شام: تیل کے وسائل پر امریکی قبضہ؟

داعش سے لڑائی محض ایک بہانہ، جبکہ ترکی اصل نشانہ تھا

ترکی سے امن معاہدے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ شامی علاقے سے واپس ہوتی امریکی فوج کے کچھ سپاہی مشرقی شام میں تیل کے میدانوں اور تنصیبات کے قریب تعینات کیے جائیں گے تاکہ یہ وسائل داعش کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔
بحرِ روم کے مشرقی کنارے پر لبنان، شام، عراق، ترکی اور اسرائیل سے گھرے ایک کروڑ پچاسی لاکھ نفوس پر مشتمل شام کی جغرافیائی حدود میں اعلانیہ نقب لگائی جارہی ہے اور اس بدنصیب ملک کے مختلف علاقوں پر روس، امریکہ، ترکی،کرد دہشت گرد PKK، ایرانی پاسداران اور لبنان کی حزب اللہ کا قبضہ ہے۔
شام کو اس حال تک پہنچانے میں بہت بڑا ہاتھ بشارالاسد کا ہے جنھوں نے اسکول کے بچوں کے معمولی اور بے ضرر سے ایک مظاہرے کو انتہائی بے رحمی سے کچلا، اور بے چینی کا یہ ننھا سا پودا دیکھتے ہی دیکھتے خانہ جنگی کا شجرِ زقوم بن گیا۔ شام کی تحریکِ آزادی دراصل بیداری کی اُس عوامی لہر کا تسلسل تھا جس کا آغاز دسمبر 2010ء میں تیونس کے سیکولر اور کرپٹ آمر زین العابدین کے خلاف مظاہروں سے ہوا۔ جلد ہی اس بابرکت تحریک کا دائرہ مصر، تیونس، لیبیا، مراکش، یمن، الجزائر، اور بحرین تک پھیل گیا۔ اس تحریک کو الربیع العربی یا عرب اسپرنگ کا نام دیا گیا۔
شام میں اس تحریک کی کونپل کچھ عجیب ہی انداز میں پھوٹی، یعنی 15 مارچ 2011ء کو اردنی سرحد سے ملحقہ شہر درعا کے ایک ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ (شام) اور آزادی کا نعرہ لکھا پایا گیا، اور اس کے بعد شہر کے سارے اسکولوں میں یہ نعرہ نوشتۂ دیوار بن گیا۔ یہ ایک ناقابلِ معافی جسارت تھی، چنانچہ خفیہ پولیس حرکت میں آئی اور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان نونہالوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور پچاس بچوں کی اُن انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے انھوں نے نعرے لکھے تھے۔
پھول سے بچوں کا یہ حشر دیکھ کر شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ ظلم و تشدد نے ایک شہر کے مظاہرے کو ملک گیر تحریک بنادیا۔ جلد ہی اللہ، شام اور آزادی کے ساتھ ارحل یا بشار (بشار! ہماری جان چھوڑدو)کا نعرہ بھی شامی عوام کا وظیفۂ زبان بن گیا۔ یہ قومی تحریک اپنی ابتدا کے پہلے دن سے جماعتی و نظریاتی سیاست سے بالاتر تھی۔ کسی شخصیت کے لیے زندہ باد و مُردہ باد کی صدائیں نہیں سنائی دیں، اور نعروں سے صرف اللہ پر ایمان اور مملکت کی سرفرازی و کامرانی کا عزم جھلکتا ہے۔ بشارالاسدکو کتا اور لوٹا کہنے کے بجائے اُن سے بھی عزت کے ساتھ ارحل (تشریف لے جایئے)کی درخواست کی جارہی تھی۔
جب کوئی ترکیب کارگر نہ ہوئی تو فرقہ واریت کا گھوڑا میدان میں اترا۔ ایران کو خوف دلایا گیا کہ اگر بشارالاسد کا اقتدار ختم ہوا تو شام پر وہابی غالب آجائیں گے۔ اس خوف نے ایران کو بشارالاسد کی پشت پر لاکھڑا کیا۔ ایران کے زیراثر حزب اللہ نے بھی بشارالاسد کے حق میں ہتھیار اٹھا لیے۔ خلیجی ممالک کو ڈر تھا کہ کہیں اخوان کے لوگ قیادت نہ سنبھال لیں، چنانچہ انھوں نے سیکولر باغیوں کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی۔ مغرب بھی اس ’’کارِخیر‘‘ میں ان کا حامی تھا۔
