قومی سیاسی بحران، شریوں کی “ڈیل” اور مولانا فضل الرحمن کی مزاحمتی “جھگی”۔

۔”شدید بیمار“ میاں نواز شریف اسپتال سے گھر پہنچ گئے

چشمِ فلک لیلیٰ اور مجنوں کا وصال تو نہ دیکھ سکی، مگر قومی سیاسی بحران کی چھتری تلے شریف خاندان اور لیلائے ڈھیل و ڈیل کو ایک بار پھر بغل گیر ہوتے دیکھا جارہا ہے۔ مگر اس بات کو کہنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔
ایک غریب نے دست شناس کو ہاتھ دکھایا تو دست شناس نے کہا: تمہارے 12 سال غربت میں گزریں گے۔ ’’اور اس کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ غریب آدمی نے بڑی امید سے پوچھا۔ دست شناس نے کہا: ’’بارہ سال کے بعد تمہیں غربت کی عادت ہوجائے گی‘‘۔ 2000ء میں شریف خاندان نے دست شناس کو ہاتھ دکھایا تو دست شناس نے کہا کہ آپ کے سات سال ڈیل اور ڈھیل کے تحت بسر ہوں گے۔ ’’اور اس کے بعد؟‘‘ شریف خاندان نے اشتیاق سے پوچھا۔ ’’اس کے بعد آپ کو ڈھیل اور ڈیل کی عادت ہوجائے گی‘‘۔ دست شناس نے جواب دیا۔ ڈیل اور ڈھیل شریف خاندان کا ’’سیاسی تشخص‘‘ ہے، مگر شریفوں کے ’’صحافتی مجاہد‘‘ میاں نوازشریف وغیرہ سے ایسی ’’عظمت‘‘ وابستہ کرتے ہیں کہ انسان میاں صاحب کے صحافتی مجاہدوں کی بے ضمیری اور صحافتی بے حیائی پر حیران رہ جاتا ہے۔ آئیے اس سلسلے میں چند مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں۔
خورشید ندیم ہم جنس پرستی کی حمایت کرنے والے جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور میاں نوازشریف کے عاشق ہیں۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے ذرا پہلے اپنے کالم میں لکھا:
’’نوازشریف اب ایک فرد نہیں، ایک علامت کا نام ہے۔ مزاحمت کی علامت۔ یہ عام لوگ ہی ہوتے ہیں جنہیں کوئی ایک واقعہ، ایک نعرۂ مستانہ فرد سے علامت بنادیتا ہے۔ تاریخ کے کسی موڑ پر وہ جرأتِ رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ماہ وسال سے اٹھ جاتے ہیں۔ پھر تاریخ انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ علامت بننا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ اس کی ایک قیمت ہے جو دینا پڑتی ہے۔ یہ اعزاز ملتا ہے تو کبھی اقتدار کی قربانی سے اور کبھی جان کے عوض۔‘‘(روزنامہ دنیا۔ 26 اکتوبر 2019ء)
مزاحمت کوئی معمولی لفظ نہیں۔ اکبر الٰہ آبادی کی تاریخ ساز شاعری مزاحمتی شاعری ہے۔ اس شاعری کی عظمت یہ ہے کہ مسلمان جو جنگ میدانِ جنگ میں ہار گئے تھے، اکبر نے وہ جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی۔ اقبال کی مُردوں کو زندہ کردینے والی شاعری اپنی اصل میں مزاحمتی شاعری ہے۔ امتِ مسلمہ کی 20 ویں صدی کو Define کرنے والے مولانا مودودیؒ کا علمِ کلام مزاحمتی ہے۔ سیاست کی سطح پر قائداعظم کی سیاست انگریزوں اور ہندوئوں کی مزاحمت کی سیاست تھی اور پاکستان اسی مزاحمتی سیاست کا حاصل ہے۔ 27 سال تک جیل کاٹنے والے نیلسن منڈیلا کی سیاست مزاحمتی سیاست تھی۔ 70 سال سے یہودیوں کی مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں، یاسرعرفات اور حماس کی سیاست مزاحمتی سیاست ہے۔ مگر خورشید ندیم نے میاں نوازشریف سے مزاحمت کو منسوب کرکے مزاحمت کے سر سے پگڑی کھینچ لی ہے اور لفظ مزاحمت کو بے آبرو کردیا ہے۔
رئوف طاہر بھی میاں صاحب کے صحافتی مجاہدوں میں شامل ہیں۔ اپنے حالیہ کالم میں میاں نوازشریف کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’سنا ہے اب پھر باپ بیٹی کے لیے بیرونِ ملک جانے کی ’’پیش کش‘‘ موجود ہے، لیکن اب بھی اس کے لب پر وہی انکار ہے کہ جو پہلے تھا۔ کہ اب اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں، وہ اپنے چالیس سالہ سیاسی کیریئر میں دکھ اور سُکھ کے تمام ذائقے چکھ چکا۔ وہ جو آزردہؔ نے کہا تھا:

اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں‘‘

(روزنامہ دنیا۔ 29 اکتوبر 2019ء)
جیسا کہ ظاہر ہے رئوف طاہر نے اپنے کالم میں میاں صاحب کی سیاست کو مزاحمت سے بھی آگے کھڑا کرکے اسے عشق سے وابستہ کردیا۔ ذرا اقبال کے یہاں عشق کے مرتبے کا بیان تو دیکھیے:

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام

عشق کے اس بلند ترین تصور سے بہت نیچے بھی عشق ایک بہت محترم لفظ ہے۔ میرؔ نے کہا ہے:

دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا

میرؔ کے اس شعر کی تشریح میں ایک پورا کالم لکھا جاسکتا ہے۔ غالب کا شعر ہے:

کیا پوچھو ہو وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہوگئے

یہاں ’’اہلِ شوق‘‘ کی اصطلاح کو ’’اہلِ عشق‘‘ پڑھا جانا چاہیے۔ فراقؔ نے کہا ہے:

کہاں ہر ایک سے بارِ نشاط اُٹھتا ہے
بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی
رئیس فروغؔ کا شعر یاد آیا:
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے

یہ لفظ ’عشق‘ کی ’’عظمت‘‘ کی چند جھلکیاں ہیں۔ مگر رئوف طاہر نے کرپشن میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کے بقول گریٹر پنجاب کی سازش کرنے والے نوازشریف کو ’’سودائے عشق‘‘ سے وابستہ کرکے عشق کی تذلیل کرڈالی۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ’’مزاحمت کی علامت‘‘ اور ’’عشق کی روایت‘‘ سے وابستہ میاں نوازشریف بلکہ پورے شریف خاندان کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس سلسلے میں ہم اپنے ’’علم‘‘، ’’معلومات‘‘ اور ’’تجزیے‘‘ کو بھی بروئے کار لاسکتے ہیں، مگر اس وقت ہم اپنی آراء کو روک کر رکھتے ہیں اور اُن لوگوں کی آراء سے رجوع کرتے ہیں جو صحافتی دائرے میں میاں صاحب کی شخصیت، خاندان اور سیاست کو فروغ دینے والے ہیں۔ ان میں ایک نام کامران خان کا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ شروع ہوا تو کامران خان نے لکھا:
’’جمعیت علمائے اسلام کا آزادی مارچ لاہور سے نکل کر اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی مارچ کے کنٹینر پر نوازشریف، آصف زرداری، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی اور میر حاصل بزنجو کی تصاویر لگی ہوئی ہیں، لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتیں اس آزادی مارچ میں دور دور تک نظر نہیں آرہیں، وہ اس کا عملی حصہ نہیں ہیں۔ اپوزیشن میں اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ لاہور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنمائوں کا الگ الگ اجلاس ہوا جس میں محض یہ فیصلہ کیا گیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے دو بڑے مقامات پر اپوزیشن جماعتیں مل کر آزادی مارچ کے لیے استقبالیہ کیمپ لگانے کا سوچیں گی، مگر اس سلسلے میں کوئی عملی سیاسی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ لاہور میں مولانا فضل الرحمٰن کی خواہش تھی کہ وہ سروسز اسپتال جا کر نوازشریف سے ملاقات کریں، لیکن ڈاکٹروں نے اجازت نہ دی، اگر یہ ملاقات ہوجاتی تو موجودہ سیاسی صورتِ حال میں اہم پیش رفت ہوتی، مگر لگتا ہے نوازشریف بوجوہ اس وقت کسی قسم کی سیاسی سرگرمی کا حصہ بننا نہیں چاہتے، اور شاید ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) بھی اس ماحول کو سکون سے گزرنے دینا چاہتی ہے، کیوں کہ نوازشریف شدید علیل ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی ٹاپ لیڈرشپ کی موجودگی میں آزادی مارچ کو جو تقویت حاصل ہوتی، اس سے وہ عاری نظر آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے لاہور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دبے الفاظ اور ماہرانہ سیاسی انداز میں اس گلے کا اظہار بھی کیا۔ مولانا نے کہا کہ ’’راستے میں جن لوگوں نے ہمیں خوش آمدید کہا ہے، جن سیاسی جماعتوں نے اس کارواں کو خوش آمدید کہا ہے، میں ان کو اس آزادی مارچ میں شامل تصور کرتا ہوں، اگرچہ اُن کے حالات اُن کو ہمارے ساتھ چلنے پر آمادہ نہیں کرسکے، ہر آدمی کے کچھ حالات ہوتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی وابستگی کا اظہار کرکے اپنے آپ کو آزادی مارچ کا حصہ بنایا اور وہ گھر بیٹھے بھی آزادی مارچ کا حصہ تصور ہوں گے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 31 اکتوبر 2019ء)
