تیل کی تنصیبات پر تباہ کن حملے کے بعد صورتِ حال تبدیل ہو گئی
سعودی فرماں روا ملک سلمان بن عبدالعزیز کے جواں سال صاحب زادے شہزادہ محمد بن سلمان المعرف MBSکو مملکت کے ولی عہد کا منصب سنبھالے ابھی سوا دو سال ہی ہوئے ہیں لیکن اس مختصر سے عرصے میں سعودی عرب نے تبدیلی کی بہت سی منزلیں بڑی تیزی سے طے کرلی ہیں۔ جنوری 2015ء میں جیسے ہی انھیں وزیر دفاع کا قلمدان عطا ہوا، شہزادہ صاحب نے سعودی عرب کی سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی تنظیمِ نو کے خدوخال ترتیب دینے شروع کیے۔ 2015ء میں نائب ولی عہد کا منصب سنبھالتے ہی MBSنے ماہرین کی ٹیمیں بناکر ”جدید سعودی عرب“ کی تعمیر کا آغاز کیا اور اپریل 2016ء میں رویۃ السعودیہ یا Vision 2030 کا اعلان کیا گیا۔
اس پیش بینی کا کلیدی نکتہ سعودی معیشت میں تنوع تھا تاکہ بقول MBS ”ملکی اقتصادیات تیل کے ہاتھوں یرغمال نہ بنی رہے“۔ اسی کے ساتھ انھوں نے نجی شعبوں کے تعاون و مشارکت سے صحت و تعلیم، بنیادی ڈھانچے (Infrastructure)، تفریح اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دینے کا خیال پیش کیا، جس میں حکومت کا سرمایہ، حصہ اور مداخلت کم سے کم ہو۔ منصوبے کے مطابق 2030ء تک سعودی عرب کو
٭ عرب اور اسلامی دنیا کا قلب
٭ بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مرکز
٭ تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ کا طاقتور اقتصادی سنگم بننا ہے
اس سلسلے میں اہداف طے کیے گئے وہ کچھ اس طرح ہیں:
٭ سنیما و موسیقی، تفریحی مشاغل، کھیل کود کی سہولت اور سیاحت کے ذریعے بدو اور قبائلی اندازِ فکر کو دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔
٭ خواتین کو معاشی و معاشرتی طور پر بااختیار کرکے افرادی قوت میں تنوع و صحت مند مسابقت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
٭ تیل پر ملکی معیشت کا دارومدار کم کرنے کے لیے آزاد الیکٹرانک تجارت، خودمختار بینکنگ نظام، تاجر دوست پالیسیوں اور کاروبار میں حکومت کی مداخلت کم سے کم کرکے مملکت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش بنایا جائے گا۔
٭ حکومت کے زیرانتظام چلنے والے اداروں کو بتدریج فروخت کردیا جائے گا۔
وژن 2030ء کے ثقافتی پہلو پر عمل درآمد کے لیے خواتین کو بااختیار بنانے کا عمل تیزی سے جاری ہے، جس میں خواتین کے لیے ڈرائیونگ پر پابندی کا خاتمہ، اسٹیڈیم میں خواتین کو جانے کی اجازت، بیرونِ ملک سفر کے لیے محرم کی شرط کی منسوخی شامل ہے۔ خواتین کے لیے باہر نکلتے وقت عبایا پہننے کی شرط قانونی طور پر تو ختم نہیں کی گئی لیکن شہروں میں مذہبی پولیس یا مُطوع حضرات کو عبایا نہ لینے والی خواتین کو روکنے اور پوچھ گچھ کرنے سے منع کردیا گیا ہے۔ اسی طرح لڑکوں کے نیکر یا Shorts پہننے پر بھی مطوعوںکو جرمانے یا زجر و تنبیہ کی اجازت نہیں۔ غیر ملکی مرد و خواتین کے لیے ہوٹل میں کمرہ بک کراتے وقت نکاح نامہ دکھانے کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے۔
سیاحت کے فروغ کے لیے تبوک کے ساحل پر 50 چھوٹے بڑے جزائر اور 34 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر ایک پُرتعیش سیاحتی مرکز تعمیر کیا جارہا ہے۔ چارٹر کے مطابق اس سیاحتی مرکز کاانتظام بین الاقوامی معیار کا ہوگا۔ یعنی مشروبات و ملبوسات اور بے لباسی کے حوالے سے وفاقی حکومت کے قوانین یہاں نافذ العمل نہیں ہوں گے۔ 500 ارب ڈالر کے اس منصوبے پر وقتی طور پر کام بند ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے مرکزی ٹھیکیدار نے اپنی دکان بڑھادی ہے۔
جامع تبدیلی کے اس تعارف کے بعد آتے ہیں اس خبر کی جانب جس نے تیل کی دنیا میں زبردست ہلچل پیدا کردی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کا ایک بہت ہی اہم نکتہ سعودی آرامکو کی نجکاری ہے جس پر گزشتہ دو برس سے کام ہورہا ہے۔
