سیرت ِنبوی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم

’’حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اعمال نامے تین قسم کے ہوں گے۔ ایک وہ اعمال نامہ ہوگا جس کو اللہ ہرگز معاف نہیں کرے گا، یہ شرک باللہ ہے۔ اللہ بزرگ و برتر کا فرمان ہے: ’’بے شک اللہ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرے گا‘‘۔ دوسرے میں وہ اعمال درج ہوں گے جو بندوں نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کی شکل میں کیے ہوں گے، اس کو اللہ ہرگز نہ چھوڑے گا۔ یہاں تک کہ بندے ایک دوسرے سے اپنا بدلہ لے لیں۔ تیسرے میں وہ اعمال درج ہوں گے جن کا تعلق خدا اور بندوں سے ہے، یہ اللہ کے حوالے ہے جسے چاہے گا عذاب دے گا اور جسے چاہے گا معاف کرے گا‘‘۔(مشکوٰۃ بحوالہ بیہقی)۔

پروفیسر عبدالحمید ڈار

پسے ہوئے لوگوں کو اٹھانا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ بحیثیت ِمجموعی ان گنت مفاسد کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ عقیدہ و عمل کا ہر میدان ان مفاسد کی عفونت سے زہر آلود ہوچکا تھا۔ کسی فرد کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہ تھی۔ ہر سُو جوروستم کا دور دورہ تھا۔ زور آوروں کے ہاتھوں زیر دستوں کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی۔ ظلم و استبداد کی اس چکی میں نچلے طبقے کے افراد بالخصوص عورتیں، غلام اور یتیم بری طرح پسے جارہے تھے۔ ان کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے۔ ان کے ساتھ چوپایوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہ تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس دعوت ِتوحید کو لے کر دنیا میں تشریف لائے، وحدتِ انسانیت اس کا طرۂ امتیاز تھا۔ اللہ کے بندوں کی غلامی سے نکال کر خدائے واحد کی زندگی میں دینا اس کا مقصد ِاولین تھا۔ آپؐ نے اس دعوت ِتوحید کی طاقت سے پستی و زبوں حالی کے گرداب میں گھرے ہوئے لوگوں کو اٹھایا، ان کے فکر و عمل میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ وہ غلامی اور ناتوانی کی زنجیروں کو توڑ کر حق کی خاطر جری و بے باک بن گئے۔ یتیموں کو مضبوط سہارے مل گئے۔ خواتین مردوں کے برابر انسانی حقوق اور شرف سے ہمکنار ہوئیں اور غلام و مملوک اپنے مالکوں کے ظلم و جور سے محفوظ و مامون ہوگئے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مالک اپنے مملوک یعنی غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کردیں گے اور جو کسی مملوک کا کوئی عضو کاٹے گا ہم اس کا وہی عضو کاٹ دیں گے‘‘۔ (نسائی، کتاب القصاص)۔

غلام سے بدسلوکی کا برا انجام اور غلاموں سے حسن سلوک کی ہدایت

ان خیالات اور ارشادات سے آپؐ نے غلامی کی بطور ایک ادارۂ جبر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جڑ کاٹ دی۔
نیز فرمایا کہ تم مملوک کو وہی کچھ کھلائو جو خود کھاتے ہو، وہی کچھ پہنائو جو خود پہنتے ہو، اور اس پر کام کا اتنا ہی بوجھ ڈالو جو وہ برداشت کرسکے۔ (بخاری و مسلم)ایک صحابی ابومسعود انصاریؓ اپنے غلام کو پیٹ رہے تھے کہ آپؐ تشریف لے آئے۔ آپؐ نے رنجیدہ ہوکر فرمایا: ’’ابومسعودؓ اس غلام پر تمہیں جس قدر اختیار ہے اللہ تعالیٰ کو تم پر اس سے زیادہ اختیار ہے‘‘۔
ابومسعودؓ یہ بات سن کر خوف زدہ ہوگئے اور غلام کو آزاد کردیا۔ (رسول اکرمؐ کی حکمت ِانقلاب، از:سید اسعد گیلانی بحوالہ بخاری)۔
ایک شخص نے پوچھا:۔
’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اپنے خادم کو کتنی دفعہ معاف کروں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہر روز ستّر دفعہ‘‘ (ترمذی)۔

