اقبال، ایک عظیم روح اور ذہن

اقبال کی شاعرانہ عظمت کا قیاس اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کے فکر و فن کی تفہیم کے لیے ’’اقبالیات‘‘ کو باقاعدہ صنفِ علم کا درجہ حاصل ہے

علامہ اقبال کی شاعری کا ظہور ایسے زمانے میں ہوا، جب جنگِ آزادی 1857ء میں ناکامی کے بعد مسلمان قوم سرسید کی مساعی اور جدوجہد سے ایک نئے تعلیمی شعور سے آشنا ہوچکی تھی۔ تاہم اس قوم کو انتظار تھا کسی ایسے مردِ مومن کا جو اسے اس کی انفرادی شناخت سے بہرہ ور کردے۔ یہ علامہ اقبال تھے جو مشرقی علوم و ادب کے ساتھ مغربی ادب و فلسفے اور تاریخ کے علم کے جامع تھے۔ ان کی ذات میں دونوں تہذیبوں کے دھارے آکر اس طرح مل جاتے ہیں کہ وہ دونوں کے عیوب اور کمزوریوں کے ساتھ ان کے محاسن سے بھی آگاہ نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اپنے آخری مطالعے میں وہ مشرقی اور دینی روایات ہی کو اہمیت دیتے اور انسانیت کی نجات بھی اسی میں دیکھتے ہیں۔ وہ جہاں مغرب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے زیراثر وجود میں آنے والی تہذیب کو مشینی اور صنعتی قرار دے کر اس میں انسانیت کی ہلاکت کی پیش گوئی کرتے ہیں، وہیں مشرقی تہذیب و مذہب میں وہ تصوف اور ویدانت میں بے عملی اور سُکر کی کیفیات کے غلبے کو اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
اقبال ایک عظیم روح اور عظیم ذہن کے مالک تھے۔ ان کی شاعری میں فلسفہ و تفکر کے عناصر پوری وجدانی، الہامی اور جمالیاتی اسلوب میں ظاہر ہوئے ہیں، اسی میں ان کی شاعرانہ عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری اپنے اندر ایسی انفرادیت لیے ہوئے ہے جس کی کوئی دوسری مثال اردو شاعری کے قرب و جوار میں بھی نہیں ملتی۔ نہ اُن سے پہلے اور نہ اُن کے بعد۔ وہ ہمارے قومی شاعر ہی نہیں ہماری قومی ضرورت بھی ہیں۔ دنیا کے عظیم شعرا میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جس نے اپنی بکھری ہوئی قوم کو قوم بنایا ہو، اور اس کے لیے ایک نئی مملکت کا خواب دیکھا ہو۔ اور صرف خواب ہی نہیں، اپنے خواب اور اپنی آرزو کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے ایک واضح خاکہ خطبۂ الٰہ آباد کی صورت میں پیش کیا ہو۔ جو اپنی قوم اور اس کے معتقدات کا مؤثر و پُرتاثیر شارح ہو، اور ایسا شارح کہ جس نے اپنے قومی امراض کی نشاندہی کے ساتھ ان امراض کا علاج بھی تجویز کیا ہو۔ قوم کو بے عملی اور زوال و پستی سے نکالنے کے لیے اپنی شاعری کے ذریعے مردِ مومن اور خودی کا تصور اس مؤثر طریقے سے پیش کیا ہو کہ یہ تصورات قوم کے اندر سرایت کرگئے ہوں۔ یوں اُن کا شمار ایک آزاد وطن کے خالق کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔ انھوں نے خود لکھا ہے کہ قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی ہیں۔ ہماری قوم اور ہمارا ملک یہ دونوں ہی اُن کی فکر اور اُن کی شاعری کا عطیہ ہیں۔ قائداعظم اور حکیم الامت ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔ حکیم الامت نے جس مردِ مومن کا تصور دیا، قائداعظم اسی تصور کا حقیقی جیتا جاگتا وجود ہیں۔ اس طرح علامہ کا تصور صرف تخیلاتی اور تصوراتی نہیں رہتا، ممکن العمل ہوجاتا ہے۔ ان کا خودی کا تصور بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کے اندر خودداری، اپنی شخصیت کے اثبات اور اپنے عمل و ارادے پر ایمان و ایقان سے عبارت ہے۔
اقبال کی شاعری کا کینوس وسیع اور اُن کا وژن اپنے اندر آفاقی وسعت لیے ہوئے ہے۔ الہامی ہونے کے باوصف ان کی شاعری میں سرمستی اور وہ جذبہ و شوق ہے کہ اس کی قرأت کرنے والا اپنے اندر ایک جوش و ولولہ پاتا ہے، چاہے ان کی شاعری بچوں کے لیے ہو یا بالغوں کے لیے۔ ان کا آرٹ زندگی اور اس کی حقیقتوں سے وابستہ و پیوست ہے۔ اقبال ادب و آرٹ کو زندگی آموز و زندگی آمیز دیکھنا چاہتے ہیں۔