تیل و گیس کے ذخائر اور اثاثہ جات کے علاوہ منافع کے اعتبار سے سعودی آرامکو کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔ گزشتہ برس آرامکو کا خالص منافع 111ارب ڈالر تھا یعنی دنیا کی تین سب سے بڑی کمپنیوں ایپل (Apple)، گوگل (Google)اور ایکسون موبل (Exxon Mobil)کے مجموعی منافع سے بھی زیادہ۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں کمپنی کا خالص منافع 47 ارب ڈالر کے قریب تھا اور آرامکو نے اگلے برس اپنے حصص یافتگان کے لیے منافع کی مد میں 75 ارب ڈالر مختص کیے ہیں۔ اس سال کے آغاز میں آرامکو نے دنیا کی سب سے بڑی پیٹرو کیمیکل کمپنی سابک (SABIC)کے 70 فیصد حصص خرید کر پیٹرولیم مصنوعات کے شعبے پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔
آرامکو کی نجکاری پر گفتگو سے پہلے قارئین کی دلچسپی کے لیے اس کی تاریخ پر چند سطور:
جنگِ عظیم اوّل کے فوراً بعد خلیج عرب کے دونوں کناروں پر یعنی سعودی عرب اور بحرین میں تیل کی تلاش کا کام شروع ہوا۔ امریکہ کی اسٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا یا SoCalنے 1932ء میں قسمت آزمائی شروع کی اور اس کے ذیلی ادارے بحرین پیٹرولیم کمپنی (BAPCO)کو ابتدائی کامیابی نصیب ہوئی۔ 1933ءمیں SoCalنےCalifornia-Arabian Standard Oil Company (CASOC)کے نام سے سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں تیل کی تلاش کا کام شروع کیا،تاہم ابتدائی نتائج حوصلہ افزا نہ تھے، چنانچہ CASOCنے اپنے مفادات کا نصف حصہ Texas Petroleumیا TEXACOکو بیچ دیا۔
پانچ سال کی لگاتار کوشش و محنت کے بعد 1938ء میں دمام 7 نامی کنویں سے تیل دریافت ہوا۔ بعد میں اس کنویں کو بیئر الخیر (مبارک کنواں) کا نام دے کر اسے قومی یادگار کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کامیابی کے بعد دریافت کا تانتا بندھ گیا۔ 1944ء میں CASOCکا نام عرب امریکن آئل کمپنی یا آرامکو رکھ دیا گیا۔
ایک کے بعد ایک دریافت سے آرامکو انتہائی نفع بخش ادارہ بن گئی اور اس کے ساتھ ہی سعودی حکومت اور کمپنی کے درمیان منافع کی تقسیم پر چپقلش کا آغاز ہوا۔
سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیز (موجودہ حکمراں کے والدِ بزرگوار) نے 1950ء میں آرامکو کو قومیانے کی دھمکی دے کر 50 فیصد منافع سعودی حکومت کے نام کروا لیا۔ اسی کے ساتھ آرامکو کا ہیڈکوارٹر نیویارک سے ظہران منتقل کردیا گیا۔
سعودی حکومت کی تحریک پر ریگستان کے ساتھ سمندر کی تہوں کو کھنگالنے کا آغاز ہوا اور 1951ء میں دنیا کا سب سے بڑا Offshore میدان دریافت ہوا۔ خلیج عرب کی گہرائیوں میں واقع یہ ذخیرہ سفانیہ آئل فیلڈ کہلاتا ہے۔
آرامکو کی سب سے بڑی کامیابی 1957ء میں غوار میدان کی دریافت ہے۔ دنیا میں اس حجم کا دوسرا میدان آج تک دریافت نہیں ہوسکا۔
اسی کے ساتھ آرامکو کو قومی ملکیت میں لینے کا تدریجی عمل شروع ہوا۔ 1973ء میں سعودی حکومت نے آرامکو کے 25 فیصدحصص خرید لیے جس کے اگلے برس حکومت کی ملکیت 50 فیصد ہوگئی۔ 1980ء میں مزید 50 فیصد حصص خرید لیے گئے اور آرامکو حکومت کی ملکیت ہوگئی۔ خریداری مکمل ہونے پر کمپنی کا نام سعودی آرامکو رکھ دیا گیا۔
جون 2017ء میں ولی عہد کا منصب سنبھالتے ہی MBSکی ہدایت پر سعودی آرامکو کی نج کاری کا عمل شروع کیا گیا جس کا مقصد ترقیاتی منصوبوں کے لیے غیر ملکی سرمایہ حاصل کرنا ہے۔ ابتدا میں کمپنی کے 5 فیصد حصصIPOs کی شکل میں پیش کیے جائیں گے۔ سعودی حکومت کے خیال میں کمپنی کی قدر 2 ہزار ارب ڈالر ہے چنانچہ5 فیصدIPOs کی فروخت سے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
تاہم سرمایہ کاری کے عالمی اداروں اور ساہوکاروں کے خیال میں 5 فیصد حصص کے لیے 100 ارب کا ہدف غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ حالیہ دنوں میں IPOsکی فروخت سے سب سے زیادہ رقم الیکٹرانک تجارت یا e-commerce کے چینی ادارے علی بابا نے حاصل کی جب 2014ء میں اس کے IPOs نے بازار حصص سے 25 ارب ڈالر کا سرمایہ سمیٹا۔ اسٹاک مارکیٹ کے پنڈت آرامکو IPOsکے لیے 40 ارب ڈالر کا تخمینہ لگارہے ہیں۔