اس دوران لیبیا میں بھی تحریک عروج پر تھی۔ یعنی روس کے دونوں قابلِ اعتماد حلیفوں بشارالاسد اور کرنل قذافی کے تخت بیک وقت ڈانوا ڈول تھے۔ چنانچہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بشارالاسد کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور اپنے وزیر دفاع جنرل سرگئی شوئیگو (Sergey Shoygu) کو حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے شام بھیجا۔ زمینی صورتِ حال کے حقیقت پسندانہ تجزیے کے بعد روس کی فوجی قیادت اس نتیجے پر پہنچی کہ بشارالاسد کے اقتدار کو بچانے کے لیے وہی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی جو روسیوں نے گروزنی کو چیچن حریت پسندوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے اختیار کی تھی، یعنی شہر کی مکمل ناکہ بندی کرکے کارپٹ بمباری سے شہر کو شہریوں سمیت زمیں بوس کردیا جائے۔ جس کے بعد ملبے کو کچلتے ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کی فوجِ ظفر موج شہر پر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دے۔
ان کرداروں کے ساتھ داعش نے خاموشی اور بہت خوبصورتی سے دریائے فرات کے کنارے شمال مشرقی شام کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا جس میں دیر الزور میں تیل کے میدان بھی شامل ہیں۔ مغرب میں حلب، ام العمود، اور منبج کے اکثر علاقے بھی داعش اور سنی باغیوں کے زیرنگیں آگئے۔ بشارالاسد اور روس نے داعش کا ہوّا دکھا کر مغرب کو خوف زدہ کیا اور ISISکی آڑ لے کر ’’گروزنی حکمتِ عملی‘‘ کے تحت حلب پر بمباری شروع کردی۔ بمباری کا سلسلہ بلا تعطل ایک ماہ سے زیادہ عرصہ جاری رہا۔ شہر کو ملبے کا ڈھیر بنادینے کے بعد شامی فوجیں قہر بن کر شہر پر ٹوٹ پڑیں اور اس صدی کے ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لیا۔
مسلمان اس معاملے کو سمجھ ہی نہ سکے۔ شیعہ حضرات کے لیے بشارالاسد نجات دہندہ ہیں، جبکہ سنیوں کا خیال ہے کہ شیعہ انھیں ذبح کررہے ہیں۔ روس یہ کہہ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک گیا کہ اس کے شامی اتحادیوں نے داعش کی کمر توڑ دی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سقوطِ حلب کو سینہ ٹھونک کرداعش کی شکست قرار دیا۔ سانحہ حلب مغرب کے ساتھ مسلم دنیا کے لبرل و سیکولر عناصر کے لیے عید سے کم نہ تھا۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے اس سانحے کا سارا ملبہ ’’مولوی‘‘ پر گرا دیا اور اجڑے ہوئے شہرکی تصویر دکھا کر مسلمانوں کو اب تک ڈرایا جارہا ہے کہ اگر ریاستی معاملات سے دین کو مکمل طور پر بے دخل نہ کیا گیا تو ساری دنیا میں یہی صورت حال پیدا ہوگی۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، یعنی ایک سیکولر اور دین دشمن ڈکٹیٹر نے ذاتی اقتدار کے لیے ہنستے بستے ملک کو شعلوں کی نذر کیا۔
داعش کی سرکوبی کے نام پر ترکی کی کالعدم کردش ڈیموکریٹک پارٹی یا PKK نے ایران، عراق اور شام سےYPG اور پیش مرگا کے گوریلے شمالی شام بھیج دیے جنھوں نے مغرب میں منبج اورکوبانی (یا راس العرب) سے مشرق میں قامشیلی تک قبضہ کرلیا۔ داعش کو کچلنے کے لیے امریکہ نے بھی علاقے میں اپنی فوج اتاردی۔ امریکی سپاہی تو اپنے کیمپوں اور اڈوں تک محدود رہے اور داعش سے لڑنے کے لیے کرد چھاپہ ماروں کو Syrian Democratic Forces (SDF) کے نام سے مسلح و منظم کیا گیا۔ YPG اور پیش مرگا کے لیے داعش سے لڑائی محض ایک بہانہ، جبکہ ترکی اصل نشانہ تھا۔
انقرہ کو یقین ہے کہ اس کے فوجی ٹھکانوں پر حملے میں SDF امریکی ہتھیار استعمال کررہی ہے، جس کی صدر اردوان نے اپنے امریکی ہم منصب سے متعدد بار شکایت کی، لیکن بات طفل تسلیوں سے آگے نہ بڑھ سکی، چنانچہ ترکی نے اپنی سرحد پر 20 کلومیٹر چوڑی پٹی سے SDFکے دہشت گردوں کو نکال کر اسے محفوظ راہداری میں تبدیل کرنے کے لیے علاقے میں اپنی فوج بھیج دی اور تباہ کن بمباری نے SDF کے اوسان خطا کردیے۔ امریکی حکومت نے ترکی کے اس قدم کی شدید مذمت کی لیکن اردوان کے عزم کو دیکھ کر نائب صدر مائیک پنس بنفسِ نفیس انقرہ پہنچے اور امریکہ نے فوجی انخلا کے ساتھ SDF کی پشت پناہی ترک کرنے کا اعلان کردیا، اور یہیں سے شامی تیل کی بات شروع ہوئی جو ہمارا آج کا موضوع ہے۔