یہ ہے میاں نوازشریف کی ’’مزاحمتی سیاست‘‘ اور ’’عشق کی روایت‘‘ سے وابستگی کی ایک جھلک۔ کہا جاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف علیل ہیں، مگر میاں شہبازشریف، خواجہ آصف اور احسن اقبال تو ’’علیل‘‘ نہیں تھے، وہ تو مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ کا استقبال کرسکتے تھے۔ کیا نواز لیگ کے ’’مزاحمتی‘‘ اور ’’انقلابی کارکن‘‘ بھی علیل تھے کہ وہ مولانا کے مارچ اور دھرنے میں شریک نہ ہوسکے؟
سلمان غنی بھی میاں نوازشریف اور شریف خاندان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ اور نواز لیگ کی قیادت کے حوالے سے انہوں نے کیا کہ فرمایا، سلمان غنی لکھتے ہیں:
’’آزادی مارچ میں بڑی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی شمولیت کو کسی طرح مؤثر قرار نہیں دیا جاسکتا، یہ شرکت محض علامتی اور استقبالی ہی رہی، خصوصاً پاکستان کی سیاست کا دل لاہور احتجاجی مارچ کے ساتھ دھڑکتا نظر نہیں آیا، اس کی وجوہات کیا تھیں؟ کیا موت و حیات کی کشمکش سے دوچار نوازشریف کا بیانیہ خود اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) میں پذیرائی نہیں رکھتا؟ کیا سیاسی جماعتوں کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کو سیاسی جماعتوں کے اندر پرو اسٹیبلشمنٹ سوچ کا سامنا ہے؟ توقع یہ تھی کہ پنجاب کی پاپولر جماعت مسلم لیگ (ن) اس مارچ کا زبردست انداز میں استقبال کرے گی اور شامل ہوگی، لیکن عملاً دیکھنے میں آیا کہ پنجاب کی سب سے بڑی جماعت نواز لیگ عوام کو بیدار کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ جب قافلے رات گئے لاہور میں داخل ہوئے تو یہاں لگائے جانے والے نون لیگ کے سات کیمپوں میں بھی کوئی غیر معمولی صورت حال نظر نہیں آئی۔ کسی بھی جگہ حاضری چند سو سے زائد نہ تھی۔ لاہور جس کو ملکی سیاست کا دل قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جب تک لاہور نہیں اٹھتا سیاسی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی، تو شریفوں کے لاہور نے احتجاجی مارچ کو غیر معمولی پذیرائی نہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ابھی لاہور میں حکومت کی تبدیلی کی تحریک موجود نہیں، اس کی وجوہات پر نظر ڈالی جائے تو اس کی بڑی وجہ خود مسلم لیگ (ن) کی موجودہ قیادت ہے جس نے احتجاجی مارچ کو دل سے قبول نہیں کیا۔‘‘(روزنامہ دنیا۔ 31 اکتوبر 2019ء)
خورشید ندیم صاحب نے اپنے 26 اکتوبر کے کالم میں میاں نوازشریف کو مزاحمت کی علامت قرار دیا، مگر اس کالم کے صرف پانچ روز بعد یعنی 31 اکتوبر کو انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ اور نواز لیگ کے حوالے سے لکھا:
’’کیا آج فیصلے کا دن ہے؟ کیا آج پنجاب ’’آزادی مارچ‘‘ کے لیے نکلے گا؟ اس کا جواب مولانا فضل الرحمٰن کے پاس نہیں، نون لیگ کے پاس ہے۔
نون لیگ پر پھبتی کسی جاتی ہے کہ یہ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جی ٹی روڈ کے قرب میں جو شہر اور قصبات آباد ہیں وہاں نون لیگ کو اکثریت حاصل ہے۔ گویا جو نون لیگ کو ایک ملک گیر جماعت ماننے پر آمادہ نہیں، وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ لاہور سے راولپنڈی تک، نوازشریف عوام کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ نون لیگ کو اب اس کا عملی مظاہرہ کرنا ہے۔ جب اس نے ’’آزادی مارچ‘‘ کی تائید کا فیصلہ کیا ہے تو پھر اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنا پورا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دے۔ اس کے سیاسی مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اگر لوگ نہیں نکلتے تو یہ مولانا کی نہیں نون لیگ کی ناکامی ہوگی‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 31 اکتوبر 2019ء)
