کشمیر ایک نئے “جمہوری سراب” کی تیاریاں؟۔

سیاسی دھارے میں طاقت کے خلأ کو ڈمی قیادت کے ذریعے پر کرنے کے لیے پس پردہ جوڑ توڑ…

مقبوضہ جموں وکشمیر میں پانچ اگست کو بھارت نے طاقت اور سیاست کا ایک خلا خود ہی پیدا کیا تھا۔ بھارت نواز سسٹم کی دست وبازو اور جمہوری بارات کے دولہا، دلہنیں اور شہ بالے یعنی نیشنل کانفرنس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی، کانگریس، پیپلزکانفرنس سمیت تمام جماعتیں غیر فعال ہیں اور ان کی قیادت جیلوں میں ہے یا گھروں میں نظربند۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں بھارت نواز سیاسی دھارے اور دریا کی مچھلیاں ہیں۔ ان کی قیادت فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی وغیرہ پانچ اگست کے اقدام کو قبول کرنے کو تیار نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ جیلوں اور گھروں میں قید ہیں۔ یوں بھی مودی حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ پانچ اگست کا فیصلہ کشمیر کے روایتی اقتدار پرست خاندانوں کے خلاف ’’انقلاب‘‘ ہے۔ ظاہر ہے ایسے انقلاب کو دونوں جماعتیں کس طرح ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرسکتی ہیں جسے خود ان کی خاندانی بادشاہتوں کے خلاف برپا کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے! کرفیو اور محاصرے کی طرح طاقت کا یہ خلا بھی تادیر قائم نہیں رہ سکتا۔ کسی نہ کسی مرحلے پر بھارت کو حالات معمول پر لانا ہی ہے۔ اس عرصے میں بھارت ایک نئے مصنوعی سسٹم کا تانا بانا بُننے میں مصروف ہے۔ سیاسی دھارے میں طاقت کے اس خلا کو نئی اور ڈمی قیادت کے ذریعے پُر کرنے کے لیے پسِ پردہ جوڑ توڑ چل رہا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی سے الیکٹ ایبلز کی ایک بڑی تعداد کو منحرف کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں تاکہ ایک نئی اسمبلی تشکیل دے کر کسی نئی تخلیق کے چہرے پر نیا جمہوری ماسک سجا دیا جائے اور دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ کشمیر میں سیاسی عمل بحال ہوگیا ہے اور لوگوں نے برضا ورغبت جمہوری عمل میں حصہ لے کر اسے قبولیت کی سند دے دی ہے۔ اس کے لیے وادی کشمیر کے 72 کے قریب سیاسی کارکنوں کے ساتھ رابطے کیے جارہے ہیں، اور یہ سیاسی’’آپریشن‘‘ براہِ راست بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی نگرانی میں ہورہا ہے۔ اس فہرست میں کشمیر کی بھارت نواز سیاست کے روایتی چہرے ہیں، جن میں مظفر حسین بیگ، الطاف بخاری، حکیم یاسین، طارق حمید قرہ جیسے لوگ شامل ہیں۔ الطاف بخاری کو ممکنہ طور پر کشمیر کے وزیر داخلہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس فہرست کا سب اہم نام مظفر حسین بیگ ہیں، اور وہ چند دن قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں بہت کھل کر کہہ رہے تھے کہ جب تک کشمیر کے مسئلے کی سیاسی جہت پر پاکستان کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوں گے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مظفر بیگ کے یہ خیالات بتاتے ہیں کہ اگر بھارت وادی میں اپنے ہی پیدا کردہ طاقت کے خلا کو نئے چہروں اور نئے ناموں سے وقتی طور پر پُر کرلیتا ہے اس کے باوجود یہ نام اور چہرے مسئلہ کشمیر کی حیثیت اور حقیقت کا انکار نہیں کریں گے۔ ان میں سے کوئی بھی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ بھارت کی ایک وقتی ضرورت کو پورا کرنے کی مشق ہے۔
