مائیکل ہیملٹن مورگن/ ترجمہ: و تلخیص: ناصر فاروق
بغداد میں ستارہ شناسوں کا ایک بااثر خاندان تھا۔ بنی ثابت کے ہاں تین نسلوں سے ریاضی دانوں اور ماہرینِ فلکیات کا سلسلہ چلا آتا تھا، یہ شامی اور یونانی زبانیں بولتے تھے۔ قدیم قصبہ ہران سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ اُس زمانے میں عراق کا حصہ تھا۔ یہ لوگ یونانی زبان و ثقافت میں رنگے ہوئے تھے، اسی سبب یونانی علوم کی عربی میں منتقلی کا اہم ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔
خلیفہ المامون کی وفات کے سو سال بعدکتابیات نگار الندیم نے لکھا ہے کہ دارالحکمۃ میں صابی خاندان کی آمد کا قصہ عجیب تھا۔ نویں صدی میں مامون اپنی فوج کے ساتھ شمال کی جانب پیش قدمی کررہا تھا، بازنطینیوں سے محاذ آرائی کا ارادہ تھا۔ اُس کا گزر صابیوں کے علاقے سے ہوا، یہ خطہ آج جدید ترکی میں شامل ہے۔ مامون کو تجسس ہوا، اُس نے صابئین کے بزرگوں سے اُن کے عقائد جاننے چاہے، کہ آیا وہ ’اہلِ کتاب‘ کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں۔ تاہم وہ مامون کو مطمئن نہ کرپائے۔ خلیفہ نے انھیں محاذِ جنگ سے واپسی تک کی مہلت دی کہ یا تو وہ اسلام قبول کرلیں یا جنگ کے لیے تیار رہیں۔ صابئین نے دیگر مذاہب کے علماء سے رائے طلب کی، اُن سے مدد مانگی۔ انھوں نے قرآن حکیم کا بغور مطالعہ کیا، وہاں انھیں چند ایسی آیتیں ملیں جن میں صابئین کا ذکر موجودتھا، یہ ذکر اہلِ کتاب کے ضمن میں آیا تھا۔ تاہم بعد میں علماء کی ایک رائے یہ سامنے آئی کہ وہ صابی جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے، وہ یہ لوگ نہیں تھے، ان لوگوں نے ’اقلیتی تحفظ‘ حاصل کرنے کے لیے یہ نام اختیار کیا تھا۔ جب مامون پلٹا، صابئین نے اپنا مقدمہ اُس کے سامنے رکھا، اُس نے نہ صرف انھیں تحفظ کی ضمانت دی، بلکہ اُن کے دانشوروں کو دارالحکمۃ آنے کی دعوت دی۔
بغداد مدعو کیے جانے والوں میں ثابت ابن قرہ شامل تھا، وہ مشہور ریاضی دان تھا۔ اُس نے بیضوی اشکال (parabolas)، عمل تثلیث(angle trisection) ، اور طلسمی مربع پرعمدہ کام کیا تھا۔ ابن قرہ کے پوتے ابراہیم نے سورج کی ظاہری حرکت اور سائے کی جیومیٹرک پیمائش کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ یہ راستہ اسے بیضوی اشکال کی مزید صورت گری کی جانب لے گیا، اُس نے دادا کے کام پر مزید اضافے کیے۔ اُس نے ایک طریقہ وضع کیا، جو خم دار جگہ کی متوازی مربع صورت سامنے لاتا تھا۔ ایک اور ریاضی دان محمد البتانی تھا، اُس کا والد ہران کا معروف ماہر فلکیات تھا، البتانی نے خوبی سے علمی جانشینی سنبھالی۔ ٹیلی اسکوپ اور کمپیوٹرکے زمانے سے بہت پہلے، البتانی نے فلکیاتی شماریات میں چند عمدہ کام کیے۔ اُس نے 489 ستاروں کی کیٹیلاگنگ کی، اُس نے ایک سال کی مدت کا تعین 365 دن، 5گھنٹے، 48 منٹ، اور 24سیکنڈکیا۔ اس میں اور بعد میں ٹیلی اسکوپ اور دیگر جدید آلت سے شمار کی گئی مدت میں چند منٹ کا ہی فرق نکلا۔ اُس نے سورج کے رخ پر مغرب کی جانب دھیمی رجعی حرکت کے مشاہدے سے سال کے نقطہ اعتدال کا پتا لگایا۔