شاعر کی نوا یہ کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ صبا کیا

اقبال جس طرح اپنی قوم کو باعمل اور کسی مقصدِ اولیٰ سے جڑا دیکھنا چاہتے تھے، اسی طرح ادب و آرٹ کو بھی تکمیلِ انسانیت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کی شاعری میں جو ’’عمل‘‘ پر زور ہے، وہ اس لیے ہے کہ اسلامی عقاید میں بھی عمل کا مرتبہ فکر سے کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا۔ عملِ صالح پہ اصرار اسی لیے ہے کہ معاشرے میں اسی سے نجات کی راہیں کھلتی ہیں۔ اقبال کی شاعری کے اساسی تصورات جن اصطلاحوں میں ظاہر ہوئے ہیں، وہ فکری سطح پر باہم مربوط ہیں اور ان میں کوئی تضاد و تناقض نہیں۔
مردِ مومن تصورِ خودی سے متصف ہوتا ہے اور عمل ہی کو جنت اور جہنم کے مترادف سمجھتا ہے۔ اچھے عمل سے اس کی دنیا جنت، اور برے عمل سے وہ اپنے لیے جہنم تیار کرتا ہے۔ نطشے کا سپرمین قہر و جبر کا نمائندہ ہے، اقبال کا مردِ مومن جلال کے ساتھ جمال کا بھی مظہر ہے۔

جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں

وہ کہتے ہیں مردِ مومن بیاباں سے تند آندھی بن کر گزرتا ہے، اور راہ میں گلستان آجائے تو جوئے نغمہ خواں بن جاتا ہے۔ اس طرح ان کا تصورِ مردِ مومن تکمیلِ آدمیت کا دوسرا نام ہے۔
حکیم الامت کی شاعری میں فکری ارتقا بھی ملتا ہے۔ ایک وقت میں وہ ہمیں جذبۂ وطنیت کے پرچارک نظر آتے ہیں، لیکن پھر قرآن حکیم کے غائر مطالعے اور تاریخی شعور کی بنا پر وہ وطنیت اور قومیت سے آگے بڑھ کر امت اور امتِ واحدہ کا تصور پیش کرتے ہیں۔ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو رنگ و نسل سے بلند ہوکر امتزاج و اتحادِ عقیدہ کی بنیاد پر ایک ہی لڑی میں پرویا ہوا پاتے ہیں اور اس کی تلقین کرتے ہیں کہ رنگ و خون کے بتوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجانا اور نیل کے ساحل سے تابہ خاکِ کاشغر متحد ہوجانا ہی مومن کا مطمح نظر ہونا چاہیے۔ وہ انسانیت کا مستقبل بھی اسلامی عقیدے کی قبولیت میں دیکھتے ہیں، اور خود مسلمانوں میں بھی ان ہی صفات کے آرزومند ہیں جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں۔
کوئی شبہ نہیں کہ انھوں نے فکری، جذباتی اور احساساتی سطح پر اپنے ہم مذہبوں میں یگانگت اور تعلقِ باہمی کا شعور پیدا کیا، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کے اندر دوسرے مذاہب سے لاتعلقی تھی۔ ان کی شاعری میں ہمیں کرشن اور گرونانک کی تعریف و توصیف بھی ملتی ہے۔ مغربی فلسفی ہیگل، اشتراکی مفکر کارل مارکس، اور انقلابی کامریڈ لینن پر بھی نظمیں ملتی ہیں اور شاعرانہ جرأت کے ساتھ ان پر تنقید بھی۔
اقبال ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعرانہ وسعتوں میں انفس و آفاق سمائے ہوئے ہیں۔ وہ خدا سے بھی الجھتے ہیں، صوفی کی کیفیتِ سُکر پر اعتراض بھی کرتے ہیں اور قوتِ عمل موجود پاکر شیطان کی مدح سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مثلاً

میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تُو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو

ان کی شاعری میں ہمیں انقلابی قدموں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے جب وہ کاخِ امراء کے در و دیوار ہلانے کی ببانگِ دہل ترغیب دیتے ہیں، یا اُس کھیت کو جلا ڈالنے کا اعلان کرتے ہیں جس سے دہقاں کو روزی میسر نہ ہو۔ وہ جعلی صوفیوں اور پیروں کا بھی پردہ چاک کرتے ہیں، جب کہتے ہیں:۔

گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
مجھ کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی

حالاں کہ خود اقبال اپنے اندازِ زیست میں مردِ درویش ہیں اور مولانا روم کو اپنا مرشد مانتے ہیں اور ان کے عارفانہ کلام کو اپنے لیے باعثِ فیضان ٹھیراتے ہیں۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت کا قیاس اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کے فکر و فن کی تفہیم کے لیے ’’اقبالیات‘‘ کو باقاعدہ صنفِ علم کا درجہ حاصل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقبال کی اہمیت کھلتی جارہی ہے اور ان کی شعری معنویت پرت در پرت ظاہر ہوتی جاتی ہے۔ انقلابِ ایران ہو یا افغانوں کی جہدِ مسلسل، ان سب کے اسرار کا سراغ ہمیں اقبال کی شاعری میں مل جاتا ہے۔ ان کی شاعری کے دائرے کی وسعت ایسی ہے کہ اس میں مختلف الخیال حلقے اور مکتبِ فکر کو اپنی اپنی مرغوب غذا مل جاتی ہے چاہے وہ صوفی ہو یا کمیونسٹ، انقلابی ہو یا اسلامی ذہن رکھنے والا، قومیت کا پرچارک ہو یا تہذیب مذہب کا ناقد، یا سائنس و ٹیکنالوجی کا پرستار۔ اسی لیے اگر یہ کہا جائے کہ اقبال کی شاعری آفاقی ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