بھارت ماضی میں یہ تجربہ کرچکا ہے، بلکہ کشمیر میں حماقتوں کی دلدل میں بھارت نے پہلا قدم اسی فیصلے کے ذریعے رکھا تھا جب1953ء میں کشمیریوں کی مقبول قیادت، پنڈت جواہر لعل نہرو کے ذاتی دوست اور اُس وقت کے وزیراعظم کشمیر شیخ عبداللہ کو منظر سے ہٹایا گیا اور اُن کی جگہ انہی کی جماعت کے اندر سے متبادل اور مصنوعی قیادت تلاش کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ شیخ عبداللہ کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کرکے قید کرلیا گیا تھا اور اُن کے دستِ راست بخشی غلام محمد کو کشمیر کا نیا وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ بخشی غلام محمد کو کشمیریوں کے دل جیتنے، مطالبۂ آزادی سے ہٹانے اور شیخ عبداللہ کے سحر سے نکالنے کے لیے نئی دہلی نے بے پناہ وسائل فراہم کیے۔ بخشی غلام محمد نے نوٹوں کے فرش بچھانے کے علاوہ پیسہ پانی کی طرح بہانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ وہ 1953ء سے 1964ء یعنی گیارہ برس تک کشمیر کے وزیراعظم رہے۔ شیخ عبداللہ کی طرح اُن کی برطرفی بھی کشمیر کی خصوصی شناخت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر مزاحمت کی وجہ سے ہوئی، اور ایک مرحلے پر عالمِ مجبوری میں بھارتی حکمرانوں کو اپنی اس تخلیق اور دریافت کو بھی مسمارکرکے شیخ عبداللہ کی طرح جیل میں ڈالنا پڑ گیا۔ اس تجربے کی ناکامی کے بعد خواجہ شمس الدین، غلام صادق اور میر قاسم جیسے نام آتے اور منظر سے ہٹتے چلے گئے۔ گویا کہ ایک پتلی تماشا تھا جو پوری قوت سے جاری رہا اور کشمیری عوام اسے حیرت سے دیکھتے رہے۔
شیخ عبداللہ کے بعد بخشی غلام محمد کو برطرف کرکے بھارت نے طاقت کا جو خلا پیدا کیا تھا اُس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے کشمیر میں وزیراعظم کے عہدے کو وزیراعلیٰ میں بدل کر کشمیر کی خصوصی شناخت کی روح نکال دی۔ اس کے بعد کئی اور فیصلوں سے اس کا سر بھی کاٹ لیا گیا، اور پانچ اگست کو خصوصی شناخت کی اس سربریدہ لاش کو دریائے جہلم میں بہا دیا گیا۔ اب بھارت حماقتوں اور غلطیوں کے دائروں میں گھوم رہا ہے۔
آج بھارت کو اقتدار کی سیاست میں شیخ عبداللہ جیسی قد کاٹھ کی شخصیت کا سامنا نہیں، مگر جیسے تیسے اقتدار کی سیاست کے مسلمہ خاندانوں سے واسطہ ضرور ہے، اور ان خاندانوں سے جان چھڑا کر طاقت کا خلا پیدا کیا گیا، اور اس خلا کو نئے ’’بخشی غلام محمد‘‘ تراشے جانا مقصود ہیں۔ خود بھارتی فوج کے ایک سابق اعلیٰ افسر لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ نے اپنے ایک طویل مضمون میں واضح طور پر لکھا ہے کہ مودی حکومت کشمیر میں حالات کے شیر پر سواری کررہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ کہہ رہے ہیں کہ حالات کا شیر کسی بھی وقت پلٹ اور پٹخ کر اپنے سوار پر بھی سوار ہو سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیںکہ ناراض اور مایوس کشمیری ایک بار پھر عسکریت کی طرف لوٹ سکتے ہیں۔ یہ بھارت کے ایک سابق فوجی افسر کا تجزیہ ہے۔ ان حالات میں بھارت ماضی کے خشک تالاب سے نئے تجربات کی مچھلیاں تلاش کرکے اپنا اور کشمیریوں کا وقت ہی ضائع کررہا ہے۔ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کی جگہ الطاف بخاری یا کسی نئے چہرے کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ جس سے وہ کشمیریوں کے دلوں میں بھارت کی محبت اور اطاعت کا جذبہ پیدا کریں گے؟