سید جلال الدین عمری
۔’’بزرگو! دوستو! اور عزیزو! محترم خواتین! مائو! بہنو! اور بیٹیو!۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ
رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ خیر کی یہ مجلس ہے۔ آپؐ کی عظمت اور فضیلت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:۔
’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان کے لیے دعائے رحمت کرو اور اچھی طرح سلام بھیجو۔‘‘ (الاحزاب: 56)۔
اس سے بڑی بات کیا کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی دعائیں آپؐ کے شاملِ حال رہی ہیں اور اہلِ ایمان کو بھی اس کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ اللھم صلی علیٰ سیدنا محمد
بلغ العلیٰ بکمالہ، کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلوا علیہ و آلہ
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ’’سراج منیر‘‘ کہا ہے: ’’اے نبیؐ! ہم نے آپ کو اللہ کی طرف سے اس کے اذن سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الاحزاب 46)۔
آپؐ آفتابِ عالم تاب ہیں، آفتاب کسی دلیل کا محتاج نہیں ہوتا، اس کا وجود خود اس کی دلیل ہے۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ اسی طرح رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت اور اعلیٰ کردار آپ کی رسالت کی آپ دلیل ہے۔ اس کے لیے کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔
آفتاب اپنی جگہ روشن ہے اور کرۂ ارض کو روشن رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح آپؐ کے اوصافِ حمیدہ آفتاب کی طرح روشن ہیں اور دنیا کو رشد و ہدایت بھی آپؐ ہی سے مل سکتی ہے۔ آپؐ ’خاتم النبیین‘ ہیں۔
’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم (آخری نبی) ہیں۔‘‘ (الاحزاب: 40)۔
آپؐ کے بعد سلسلۂ نبوت ختم کردیا گیا۔ اب تاقیامت آپؐ پر ایمان اور اتباع ہی کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا واحد ذریعہ قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے ذریعے سے انسان کو اللہ کی ہدایت مل سکتی ہے اور نہ اس تک رسائی کی کوئی دوسری سبیل ہے۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت کے لیے آپؐ کی اتباع کو لازم قرار دیا گیا۔ ’’کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا، اور اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘ (آل عمران: 31)۔
دینِ اسلام کے کامل اتباع، اس کے احکام کی پابندی، اس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سعی و جہد اور ہر طرح کی قربانی کیسے دی جاتی ہے؟ اور اس راہ میں کس طرح استقامت کا ثبوت دیا جاتا ہے؟ اس کا مثالی نمونہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس تھی۔ اب جو شخص بھی خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے تاقیامت یہی اسوۂ حسنہ ہے: ’’تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین اسوہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے اجر و ثواب کی توقع اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔‘‘ (الاحزاب: 21)۔
جو شخص آپؐ کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھے گا، وہی اللہ تعالیٰ کے دین کا حق ادا کرسکے گا اور دنیا و آخرت میں فوز و فلاح سے ہم کنار ہوگا۔
اس موقع پر حیاتِ مبارکہ کے بعض پہلوئوں کی وضاحت کی کوشش کی جائے گی:
اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم ہے، اس کی رحمت ہر سو عام ہے۔ اسی سے یہ دنیا آباد ہے۔ یہاں کی ہر مخلوق زبانِ حال سے اس کے رحمن و رحیم ہونے کا اعلان کرتی ہے کہ اس کی رحمت نہ ہو تو اس کا وجود ہوگا اور نہ اسے زندگی نصیب ہوگی۔ اس کی حیات کا ہر لمحہ اللہ کی رحمت کا مرہونِ منت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان و یقین آدمی کو اسی حقیقت کے اعتراف پر مجبور کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک مسلمان ہر کام ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے کرتا ہے۔ یعنی اس کام کا آغاز اور اس کا اپنے انجام کو پہنچنا سب اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ سورۂ فاتحہ کا آغاز بھی اسی سے ہوا ہے الحمدللّٰہ رب العالمین الرحمٰن الرحیم۔ ’’ہماری تمام تر حمد و ثنا اور سارے جذباتِ شکر کا سزاوار اللہ ہے، جو رب العالمین ہے۔‘‘ رب وہ ہے جو اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک کی حاجت پوری کرتا ہے اور اس کی اس طرح پرورش کرتا ہے کہ وہ دنیا میں اُس وقت تک اپنا وجود باقی رکھے اور اپنا کام انجام دیتی رہے جب تک اللہ چاہے۔ یہ سب اس کے رحمن و رحیم ہونے کی دلیل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین بن کر آئے: ’’وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین‘‘ (الانبیاء : 107)۔ آپؐ نے دنیا کو بتایا کہ اللہ رحمن و رحیم ہے۔ اس کے بندوں کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و رافت کا معاملہ کرنا چاہیے اور ان کی زندگی خدائی اوصاف کا پرتو ہونی چاہیے۔ اسی سے وہ خدا کے محبوب بن سکتے ہیں۔
رحم و کرم کا پاکیزہ جذبہ اگر پیدا ہوجائے تو انسانوں کے درمیان پیدا ہونے والے سارے نزاعات ختم ہوجائیں اور دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کے بعض دوسرے پہلو یہ ہیں:
-1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے بشیر و نذیر تھے: ’’ہم نے تو آپ کو مبشر و نذیر ہی بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل: 105)۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے: ’’ہم نے آپ کو حق کی شہادت دینے والا اور بشارت دینے اور ڈراوا سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الفتح: 8)۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق اور بے تعلقی کے نتائج سے دنیا بے خبر تھی۔ آپؐ نے بتایا کہ اللہ سے رشتہ توڑ کر انسان فلاح نہیں پا سکتا۔ اس کے لیے کامیابی کے سارے راستے بند ہیں۔ انسان کے دنیا اور آخرت میں بامراد اور سرخ رو ہونے کا ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کی راہ اختیار کرے۔ جو قوم اس پرگامزن ہوگی اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت کی مستحق ہوگی اور دنیا کی امامت و قیادت کی زمام اس کے ہاتھ میں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں افراد اور اقوام کا دائمی خسران ہے۔ اس سے ان کی قسمت میں ہمیشہ کی تباہی لکھ دی جائے گی۔ یہ وہ انذار و تبشیر کا فرض ہے جو آپؐ کے ذریعے انجام پایا۔ یہ آپؐ کا اتنا بڑا احسان ہے کہ دنیا کبھی اس سے سبک دوش نہیں ہوسکتی۔ آج بھی انسان اپنی ہزار مادی ترقی کے باوجود گم کردہ راہ ہے، خدا سے بھٹکا ہوا ہے، اس بات کا محتاج ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صراطِ مستقیم دکھائی ہے، اس کی طرف اس کی راہنمائی کی جائے اور اسے خدا کی رحمتوں کا مستحق بنایا جائے۔
-2 وحدتِ بنی آدم کا تصور دیا: دنیا قوموں، طبقوں، گروہوں میں منقسم تھی، کہیں جغرافیائی حدود، کہیں قومی، نسلی اور لسانی فرق، اور کہیں غلط قسم کے مذہبی رسوم و رواج نے انسانوں کو تقسیم کررکھا تھا۔ ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کئی طرح کی دیواریں حائل تھیں۔ اپنے اور غیر کا فرق ہی دوستی اور دشمنی کی بنیاد تھا اور اسی پر اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا، نزاعات ہوتے، میدانِ کارزار گرم ہوتے، خون کے دریا بہتے اور انسانیت یہ دیکھ دیکھ کر شرمسار ہوتی کہ ہر کسی کا دامن اپنے ہی جیسے انسان کے خون سے رنگین ہے۔