تیل و گیس کے شامی وسائل کا حجم بہت زیادہ نہیں، اور اس کے دریافت شدہ ذخائز کا تخمینہ ڈھائی ارب بیرل ہے۔ شامی تیل کی یومیہ پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ 1985ء میں تیل کی پیداوار 6 لاکھ بیرل روزانہ تھی جو 2010ء تک کم ہوکر 3لاکھ 85 ہزار بیرل یومیہ رہ گئی۔ یہاں تیل وگیس کی تلاش و ترقی شام پیٹرولیم کمپنی یا SPCکی ذمہ داری ہے۔ SPCکو شام کی OGDC سمجھ لیں۔ SPC کے علاوہ ایک اہم ادارہ شرکۃ الفرات النفظ یا Al Furat- Petroleum Company (AFPC) ہے جو دراصل SPC، ڈچ شیل اور ہمالیہ انرجی کی مشارکہ ہے۔ ہمالیہ انرجی ہندوستان کی IONGC اور چین کی CNPC کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ فرانس کی TOTAL اور برطانیہ کی Gulfsandsپیٹرولیم بھی یہاں قسمت آزمائی کررہی ہیں۔ خانہ جنگی اور یورپی یونین کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کی بنا پر شیل، ٹوٹل اور گلف سینڈز نے یہاں سے اپنی دکان اٹھالی ہے۔
تیل و گیس کے بڑے میدان سویدہ، عمر، شدادی اور الرصافہ عراقی سرحد کے قریب مشرقی شام کے دیرہ الزور صوبے میں ہیں۔ اگرچہ کہ عالمی معیار سے یہاں تیل کی پیداوار کا حجم بہت زیادہ نہیں، لیکن شامی حکومت کی آمدنی کا 25 فیصد تیل وگیس سے وابستہ ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، خانہ جنگی کے دوران مبینہ طور پر دیرہ الزور سمیت مشرقی اور شمالی شام کے بڑے حصے پر داعش نے قبضہ کرلیا اور امریکیوں کا کہنا ہے کہ تیل کی فروخت سے ہونے والی رقم داعش دہشت گردی کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ تیل کے میدانوں پر داعش کے قبضے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن دہشت گرد اس تیل کو عالمی منڈی تک کیسے پہنچاتے تھے، وہ ترکیب ہمیں اب تک سمجھ میں نہ آئی۔ شام سے خام تیل کی برآمد بحرِ روم میں کھلنے والی بندرگاہوں سے ہوتی ہے، اور اب تک کوئی بھی بندرگاہ یا گودی باغیوں کے قبضے میں نہیں آئی۔ یہ تو ممکن ہے کہ داعش نے کچھ تیل قریب کے کسی بجلی گھر کو بیچ دیا ہو، لیکن ٹینکروں کے ذریعے روزانہ 3 لاکھ بیرل تیل بندرگاہ پہنچانا اور پھر اسے جہازوں پر لادنا شامی حکومت کی مرضی و تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ خیر جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ سازکرے۔
ترکی سے معاہدے کے بعد جب صدر ٹرمپ نے شمالی شام سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کیا تو اس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیردفاع مارک ایسپر نے کہا کہ فوجی انخلا کے باوجود امریکہ تیل کے میدانوں اور تنصیبات کی حفاظت کے لیے اپنی فوج تعینات رکھے گا۔
28 اکتوبرکوکابینہ کے اجلاس میں صدر ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ تیل پر قبضہ برقرار رکھے گا۔ اپنے اس عزم کا اعادہ انھوں نے شکاگو میں پولیس افسران سے خطاب کرتے ہوئے بھی کیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے اس بات کے حامی رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ہمیں تیل اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہیے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ شام میں تیل کی فروخت سے ساڑھے چار کروڑ ڈالر ماہانہ کی آمدنی ہوگی۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ ان میدانوں کی ترقی اور پیداوار میں اضافے کے لیے امریکی تیل کمپنیوں کو کاروبار کے پُرکشش مواقع حاصل ہوں گے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہمیں عراقی تیل کو مالِ غنیمت کے طور پر ہتھیا لینا چاہیے تھا۔ 