آرامکو IPOsکے اجرا کے لیے 20 اکتوبرکی تاریخ طے کی گئی تھی، لیکن 14 ستمبر کو اس کی دو بڑی تنصیبات ابقیق اور الخریص پر تباہ کن حملے سے صورتِ حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ اس کے قلب پر کاری حملے کے نتیجے میں کمپنی کے خزانے کو جہاں اربوں ڈالر کا ٹیکہ لگا ہے، وہیں اس کی تنصیبات اور اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے تاثر نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متزلزل کردیا ہے۔ کچھ اداروں نے ان خطرات کی اقتصادی تشریح 13 سے 15 فیصد کی ہے، یعنی آرامکو کی مجموعی قدر کم ہوکر 1600سے 1800 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ اس خوف کی بنا پر کہ کہیں آرامکو کے بارے میں اندیشہ ہائے دوردراز اور سرمایہ کاروں کے خوف اور عدم اعتماد سے IPOs کی قیمت توقع سے کم نہ ہوجائے، اجرا ملتوی کردیا گیا۔
سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کو یقین ہے کہ متاثرہ تنصیبات کی بروقت مرمت اور بین الاقوامی معیار کے حفاظتی اقدامات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوچکا ہے، چنانچہ انھوں نے اعلانِ التوا کے دوسرے ہی دن نجکاری کے عمل کو جاری رکھنے کا حکم دے دیا اور اتوار 3 نومبر کو مملکت کی مقتدرہ برائے سرمایہ کاری یا CMA نے حصص کی فروخت کے لیے IPOجاری کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔
جس کے دوسرے دن ظہران میں نجکاری کے منصوبے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے آرامکو کے چیئرمین جناب یاسر الرمیان اور منیجنگ ڈائریکٹر جناب امین ناصر نے بتایا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے انقلابی وژن کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کے لیے غیر ملکی سرمایہ حاصل کرنے کی غرض سے آرامکو کی جزوی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے کمپنی کے 5 فیصد حصص IPOsکی شکل میں پیش کیے جائیں گے۔ سیانوں اور ساہوکاروں کے خدشات کے باوجود آرامکو کی قیادت پُرامید ہے کہ کمپنی کی قدر 2 ہزار ارب ڈالر ہے۔ اس سال کے دوران کمپنی کی مجموعی قدر کے ایک فیصد پر مشتمل IPOs فروختِ عام کے لیے پیش کیے جائیں گے، جبکہ مزید ایک فیصد IPOs کی فروخت اگلے برس ہوگی۔ ابتدائی دو فیصد کی فروخت سعودی بازارِ حصص تداول پر ہوگی۔ جس کے بعد مزید 3 فیصد حصص تداول کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی بازارِ حصص میں بھی پیش کیے جائیں گے۔ حصص کی قیمتوں کا ابتدائی تخمینہ 17 نومبر کو جاری کیا جائے گا۔ بازار کا ردعمل دیکھنے کے بعد قیمتوں کا حتمی اعلان 4 دسمبر کو ہوگا اور کمپنی کا تجارتی نشان 11 دسمبر سے تداول کی فہرست پر درج کردیا جائے گا۔
خیال ہے کہ امریکی بازار ہائے حصص میں آرامکو کے IPOsکی خرید وفروخت نہیں ہوگی جس کی وجہ نائن الیون کے متاثرین کی جانب سے نقصان کے تاوان کے لیے سعودی اثاثہ جات پر متوقع دعویٰ ہے۔
امریکی سی آئی اے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے مطابق ان حملوں کے ذمہ دار 19 افراد میں سے 15 سعودی عرب کے شہری تھے۔ 2016ء میں امریکی کانگریس نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے مطابق نائن الیون کے متاثرین ہرجانے کے لیے سعودی عرب کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتے ہیں، اور ایسے کئی دعوے امریکی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اگر فیصلہ ان متاثرین کے حق میں ہوا تو عدالت ہرجانے کی ادائیگی کے لیےامریکہ میں سعودی اثاثوں کو ضبط کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ گویا امریکہ کے سرمایہ کار اس نفع بخش تجارت میں شاید براہِ راست حصہ نہ لے سکیں اورآرامکو کے IPOsخریدنے کے لیے انھیں ریاض کے تداول یا یورپ و ایشیا کے بازاروں کا رخ کرنا ہوگا۔
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