ان حالات میں اللہ کی طرف سے اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا: اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے خاندان اور قبائل بنا دیے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں سب سے زیادہ باعزت اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے۔ (الحجرات: 13)
تم سب ایک ماں باپ کی اولاد ہو، یہ تمہارے قبیلے اور خاندان جنگ و جدال کے لیے نہیں، باہم تعارف کے لیے ہیں۔ تم چاہے مشرق میں ہو یا مغرب میں، شمال میں ہو یا جنوب میں، تم کالے ہو یا گورے، تم کوئی بھی زبان بولتے ہو، تم سب ایک ہو، ایک ماں باپ کی اولاد ہو، پھر تمہارے درمیان عداوت کیوں ہے؟ تم کیوں ایک دوسرے کے درپے آزار اور خون کے پیاسے ہو؟ تم سب برابر ہو، سب کے حقوق مساوی ہیں، کوئی کسی سے برتر نہیں۔ ہاں وہ شخص قابلِ احترام ہے جس کے پاس تقویٰ کی دولت ہے اور جو خدا سے ڈر کر زندگی گزارتا ہے۔ جو تقویٰ میں جتنا آگے ہوگا، اتنا ہی عزت و احترام کے قابل ہوگا۔
خطبۂ حجۃ الوداع میں ایک لاکھ سے زیادہ جاں نثاروں کے درمیان آپؐ نے اعلان فرمایا: ’’یاد رکھو کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت اور برتری اسے حاصل ہے جس کے اندر تقویٰ اور خدا ترسی ہے۔‘‘ (احمد)۔
-3 درسِ اخلاق دیا: دنیا میں بہت سے معلمِ اخلاق گزرے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق کی تعلیم کو اس کی آخری بلندی تک پہنچایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’میری بعثت اس لیے ہوئی ہے کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کروں‘‘ (مؤطا)۔ آپؐ نے محبت و رافت، عفوودرگزر، صبر و تحمل، تواضع اور انکسار، فراخ دلی اور سخاوت، صداقت اور راست بازی، عدل و انصاف، عفت و عصمت، شرم و حیا جیسی اعلیٰ صفات پر زور دیا، اور ان کے برعکس اوصاف: نفرت اور عداوت، غیظ و غضب، بے جا انتقام، تکبر اور نخوت، بخل اور تنگ دلی، جھوٹ اور کذب بیانی، ظلم اور ناانصافی، بدکاری اور بے حیائی جیسے ناپسندیدہ اوصاف سے سختی سے منع کیا۔
اعلیٰ اخلاق اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ ہیں۔ یہ دنیا میں انسان کو رفعت و بلندی عطا کرتے ہیں۔ اس سے سماج میں اسے عزت و احترام حاصل ہوتا ہے اور وہ معاشرے کے لیے ایک بہتر اور مفید تر فرد ثابت ہوتا ہے۔ بداخلاق شخص خدا کی نگاہ میں مبغوض ہے۔ اسے دنیا میں عزت و احترام سے نہیں دیکھا جاتا اور سماج کے لیے اس کا وجود تکلیف دہ اور ضرر رساں ہوتا ہے۔ ہر شخص اس سے نفرت کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے کہ معاشرے میں حُسنِِ اخلاق کا فروغ ہوا اور بداخلاقی جرم سمجھی جانے لگی۔
آپؐ نے کمزور افراد اور طبقات عورتوں، بچوں، مسکینوں، یتیموں اور محکوموں سے بہتر سلوک کی ترغیب دی اور ان کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی وعید سنائی۔ آج دنیا کمزوروں اور مظلوموں کے حقوق کا اظہار اور اعلان کرتی ہے اور اس کے لیے قوانین بھی وضع کیے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس کا سہرا دورِ حاضر کے سر باندھتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرے کے کمزور اور بے بس انسانوں کے حق میں سب سے پہلے آواز اٹھانے اور ان کے حقوق کی حفاظت و صیانت کے لیے اقدامات کرنے کا اعزاز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے۔