2017ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سی آئی اے کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ صدر اوباما نے جب امریکی فوج واپس بلانے کا فیصلہ کیا تھا تو عراق عسکری مہم کے بھاری اخراجات کے عوض تیل کے میدانوں پر قبضہ برقرار رکھنا کوئی غیر اخلاقی و غیر قانونی بات نہ تھی کہ مالِ غنیمت فاتح کا جائز اور تسلیم شدہ حق ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی وزیردفاع کی اس وضاحت پر ترکی کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا جس میں وزیر موصوف نے فرمایا کہ شامی تیل سے کردوں کو مالی وسائل فراہم ہوں گے، یعنی تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم SDF اور YPGکو دی جائے گی۔
تیل پر امریکی قبضے کی تشریح سیاسی حلقے مختلف انداز میں کررہے ہیں۔ امریکہ میں صدر کے مخالفین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اردوان کے دبائو پر فوجی انخلا کا فیصلہ کیا ہے جو درحقیقت عسکری پسپائی ہے اور تیل کے میدانوں پر قبضہ دراصل خفت مٹانے کی ایک کوشش ہے۔ آئی ایم ایف کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق دیرہ الزور سے یومیہ پیداوار اب صرف 40 ہزار بیرل ہے جس کا بڑا حصہ پائپ لائن کے ذریعے SPCکی ریفائنری کو بھیجا جاتا ہے، اور ان میدانوں کے گرد امریکی فوج کی تعیناتی سے چچا سام کو چوکیداری کی مشقت کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ امریکہ کی سب سے بڑی تیل کمپنی ایکسون موبل (Exxon Mobil)کا کہنا ہے کہ شام میں سیاسی و تکنیکی خطرات بہت زیادہ ہیں اور اس تناظر میں وہاں تیل وگیس کی تلاش و ترقی کے لیے سرمایہ کاری کسی بھی زاویے سے پُرکشش نہیں۔
دیرہ الزور پر امریکی قبضہ شام، روس، چین، ایران اور ترکی سب کے لیے فکر وپریشانی کا باعث ہے۔ امریکی صدر کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے بشارالاسد نے کہا کہ ان کے خیال میں صدر ٹرمپ امریکی تاریخ کے بہترین صدر ہیں جنھوں نے اپنے سامراجی ارادوں کو غیر مبہم انداز میں دنیا کے سامنے رکھ دیا، یعنی مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی دلچسپی ہمارے تیل پر قبضے کے لیے ہے۔ صدر ٹرمپ کے پیشرو تو قسمیں کھاکھا کر خود کو عربوں کا مخلص دوست کہتے تھے۔ شامی صدر نے کہا کہ وہ اپنی سرزمین کے ایک انچ، تیل کی ایک بوند اور گیس کے ایک بلبلے پر غیر ملکی قبضہ برداشت نہیں کریں گے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے کردوں کو بھی متنبہ کیا کہ وہ صدر ٹرمپ کی تھپکی پر آپے سے باہر نہ ہوں، امریکہ ایک ناقابلِ اعتماد اتحادی ہے جو کسی بھی وقت ساتھ چھوڑ سکتا ہے۔ روس دیرہ الزور پر امریکی قبضے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کو تیار نہیں اور روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ اگر ان کے شامی دوستوں نے درخواست کی تو روس دیرہ الزور پر شام کی ملکیت کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
تیل پر امریکی قبضے کا فیصلہ اخلاقی وسیاسی دونوں اعتبار سے غلط ہے۔ شام کا تیل شامی عوام کی ملکیت ہے جس پر غیر ملکی قبضے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ کسی دوسرے ملک کے قدرتی وسائل پر قبضہ خود امریکی دستور کی رو سے بھی غلط ہے۔
تیل کی آمدنی SDFکے حوالے کرنے کا مطلب Terror Financing ہے۔ ترکی اس معاملے کو FATF میں لے جاسکتا ہے کہ SDF اور YPG دہشت گردوں پر مشتمل ایک جتھہ ہے جس کی مالی اعانت FATF کے مطابق ایک سنگین جرم ہے۔
…………

اب آپ مسعودابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں