جو رتبۂ اعلیٰ کے سزا وار ہوئے ہیں
پہلے وہ مصیبت کے طلب گار ہوئے ہیں
معروف ماہرِ تعلیم، ادیب، سابق ایکسپرٹ سندھ پبلک سروس کمیشن، سابق ریجنل ڈائریکٹر کالجز سکھر ڈویژن، سابق پرنسپل گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کندھ کوٹ، جیکب آباد، پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز سینٹر سکھر، سابق ممبر ڈسپلنری کمیٹی لاڑکانہ بورڈ، سابق ممبر شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے بورڈ آف اسٹڈیز، اور آج کل ایم۔ فل اردو کے مقالوں کے ممتحن کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر نثار احمد سومرو کی ساری حیاتِ مستعار بھی درحقیقت محولہ بالا شعر کی ایک عملی تصویر، تفسیر اور درخشاں و تاباں ایک ایسی عمدہ اور قابلِ رشک مثال ہے جس کی صدقِ دل سے تقلید اور پیروی کرکے نامساعد حالات کا سامنا کرنے والے افراد ہمارے ممدوح کی طرح ہی محنت، جانفشانی اور جہدِ مسلسل کرکے اپنی زندگی میں نیک نامی، شہرت، کامیابیاں اور کامرانیاں سمیٹ سکتے ہیں۔
پروفیسر نثار احمد سومرو نے 3 اکتوبر 1954ء کو ایک پسماندہ شہر جیکب آباد کے غریب گھرانے میں جنم لیا۔ ایک بار مجھ سے دورانِ گفتگو اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ وہ جس گھر میں رہا کرتے تھے، جب بارش ہوا کرتی تھی تو اس کی چھت ٹپکنے لگتی تھی اور ان کی والدہ مرحومہ اس ٹپکتی ہوئی چھت کے نیچے پرات اور دیگچے وغیرہ رکھ کر گھریلو سامان کو محفوظ رکھنے کی سعی میں لگ جاتی تھیں۔ مطلب یہ کہ بچپن غربت اور عسرت میں گزرا، تنگی ترشی کے ساتھ گزر اوقات ہوا کرتی تھی، لیکن کسی حالات سے مایوس ہوئے اور نہ ہی ہمت ہاری۔ ساری زندگی محنت، لگن اور جستجو کو حرزِ جاں بنائے رکھا، جس کے نتیجے میں اللہ نے بھی انہیں نہ صرف خوب خوب اپنے فضل سے نوازا، بلکہ آج ہر شعبۂ زندگی میں ان کے سینکڑوں شاگرد ملک اور بیرونِ ملک اعلیٰ عہدوں پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے ہمارے یہ ممدوح بھی بجا طور پر نہ صرف چھوٹے شہر کے ’’بڑے آدمی‘‘ ہیں بلکہ استاد الاساتذہ کے لقب کے بھی سزاوار قرار پاتے ہیں۔ بتایا کرتے ہیں کہ میری مرحومہ والدہ کو مجھے پڑھانے کا ازحد شوق تھا۔ اس لیے انہوں نے مجھے ابتدائی تعلیم دلانے کی خاطر گھر کے قریب ہی واقع ایک سندھی میڈیم پرائمری اسکول میں داخل کروایا، لیکن یہاں میں بوجوہ تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ بعد ازاں مجھے فروری 1961ء میں جیکب آباد کے اُس وقت کے معروف اور معیاری انگریزی میڈیم اسکول ’کے۔ جی اسکول‘ میں نرسری کلاس میں داخل کروایا گیا۔ درجہ پنجم تک یہیں پڑھے۔ اس دوران ناظرہ قرآن بھی پڑھا۔ درجہ ششم تا دہم حمیدیہ ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ انہیں فٹ بال کھیلنے سے دلچسپی رہی، اور یہ شوق 1982ء تک قائم رہا۔ جبکہ یہاں ایتھلیٹکس سمیت دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسی اسکول میں مختلف ٹیموں کی بہ حیثیت جنرل کیپٹن کے نمائندگی بھی کی۔ اس اسکول کے اساتذہ آپ سے انتہائی مشفقانہ رویہ رکھتے تھے۔ ان میں خدابخش بھیو مرحوم، سرمحمد شفیع مرحوم، سر احمد دین مرحوم، سر عبدالکریم کلہوڑو اور سر رسول بخش بروہی سرِفہرست ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج بھی ان محترم اساتذہ اور گزشتہ دنوں کی یاد دل کو تڑپا کر رکھ دیتی ہے۔ کیا ہی حسین اور یادگار وقت تھا کہ جو ایک سہانے خواب کی طرح بیت گیا۔ 