دنیا کے دانشور اور اصحابِ فکر و نظر آپؐ کے ان احسانات کا اعتراف کرتے ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سطح کا کوئی دوسرا مذہبی یا سیاسی قائد چشمِ فلک نے نہیں دیکھا۔ لیکن اس دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں جو آپؐ کو ایک ایسے جنگجو اور تشدد پسند کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں جو مخالفین کو برداشت نہیں کرتا اور انہیں تہِ تیغ کرنے میں اسے تامل نہیں ہوتا، آج روئے زمین پر جہاں کہیں جبر و تشدد پایا جاتا ہے اس کے پیچھے آپ ہی کی فکر اور طرزِعمل کارفرما ہے۔ اس کی تردید کے لیے آپؐ کے حق میں کسی دوسری شہادت کی ضرورت نہیں۔ اس کی علی الاعلان شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مقدسہ اور آپؐ کی تعلیمات دے رہی ہیں۔ یہاں دو ایک پہلوئوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
خواتین ہر دور میں مردوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ وہ خاندان پر بوجھ بن کر رہتیں۔ ان کا معیارِ زندگی پست تھا، روکھی سوکھی پر جیسے تیسے بسر کرتیں۔ آپؐ نے مردوں کو، جو ان کے قوّام ہیں، ہدایت فرمائی کہ ’’تم جو کھائو وہ ان کو کھلائو، جو پہنو وہ ان کو پہنائو، انہیں زد و کوب نہ کرو اور برا بھلا مت کہو‘‘ (ابو دائود)۔ ایک اور موقع پر فرمایا ’’سب سے کامل ایمان اُس شخص کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ تم میں بہتر وہ ہیں جو بیویوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں اور ان سے بہتر سلوک کریں‘‘ (ابودائود، ترمذی)۔ مطلب یہ کہ اعلیٰ اخلاق کا ثبوت سب سے پہلے اپنے گھر میں دینا چاہیے۔ ایک اور موقع پر فرمایا ’’تم میں بہتر انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہے، اگر میرا اسوہ چاہتے ہو تو جان لو! میں اپنے گھر والوں سے تم سے بہتر سلوک کرتا ہوں۔‘‘ (ترمذی)۔
غلام اور محکوم دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم تھے۔ ان کے کچھ تسلیم شدہ حقوق نہیں تھے، وہ اپنے آقا کے رحم و کرم پر زندگی گزارتے تھے۔ آپؐ نے ان کے بارے میں جواب دہی کا تصور دیا اور کہا کہ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی پر کل قیامت کے روز اللہ کے ہاں بازپرس ہوگی۔ یہاں صرف ایک واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے:
حضرت ابومسعود انصاریؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا۔ پیچھے سے آواز سنی ’’ابومسعود! خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی کہ تمہیں اس پر حاصل ہے‘‘۔ پلٹ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ میں نے کوڑا زمین پر ڈال دیا اور کہا کہ اس کے بعد کسی غلام کو کبھی نہیں ماروں گا اور یہ غلام آج سے آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں چھو جاتی۔‘‘ (مسلم)۔
دشمنوں کے ساتھ آپؐ کے سلوک کی ایک مثال پیش کی جارہی ہے:
’’مکہ فتح ہوا تو وہ لوگ جنہوں نے آپؐ پر اور آپؐ کے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، اپنا وطنِ عزیز مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا، جو ہمیشہ آپؐ کے خلاف محاذ آرا رہے، اور جن سے آپؐ کو کئی جنگیں کرنی پڑیں، وہ آپؐ کے سامنے نگوں سار کھڑے تھے۔ آپؐ چاہتے تو ان میں سے ایک ایک سے بدلہ لے سکتے تھے۔ آپؐ نے ان سے سوال کیا: ’’بتائو، اب میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟‘‘ وہ دشمن ہونے کے باوجود آپؐ کی سیرت و کردار سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے کہا: آپؐ شریف انسان ہیں اور شریف بھائی کی اولاد ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’جائو آج تم سب آزاد ہو۔ تم سے کوئی بازپرس نہ ہوگی‘‘۔ یہ اعلان سنتے ہی انہیں یوں محسوس ہوا جیسے موت کے منہ سے نکل آئے ہوں۔ اس کے بعد وہ سب اسلام میں داخل ہوگئے۔ اپنے مخالفین پر قابو پانے کے بعد خون آشامی کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن کیا انتقام کی جگہ عفو و درگزر کا کوئی اور نمونہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے؟ صلی اللہ علیہ وسلم۔