حکومت اور جے یو آئی کا دھرنا دونوں مدمقابل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دھرناکیسے ختم ہوگا؟ درمیانی راستہ کیا ہونا چاہیے؟ حکومت کی جانب سے فی الحال تو وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات پرکوئی بات نہیں ہورہی، لیکن مستقبل کے لیے انتخابی اصلاحات پر حکومت راضی ہوچکی ہے، لیکن مولانا استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ استعفیٰ یا اس جیسی کوئی چیز لے آؤ۔ مطلب ہے نئے انتخابات کا اعلان۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ دھرنا ابھی تک پُرامن رہا، لیکن تیور بتارہے ہیں کہ اس کے پُرامن رہنے کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔
چند روز کے مذاکراتی عمل کے بعد اب حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کا رنگ پھیکا پڑرہا ہے کہ وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے معاملے پر تعطل برقرار ہے، مگر سب سے بڑی خبر حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن چودھری پرویزالٰہی نے دی ہے کہ ہوگا وہی جو مولانا فضل الرحمان چاہیں گے۔ اور مولانا اب دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ گزشتہ 16 دنوں میں آزادی مارچ اور دھرنا سرگرمی کی اس سے بڑی کوئی خبر نہیں تھی۔ اب تجزیے اور تبصرے اس یک سطری خبر سے باہر رہ کر نہیں ہوسکتے، خدشہ ہے کہ دھرنا پھیل سکتا ہے، یہ دھرنا چونکہ پُرامن ہے لہٰذا حکومت بھی ابھی اسے بہت زیادہ اہمیت نہیں دے رہی، اور چاہتی ہے کہ راولپنڈی کا بیڑہ اسلام آبادکی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ یہ بیڑہ ابھی تک خشکی پر کھڑا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 10 مطالبات سامنے رکھے ہیں، ان مطالبات میں: ناموسِ رسالت کے قانون کا تحفظ، ریاستی اداروں کے وقار کی بحالی اور اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال سے روکنا، انسانی حقوق کا تحفظ اور آزادیِ اظہارِ رائے کو یقینی بنانا، مہنگائی کو روکنا اور عام آدمی کی زندگی کو خوشحال بنانا، اور عمران حکومت کو ختم کرکے عوام کو اس سے نجات دلانا اور نئے انتخابات کرانا شامل ہے۔ اگرچہ جے یو آئی کا دھرنا(تادم تحریر) جاری ہے اس لیے کہ دو طرفہ ضد نے دلوں اورذہنوں کو گرہ لگا دی ہے۔ ہٹ دھرمی اور ضد کا نقصان حکومت کو ہوگا۔ گزشتہ ہفتے تک دھرنے میں اسلام آباد کے شہری شریک نہیں ہورہے تھے، لیکن اب عام شہری بھی اس میں وقفے وقفے سے شریک ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ بارش کے بعد موسم سرد ہوجانے پر مقامی تاجروں نے شرکاء کو خوراک، کمبل، لحاف اور بڑی مقدار میں دیگر ضروری اشیاء فراہم کی ہیں۔ دھرنے کی براہِ راست کوریج نہیں ہورہی البتہ ٹی وی چینلز کے لیے مولانا کے انٹرویوز سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ بنیادی طور جے یو آئی، اے پی سی میں شامل اپوزیشن جماعتیں اور حکومت اس دھرنے کے تین فریق ہیں۔ تینوں اب پلان بی پر کام شروع کرچکے ہیں، لیکن ایک پلان کہیں اور بھی بن رہا ہے جہاں شہبازشریف اور شاہد خاقان عباسی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیا جائے گا۔
سیرت النبیؐ کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم اپنی سیاسی ناکامی تسلیم کرچکے ہیں، بس باقاعدہ اعلان باقی ہے۔ وہ مان چکے ہیں کہ ملک کی بیوروکریسی اور میڈیا بہت طاقت ور ہیں۔ غیر معمولی انتظار کے بعد فیصلہ ہوا کہ اپوزیشن کو ریلیف دلایا جائے۔ اشارہ مل جانے پر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا سب سے پہلے رواں سال فروری میں نعرہ آصف علی زرداری نے لگایا تھا، یہ وہ وقت تھا جب حکومت میں ابھی دم خم تھا، لہٰذا نیب کیسز کی وجہ سے پیپلزپارٹی اس بارے میں پیش رفت نہیں کرسکی تھی۔ مسلم لیگ(ن) تیار نہیں ہوئی، وہ تو ابھی بھی تیار نہیں تھی، لیکن جے یو آئی نے لانگ مارچ کا نعرہ ہائی جیک کرلیا کیوں کہ اسے انتخابات کے بعد فاٹا میں بھی انتخابی شکست ہوئی تھی۔ اسی دوران پی ٹی ایم متحرک ہوئی، فاٹا جیسے حساس علاقے میں پی ٹی ایم کے سیاسی منشور کے خلاف جے یو آئی مزاحمتی میدان سجانے پر آمادہ ہوئی۔ اسی لیے سمجھا جارہا ہے کہ دھرنے کے پیچھے کوئی ہے، لیکن حکومت سیاسی پیش رفت اور اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہی۔ دو ہفتے کے دھرنے سے یہ تو ثابت ہوچکا کہ حکومت سیاسی شکست کھا چکی ہے لیکن اس کے لیے مہلت ابھی باقی ہے۔ ابھی شہ مات نہیں ہوئی۔ اس کے پاس سنبھلنے کا موقع ہے۔ یہی روش جاری رہی تو پھر شطرنج کی بساط پر کوئی ایک پیادہ بھی بادشاہ کا سر لے سکتا ہے۔ اسلام آباد میں ہر باخبر حلقے میں یہ بات برملا کہی جارہی ہے کہ حکومت مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف سے متعلق سرپرستوں کا مشورہ مان لیتی تو آج اس کے اقتدار کا ٹائی ٹینک خشکی کی جانب نہ آتا۔ جو ریلیف نوازشریف کو دیا گیا ہے وہی اب سابق صدر زرداری کو بھی ملنے والا ہے۔ نوازشریف کی ضمانت پر رہائی عدالتی فیصلہ ہے۔ اب جب کہ نوازشریف کیس میں نیب بھی ایک فریق کے طور پر سامنے آچکا ہے اور یہ حکومت کے لیے ایک نئی مشکل ہے،حکومت نے نیب کے ساتھ مل کر نئے سوالات اٹھادیے ہیں۔ وہ ذمہ داری جو عدالت نے اپنے فیصلے کے ذریعے اپنے سر لے لی تھی، اب حکومت اور نیب نے غیر ضروری رکاوٹ کھڑی کرکے بوجھ اپنے کندھے پر اٹھا لیا ہے۔ نوازشریف کی عارضی رہائی کے لیے جہاں فیصلہ ہوا ہے، وہ بھی سب کچھ دیکھ رہے ہیں، اور عین ممکن ہے کہ بڑی آئینی عدالت زیادہ ریلیف دینے کا فیصلہ سنادے۔ اگر ایسا ہوا تو حکومت کی ساکھ کیا رہ جائے گی؟
آج ملک کا سیاسی منظرنامہ جہاں حکومت کے لیے امتحان بنا ہے، وہیں ملکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ ریلیف حاصل کرلینے کے بعد اپوزیشن ملکی معیشت بہتر بنانے میں مددگار بنے۔ اپوزیشن نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے اپنا دستِ تعاون بڑھا سکتی ہے۔ اگر اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر آگئے تو سیاسی منڈی میں تحریک انصاف کے حصص گر جائیں گے۔ اپوزیشن کا پلان بھی یہی ہے کہ حکومت کونکالنے کے بجائے ایسا ماحول بنادیا جائے کہ حکومت خود ہی ہاتھ کھڑے کردے، اس کے بعد ملک میں نئے انتخابات ہوجائیں یا اِن ہاؤس تبدیلی آجائے، لیکن اس سے قبل حکومت کو موقع دیا جائے گا کہ اصلاحِ احوال کے لیے اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن بہتر بنائے۔ اس مقصد کے لیے عمران خان نے یوٹرن نہ لیا تو تحریک انصاف خود یوٹرن لے لے گی جس کی ابتدا ہونے والی ہے۔ حکومت کو اندازہ نہیں کہ اگر وفاق پھسل گیا تو پنجاب بھی ریت کی طرح مٹھی سے پھسل جائے گا۔ وفاق میں حکومت تبدیل کرنے کے لیے چار، اور پنجاب میں محض تیس ووٹ درکار ہیں۔ ان حقائق کے باوجود نہ جانے حکومت کو سخت گیری اختیار کرنے کے مشورے کون دے رہا ہے! حکومت کو ڈی چوک اور بغاوت کے مقدموں کے چکر میں پڑنے کے بجائے اپوزیشن کے اُن لیڈروں سے رابطہ کرنا چاہیے جن کے پاس اس مسئلے کے فوری حل کی کنجی ہے۔ تاخیر ہوگئی تو دھرنا پشاور موڑ سے ڈی چوک بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کو ادراک ہی نہیں ہے، کیونکہ اس کا ایک بڑا حصہ اِس وقت اپنی جھوٹی عظمت کے نشے میں دھت ہے۔ لیکن جب آنکھیں دیکھنا، کان سننا، اور دل و دماغ سوچنا اور محسوس کرنا بند کردیں تو گھمنڈ کی عمارت دھڑام سے نیچے گرتی ہے اور اس کا نشان بھی باقی نہیں رہتا۔
ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد
حکومت کو بظاہرکوئی خطرہ نہیں، مگر ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے، بساط بچھانے والوں نے اپنے مہرے بدل لیے ہیں۔قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد کے نتائج سیاسی منظرنامہ کھول کر رکھ دیں گے۔ ڈپٹی اسپیکر پر عدم اعتماد کی تحریک کے حملے کا اصل ہدف بھی وزیراعظم ہیں۔ قاسم خان سوری عمران خان کے بہت قریبی اور بااعتماد ساتھی ہیں۔ بظاہر تو عدم اعتماد کی اس تحریک کی کامیابی کے کوئی آثار نہیں، مگر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مریم نواز، اُن کے شوہرِ نامدار اور شہبازشریف جیل میں نہیں ہیں۔ حمزہ شہباز کی ضمانت ہونے والی ہے۔ شہبازشریف تو پھر سے قلعہ ِ حکومت پرکمندیں پھینکتے پھرتے ہیں۔ نیب کے قوانین بدلنے والے ہیں۔ احتساب کا چراغ آخری ہچکی لے رہا ہے۔ حکومت سے شریف خاندان کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی، ڈیل جہاں ہونی تھی یہ وہاں ہوچکی ہے۔ عمران خان نے این آراو نہیں دیا، وہ تو نیب کی پشت پر کھڑے ہیں۔ نیب فی الحال تذبذب میں ہے۔ اب اگر نیب رکاوٹ بنا تو اسے ویڈیو لیکس کی شکل میں کسی نئی آزمائش کی بھٹی سے گزرنا پڑسکتا ہے۔
نیشنل لیبر فیڈریشن کی گولڈن جوبلی
نیشنل لیبر فیڈریشن نے اپنی گولڈن جوبلی منائی۔ اس سلسلے میں ایک بڑی تقریب اسلام آباد میں ہوئی جس میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ملک بھر کی ٹریڈ یونینز کے نمائندوں سے خطاب کیا۔ سرسید میموریل سوسائٹی اسلام آباد میں نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے مزدور کانفرنس بعنوان ”مزدور مسائل کا حل سیرتِ سرورِ عالمؐ کی روشنی میں“ منعقد ہوئی جس سے صدر نینل لیبر فیڈریشن شمس الرحمان سواتی، انگرڈکرسٹیسن کنٹری ڈائریکٹر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن و
دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اس تقریب میں انکشاف کیا گیا کہ آجروں کے دباؤ کے باعث ملک کے 97 فی صد مزدور یونینز کا حصہ نہیں ہیں، اور اشاعتی اداروں سمیت ملک کے صنعتی اداروں میں ملک میں آئی ایل او کے منظور شدہ قوانین بھی نافذ نہیں ہیں۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا.کہ موجودہ مہنگائی کے دور میں مزدوروں کا زندہ رہنا معجزہ ہے، عوام نڈھال ہوگئے ہیں، یہ نظام سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے لیے ہے، جبکہ محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے یہ نظام استحصال پر مبنی ہے۔ اسلامی انقلاب کے لیے تیار ہونا ہوگا، اس سے ہماری نسلوں کو فائدہ ہوگا۔ بغاوت نہ کرنا منافقت ہے۔ ایوانوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت کرنے والے ہیں۔ مفاد پرست ٹولہ پاکستان پر مسلط ہے۔ ظالم نظام نے علماء، مساجد و مدارس کو تقسیم کیا ہے، اس لیے ہمیں مل کر میدان میں کھڑا ہونا ہوگا۔ سیاست کے شیطانی چکر میں پوری قوم کو پھنسادیا گیا ہے۔ مزدوروں کے لیے ایوان اور چوراہوں میں کھڑے ہیں، اپنا خون بھی مزدوروں کی فلاح کے لیے دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ میں این ایل ایف کی قیادت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، یہ 50 سال سے مزدوروں کے لیے کام کررہی ہے۔