین ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آج ستّر سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے، کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے بلکہ الجھ رہا ہے۔ اس وقت عالمی برادری کشمیر کے عوام کو ان کا سیاسی حق دینے کے لیے کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟ کشمیر کی تاریخ میں 27 اکتوبر کی کیا اہمیت ہے؟
جاوید الرحمان ترابی: بھارتی فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور محاصرے کو 100 روز ہوچکے، اس طویل بندش کی وجہ سے وادی میں ادویہ اور خوراک کی قلت پیدا ہونے سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ کشمیری عوام تمام تر پابندیوں کے باوجود بھارت کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں، جن پر بھارتی فوج کی براہِ راست فائرنگ اور پیلٹ گنوں کے استعمال سے شہری ہلاک اور زخمی ہورہے ہیں۔ دنیا بھر میں کشمیری عوام عالمی برادری کے سامنے چیخ چیخ کر بھارتی مظالم بے نقاب کررہے ہیں، آہ و زاری کررہے ہیں، عالمی میڈیا اور اخبارات کی خبریں، تصویریں اور شہ سرخیاں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ عالمی برادری کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اقوام متحدہ بھی ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ زبانی کلامی بھارت پر کشمیر میں حالات بہتر بنانے پر زور ڈالا جاتا ہے۔ عملاً اُس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا۔ کشمیری عوام سراپا احتجاج ہیں۔ آخر ان کی آواز عالمی سطح پر کب سنی جائے گی؟ بھارت کے مظالم کا سلسلہ کب تھمے گا؟ کشمیریوں کو ان کا چھینا گیا حقِ خودارادیت کب واپس ملے گا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرسکیں۔ اقوام متحدہ ایک عالمی فورم ہے، سلامتی کونسل بھی اہم عالمی ادارہ ہے جہاں ہمیشہ امن کی بات کی گئی ہے اور دنیا بھر میں رہنے والے لوگوں کے سیاسی اور انسانی حقوق کی بات کی جاتی رہی ہے، لیکن کشمیر پر کوئی بات نہیں کرتا جہاں ہر روز کشمیری اپنے حق کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہورہے ہیں۔کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس پہلے بھی ہوتے رہے لیکن اِس بار ایک خاص وجہ ہے کہ اجلاس میں مقبوصہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال اور پانچ اگست کے فیصلے اور کرفیو پر عالمی برادری نے بات کی۔ دنیا کے سامنے گواہی دی گئی کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں بدترین سطح پر جاکر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ ستائیس اکتوبر کی تاریخ ہماری سیاسی تحریک کے لیے بہت اہم ہے، یہ وہی دن ہے جب بھارتی فوج کشمیر میں اتری اور قبضہ کیا، اور اس کے بعد بھارت اقوام متحدہ میں چلا گیاکہ وہ رائے شماری کرائے گا، لیکن آج تک یہ نہیں ہوسکا۔ اور اسی لیے ہم کشمیری عوام یہ دن یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ19 جولائی کو انقلابی حکومت قائم ہوئی، قراردادِ الحاق منظور کی گئی، 15 اگست کو راولا کوٹ میں اعلانِ بغاوت ہوا اور اس کے بعد کشمیر کا یہ خطہ جسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے، بھارت کے پنجے سے چھڑایا گیا۔ مجاہدین اُس وقت بارہ مولا تک پہنچ گئے تھے، لیکن بھارت نے راجا کے جعلی خط کی بنیاد پر کشمیر کا الحاق اپنی جانب کرکے فوج اتاری اور قبضہ کرلیا۔ ہم اس قبضے کو نہیں مانتے، اور اقوام متحدہ کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ رائے شماری کرائے تاکہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں۔ کشمیری قوم آج تک لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکی ہے، ہمارے پی ایچ ڈی نوجوان شہید ہوئے ہیں۔ منان وانی پڑھا لکھا نوجوان تھا، اس سے قبل مظفر وانی شہید ہوا، اور ہزاروں قیمتی نوجوان شہید ہوچکے ہیں، خواتین، بچے اور بوڑھے اس تحریک میں شہید ہوچکے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ حکومت کررہی ہے، کشمیریوں کے لیے کافی ہے؟
جاوید الرحمان ترابی: دنیا بھر میں جمہوری اور صحافتی آزادیوں پر نظر رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ فریڈم ان دا ورلڈ 2019 کے نام سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں دنیا کے جن ایک سو ملکوں میں جمہوری حقوق، شہری اور صحافتی آزادیوں کی درجہ بندی کی گئی ہے، ان میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے کشمیر میں موجود جمہوری آزادیوں کی الگ الگ درجہ بندی پیش کی گئی ہے۔ یہ درجہ بندی 2018ء کے دوران کی گئی ہے، جب بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ہٹاکر کشمیر کو بھارت میں ضم نہیں کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں سال 2018ء کے دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر کو جمہوری آزادیوں کی درجہ بندی میں 49 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ یعنی وہاں جزوی طور پر آزادیاں حاصل تھیں۔ رپورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے زیرِ قبضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت تبدیل کرنے اور وہاں عائد کی گئی حالیہ پابندیوں کا احاطہ نہیں کیا گیا، اور اس سلسلے میں تمام جائزے اس سے قبل کی صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جون 2018ء میں ریاست میں منتخب مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اگست 2019ء میں بھارتی زیرانتظام کشمیر کی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ سال جمہوری آزادیوں کے عالمی ریکارڈ میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کا رپورٹ کارڈ مختلف تصویر پیش کرے گا۔ غاصب ترین بھارتی فوجی مظلوم کشمیریوں پر ایسے ایسے ظلم ڈھا رہے ہیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ سیدھی فائرنگ سے قتلِ عام اور پیلٹ گنوں سے لوگوں کو اندھا کرنا، عصمت دری، ٹارچر، جبری غائب کرنا، سیاسی دباؤ اور آزادیِ رائے پر پابندیاں روزمرہ کا معمول ہیں، لیکن اس کے باوجود عالمی برادری اور انسانی حقوق کے نام نہاد علَم بردار ان مظالم پر اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اپنی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل نہیں کرا سکی، بلکہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام پر غاصب بھارتی فوجیوں کے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 27 اکتوبر کا دن محض خالی خولی تقریروں، نعروں اور چھوٹی موٹی تقریروں میں گزار دیا جاتا ہے، ہم باتیں اور زبانی کلامی حمایت کے دعوے ہی کرتے رہ گئے اور مودی نے مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کرکے اسے تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی کشمیریوں کو کوئی ریلیف نہ دے سکی۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے 74 ویں اجلاس سے دھواں دھار خطاب کیا، لیکن لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اسے گھول کر پینا ہے یا تعویذ بناکر گلے میں ڈالنا ہے! بہتر ہوتا اگر کشمیر میں استصوابِ رائے کے لیے کوئی تاریخ مقرر کرنے کی تحریک پیش کردی جاتی۔ کشمیریوں کا یہ وہ حق ہے جو اُنہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دے رکھا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جارحانہ سفارتی ڈپلومیسی کی پالیسی اختیار کریں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزارتِ خارجہ اس پہلو پر سنجیدگی سے غور نہیں کررہی۔ دوسری طرف یہ امر اور بھی تکلیف دہ ہے کہ بھارت نے کشمیر میں مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے ہماری توجہ لائن آف کنٹرول کی طرف مبذول کرا دی ہے، تاہم پاکستان نے ایک زبردست کام یہ کیا کہ کنٹرول لائن پر بھارتی بمباری دکھانے کے لیے اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفیروں کو لائن آف کنٹرول کا دورہ کرا دیا۔ بھارتی پہلے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ہدف بنائے ہوئے تھے، اب اُنہوں نے آزاد کشمیر کی شہری آبادی کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ بھارت نے صرف 2018ء میں 3 ہزار 38 بار سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کی، جس میں 58 شہری شہید اور 319 زخمی ہوئے۔ 2019ء کا گیارہواں مہینہ (نومبر) شروع ہوچکا ہے، اور وہ اب تک سیزفائر لائن کی2 ہزار 608 بار خلاف ورزیاں کرچکا ہے، جس میں 44 شہری شہید اور 230 زخمی ہوئے۔ بھارت کی طرف سے سیزفائر لائن کی خلاف ورزیاں برابر بڑھتی جا رہی ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: مقبوضہ کشمیر میں اس وقت سخت مزاحمت ہورہی ہے، آپ کے پاس اس حوالے سے تازہ ترین اطلاعات کیا ہیں؟
جاوید الرحمان ترابی: آج سوواں دن مکمل ہونے کو ہے۔ وہاں کرفیو ہے اور بدترین تشدد اور گرفتاریاں جاری ہیں، کم و بیش دو ہزار نوجوان اور سینکڑوں مسلم کشمیری خواتین عقوبت خانوں میں قید کردی گئی ہیں۔ یہ ایک عالمی منصوبہ بندی اور سازش ہے، جسے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ بھارت نے پہلے پانچ اگست کا اقدام کیا، پھر وہاں پر انتظامی حد بندی کرنا شروع کی، اور اب مردم شماری کرانے جارہا ہے۔ بھارت اور اسرائیل دو ایسے ملک ہیں جو مزاحمت کی تحریک کوکچلنے کے لیے کیمیائی ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ کشمیری جوان اپنا گرم خون دے رہے ہیں اور پاکستان ہمارا وکیل ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس جانب متوجہ ہو۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپیل کی ہے اور وہ کشمیر بچاؤ مارچ بھی کررہے ہیں، حکومت کوچاہیے کہ وہ دنیا بھر میں پاکستان کے سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک بنائے اور کشمیر کے لیے نائب وزیر خارجہ مقرر کیا جائے۔ بھارت میں 19شہریوں کے گروپ نے نریندرمودی کی حکومت کو کھلا خط لکھا ہے۔ بھارتی حکومت بدترین حد تک کشمیریوں کے انسانی حقوق پامال کررہی ہے، اسرائیل اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ ابھی حال ہی میں فیس بک کی ملکیتی کمپنی واٹس ایپ نے اسرائیل کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی این ایس او گروپ پر مقدمہ دائر کیا ہے کہ اس نے جاسوسی میں مختلف حکومتوں کی مدد کرنے کے لیے دنیا بھر میں اس کے صارفین کے موبائل فون ہیک کیے۔ مودی حکومت کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت بتائے کہ کیا اس نے ہماری نگرانی بڑھا دی ہے؟ ایک اسرائیلی کمپنی نے چار براعظموں میں 1400 صارفین کے موبائل فون ہیک کیے جن میں سفارت کار، سیاسی مخالفین، صحافی اور سینئر حکومتی عہدیداران کو نشانہ بنایا گیا۔ سان فرانسسکو کی فیڈرل کورٹ میں دائر مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ این ایس او اسرائیلی حکومت کے 20 ممالک میں جاسوسی کے عمل میں سہولت کاری کررہی ہے، سول سوسائٹی کے سو سے زائد ارکان کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف کی جانب سے بھی پاکستان کو واضح انداز میں جنگ کی دھمکی دی گئی۔ بھارتی حکومت کے حامی میڈیا میں بھی پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگی فضا بنائی جانے لگی۔ نام نہاد ”سرجیکل اسٹرائیک“ کی دھمکی دی جاتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں کھل کر بات کی ہے، اور پورا پاکستان کشمیری عوام کے سفارتی، سیاسی اور اخلاقی میدانوں میں وکیل ہے، ہمیں مزید کیا کرنا ہے؟
جاوید الرحمان ترابی: اقوام متحدہ میں پاکستان کا کیس یہ ہے کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے کشمیری عوام کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان کا یہ مؤقف اقوام متحدہ اور اقوام عالم کے سامنے ہے اور کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کشمیر میں رائے شماری کے لیے کشمیری عوام کا مطالبہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کشمیری عوام نے کبھی اپنے ان مطالبات کے حوالے سے کسی بھی عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اپنی مرضی کے مطابق بنیادی حق کے ساتھ زندگی بسر کرنا کشمیریوں کا حق ہے۔ اقوام متحدہ اپنے چارٹر کے مطابق کشمیری عوام کے اس حق کو جائز سمجھتی ہے، لیکن اس کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں ہے۔ بھارت دو طرح کے قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے، پہلا یہ کہ کشمیری عوام کے لیے رائے شماری کا کوئی انتظام نہیں کررہا، دوسرا یہ کہ گھروں میں سرچ آپریشن اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی فوج نے آپریشنز کے دوران اسرائیلی ساختہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیئے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف میں جاسکتا ہے؟
جاوید الرحمان ترابی: یہ انسانی اور سیاسی معاملہ ہے جس کا تعلق اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ بنیادی حقوق سے ہے، اور بنیادی حق کا معاملہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے اندر ہی اٹھایا جاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارتی فوج کے سربراہ تو جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں؟
جاوید الرحمان ترابی: بھارتی حکومت کی ترجیح اس خطے میں یہ رہی کہ یہاں امن قائم نہ رہنے دیا جائے اور دنیا میں پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی کیس تیار رکھا جائے۔ لیکن پاکستان نے بھی بہت بہتر مؤقف اپنایا اور بار بار کہا کہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ وزرائے خارجہ کی ملاقات میں انقلابی اقدامات اور ایک ہی نشست میں تنازعات طے ہونے کے لائحہ عمل کے ترتیب پانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ نریندر مودی وعدے اور دعوے پورے کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں نے بھارتی فورسز کی ناک میں دم کررکھا ہے۔ بی جے پی کے پاس اب پاکستان دشمنی کا روایتی حربہ ہی باقی بچا ہے۔ بھارتی جنرل کے بیان پر صرف ہنسی آتی ہے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران بھارتی وزیرخارجہ آنجہانی سشما سوراج نے تمام سفارتی آداب کو پاؤں تلے روندا تھا، جس سے عیاں ہوتا ہے کہ بھارت کسی عالمی قانون کی پابندی اور اپنے معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کبھی بھی دوطرفہ مذاکرات پائیدار اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے جس کی بنا پر ثالث کو کردار ادا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ یورپی یونین، او آئی سی، اقوام متحدہ سمیت بااثر ممالک بھارت کو مسئلہ کشمیر کے دیرپا حل پر آمادہ کرنے کے لیے دباؤ بڑھائیں۔