کشمیر کا دورہ کرانے کے لیے وفد کا معیار اسلام مخالف نظریات، فسطائی خیالات اور نسل پرستانہ سوچ قرار پایا
بھارتی حکومت کو یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کو دہلی اور کشمیر کا دورہ کرانے کا خیال کب سوجھا؟ یہ ایک معمّا ہے۔ شاید اُس وقت جب پاکستان نے اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں کو بھارتی فوج کی طرف سے کنٹرول لائن پر ہونے والی بلااشتعال فائرنگ اور دہشت گردوں کے کیمپوں کی حقیقت بتانے کے لیے علاقے کا دورہ کرایا، اور ان سفارت کاروں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اسپتالوں میں ستّر سال کا بوڑھا، ٹین ایجر بچہ یا کوئی خواتین زخمی ہوکر پڑی تھی، اور یہی مودی کے وہ دہشت گرد تھے جنہیں نیلم سیکٹر میں مارنے کا دعویٰ پچھلے دنوں کیا گیا تھا… یا پھر یہ اچھوتا خیال اُس وقت آیا جب یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی میں کشمیر کی صورتِ حال پر بحث ہوئی اور ’’فرینڈز آف کشمیر‘‘ نامی تنظیم کے ارکان کو تفصیل کے ساتھ سماعت کیا گیا۔ برسلز میں ہونے والے اس اجلاس میں یورپی یونین کی وزیر خارجہ منڈریکا مورگینی کی تقریر بھی پڑھی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ یورپی یونین نے بھارت سے کشمیر میں کرفیو ہٹانے اور نقل وحمل اور مواصلاتی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس بحث میں کشمیر کی صورت ِحال پر بہت کھل کر بحث ہوئی۔ قرین قیاس ہے کہ یورپی پارلیمنٹ میں ہونے والی اس دُرگت کے بعد ہی بھارت کو یورپی یونین کے ارکان کو گھیر گھار کر کشمیر لے جانے کا اچھوتا خیال آیا۔ حقیقت میں یہ اپنے دامن اور آستین پر لگے خون کے دھبے دھونے کی ایک کوشش تھی، جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ اور نہ تھا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ اگر کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور پانچ اگست کا فیصلہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے تو اس میں بیرونی دنیا کا کیا کام ہے؟ یورپی یونین کے نمائندوں کو کنٹرولڈ انداز میں پابندیوں کی رسّی میں باندھ کر بہ اہتمام دہلی اور سری نگر لے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملہ اندرونی نہیں بلکہ بیرونی دبائو کی چوٹ کہیں نہ کہیں اندرونی حصے میں محسوس کی جارہی ہے۔
کشمیر کے دورے کے لیے یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کے وفد کی ترتیب میں بہت احتیاط برتی گئی۔ اس فہرست کی تیاری میں ارکانِ پارلیمنٹ کے نظریات اور سیاسی رجحانات کو ترجیح دی گئی۔ اس طرح بھارتی مودی نے یورپ کے ’’مودی‘‘ تلاش کرکے وفد تشکیل دیا۔ یورپی ملکوں کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ارکان اور فاشسٹ اور مسلمان دشمنی میں مشہور افراد کو اس فہرست میں شامل کیا گیا، جن میں اکثر تارکینِ وطن کے شدید مخالف مانے جاتے ہیں۔ ان میں جرمن الٹرنیٹو فار جرمنی پارٹی کے رکن ایلس وانڈیل، فرانس کی نیشنل ریلی پارٹی کے رین لے پین اپنے اسلام مخالف نظریات کی تشہیر کے لیے مشہور ہیں۔ لیگانورڈ پولینڈ کی ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، نسل پرستانہ سوچ کے حامل ہیں، جو افریقی تارکینِ وطن کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس دیتے رہے ہیں۔ 23 رکنی اس وفد میں فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، چیک ری پبلک، پولینڈکے ارکان شامل تھے۔ اس طرح کشمیر کا دورہ کرانے کے لیے وفد کا معیار اسلام مخالف نظریات، فسطائی خیالات اور نسل پرستانہ سوچ قرار پایا۔ اسی سے نریندر مودی اور ان کے گرد جمع پالیسی سازوں کی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ برطانیہ کی لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے دو ارکان نے اس سوچ کا بھانڈا یہ کہہ کر پھوڑا کہ انہیں بھی وفد کا حصہ بننے کی دعوت دی گئی تھی مگر جب انہوں نے کہا کہ وہ کنٹرولڈ دورہ نہیں کریں گے بلکہ ان کے وفد کے ساتھ بھارتی فوجی اور سیکورٹی فورسز کے بجائے صرف صحافی ہوں گے، اور وہ مقامی لوگوں سے ملاقات کرنا چاہیں گے تو اس کے بعد منتظمین آئیں بائیں شائیں کرنے لگے، اور یوں ان کا نام فہرست سے خارج کردیا گیا۔ یہ پانچ اگست کے بعد کشمیر کا دورہ کرنے والا پہلا غیر ملکی وفد تھا۔
بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ میں خاتون صحافی سہاسنی حیدر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کے دورے میں دھوکا دہی اور جعل سازی کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس دورے کے پیچھے مودی کے مشیر قومی سلامتی اجیت دوول کا ذہن تھا مگر اس کے لیے فرضی این جی او کا نام استعمال کیا گیا، اور اس دورے کے اخراجات کے لیے بھی ایک تھنک ٹینک کا نام استعمال کیا گیا۔ بھارتی حکومت خود کو اس دورے سے دور رکھنا چاہتی تھی، اور یہ کھیل این جی او کے نام پر کھیلا گیا۔ برسلز میں قائم ’’ویمنز اکنامک اینڈ سوشل تھنک ٹینک‘‘ نامی ایک این جی او کی بھارت نژاد خاتون ماڈی شرما، جن کا اصل نام مدھو شرما دریافت ہوا ہے، نے یورپی پارلیمنٹ کے ارکان سے رابطہ کرکے کہا کہ وہ انہیں بھارت کا دورہ کرواکر وہاں یورپی یونین کے اہم پالیسی سازوں کے طور پر متعارف کرانا چاہتی ہیں اور انہیں بھاری اکثریت سے دوسری بار جیت کر آنے والے نریندرمودی سے ملوائیں گی جو بھارت کو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کررہے ہیں، ساتھ میں انہیں کشمیر کا دورہ بھی کرایا جائے گا۔ مسز شرما نے اپنا جو ٹوئٹر اکائونٹ بنایا تھا اُس میں خود کو بزنس بروکر لکھا تھا۔ مسز شرما نے یورپی ارکانِ پارلیمنٹ کو بتایا کہ دورے کے اخراجات دہلی کے ایک ادارے ’’انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار نان الائنڈاسٹڈیز‘‘ نے برداشت کیے ہیں۔ دی ہندو نے مسز شرما کے ٹوئٹر اکائونٹ پر پیغام بھیجا تو جواب آیا کہ یہ درست اکائونٹ نہیں۔ پھر دہلی کے تھنک ٹینک سے رابطہ کیا گیا تو کوئی جواب نہ ملا۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ یورپی ارکانِ پارلیمنٹ کو دھوکا دہی سے بھارت لایا گیا، بلکہ حکومت نے اس کے لیے فرضی ناموں اور کرداروں کا استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارتی اپوزیشن کی طرف سے اس دورے پر یہ کہہ کر اعتراض کیا گیا کہ کشمیر کے دورے کے خواہش مند بھارتی ارکانِ پارلیمنٹ کو دو بار ائرپورٹ سے واپس کیا گیا مگر باہر والوں کو حکومتی سرپرستی میں کشمیر لے جایا گیا، یہ پارلیمنٹ اور ملکی خودمختاری کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ اس طرح یہ قدم خود بھارتی حکومت کے گلے پڑگیا اور وزارتِ خارجہ کو اس عمل سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے کہنا پڑا کہ یہ وفد ذاتی حیثیت میں آیا ہے۔
پانچ اگست کو بھارت کشمیر میں ایک بڑی حماقت کرکے حماقتوں کی ایک دلدل میں پائوں رکھ چکا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو بھی دنیا بھر کے آزاد ضمیر سیاست دانوں اور منتخب ارکان کو کنٹرول لائن اور کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے علاقے کا دورہ کرانا چاہیے تاکہ دنیا کو دونوں علاقوں کے حالات کا موازنہ کرنے میں آسانی رہے، اور بھارت کے اقدامات کی اصل حقیقت بھی دنیا پر عیاں ہوسکے۔