پَل، پِل اور پُل

گزشتہ دنوں کئی اخبارات میں ’’دل کا وال‘‘ شائع ہوا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ لوگ دلوں میں وال یعنی دیوار اٹھا لیتے ہیں، لیکن دل میں بجائے خود کوئی وال یعنی دیوار نہیں ہوتی۔ اصل میں یہ لفظ والو (VALVE) ہے۔ حیرت ہے کہ ہمارے صحافی بھائی اس لفظ سے ناآشنا ہیں، اور اگر بتائیں تو اسے ’’والو‘‘ بروزن آلو اور خالو پڑھتے اور حیران ہوتے ہیں۔ اس والو کا ذکر پانی کی پائپ لائن کے حوالے سے بھی آتا ہے جہاں کوئی والو مین بھی ہوتا ہے۔ اسے بھی ہمارے بھائی وال مین ہی لکھتے ہیں۔ انگریزی کے الفاظ بگاڑے جائیں تو خوشی ہوتی ہے کہ صرف اردو ہی مظلوم نہیں۔ بہت پہلے والو کا ترجمہ ’’کھُل مندن‘‘ لکھا تھا، یعنی وہ آلہ جو کھلتا اور بند ہوتا ہو۔ دل کے والو کی صورت یہی ہے کہ یہ خون کی آمدورفت کو کنٹرول کرتا ہے، دیوار یا وال نہیں اٹھاتا۔ ’’مندن‘‘ کا استعمال تو اردو میں عام نہیں، لیکن مندنا یعنی بند ہونا عام ہے۔ دروازے کا بند ہونا، بھیڑا جانا، چھپنا۔ ایک شعر ہے:۔

مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے
خوب وقت آئے تم اس عاشقِ بیمار کے پاس

مندی مندنا کی صفت ہے اور عام طور پر آنکھ کے ساتھ مستعمل ہے۔
ایک ٹی وی چینل پر مزاحیہ پروگرام آتا ہے۔ اس کی جھلکیاں پیش کرنے والے صاحب بھی اپنے جملوں میں مزاح شامل کردیتے ہیں۔ مثلاً حِظ اٹھانا (’ح‘ بالکسر) اور چَٹکلے ( ’چ‘ پر زبر)۔ شاید اُن کے خیال میں اس طرح پروگرام کا لطف سہ بالا ہوجاتا ہے۔ حَظ اٹھایا جائے یا نہیں، ’ح‘ پر زبر ہے بروزن خَط۔ خدا نہ کرے کوئی خط کو بھی خِط کہتا ہو اور سمجھتا ہو کہ خِطہ میں بھی تو ’خ‘ بالکسر ہے۔ اسی طرح چٹکلے کی ’چ‘ پر پیش لگانے سے اس کے لطف میں کمی نہیں آئے گی۔ اب یہ تو سب کو معلوم ہے کہ چٹکلا کیا ہوتا ہے۔ البتہ اسے ’’چَٹ کلا‘‘ کہنا خود ایک چٹکلا ہے۔ حیرت تو اس پر ہوتی ہے کہ تلفظ کی ایسی غلطیوں کا اعادہ کیا جاتا ہے، ورنہ اگلی بار تصحیح ہوجانی چاہیے۔
ایک مذہبی سیاسی جماعت کے ترجمان نے پریس ریلیز میں بڑے مزے کی اصطلاح استعمال کی ہے ’’جوک در جوک‘‘۔ یقین ہے کہ انہوں نے جوک (JOKE) نہیں کہا ہوگا۔ لگتا ہے کہ وہ جوق در جوق کا جیسا تلفظ کرتے ہیں ویسا ہی لکھ ڈالا۔ ویسے بھی ’جوق‘ ترکی کا لفظ ہے اور مطلب ہے گروہ۔ آدمیوں، پرندوں کے گروہ۔ جوق در جوق کے علاوہ جوق جوق بھی کہا جاتا ہے، لیکن اردو میں ’’در‘‘ کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے۔ لغت کے مطابق یہ مذکر بھی ہے اور مونث بھی۔
’’جس اور جن‘‘ کے استعمال میں بے احتیاطی نظر آتی ہے، خاص طور پر اخبارات میں۔ یہ وہ ’جن‘ نہیں جس کے بارے میں اعلان ہورہا تھا کہ ’’جن کا بچہ ہے، آکر لے جائے‘‘۔ اور لوگ سمجھے کہ یہ آتشی مخلوق کا بچہ ہے۔ بات یہ ہے کہ کسی خبر یا جملے میں ’’جس‘‘ کا استعمال واحد کے لیے اور ’’جن‘‘ کا استعمال جمع کے لیے ہوتا ہے، مگر گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ مثلاً ’’یہ وہ لوگ ہیں جس کے بارے میں ذکر ہورہا تھا‘‘۔ یہاں ’جن‘ آنا چاہیے، لیکن وہ والا نہیں جو کہتے ہیں کہ کسی کے سر پر آجاتا ہے۔ مثلاً یہ شعر:۔

جب سے سایہ ان کو جن کا ہو گیا
بی پری خانم کو سودا ہو گیا

مزے کی بات یہ ہے کہ جنت کا مادہ بھی جن ہے۔ عربی میں اس کے معانی پوشیدہ کے ہیں۔ جنت بھی انسان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ اسی طرح ’’جنین‘‘ وہ لڑکا جو ابھی ماں کے پیٹ میں چھپا ہو۔ جنون کا مادہ بھی جن ہے جس کا مطلب ہے دیوانگی، جس سے عقلِ انسانی پر پردہ حائل ہوجاتا ہے۔ ماہرینِ لغات کہتے ہیں ’ج‘ اور ’ن‘ جہاں بھی ایک ساتھ آئے، پوشیدگی کے معنی دیتا ہے۔ اردو میں تعظیم یا جمع کے لیے جس کی جگہ جن مستعمل ہے۔ مثلاً:۔