ظلم کا حساب

’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے کہا:’’اے اللہ کے رسولؐ! میرے کچھ غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں اور امانت میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں اور میں ان کو برا بھلا کہتا ہوں اور انہیں مارتا ہوں تو ان کے سلسلے میں میرا کیا بنے گا؟‘‘ نبیؐ نے فرمایا کہ ’’جب قیامت کا دن آئے گا تو ان کی خیانت و نافرمانی اور جھوٹ اور تمہاری سزا جو تم انہیں دیتے ہو دونوں کا حساب لگایا جائے گا۔ اگر تمہاری سزا ان کے جرم سے کم ہوئی تو یہ تمہارے حق میں رحمت کا باعث ہوگا، لیکن اگر تمہاری سزا ان کے جرم سے بڑھی ہوئی نکلی تو بقدر زائد تم سے بدلہ لیا جائے گا۔‘‘ یہ سن کر وہ آدمی ایک گوشہ میں ہوکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ پھر اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا:
’’کیا تُو نے اللہ کی یہ بات قرآن میں نہیں پڑھی جو اس نے فرمائی ہے؟(ترجمہ): ’’اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو میں ہر شخص کے اعمال تولیں گے اور کسی کی تول میں کوئی ظلم نہ کیا جائے گا اور ذرہ برابر بھی کوئی عمل برا یا بھلا کسی کے نامۂ اعمال میں ہوگا تو ہم اسے سامنے لائیں گے اور ہم حساب لینے کے لئے کافی ہیں۔‘‘ اس آدمی نے کہا ’’اب میرے لئے یہی بہتر ہے کہ ان غلاموں سے علیحدگی اختیار کرلوں۔ اے اللہ کے رسولؐ میں آپؐ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو آزاد کیا۔‘‘ (راہِ عمل، بحوالہ ترمذی)۔

غلاموں کو گویائی ملی

حضرت عائشہؓ نے حضرت بریرہؓ کا زرِ مکاتبت ادا کرکے انہیں ان کے مالکوں سے خریدلیا اور آزاد کردیا۔ حضرت بریرہؓ نے خانوادۂ رسولؐ سے کسب فیض کرنے کی غرض سے حضرت عائشہؓ کی کنیز بن کر رہنے کو ترجیح دی۔ ان کے شوہر حضرت مغیثؓ صحابیٔ رسولؐ تھے، جو ایک غلام تھے۔ حضرت بریرہؓ نے آزاد ہوکر ان سے علیحدگی کو پسند کیا۔ نبی کریمؐ کے علم میں یہ بات آئی تو آپؐ نے حضرت بریرہؓ کو اس سے روکنا چاہا۔ حضرت بریرہؓ نے عرض کیا:۔
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا یہ آپؐ کا حکم ہے؟‘‘
حضورؐ نے فرمایا ’’حکم تو نہیں، میں اس کی سفارش کرتا ہوں‘‘ حضرت بریرہؓ نے عرض کیا ’’تو پھر میری معذرت ہے‘‘۔
اس پر حضورؐ نے دونوں کے درمیان باضابطہ طور پر علیحدگی کا حکم فرما دیا۔ (’’تذکار صحابیات‘‘، از:طالب الہاشمی)۔

خادم کو سزا دینے کا بدلہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہؓ کے ہاں تشریف رکھتے تھے۔ آپؐ نے ایک خادمہ کو بلایا۔ اس نے آپؐ کے پاس پہنچنے میں دیر لگائی۔ نبیؐ کے چہرۂ مبارک پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے۔ حضرت ام سلمہؓ نے اسے محسوس کرلیا تو وہ پردے کے قریب اٹھ کر گئیں اور خادمہ کو کھیلتے ہوئے پایا۔ غرض وہ خادمہ آئی، آپؐ نے فرمایا:’’اگر قیامت کے دن تیرے بدلہ لینے کا اندیشہ مجھ کو نہ ہوتا تو میں اس مسواک کے ساتھ تجھے مارتا‘‘ اُس وقت آپؐ کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ (زاد ِراہ، از:جلیل احسن ندوی۔ بحوالہ، الادب المفرد)۔

غلام اور یتیم کے ساتھ حسن سلوک کا اجر

آپؐ نے ارشاد فرمایا:۔
’’جو مسلمان والدین کے یتیم بچے کو کھلائے پلائے یہاں تک کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہوجائے (بالغ ہوجائے) تو ایسے شخص کو یقینا جنت ملے گی‘‘۔’’اور جو کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے گا تو یہ کام جہنم سے اس کی نجات کا باعث بنے گا۔ غلام کے ہر عضو کے بدلے اس کا عضو جہنم سے نجات پائے گا‘‘۔ (زاد راہ، بحوالہ مسند احمد)۔

بہترین اور بدترین گھر

آپؐ نے فرمایا:۔
’’مسلمانوں کے گھروں میں سے سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو‘‘۔
’’اور مسلمانوں کا سب سے بدتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو‘‘۔ (راہِ عمل، از: جلیل احسن ندوی بحوالہ ابن ماجہ)۔