اُس نے گرہن کے جھکاؤ کا حساب لگایا، اُس نے گرہن کی ارضی و فلکیاتی سائنس جاننے کے لیے جیومیٹری کی نسبت trigonometry کا طریقہ اختیار کیا، علم مثلث کی یہ قسم اُس کی اپنی ایجاد تھی۔
ایک اور فارسی شخص جو ہندسوں میںگہری دلچسپی رکھتا تھا، اُس کا نام تھا ابوالعباس النیریزی۔ یہ نویں صدی میں پید ہوا۔ اس نے بزرگوں کے کام کو آگے بڑھایا، ہم عصروں کے ساتھ مل کر علمِ شماریات کو ترقی دی۔ النیریزی نے کعبۃ اللہ کے رخ کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا۔ اب اندازوں اور تخمینوں کی جگہ معیاری ریاضی نے لے لی تھی۔ خاص طور پر دورانِ سفر رخِ مکہ کا درست تعین بھی آسان ہوچکا تھا۔ اہم بات یہ ہوئی کہ علم جغرافیہ کی پیچیدگیاں دور ہوتی چلی گئیں،Trigonometry کے عام استعمال نے جغرافیائی تعین کی درستی ممکن بنادی تھی۔
دسویں صدی کے شامی ریاضی دان ابوالحسن الاقلیدسی نے، جو دمشق میں خدمات انجام دے رہا تھا، پہلی بار مسلم ریاضی میں decimal fractions متعارف کروائی، جس نے زیادہ درستی سے پیچیدہ تر شماریات ممکن بنائی، جو بعد میں ڈیجیٹل اور کمپیوٹر پراسیسنگ میں مددگار ہوئی۔ اپنے طریقے پر decimal fractions نے ریاضی کو جدید تربنایا، اور صفر سے شروع ہونے والی مسلم ہندو ریاضی کو اعلیٰ معیار تک پہنچایا۔ نئی مسلم ریاضی اور جیومیٹری کے معیاری طریقے علم فلکیات اور سائنس کی پیش رفت پر دوررس اثرات مرتب کررہے تھے، یہ مسلم فنِ تعمیر کی ندرتوں میں نمایاں ہورہے تھے، نت نئے شاہکار سامنے آرہے تھے۔ اسلامی تہذیب کی جمالیاتی حس پر علمِ ریاضی کے نقش آج تک نظرآتے ہیں۔ دمشق کی تعمیرات میں اب مثلث، مسدس، اور نو ضلعی اشکال عام ہوچکی تھیں۔ بغداد کی تعمیرات میں ستاروں کی نقشہ گری کے اضافے نے مسلم کلاسیکی فن کو چارچاند لگائے، جو پھرمسلم فنِ تعمیر کی پہچان بن گئے۔ مسلم ماہرین اور فنکاروں نے جیومیٹرک اشکال کو جس خوبی سے ٹائلوں پر منتقل کیا، وہ آج بھی فنِ تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔ مساجد، محلات، اور دیگر تاریخی عمارتیں مسلم حسِ جمالیات کے عمدہ شاہکار ہیں۔ یہ ہمیں امویوں سے مغلوں تک متواتر نظرآتے ہیں۔ مسلم ریاضی دان، جوستاروں سے نگاہوں کو خیرہ کیا کرتے تھے، ارضی تعمیرات میں اُن کے ایسے نقش چھوڑ گئے جو ہزار سال تک دنیا کی نگاہوں کو اعلیٰ اسلامی ذوق کی خبر دیتے رہے۔ دسویں صدی کے ایک فارسی مسلمان ابولوفا نے، جو بغداد میں کام کرتا تھا، فنکاروں کے لیے ایسی رہنما ہدایات متعارف کروائیں جو جیومیٹرک نمونوں کی تیاری میں معاون ہوئیں، یہ کئی تاریخی عمارتوں کی تعمیر میں کام آئیں۔ ابولوفا نے فنِ پچی کاری اور نقشہ گری میں اظہارات کی نئی دنیا تخلیق کی۔ اس کام کے لیے اُس نے ریاضی اور جیومیٹری کی کئی خوبیاں نمایاں کیں۔ وہ شاید دسویں صدی کا بہترین ریاضی دان تھا، اور فنِ تعمیر میں اُس کے کارنامے اُس کی ذہانت اور صلاحیتوں کا محض ایک پہلو تھے۔ اُس نے الخوارزمی کے کام پر طویل شرحیں لکھیں۔ یونانی جیومیٹرEuclid اور بازنطینی ریاضی دان Diophantos کی کتابوں پر بھی توضیحات رقم کیں۔ ابولوفا نے جیومیٹری کے مسائل پرلکھا، عملی علم الاعداد پر ایک کتاب تصنیف کی، اور کمپاس کا استعمال متعارف کروایا۔ پہلی بار اُس نے حساب کتاب سے ایسا مربع وضع کیا، جو دیگر مربعوں کے مساوی تھا، اور ایسے فنی نمونے تخلیق کیے جوکثیرالزاویہ اشکال کے تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ابولوفا نے علم مثلثات کی بنیاد رکھی۔ اُس نے نیا اور زیادہ مؤثر نظامِ شماریات متعارف کروایا، وہ خط قاطع کا ٹھیک حساب لگانے والا پہلا ریاضی دان تھا، اسے اُس نے “diameter of the shadow” کا نام دیا، مگر یہ بھی تاریخ میں گُم ہوگیا، اور بعد میں اس اہم کام کوشاید غلطی سے کاپرنیکس سے منسوب کردیا گیا جو چھ صدیوں بعد پیدا ہوا تھا۔
یہ سب ریاضی دان اکثر اشتراک سے، کبھی کبھی مسابقت میں، کبھی تنہائی میں ہندسوں کے اسرار جاننے کی تگ و دو کرتے رہے۔ ہندسوں کی یہی تلاش مستقبل میں اجسام ارضی کی شماریات اور ریاضی کی بنیاد بنی۔ درجنوں اور سیکڑوں علمائے ریاضی نے انتھک محنت کی، ان کی اکثریت بہترین افراد پر مشتمل تھی۔ سب ہی الخوارزمی کی سطح پر ہندسوں سے شناسائی چاہتے تھے، گوکہ اس مقام تک چند ہی پہنچ پائے تھے۔
اس علم دوست رویّے کا نتیجہ یہ نکلاکہ علمِ ریاضی میں پیش رفت تیزی سے جاری رہی۔ اس میں سے کچھ غلطیوں کی نذر ہوا، کچھ اخذ شدہ تھا، مگر بہت کچھ انتہائی ذہانت کا شاہکار تھا۔
مسلمانوں کے پہلے سنہرے دور میں علم دوستی کی جو روایت چلی، وہ تسلسل سے جاری رہی، یہاں تک کہ یورپی نشاۃ ثانیہ پر پہنچی۔ سب سے اہم علمی میراث ریاضی اور الجبرا کے علوم تھے۔ یہ وہ خالص ذہنی سرگرمی تھی، جو ستاروں کے بارے میں سوالوں سے پیدا ہوئی تھی۔
اب الخوارزمی کی وفات کو صدی بیت چکی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اُس کی برابری کسی کے بس میں نہیں، مگر نویں صدی میں ایک نوجوان منظر پر ابھرا، اُس کا تعلق عراقی شہر بصرہ سے تھا۔ اُس نے شروع میں ریاضی پر زیادہ توجہ نہ دی، وہ آل بویہ کی موجودہ خلافت کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا تھا، بغداد پرآل بویہ کی حکومت 945ء سے 1055ء تک قائم رہی تھی۔
اس نوجوان کا نام ابن الہیثم تھا، وہ ایک دن الخوارزمی سی ذہانت بروئے کار لانے والا تھا، گزشتہ صدی کی دریافتوں پر نئے علوم کی عمارت اٹھانے والا تھا۔ اُس نے کئی علوم پر دو سو کتابیں تصنیف کیں۔ اُس نے ریاضی کے نئے کلیات وضع کیے، اور بصارت سے متعلق انقلابی اکتشافات کیے، جنھوں نے بعد میں گلیلیو اورکاپرنیکس کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ زمین اور دیگرخلائی اجسام میں تعلق کی درست نوعیت کیا ہے، اور یہ کہ کرہ ارض کی اپنی اصل شکل و صورت کیا ہے۔ اُس کا آبائی قصبہ دجلہ اور فرات کے ساتھ ساتھ چلتے دلدلی علاقے میں تھا۔ یہ وہ مقام تھا جو عرب تاجروں اوردیگر اقوام میں بحری رابطے کا سنگم تھا، یہاں کی بندرگاہ تک دنیا بھر کے تجارتی جہاز سفرکیا کرتے تھے۔ دریاؤں کے ساتھ قطار میں کھجورکے درخت دور تک نظر آتے تھے۔ دیگر بندرگاہوں کی مانند، بصرہ بھی ایک مقامِ اتصال تھا۔ ریگستان، دریاؤں، سورج کی کرنوں، اور زندگی سے بھرپور بے شمار زاویوں کے مشاہدے نے ابن الہیثم کی تخلیقی صلاحیتوں کی بھرپورآبیاری کی۔ عمل انعطاف اور انعکاس کے اصولوں نے اُس کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ سب سے زیادہ روشنی نے اُسے تجسس میں مبتلا کیا۔ وہ روشنی کی ہیئت اور نوعیت جاننا چاہتا تھا۔ روشنی کیا ہے؟ بطلیموس کے مطابق، مشہور کتاب Almagest میں، روشنی ایک کرن ہے جو دیکھنے والے کی آنکھ سے پیدا ہوتی ہے، اور جس شے پر نظر جائے اُسے واضح کرتی ہے۔ کیا یہی سچ ہے؟ کیا قدیم یونانیوں پر یقین کرنا ایمان کا درجہ رکھتا ہے؟ کیا وہ کبھی غلطی نہیں کرسکتے؟
سول سروس کی تعلیم میں اعلیٰ کارکردگی کے بعد، ابن الہیثم نے تیزی سے حکومت میں نفوذ کیا۔ اُسے بصرہ کا وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔ یہ اُس دور کی بہت اہم اسامی تھی، جسے حاصل کرنے کے لیے درباریوں میں دوڑ لگی رہتی تھی۔ اُسے اس تجارتی مرکز کی ہر سرگرمی اور پہلو پر کڑی نظر رکھنی پڑتی تھی۔ اسلامی خلافت کی دینی سرگرمیوں میں بھی ابن الہیثم کی حیثیت مرکزی اہمیت اختیار کرگئی تھی، وہ علم الٰہیات کے گہرے مطالعے میں مستغرق رہا تھا، تاکہ دینی مباحث اور مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں معاون و مددگار ہو۔ یہ ذمے داریاں وہ خوبی سے نبھاتا رہا، یہاں تک کہ وہ لمحہ آگیا جب وہ یکسانیت محسوس کرنے لگا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ مختلف مکتبہ فکر درست تفہیم پر پیش رفت نہیں کررہے تھے۔ کس طرح فانی دماغ لافانی خدا کی حکمتوں تک کامل درستی سے پہنچ سکتے تھے؟کس طرح خودساختہ ماہرین اور علماء خدا اور ایمان کی حقیقت کلیوں میں ثابت کرسکتے تھے؟ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی غیر موجودگی میں یہ مباحث بے نتیجہ لگ رہے تھے۔ وہ وقت جلد آگیا جب وہ خاموشی سے ان صحبتوں سے کنارہ کش ہوگیا۔
اس ذہین اور جوان وزیر نے تالیفِ قلب کی راہ ڈھونڈی۔ خلیفہ مامون اور دیگر علماء کی طرح اُس نے خدا کی معرفت کے لیے ہندسوں کی راہ لی۔ اُس نے سائنسی تحقیق اختیار کرلی اور حکومتی عہدہ چھوڑدیا۔ اکثرکا خیال تھا کہ ابن الہیثم نے اتنی اچھی وزارت چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی، مگر اُس نے پلٹ کرکبھی پیچھے نہیں دیکھا۔ آنے والے برسوں میں اُس کی سائنسی مہارتوں میں کمال پیدا ہوا، اُس کی شہرت بصرہ سے بغداد اور پورے عراق میں پھیل گئی۔ تاہم اب بغداد کی حکومت کا دائرہ خاصا سمٹ چکا تھا۔ اُس کے علم کا شہرہ اسماعیلی فاطمیوں کی قلمرو تک پہنچا۔ فاطمی خلافت کا مرکز قاہرہ تھا۔ یہاں الحکیم کی خلافت قائم تھی، اُسے تیرہ سال کی عمر میں تخت پر بٹھادیا گیا تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الحکیم، فاطمیوں کا المامون تھا۔ وہ بڑے عزائم رکھتا تھا۔ اُس کی حکومت مرحوم عباسی ریاست کے بیشتر علاقوں پر قائم تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ بغداد سمیت دنیا کے ہرخطے کا ہر بڑا دانشور اور حکیم قاہرہ کا رخ کرے، اور یہ شہر جدید علوم کا مرکز بن جائے۔ مزید یہ کہ وہ پوری دنیا کی حکومت سنبھالے، اور قاہرہ اس عالمی ریاست کا دارالخلافہ ہو۔ مگر الحکیم کی شخصیت ایک معما ثابت ہوئی۔ وہ بیک وقت علم کا جویا اورمذہبی رواداری کا اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے، اور ظلم و عدم برداشت بھی اُس کی صفات بن کر سامنے آتے ہیں۔ جب آپ بغداد کی عباسی خلافت اور قاہرہ کی فاطمی خلافت کے درمیان تصور جہاں کا اختلاف تلاش کرنا چاہتے ہیں، توگمشدہ تاریخ پر گہرے بادل چھا جاتے ہیں۔الحکیم کی شخصیت اس دھندلے ماحول میں کہیں اوجھل اوجھل سی دکھائی دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ رات میں دربار بلاتا تھا، اور دن میں سوتا تھا۔ اُس نے کچھ سبزیوں اور ایک معروف کھانے ’ملوخیا‘ پر پابندی عائد کررکھی تھی۔ وہ راتوں میں گھوڑے پر اکیلا نکل جاتا تھا اور قاہرہ کے نواح میں ریگستانوں کی سیر کیا کرتا تھا۔ وہ انتہائی خطرناک حالات میں اپنی جان خطرے میں ڈال دیا کرتا تھا۔ وہ اپنے دشمنوں کو بڑی سفاکی سے قتل کروا دیا کرتا تھا، اس معاملے میں کوئی مصالحت، کوئی درگزر اُس کی لغت میں موجود نہ تھی۔ اُس نے جب اقتدار سنبھالا، یہودیوں اور عیسائیوں سے بڑا دوستانہ برتاؤ روا رکھا، مگر پھر وہ بے رحم ہوگیا، یروشلم کے مقدس گرجا گھرکو تباہ کردیا، شطرنج پر پابندی لگادی کیونکہ وہ شطرنج کا اچھا کھلاڑی نہ تھا۔ اُس کا دربار دہشت زدہ رہنے لگا تھا۔ کوئی منہ کھولنے کی جسارت نہ کرتا تھا کہ مبادا کہیں جان کے لالے پڑجائیں۔
تاہم بیسویں صدی کی تحقیق میں اُس کی ایک مختلف صورت سامنے آئی ہے۔ اسمٰعیلی، یہودی، عیسائی اور شیعہ ذرائع سے مؤرخین اُس کی رحم دلانہ اور مشفقانہ صورت گری کرتے ہیں۔ ایک عبرانی دستاویز میں الحکیم کی تعریف و توصیف سامنے آتی ہے۔ عیسائی بھی اُسے ایک محافظ اور مددگار تصور کرتے ہیں۔ غرض، 1005ء میں وہ ایک ایسے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھتا ہے جسے بعد میں مسلم دنیا اور عالمِ انسانی کی علمی پیش رفت میں اہم مقام حاصل ہوتا ہے۔ قاہرہ میں مدرسہ دارالعلم اور اس سے ملحق جامع مسجد الحکیم تعمیر کیے جاتے ہیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ فاطمی حکمرانوں نے اسمٰعیلی فلسفے کو فروغ دیا۔ یہ نوافلاطونیت، اسلامی، سائنسی، باطنی اور صوفیانہ رنگ لیے ہوئے تھا۔ الحکیم کا طرزِ زندگی بھی درویشانہ تھا۔ اُسے درباری جاہ وحشم سے زیادہ رغبت نہ تھی۔ مؤرخین نے محسوس کیا ہے کہ الحکیم کے دربار میں یہودی اور عیسائی فیصلہ کن عہدوں پر فائز رہے، جس سے اُس دور میں مسلم عوام اکثر اضطراب کی کیفیت میں رہے۔ تاہم الحکیم کے دور میں نظامِ انصاف عمدہ تھا، قاضیوں کو مکمل طور پر منصفانہ فیصلوں کی سہولت دی گئی تھی۔ اس معاملے میں خلیفہ کسی رو رعایت کا روادار نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی سازش اُس کے خلاف کارگر نہ ہوئی۔ اُس نے بدعنوانی اور شدت پسندی کو پنپنے نہ دیا۔ الحکیم کوعلماء کی صحبت پسند تھی۔
خواہ اُسے سفاک حکمران سمجھا جائے یا صوفی درویش، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اُس کے روشن پہلوکو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ابن الہیثم نے بھی یہ پہلو نظر میں رکھا اور قاہرہ کا رخ کیا۔ وہ دارالعلم پہنچا، جہاں ہرطالب علم کا خیرمقدم کیا جاتا تھا خواہ وہ کتنا ہی غریب اور اجنبی ہو۔ یہ تعلیمی ادارہ نہ صرف باہم مربوط اہلِ علم کی آماج گاہ تھا بلکہ ہرکوئی یہاں سے علم کی ضرورت پوری کرسکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم دنیا کے بڑے بڑے دانشور اور علماء یہاں کا رخ کررہے تھے۔
گیارہویں صدی کا قاہرہ، جہاں جامع ازہر اور مدرسہ، یہاں کے محلات، دریاؤں کے ساتھ ساتھ باغات کا سلسلہ، اور دانشوروں کی محفلیں اسے علمی مرکزیت عطا کررہی تھیں۔ یہ کسی طور بغداد سے کم نہ تھا۔ بلکہ ایک دور میں یہ بغداد سے بھی بڑھ کر توجہ حاصل کررہا تھا۔ جو لوگ صدی پیچھے بغداد کا رخ کیا کرتے تھے، اب قاہرہ میں جمع ہورہے تھے۔
الحکیم نے ابتدا میں ابن الہیثم کو دریائے نیل کے سیلاب سے بچاؤ کے انتظام کی ذمے داری سونپی، جسے اُس نے نہ صرف قبول کیا بلکہ بہترین ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ اُس نے نیل کے ساتھ ساتھ سفر کیا، خطے کا جائزہ لیا، امکانات اور خدشات کا تجزیہ کیا، ایک مقام پرسیلاب کو قابو میں لانے کے لیے نظام وضع کیا، تاہم ایک انجینئر اسوان نے جس کا تعلق بصرہ سے تھا، محسوس کیا کہ دریا کی چوڑائی اور پانی کا بہاؤ اس قدر وسیع رقبے پر ہے کہ جسے روکنا ممکن نہیں۔ وسائل اتنے بڑے کام کے لیے ناکافی تھے۔ تاہم ابن الہیثم کی ہمت نہ ہوئی کہ خلیفہ کے سامنے ناکامی کا اعتراف کیا جائے۔ چنانچہ اُس نے پاگل پن کی اداکاری کی، اور جان بچائی۔ اُس کے خیال میں یہی واحد طریقہ تھا خلیفہ کی ناراضی سے بچنے کا۔ اس واقعے کی سند تاریخ میں کہیںگم ہوچکی ہے۔ ممکن ہے تاریخ کا یہ قصہ کسی تعصبانہ رنگ آمیزی کا شاخسانہ ہو، تاہم یہ معلوم حقیقت ہے کہ ابن الہیثم نے بند باندھنے کا منصوبہ نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ وہ قاہرہ ہی میں رہا اور سائنسی تحقیق کا سلسلہ چلتا رہا۔ ریاضی اور سائنسی تحقیق میں اُسے مکمل مالی تعاون حاصل رہا، یہ مدد غالباً خلیفہ کی بہن ست الملک کی جانب سے کی جارہی تھی۔ یہ اسلامی تاریخ کی امیر ترین خواتین میں شمار کی جاتی ہے۔
ابن الہیثم نے اپنا کام دوبارہ شروع کیا، وہ روشنی پر تحقیق کررہا تھا، اُسے ابتدائی عمر سے روشنی کی ہیئت جاننے میں گہری دلچسپی رہی تھی، اور اب وہ اس کام کا بیڑہ اٹھا چکا تھا۔ 1016ء میں الحکیم کی پراسرار گمشدگی یا موت کے بعد ابن الہیثم نے پھر سے کھل کر اپنی علمی سرگرمیوں میں پیش رفت کی۔
ست الملک، جس نے اب اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی تھی، ابن الہیثم کی سرپرستی کررہی تھی۔ وہ اب جامعہ ازہر میں باقاعدگی سے ریاضی پڑھا رہا تھا، یہاں یونانی علوم کے ازسرنو ترجمے ہورہے تھے۔ الازہر فاطمیوں کے فنِ تعمیر کا شاہکار تھا، مگر یہ ابن الہیثم کے لیے اور بھی بہت کچھ تھا۔ اس کے میناروں، گنبدوں، ستونوں، اور عباسی محرابوں میں، اور روشنی کے سایوں میں اُس کے مشاہدے کا کافی سامان تھا۔ وہ روشنی کی حرکت کا جائزہ لے رہا تھا۔ گنبد کی جیومیٹری، اور کھڑکیوں سے نمازیوں پر پڑتی کرنوں، صبح کے سایوں، اور ڈھلتی شام کی شعاعوں میں روشنی کی بدلتی صورتیں اُسے لذت آشنائی سے دوچار کررہی تھیں۔ یہ سارا ماحول اُس کے ذہن میں روشنی اور آوازوں کی سائنسی و ریاضی صورتیں بنا رہا تھا۔ اس سے بہتر جگہ اور کون سی ہوسکتی تھی کہ جہاں ابن الہیثم روشنی پرانقلابی نظریے تشکیل دے سکتا تھا؟
اُس نے دوسو کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے بیشتر گم گَشتہ ہوئیں، علم بصارت پر سات جلدوں کی کتاب محفوظ رہ گئی۔ یہ شاید اُس کا اہم ترین کام تھا۔ اُس کی تحریروں کا بنیادی سبق یہ ہے کہ سائنس کی بنیادیں تجربے کی بنیاد پر استوار ہونی چاہئیں۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں ابن الہیثم وہ پہلا سائنس دان ہے جس نے تجربے کے اصول کوحتمی قرار دیا۔ جبکہ یونانی فلسفی تجربے تک جانے سے گریز کرتے رہے تھے، وہ کلیوں پر ہی اکتفا کرتے تھے۔
ابن الہیثم بخوبی جانتا تھا کہ کوئی انسانی دماغ خواہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو، بغیر پیمائش اور تجربے کے کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ اُس نے اپنی تحریروں میں ہر جگہ یہ سوال اٹھایا ہے کہ جو سائنسی نظریے تجربے سے ثابت نہیں کیے جاسکتے وہ محض مفروضے ہی ہیں۔ اُس کی عظیم ترین دریافتوں میں ایک یہ تھی کہ روشنی دیکھنے والے کی آنکھ سے منعکس نہیں ہوتی۔ یہ بطلیموس کے نظریے کا رد تھا۔ یہ رد ابن الہیثم کے لیے آسان نہ تھا۔ اس ابتدائی نقطہ سے ابن الہیثم نے کامیاب پیش رفت کی، روشنی کی ہیئت اور فطرت جاننے کی بھرپور سعی کی، اُس نے روشنی کے بے شمار تجربے کیے۔ اُس نے بالکل درست سوالات اٹھانے شروع کیے، روشنی اور رنگوں میں تعامل کی نوعیتوں کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا۔ اُس نے برسوں یہ جاننے میں صرف کیے کہ روشنی اور سائے کا رشتہ کیا ہے، آئینوں کی مختلف صورتیں کیا نتائج سامنے لاتی ہیں۔ وہ سورج اور چاند گرہن کی وجوہات پر غور کررہا تھا۔
انسانی آنکھ میں ابن الہیثم کی دلچسپی گہری تھی۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کررہا تھا کہ روشنی جب کورنیا میں داخل ہوتی ہے، توعدسہ چشم اورآنکھ کے پچھلے حصے کے درمیان کیا تعامل واقع ہوتا ہے۔ اُس نے آنکھ کے نظام کی بھرپور وضاحت رقم کی، جس کی بنیاد پر بعد کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیق استوار کی، اور دنیا camera obscura جیسی اصطلاحوں سے واقف ہوئی۔ ابن الہیثم کے اور کئی ایسے کارنامے تھے جنھیں بعد میں کیپلر اور ڈیکارٹ وغیرہ سے منسوب کردیا گیا تھا، جبکہ وہ درحقیقت نشاۃ ثانیہ کے سائنس دانوں کی طرح مسلم سائنس دانوں کے کاموں کی نقل کررہے تھے یا اُن کی تعلیمات پر اپنی تحقیق استوار کررہے تھے۔
ابن الہیثم نے اپنے camera obscura کے استعمال کی بنیاد پر یہ علم مستحکم کیا تھا کہ روشنی سیدھا سفر کرتی ہے۔
بصارت سے متعلق اپنی کتاب میں ابن الہیثم نے لکھا: ’’ایک تجربہ کرتے ہیں، ٹھوس جسم مادہ لیتے ہیں، اس میں چھوٹا سا سوراخ کرتے ہیں،اس کا رخ سورج کی مخالف سمت پر کرتے ہیں، اسے سیدھے رخ پر حرکت دیتے ہیں، روشنی کے رخ کا جائزہ لیتے ہیں، یہ بالکل درستی کے ساتھ سیدھی جاتی نظر آئے گی۔ لہٰذا یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سورج کی روشنی سیدھے رخ پر سفر کرتی ہے۔‘‘