کتنی عجیب بات ہے کہ خورشید ندیم ایک جانب میاں نوازشریف کو مزاحمتی سیاست کی علامت قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب وہ کہتے ہیں کہ اگر پنجاب کے لوگ مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ کے لیے نہ نکلے اور اس میں شامل نہ ہوئے تو یہ نواز لیگ کی ناکامی ہوگی۔ کیوں صاحب! یہ آپ کے مزاحمتی عرف انقلابی رہنما میاں نوازشریف کی ناکامی کیوں نہ ہوگی؟ کیا نوازشریف اور نواز لیگ دو مختلف چیزیں ہیں؟ اور اگر یہ دو مختلف چیزیں ہیں تو میاں نوازشریف کس بات کے ’’مزاحمتی رہنما‘‘ ہیں؟ مگر یہاں اصل سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو کرائے کا فوجی بنانے کے باوجود میاں نوازشریف، اُن کا خاندان اور اُن کی جماعت نواز لیگ فضل الرحمٰن کے مارچ اور دھرنے سے کیوں دور ہے؟
اس سوال کا ایک جواب میاں نوازشریف اور شریف خاندان کے ایک اور عاشق مجیب الرحمٰن شامی سے سنیے۔ روزنامہ ’دنیا‘ میں صفحہ اوّل پر شائع ہونے والی دو کالمی خبر کے مطابق ’’دنیا نیوز کے پروگرام ’’نقطہ نظر‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں (یعنی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی) نے اس سیاسی صورتِ حال سے فائدہ اٹھایا جو مولانا فضل الرحمٰن نے پیدا کی۔ انہوں نے (یعنی دونوں بڑی جماعتوں نے) یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس مارچ میں شریک نہیں ہیں۔ طاقت ور حلقوں (یعنی جرنیلوں) تک ان جماعتوں کا پیغام پہنچ گیا۔ ان کے اس ’’احسان‘‘ کو ’’وہاں‘‘ محسوس کیا جارہا ہوگا اور یہ نوٹ کرلیا گیا ہوگا، اور یہ ان کے (یعنی ان جماعتوں کے) کام آئے گا‘‘۔(روزنامہ دنیا۔ 31 اکتوبر 2019ء)
شامی صاحب کے اس تجزیے کا مطلب یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ اور دھرنے سے میاں نوازشریف، اُن کے خاندان اور نواز لیگ کی لاتعلقی یا دوری دراصل اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کے لیے ہے، اور شریفوں اور اُن کی جماعت کا یہ طرزِعمل حتمی ’’ڈیل‘‘ اور ’’ڈھیل‘‘ کے سلسلے میں ’’شریفوں‘‘ کے کام آئے گا۔ یہ شاہنواز فاروقی نہیں کہہ رہا، یہ بات شریفوں کے دوست، وکیل اور عاشق مجیب الرحمٰن شامی صاحب کہہ رہے ہیں۔
سید طلعت حسین ملک کے معروف صحافی اور اینکر ہیں۔ وہ طویل عرصے تک جیو پر ’’نیا پاکستان‘‘ کے عنوان سے پروگرام کرتے رہے۔ شنید ہے کہ انہیں ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ اور میاں نوازشریف کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر جیو سے نکالا گیا۔ ذرا دیکھیے تو سید طلعت حسین نے 3 نومبر 2019ء کے ٹویٹ میں کیا فرمایا۔ سید طلعت حسین نے لکھا:
’’بریکنگ نیوز
نون لیگ کی طرف سے مریم نواز کی ضمانت کے بعد نوازشریف کو باہر بھیجنے کی تیاریاں، شہبازشریف بھی جائیں گے۔ شاہد خاقان عباسی اور حمزہ شہباز کے علاوہ دیگر معاملات پر اہم اتفاقِ رائے۔ مگر کیا نوازشریف مولانا کے مارچ کے بیچ ’’ڈیل‘‘ کی تہمت سر لیے یہ سب قبول کریں گے؟‘‘
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ مریم نواز کو چودھری شوگر مل کیس میں ضمانت 4 نومبر 2019ء کو ملی، مگر سید طلعت حسین 3 نومبر 2019ء کے روز جانتے تھے کہ کل مریم کو ضمانت ملنے والی ہے، اور یہ ضمانت میاں نوازشریف کے ملک سے باہر جانے کی ایک علامت ہے۔ یہ ہے میاں نوازشریف کی ’’مزاحمتی سیاست‘‘، ’’عشق کی روایت‘‘ سے وابستگی کی حقیقت۔ یہ ہے شریفوں کا لیلائے ڈیل اور ڈھیل سے وصال کا قصہ۔ مشہورِ زمانہ مصرع ہے:

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

یہاں شریفوں کی ’’اجتماعی شخصیت‘‘ کے ایک پہلو کا تذکرہ ضروری ہے۔ چند روز پیشتر جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد نے اے آر وائی کے ایک پروگرام میں لفظ چبائے بغیر صاف کہا کہ میاں شہبازشریف نے میاں نوازشریف کے ساتھ برادرانِ یوسف والا سلوک کیا ہے۔ یعنی میاں نوازشریف مزاحمت کے راستے پر گامزن ہیں مگر میاں شہبازشریف ابھی تک اسٹیبلشمنٹ سے ’’مفاہمت‘‘ کے راستے پر چل رہے ہیں۔ اب تک حافظ حسین احمد کے بارے میں ہماری رائے یہ تھی کہ وہ ذہین سیاست دان ہیں، مگر حافظ صاحب کے مذکورہ ریمارکس سے معلوم ہوا کہ وہ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف دو مختلف شخصیتیں ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ جہاں شریف خاندان کو ’’مزاحمتی‘‘، ’’انقلابی‘‘، ’’اصولی‘‘ اور ’’نظریاتی‘‘ بننا ہوتا ہے میاں نوازشریف سامنے آجاتے ہیں، مگر جب یہ تمام راستے نتائج پیدا نہیں کرتے تو شریفوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے میاں شہبازشریف ’’مفاہمت‘‘ کا پرچم ہاتھ میں لیے سامنے آجاتے ہیں۔ اس طرح شریف خاندان بیک وقت مزاحمت کے ’’تاثر‘‘ اور ’’مفاہمت‘‘ یا ’’تابع داری‘‘ کی سیاست کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو دونوں بھائیوں کے راستے کب کے جدا ہوچکے ہوتے۔ لیکن یہاں اصل قصہ تو شریفوں کی ڈیل اور ڈھیل کا ہے۔
اس سلسلے میں چند باتوں کی اہمیت بنیادی ہے۔ میاں نوازشریف کی دو مقدمات میں ضمانت ہوچکی ہے۔ مریم نواز کی بھی ایک اہم مقدمے میں ضمانت ہوگئی ہے اور عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کرنا ضروری سمجھا ہے کہ مریم کو ’’میرٹ‘‘ پر رہا کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میاں صاحب کے میڈیکل بورڈ کے سربراہ نے اچانک اعلان کیا ہے کہ میاں صاحب کا ایک ایسا Genetic Test ہونا ہے جو پاکستان میں ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شریفوں کے ملک سے فرار کی تیاریاں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ شریفوں کی ڈھیل اور ڈیل کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مریم ’’میرٹ‘‘ پر رہا ہوگئی ہیں مگر وہ سیاسی معاملات پر خاموش ہیں، اور نواز لیگ نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ مریم اسلام آباد میں مارچ سے خطاب کریں گی۔ چلیے مارچ سے خطاب تو بڑی بات ہے، مریم نواز اور کچھ نہیں تو چار سطروں کے ایک ٹویٹ کے ذریعے ’’خلائی مخلوق‘‘ اور ’’سلیکٹڈ وزیراعظم‘‘ ہی کو للکار دیں۔ مریم ایسا نہیں کریں گی تو شریفوں کی ڈیل اور ڈھیل کا تاثر گہرا ہوتا چلا جائے گا اور شریفوں کے سیاسی، صحافتی اور عام پرستاروں کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں مزاحمت کا ’’تاج محل‘‘ تعمیر کرنے آئے تھے، مگر ایک ہفتے میں وہ صرف ’’مزاحمت کی جھگی‘‘ تعمیر کرسکے ہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی اب تک کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُن کے ہاتھ میں کوئی مذہبی، نظریاتی، اخلاقی اور قومی ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی اب تک کی ناکامی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مارچ کے پہلے دن سے آج تک میاں نوازشریف اور نواز لیگ کے حوالے سے کرائے کے فوجی نظر آرہے ہیں۔ بدقسمتی سے نواز لیگ نے مولانا سے کہا کچھ اور کیا کچھ۔ اس کی شکایت خود جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کی ہے۔ بلاشبہ نواز لیگ کا دھوکا بھی مولانا کی اب تک کی ناکامی کا سبب ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن تو جہاں دیدہ ہیں، انہوں نے شریفوں پر اعتماد ہی کیوں کیا؟ چنانچہ مولانا نواز لیگ پر اعتماد کے مجرم ہیں۔ مارچ کے ایک ہفتے بعد بھی مولانا کے ہاتھ کتنے خالی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ حامد میر نے اپنے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما راشد سومرو سے پوچھا کہ آپ نے اب تک مارچ سے کیا حاصل کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: بہت کچھ۔ حامد میر نے اس کی وضاحت چاہی تو راشد سومرو نے فرمایا کہ اسرائیل نے پاکستان میں گزشتہ چالیس سال کے دوران جو سرمایہ کاری کی ہے ہمارے مارچ نے اُس پر پانی پھیر دیا ہے۔ حامد میر نے پوچھا: کیسے پانی پھیر دیا ہے؟ تو راشد سومرو نے کہا کہ اسرائیل کے ذرائع ابلاغ خود یہ بات کہہ رہے ہیں۔ حامد میر نے پوچھا کہ اسرائیل کے کن ذرائع نے یہ بات کہی ہے؟ تو راشد سومرو کسی ایک بھی ذریعے کی نشاندہی سے قاصر رہے۔ البتہ مولانا فضل الرحمٰن نے مارچ کے شرکاء سے اپنے خطابات کے دوران اُس تذلیل کا خوب بدلہ لیا جو عمران خان نے مولانا کی، کی ہے۔ مولانا نے اپنی ایک تقریر میں عمران کو ’’بدبخت‘‘ قرار دیا۔ مارچ کے اسٹیج سے عمران کو ’’کمینہ‘‘ کہا گیا، عمران خان کے خلاف ایک ایسا نعرہ بھی لگا جو لکھنے کے لائق نہیں۔
بلاشبہ مولانا بڑا اجتماع کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوا ہے کہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تو کاغذی شیروں کی جماعتیں ہیں، منظم اور جاں نثار کارکن صرف مذہبی جماعتوں کے پاس ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے سامنے چار مطالبات رکھے ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان فوراً مستعفی ہوں، دوسرا یہ کہ انتخابات کرائے جائیں، تیسرا یہ کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں نہ ہوں، چوتھا یہ کہ آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔ مگر حکومت نے پہلے دو مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مولانا کے مارچ سے پیدا ہونے والے بحران میں چودھری برادران بھی متحرک ہیں اور حکومت اور حزبِ اختلاف کے وفود کے درمیان بھی مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں۔ مگر کوئی بھی دور نتیجہ خیز نہیں ہوسکا۔ اس صورتِ حال نے حکومت اور مولانا دونوں کی ’’Stakes‘‘ بڑھا دی ہیں۔ مولانا خالی ہاتھ لوٹے تو ان کی سیاسی ساکھ تباہ ہوکر رہ جائے گی، اور حکومت نے مولانا کے آگے سر جھکایا تو عمران خان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ حکومت کی ناکامی تو خیر صرف عمران اور تحریک انصاف کی ناکامی ہوگی، لیکن اگر مولانا ناکام ہوئے تو کسی بھی مذہبی جماعت کے لیے مستقبل میں مزاحمتی کردار ادا کرنا آسان نہ ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مولانا نے میاں نوازشریف کے لیے پورے مذہبی طبقے کے مزاحمتی کردار کو دائو پر لگایا ہوا ہے۔ اب تک مولانا کہہ رہے ہیں کہ وہ تصادم نہیں چاہتے، مگر ابھی تک اسلام آباد کی فضا میں تصادم کا امکان موجود ہے۔ میاں نوازشریف کے ’’عاشق‘‘ جاوید چودھری نے کل ہی اپنے کالم میں لکھا:
’’میرا خیال ہے مولانا ریڈ زون بھی جائیں گے اور وفاقی سیکرٹریٹ، وزیراعظم سیکرٹریٹ، وزیراعظم ہائوس اور ایوانِ صدر کا گھیرائو بھی کریں گے۔ حکومت نے اگر چھیڑ چھاڑ کی تو یہ پورا ملک جام کردیں گے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ خود درمیان سے نکل جائے اور یہ لڑائی ’’مولانا‘‘ اور ’’اداروں‘‘ کے درمیان شفٹ ہوجائے۔ یہ اگر ہوگیا تو یہ ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی۔ مولانا پھر ’’ایک استعفے‘‘ تک محدود نہیں رہیں گے۔ یہ مزید استعفوں کا مطالبہ کریں گے اور نام لے لے کر خوفناک تقریریں کریں گے اور ٹیلی ویژن چینلز یہ تقریریں دکھانے پر ’’مجبور‘‘ ہوجائیں گے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 5 نومبر 2019ء)