1972ء میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ کچھ کر دکھانے کی آرزو ہمہ وقت بے کل اور مضطرب کیے رہتی تھی۔ مزید تعلیم کے لیے گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد میں فرسٹ ایئر (پری میڈیکل) میں داخلہ لیا، دورانِ تعلیم ہی 3 اکتوبر 1973ء کو حمیدیہ پرائمری اسکول میں شام کی شفٹ میں بطور پی ایس ٹی 150 روپے ماہانہ پر تقرری ہوئی۔ اب صبح کالج میں پڑھنے اور شام کو اسکول میں پڑھانے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1974ء میں انٹر سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ نیز اسی برس جناب ذوالفقار علی بھٹو سابق وزیراعظم پاکستان نے چانڈکا میڈیکل کالج (حالیہ یونیورسٹی) میں ضلع جیکب آباد کی نشستیں 56 مرد اور 10 خواتین کے لیے مختص کردیں، جبکہ اس سال محض 26 طلبہ ہی انٹر سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوپائے تھے۔ اس بنا پر سب کا ایم بی بی ایس میں داخلہ یقینی ہوجاتا۔ تاہم مالی وسائل کی عدم دستیابی اس موقع پر آڑے آگئی اور یوں بے انتہا شوق کے باوجود وہ داخلے سے محروم رہ گئے ۔ خیر اس میں بھی اللہ کی کوئی خاص مصلحت پوشیدہ تھی۔ بعد ازاں 1976ء میں بی۔ اے اور 1978ء میں ایم۔ اے اردو (پرائیویٹ) امتحانات سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیے۔ 1976ء میں شادی ہوئی۔ دریں اثناء 1975ء میں جے۔ ایس۔ ٹی کی تقرری ہوگئی اور انٹر سائنس کی بنیاد پر بہ حیثیت سائنس ٹیچر حمیدیہ ہائی اسکول، گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب آباد اور میرپور برڑو میں پڑھاتے رہے۔ اس دوران ایک یادگار واقعہ بھی پیش آیا۔ 1979ء میں جب جناب ذوالفقار علی بھٹو سابق وزیراعظم پاکستان کو سزائے موت ہوئی تو کالج کے چند دوستوں نے اردو خوشخط ہونے کی وجہ سے ان سے ایک پمفلٹ لکھوایا، جس کی پاداش میں فوجی عدالت سے تین ماہ قید کی سزا ہوئی، جو سزا ختم ہونے سے کچھ دن پیشتر ہی معاف کردی گئی۔ اس سزا کی وجہ سے نوکری سے بھی معطل ہوئے، مگر انہیں جلدہی دوبارہ بحال کردیا گیا۔ مارچ 1981ء میں لیکچرر اردو کی پوسٹ کے لیے اپنے مرحوم استاد پروفیسر خدابخش بھیو کی حوصلہ افزائی اور تعاون کی بنا پر یہ امتحان پاس کیا۔ 20 اکتوبر1981ء کو بطور لیکچرر اردو گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد میں تعیناتی ہوئی۔ 1995ء میں اسسٹنٹ پروفیسر (گریڈ 18) میں ترقی دی گئی، اور 1995ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر (گریڈ 19) میں ترقی ہوئی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج کندھ کوٹ میں چند ماہ پرنسپل رہنے کے بعد ان کا تبادلہ گورنمنٹ ڈگری کالج جیکب آباد میں کردیا گیا، اور یہاں 27 جنوری 2007ء تا یکم اپریل 2008ء وہ پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے۔ الحمدللہ! انہوں نے اپنی مادرِِ علمی میں 33 برس نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ مئی 2013ء میں بطور پروفیسر گریڈ 20 میں ترقی ہوئی۔ سکھر میں ڈگری کالج اور پوسٹ گریجویٹ اسٹڈی سینٹر کے پرنسپل مقرر کیے گئے۔ اس دوران انہیں ڈائریکٹر کالجز سکھر ڈویژن کا اضافی چارج بھی دیا گیا اور عرصہ چھ ماہ اس عہدے پر فائز رہے۔ الحمدللہ! یہ اعزاز بھی موصوف ہی کو حاصل ہوا ہے کہ جیکب آباد ڈگری کالج کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسی شہر کے کسی فرد کو 20 گریڈ میں پرنسپل بننے کا اعزاز حاصل ہوا، اور پھر ڈائریکٹر کالجز بھی مقرر ہوئے۔ دورانِ ملازمت شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے بورڈ آف اسٹڈیز کے ممبر بھی رہے۔ عرصہ 15 سال تک ایم ۔ اے اردو کے طلبہ و طالبات کا زبانی امتحان بھی لیتے رہے ہیں، جبکہ آج کل ایم۔ فل اردو کے مقالوں کے ممتحن کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ مذکورہ یونیورسٹی سے ایم فل اردو کرنے والے پہلے امیدوار تھے۔ لاڑکانہ بورڈ میں بھی ڈسپلنری کمیٹی سمیت دیگر تفویض کردہ امور بطریق احسن سرانجام دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے 2 اکتوبر 2014ء کو ملازمت سے سبکدوشی اختیار کی۔ موصوف ہمہ وقت علمی اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ آپ کے مختلف مضامین ہارس اینڈ کیٹل شو کے موقع پر نکلنے والے میگزین میں شائع ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ایک کتاب ’’جامع معلومات… اردو زبان وادب ’’کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ جبکہ دوسری کتاب ’’شاہ عبداللطیف اور علامہ اقبال‘‘ زیرِ تکمیل ہے۔ ان کی اہلیہ بھی ماشاء اللہ پروفیسر ہیں۔ 5 صاحبزادیوں میں سے دو ڈاکٹر اور دو لیکچرر، جبکہ ایک ایم۔ فل اردو کررہی ہیں۔ 2 بیٹوں میں سے ایک سرجن ڈاکٹر اور دوسرا انجینئر ہے۔شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے پروفیسر ڈاکٹر سردار احمد خان کی نگرانی میں مقالہ بعنوان ’’اردو ادب میں سندھی ذخیرۂ الفاظ‘‘ لکھ کر ایم فل کی سند حاصل کی۔ پروفیسر ڈاکٹر سردار احمد خان کے حوالے سے پروفیسر نثار احمد سومرو نے بتایا کہ وہ ایک موہنی شخصیت کے حامل یگانۂ روزگار ہستی تھے، جن سے وہ اپنی ہر ملاقات میں کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتے۔ معروف تحقیقی مقالہ ’’سید محمد میر… سوز‘‘ بھی انہی کا لکھا ہوا ہے۔ مرحوم اسلامیہ سائنس اینڈ آرٹس کالج سکھر کے یکے ازبانیان میں سے تھے۔ وہ حددرجہ شفیق اور عالم و فاضل ہستی تھے۔ انہیں اردو زبان کے ساتھ ساتھ سندھی زبان سے بھی ازحد لگائو تھا۔ وہ پارس پتھر کی مانند تھے، وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخص ان کی محفل میں سے اٹھتا تو ان کی علمیت بھری گفتگو سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ اسے لگتا کہ اس نے ڈاکٹر صاحب سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سردار خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ان کا سلسلۂ شاگردی سرسید احمد خان سے جاکر ملتا ہے، اور وہ اس طرح سے کہ ان کے استاد ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب کا سلسلۂ تلامذہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی نسبت سے سرسید احمد خان تک پہنچتا ہے، اس لیے یہ امر بلاشبہ ان کے لیے فخر کا باعث ہے۔
پروفیسر نثار احمد سومرو ماشاء اللہ عمرِ عزیز کے اس حصے میں بھی چاق چوبند اور صحت مند ہیں اور جواں سال دکھائی دیتے ہیں۔ سکھر میں رہائش پذیر ہیں، تاہم اکثر جیکب آباد بھی آنا جانا لگا رہتا ہے۔
پسندیدہ کتاب : قرآن پاک
شاعر : شاہ عبداللطیف، علامہ اقبال
ادیب: مشتاق احمد یوسفی
مشروب: ملک روز
موسم: معتدل
پہناوا: شلوار قمیص
پیغام: ہمیشہ سچ بولیں اور زندگی میں آنے والی دشواریوں سے ہر گز نہ گھبرائیں بلکہ ان کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