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

ہندی میں جَن (’ج‘ پر زبر) شخص، متنفس، آدمی، بشر کو کہتے ہیں۔ جَن سے جنا بنالیا گیا ہے۔ مثلاً ’’ایک جنا آئے‘‘۔ جنی اس کی تانیث ہے۔ انسان کا جنا، نٹ کا جنا، شیطان کا جنا۔ اور مونث کے لیے ’جنی‘ کا استعمال ہوتا ہے۔
ایک خاتون وزیر ہدیہ تبرک (تب۔ رک) پیش کررہی تھیں۔ اگر وہ تبرّک ہی کہہ دیتیں تو لفظ تو صحیح ہوتا۔ تبریک (تب۔ ریک) کہنا انہیں نہ آیا۔ ایسے میں مشکل الفاظ استعمال کرنا کیا ضروری ہے؟ بھرم تو رہ جاتا۔ لیکن بیشتر وزرا کا تلفظ غلط ہوتا ہے۔ ایک ٹی وی چینل کے نیوز کاسٹر بُحران کو بحران بروزن حیران کہہ کر حیران کررہے تھے۔ یار، خبر پڑھنے سے پہلے کسی سے پوچھ ہی لیا ہوتا۔ بحران میں ’ب‘ پر پیش ہے۔ ویسے تو ہر طرف اس کا چرچا ہے لیکن اس کی اصل یونانی ہے۔ طب کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے ’’بیماری کے زور کا دن‘‘۔ یہاں تو جو بیماریاں درپیش ہیں ہر دن ان کا زور رہتا ہے اور اگلے دن مزید زور بلکہ منہ زور۔
ایک ٹی وی چینل پر ’’خطرہ‘‘ کے عنوان سے ایک دلچسپ پروگرام آتا ہے جس میں مختلف خطرات کی نشاندہی کے ساتھ رواں تبصرہ بھی کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی پروگرام میں ایک خچر انسان پر حملہ کردیتا ہے۔ تبصرہ کرنے والے صاحب بتا رہے تھے ’’دیکھیے خچر ایک شخص پر پَل پڑا ہے‘‘۔ انہوں نے پل کی ’پ‘ پر زبر لگا کر اردو زبان کو ایک نئے خطرے کی نشاندہی کردی۔ ’پ‘ اور ’ل‘ کے ساتھ یہ لفظ تینوں حالتوں میں دستیاب ہے یعنی زبر، زیر اور پیش کے ساتھ (پَل، پِل، پُل) لیکن معانی الگ الگ ہیں۔ خچر ہو یا کوئی انسان، کسی پر حملہ آور ہو تو وہ پِل پڑتا ہے (’پ‘ کے نیچے زیر)۔ اور پَل (’پ‘ بالفتح) پلک کا مخفف ہے اور مونث ہے۔ مطلب ہے دم، لحظہ، منٹ کا ساٹھواں حصہ۔ پل بھر میں یعنی آناً فاناً، لمحہ بھر میں۔ محاورہ ہے ’’پَل کا بھروسا نہیں‘‘۔ مشہور مصرع ہے ’’سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں‘‘۔ ایک حاکم پر پُل سے گزرتے ہوئے حملہ ہوا تو انور مقصود نے کہا تھا ’’سامان سو برس کا ہے پُل کی خبر نہیں‘‘۔ یہاں پَل کو پُل سے بدل کر لطف پیدا کیا گیا۔ پَل کٹنا یعنی وقت گزرنا۔ داغؔ کا شعر ہے:۔

کوئی پل ایسا نہیں کٹتا کہ جس میں چین ہو
دل لگاتے ہی یہ ہم پر کیا قیامت آ گئی

اور پُل کا مطلب سب کو معلوم ہے، وضاحت کیا کرنی۔ فارسی کا لفظ ہے تاہم اردو میں افراد یاکثرت کے مبالغے کی جگہ بولتے ہیں۔ پل باندھا بھی جاتا ہے اور یہ تعریفوں کا پُل بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً داغؔ ہی کا شعر ہے:۔

میرے پیغامبر سے اس نے کہا
جھوٹ کا خوب تُو نے پل باندھا

پلِ صراط سے سبھی مسلمان واقف ہیں۔ استاد قلقؔ کا شعر ہے:۔

قلقؔ دعا ہے یہ اللہ سے قدم نہ ڈگیں
پلِ صراط پہ محشر میں جب کہ راہ چلے

اب ’’ڈگیں‘‘ کا مطلب ڈھونڈتے پھریے۔ ڈگ بھرنا تو مستعمل ہے لیکن یہ ’’قدم نہ ڈگیں‘‘ کیا ہے؟ لغت میں ڈگ تو ہے جس کا مطلب ہے قدم، دو قدم کے بیچ کا فاصلہ جو چلنے میں ہوتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے ’’لمبے لمبے ڈگ بھرنا‘‘۔ اب اگر یہ ڈگمگانا سے ہے یعنی ضعف و ناتوانی سے کھڑے رہنے اور قدم جمانے کی طاقت نہ رہنا، یا پھر یہ ڈگنا یعنی گرنا ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں۔ قلقؔ ہی وضاحت کرسکتے تھے مگر اب قلق رہے گا۔