پوری قوم دعا کررہی ہے کہ اسلام آباد میں کوئی تصادم نہ ہو، مگر جاوید چودھری اپنی، شریفوں اور نواز لیگ کی پوشیدہ خواہش کو زبان دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ مولانا ریڈ زون میں بھی جائیں گے اور وزیراعظم ہائوس کا گھیرائو بھی کریں گے، اور پھر ’’مولانا‘‘ اور اداروں یعنی فوج میں تصادم بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سب کچھ ہوگا یا نہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے، مگر جاوید چودھری، شریفوں اور نواز لیگ کی خواہش، دعا اور کوشش ہوگی کہ ایسا ضرور ہو۔ کیونکہ ایسا ہوگا تو ملک میں اس کا حتمی فائدہ صرف اور صرف شریفوں اور نواز لیگ کو ہوگا۔ عمران خان کی حکومت بھی گر جائے گی، فوج بھی بدنام ہوجائے گی اور مولانا بھی راستے سے ہٹ جائیں گے۔ یہ ہے وہ اندیشہ جس کے تحت ہم نے مولانا کے مارچ کے حوالے سے اپنے پہلے کالم میں عرض کیا تھا کہ مولانا کی پشت پر کون ہے یہ ایک اہم سوال ہے۔ مارچ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ متحد ہے تو پھر مولانا کسی ’’سول شخصیت‘‘ کو گرانے آرہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ متحد نہیں ہے تو پھر مولانا کا ہدف کوئی ’’فوجی‘‘ ہے۔ جاوید چودھری کے کالم سے ثابت ہوگیا ہے کہ ہم نے محض تجزیے کی بنیاد پر جو بات کہی تھی جاوید چودھری کو معلومات کی سطح پر معلوم ہے کہ دھرنے کا ہدف کم از کم دو اعلیٰ فوجی اہلکار بھی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب تک مولانا اسلام آباد سے نہیں لوٹتے ایک اندیشہ ہمارے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔
دیکھا جائے تو مولانا کے مارچ کے حوالے سے عمران خان اور ان کی حکومت ایک بار پھر نااہل ثابت ہوئی ہے۔ جب تک مارچ مولانا کا صرف ’’اعلان‘‘ تھا عمران خان اور ان کے جاہل وزرا کا خیال تھا کہ مولانا اسلام آباد نہیں آئیں گے۔ مارچ یقینی ہوا تو تحریک انصاف نے اس کی مزاحمت کا اعلان کیا۔ مزاحمت میں خرابی نظر آئی تو مارچ کو اسلام آباد آنے دیا گیا، اور جب مولانا اسلام آباد میں آکر بیٹھ گئے تو عمران خان کی حکومت نے اسلام آباد کا دفاع اسٹیبلشمنٹ کو ’’Out Source‘‘ کردیا۔ چودھری برادران مذاکرات کے لیے متحرک ہوئے تو یہ بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کا کام تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کو کرنا ہے تو عمران خان اور اُن کی حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے؟ شاید اسی پس منظر میں بعض حلقوں میں ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ اور ’’قومی حکومت‘‘ کا ذکر ہورہا ہے۔
جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تو مولانا کے مارچ کے دوران اب تک اسٹیبلشمنٹ نے ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ ہونے کے باوجود ایک ’’سیاسی جماعت‘‘ کا طرزِعمل اور کردار ادا کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے مولانا فضل الرحمٰن کی تقریر پر ایک سیاسی رہنما کی طرح کا ردعمل ظاہر کیا۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے بجائے کمزوری کا اظہار ہوا۔ کورکمانڈر کانفرنس کا انعقاد اور اس کا اعلامیہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے بجائے اس کی کمزوری کا مظہر بن کر سامنے آیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ جتنی مضبوط سمجھی جاتی ہے اتنی مضبوط ہے نہیں۔
یہ سطور لکھی جا چکی تھیں کہ میاں نواز شریف سروسز اسپتال سے ’’ڈسچارج‘‘ ہوگئے۔ شریف خاندان کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ میاں صاحب شریف میڈیکل سٹی میں داخل ہوںگے مگر اطلاعات کے مطابق میاں صاحب شریف میڈیکل سٹی سے ہوتے ہوئے اپنی ذاتی رہائش گاہ جاتی امراء جا پہنچے ہیں اور ان کی رہائش گاہ کے ایک کمرے کو ’’آئی سی یو‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ یہ چند دن پرانی بات ہے کہ پورا شریف خاندان اور پوری نواز لیگ چیخ رہی تھی کہ میاں صاحب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ میاں صاحب کے وکیل خواجہ حارث کہہ رہے تھے کہ میاں نواز شریف زندہ ہی نہیں رہیںگے تو سزا کس کو دو گے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ اتنی جذباتی تھی کہ اس نے میاں صاحب کے بارے میں مصحفی کا یہ شعر پڑھ دیا

مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

یہ شعر اس بنیاد پر پڑھا گیا کہ مبینہ طور پر میاں صاحب ایک درجن سے زیادہ بیماریوں میں مبتلا ہیں‘ انہیں دل کا عارضہ لاحق ہے‘ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں‘ وہ شوگر میں مبتلا ہیں‘ انہیں گردے کے مرض نے گھیرا ہوا ہے‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے پلیٹ لیٹس اتنے کم ہو گئے ہیں کہ خدانخواستہ کسی بھی وقت ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ شریف خاندان‘ ان کے وکلا اور نواز لیگ کے رہنما یہ بھی تواتر کے ساتھ کہتے رہے کہ میاں صاحب کی طبی نگہداشت کے لیے جو طبی آلات درکار ہیں وہ اسپتال میں موجود نہیں‘ مگر ضمانت ملتے ہی میاں صاحب اتنے ’’نارمل‘‘ ہو گئے کہ جاتی امراء کا ایک کمرہ اور چند طبی آلات ان کے لیے ’’کافی‘‘ ہو گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میاں صاحب کا مذہب بھی جعلی ہے‘ ان کی تہذیب بھی جعلی ہے‘ ان کی سیاست بھی جعلی ہے یہاں تک کہ ان کی بیماری بھی جعلی ہے۔ کتنی ہولناک بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن ایک ایسے شخص کے ذاتی اور خاندانی اقتدار کی بحالی کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دے رہے ہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