آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی اور حکمرانوں کے کھوکھلے دعوے

وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کے ارکان بار بار قوم کو یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ ملک کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے اور عنقریب اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ اسلام آباد میں اپنی معاشی ٹیم کے اجلاس کی صدارت کے بعد گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں معاشی صورتِ حال مستحکم ہوئی ہے، کاروباری برادری کا اعتماد بحال ہوا ہے، اب حکومت کی توجہ عام آدمی کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔ اس اجلاس کے بعد وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ بہتر پالیسیوں کے باعث ملک کا معاشی نظام استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے جس کی گواہی آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے بھی دی ہے۔ چھ ارب ڈالر کے قرضے کی 45 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط کی پاکستان کو فراہمی کی سفارش کردی ہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ کم ہورہا ہے جب کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، روپیہ بھی ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہوگیا ہے، حکومت نے گزشتہ چار ماہ سے اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا بلکہ سابق حکومت کا لیا گیا 2.1 ارب ڈالر کا قرض واپس کیا ہے۔ ملکی برآمدات اور محصولات میں اضافہ ہوا ہے، حکومت اب عوام کو ریلیف کی فراہمی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے لیے کوشاں ہے۔
وزیراعظم اور اُن کے مشیر خزانہ نے معاشی بہتری کے جو اشاریے بیان کیے ہیں اور اس ضمن میں جن اعداد و شمار کا حوالہ دیا ہے، ان کی حیثیت ہمیشہ سے عام آدمی کے لیے ایک گورکھ دھندے سے زیادہ کچھ نہیں رہی۔ ہاں البتہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کی جن کوششوں کا انہوں نے ذکر کیا ہے عوام کو سب سے زیادہ دلچسپی اسی میں ہے، مگر اس ضمن میں اربابِ اقتدار کے کھوکھلے دعووں اور حقائق سے ان کی لاعلمی کا عالم یہ ہے کہ پریس کانفرنس کے دوران جب ان کی توجہ روزمرہ استعمال کی اشیاء خصوصاً سبزیوں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں کی جانب مبذول کروائی گئی تو انہوں نے دعویٰ کردیا کہ کراچی میں ٹماٹر سترہ روپے کلو دستیاب ہیں۔ حالانکہ عملی حقیقت یہ ہے کہ کراچی سے پشاور تک کہیں بھی ٹماٹر ڈھائی سے تین سو روپے فی کلو سے کم میں دستیاب نہیں۔ یہی حال آلو، پیاز، لہسن، ادرک، مرچ، مٹر، بھنڈی وغیرہ سمیت دیگر سبزیوں کا ہے، اور حکام کی جانب سے ان کی قیمتوں کو قابو میں لانے کا کوئی حربہ کارگر ثابت نہیں ہورہا۔ یہی حال دیگر اشیائے ضروریہ آٹا، چینی، گھی اور دالوں وغیرہ کا بھی ہے… اس ضمن میں حقیقی صورتِ حال کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ نانبائی ایسوسی ایشن آف پاکستان نے 16 نومبر سے پنجاب، صوبہ خیبر اور اسلام آباد میں ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے آٹے اور میدے کی فی بوری قیمت میں بارہ سو سے پندرہ سو روپے تک، اور گیس سلینڈر کی قیمتوں میں ڈیڑھ سو روپے اضافے کے باعث پرانی قیمتوں میں روٹی اور نان وغیرہ کی فراہمی ناممکن قرار دے کر ہڑتال کا راستہ اختیار کرنے کو مجبوری قرار دیا۔ تاجر اور کاروباری طبقہ حکومتی اقدامات کو مہنگائی کا سبب ٹھیرا کر اس کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیتا ہے اور بازار میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کی خریداری کے دوران آئے روز نئی اضافہ شدہ قیمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے تمام تر دعووں کے باوجود حکومت آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کی خاطر اُس کی عائد کردہ شرائط کو نافذ کر رہی ہے جس کے اثرِ بد سے عام آدمی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ عام آدمی کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے میں حکومت کس قدر سنجیدہ ہے اس کا اندازہ اِس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ روزمرہ استعمال کی جن چیزوں کا کنٹرول براہِ راست حکومت کے پاس ہے حکومت انہیں بھی سستے داموں لوگوں کو فراہم کرنے میں قطعی ناکام ہوچکی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی منڈی میں کمی کے باوجود حکومت کی جانب سے ہر ماہ ان کی قیمتوں کا بڑھایا جانا ناقابلِ فہم ہے۔ بجلی بھی مسلسل مہنگی کی جارہی ہے، حال ہی میں اس کے نرخ تین روپے فی یونٹ بڑھائے گئے ہیں۔ اسی طرح اوگرا نے گیس 194 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کی تجویز دی ہے جس سے عوام پر 93 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑنے کا تخمینہ ہے۔ اور یہیں پر بس نہیں، بلکہ تجویز یہ ہے کہ گیس کے نرخوں میں اضافہ گزشتہ جولائی سے نافذالعمل کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا براہِ راست اثر دیگر تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں سامنے آتا ہے، مگر وزیراعظم اور اُن کے مشیر خزانہ کا اس کے باوجود دعویٰ یہ ہے کہ مہنگائی کے خاتمے، عام آدمی کو ریلیف اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے لیے کوشاں ہیں… ایسے کھوکھلے دعووں پر بھلا کون یقین کرے گا…؟
(حامد ریاض ڈوگر)