ابن الہیثم نے انسان کی دونوں آنکھوں کی بیک وقت کارکردگی کے مکینزم کا مشاہدہ بھی کیا۔ وہ حیران تھا کہ کس طرح سورج اور چاند خط افق پر بہت بڑے دکھائی دیتے ہیں جبکہ اوپر آسمان کی بلندی پروہ چھوٹے نظر آتے ہیں۔ اُس نے اس صورت حال کی درست توضیح پیش کی۔ وہ کروی ساخت کے شماریاتی معنوں اور اشاروں پرتعجب میں تھا۔ یہ مختلف زاویوں کی اشکال اُسے ریاضی کی نئی جہتوں کی جانب لے گئیں۔ اُس نے سمجھنا شروع کیا کہ کس طرح عدسۂ چشم اشیاء کوبڑا کرکے دکھاتا ہے۔ یہ ایک اہم دریافت تھی جس نے بعد میں گیلیلیو، لیووین ہاک اور کاپرنیکس کی مدد کی، وہ اس قابل ہوسکے کہ ستاروں اور جرثومہ کو آسانی سے دیکھ سکیں۔
ابن الہیثم کے کام نے کیلکولس کی ابتدائی شکل بھی فراہم کی، جوبعد کی تمام تحقیق میں کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ کام مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرگیا۔ اُس کا ایک عظیم کارنامہ ریاضی اور طبیعات میں ’شفق‘ کی توضیحات پیش کرنا تھا۔ اُس نے شمارکیا اور بتایا کہ جب سورج خط افقی سے 19 ڈگری نیچے ہوتا ہے، تب شفق واقع ہوتی ہے۔ اس حقیقت نے اُسے ماحول شناسی سے بہت قریب کردیا تھا، ایک ایسی ماحول شناسی جس تک سائنس بیسویں صدی میں پہنچی، یہ خلا میں سفر کی صدی تھی۔
وہ طبیعات کے قوانین سمجھ رہا تھا۔ ابن الہیثم نے گیلیلیو اور نیوٹن سے چھ صدیوں قبل خلائی اجسام کی باہمی کشش کے بارے میں لکھ دیا تھا، لگتا یہ ہے کہ وہ کشش ثقل کی حقیقت سے واقف تھا، مگرہم تک اُس کے علم کا بہت ہی مختصر حصہ پہنچ پایا ہے، اکثرتاریخ گُم گَشتہ ہوچکا۔ اُس نے نگاہ میں آنے والی خوبصورتی کی سائنسی توجیح بیان کی، کہ کس طرح خوبصورت منظرکی ہر شے نظرپرکس توازن سے اثرانداز ہوتی ہے۔ ترتیب اور منظم مناظر زیادہ خوبصورت اور دلکش کیوں نظرآتے ہیں، ابن الہیثم نے اس پرخوب تبصرہ لکھا۔
جدید ہندسے براہِ راست قرون وسطیٰ کے مسلم ہندی ہندسوں کا ماخذ ہیں۔ مماثلتیں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ابن الہیثم کے کئی سوالوں کے جواب ہزار سال تک کہیں سے سامنے نہ آسکے تھے، یہاں تک کہ روشنی اور ریاضی سے گہرا شغف رکھنے والا البرٹ آئن اسٹائن منظر پر ابھرا۔ اگر ابن الہیثم کے کام اور دور کا جائزہ لیا جائے، تو بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کا آئن اسٹائن تھا۔ اگرچہ ابن الہیثم کا بہت سا کام ہم گنوا بیٹھے ہیں۔
صدیوں بعد ابن الہیثم کی تحریریں لاطینی میں ترجمہ کی گئیں۔ تیرہویں صدی سے ابن الہیثم کے ترجمے متواتر ہوئے، جو سولہویں صدی تک اہلِ یورپ کی علمی آبیاری کرتے رہے۔ فریڈرک ریسنر نے یہ ترجمے شائع کیے۔ تاہم یورپیوں نے اُس کا نام ابن الہیثم سے بدل کر Alhazen رکھ دیا۔ نشاۃ ثانیہ کے دور تک، جوابن الہیثم کے کام میں اضافہ کررہے تھے یا اسے نقل کررہے تھے، انھوں نے اُسے گرہن لگادیا، تاریخ سے غائب کردیا۔ غالباً ابن الہیثم نے اس بات کی کبھی پروا نہ کی کہ اُسے اعزازات سے نوازا جائے، وہ توبس کائنات کے سربستہ رازوں پر سے پردہ اٹھانا چاہتا تھا۔
(جاری ہے)