دھرنے کا انجام……؟

وزیراعظم عمران خان کی سیاسی ناتجربہ کاری بحران کا سبب ہے

جے یو آئی کا دھرنا حتمی نتیجے کی جانب بڑھ رہا ہے، جے یو آئی کا دھرنا کیوں ہوا؟ گزشتہ ہفتے یہ سوال ملک بھر کی سیاسی چوپالوں کا موضوع رہا، تاہم دھرنے کا انجام اس سے بھی بڑا سوال ہے جے یوآئی کی کور ٹیم کا مؤقف ہے کہ”دھرنا اور مطالبات جے یوآئی نے بہت سوچ سمجھ کر کیے ہیں یہ ہماری سیاسی اور نظریاتی تشخص کے لیے بہت ضروری تھے لیکن جب معاملہ اے پی سی میں آیاتو جے یوآئی کے مقاصد ہائی جیک ہوگئے، فیصلوں کا اختیاررہبر کمیٹی کے پاس چلا گیا، دھرنا تو اسی روز اپنے ہدف سے دور ہوگیا تھا جب سارے معاملات رہبر کمیٹی نے سنبھال لیے اسی لیے جے یوآئی کے دینی مزاج کے کارکنوں کا دھرنا سیاسی مطالبات پر مشتمل چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کی وجہ سے سیاسی کارڈ کی کھجور پر لٹک گیا جے یو آئی کو جواب دینا ہوگا کہ اصل ہدف کیوں بدلا گیا؟ اور آزادی مارچ کے لیے لوگوں کو ایک بڑے مقصد کے حصول کے نام پر منظم کرکے اسلام آباد لانا اور اسلامی نظریاتی تشخص کا ہدف حاصل کیے بغیر انہیں منتشر کرنے کا مقصد کیا تھا، کشمیر، بے روزگاری، مہنگائی کے ایشوز سے انکار ممکن نہیں، یہ اپنی جگہ ہیں لیکن حکومت اس وقت دیگر تین بڑے محاذوں میں گھری ہوئی ہے، پہلا محاذ تاجروں نے کھڑا کیا، دوسرا بیورو کریسی اور تیسرا محاذ جے یو آئی کے دھرنا ہے، تاجر تنظیموں کے ایف بی آر اور نیب پر تحفظات ہیں اور بیوروکریسی نیب کے خلاف متحد ہوچکی ہے، تیسرے محاذدھرنے کے انجام سے متعلق کچھ بھی کہا جائے حقائق یہ ہیں کہ حکومت چاہتی تھی کہ معاملہ”راولپنڈی اور عدلیہ،، کے حوالے کردیا جائے لیکن حکومت اپنا فیصلہ نہیں منواسکی یوں حکومت کو گہرا گھاؤ لگا ہے تاہم فی الحال سایے نے ساتھ نہیں چھوڑا تاہم حکومت نے رویہ نہ بدلا تو گھر چلی جائے گی بات اس سے بھی آگے کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کا ملاکھڑا جاری رہا تو نظام ہی بدل جائے گا ہمارے سامنے دو منظر ہیں ایک دھرنے سے پہلے کا اور دوسرا دھرنے کے بعد کا، دونوں کے الگ الگ اہداف تھے اس پس منظر میں دھرنے کا جائزہ لینے کے لیے جے یو آئی کے اہداف اس کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کا تجزیہ ضروری ہے۔ عام انتخابات سے قبل مولانا فضل الرحمن سے تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے بارے میں ہاتھ ہولا رکھنے کی درخواست کی گئی تھی، بات تسلیم نہیں کی گئی تو پارلیمنٹ مولانا فضل الرحمن سے چھن گئی، رد عمل میں مولانا فضل الرحمن نے جارحانہ سیاسی رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، مرکز میں تحریک انصاف کے پاس سادہ اکثریت نہیں تھی حکومت بنانے کے لیے اسے اتحادی جماعتوں کی ضرورت تھی، اس وقت مولانا نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کو اسمبلی میں نہ جانے بلکہ استعفی دینے کی تجویز دی طویل مشاورت کے بعد مولانا کی تجویز مسترد ہوئی اور اسمبلی میں جانے کا فیصلہ ہوا جے یو آئی نے بھی یہ فیصلہ تسلیم کیا اور حلف اٹھایا، اس کے بعد جے یوآئی نے کل جماعتی کانفرنس بلانے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی تجویز دی کہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی جائے اور وائٹ پیپر شائع کیا جائے، در اصل مولانا ہر قیمت پر تحریک انصاف کے خلاف اپوزیشن کو متحرک کرنا چاہتے تھے، اسی دوران متحدہ مجلس عمل بھی ختم ہوگئی تو جے یو آئی نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی حکمت عملی بنانا شروع کی فیصلہ یہی تھا کہ تنہا پروازکرنے کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ رکھا جائے لیکن اپنی سیاسی شناخت بھی قائم رکھی جائے لہٰذا جے یو آئی نے ملین مارچ کے نام پر رابطہ عوام مہم شروع کردی، جس میں اسے پذیرائی ملی اورا س کا اعتماد بھی بڑھ گیا، حکومت کا ایک سال مکمل ہوا تو کل جماعتی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی، تاہم یہ تحریک کامیاب نہیں ہوسکی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کو اس تحریک کی ناکامی کا ذمہ دار سمجھا گیا، اس کے باوجود مولانا نے کل جماعتی کانفرنس کا پلیٹ فارم نہیں چھوڑا، تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومت پر ایک اور وار کرنے کا فیصلہ ہوا جے یو آئی نے ملک بھر میں رابطہ عوام مہم کے بعد لانگ مارچ اور دھرنے کی تجویز دی اور ۷۲ ستمبر کی تاریخ بھی طے کرلی، اپوزیشن جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی اس کا حصہ بنیں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سمیت کل جماعتی کانفرنس کی دیگر جماعتیں بظاہر تو تذبذب کا شکار رہیں، تاہم یہ سب جماعتیں لانگ مارچ اور دھرنا کے فیصلوں سے پوری طرح آگاہ تھیں اور فیصلہ یہی تھا کہ حکومت کو اپوزیشن کے متحد ہونے کا تاثر نہیں ملنا چاہیے تاکہ وہ خوش فہمی کا شکار رہے جب مولانا لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچ گئے تو پھر اے پی سی میں شامل جماعتوں کے رہنما جلسے سے خطاب کے لیے پہنچ گئے، یہ پہلا مرحلہ تھا، اس میں حکومت شدید دباؤ میں رہی، اسی دباؤ کے باعث مسلم لیگ(ن) کو ریلیف ملا، جلسے میں بلاول بھٹو، شہباز شریف سمیت تمام اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے خطاب کیا، بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے جلسے میں شرکت کے باوجود حکومت کو کوئی الٹی میٹم نہیں دیا، شہباز شریف کو جلسے سے خطاب کے بعد پیغام ملا کہ”سب کچھ مل سکتا ہے لیکن معاہدے کی پابندی ضروری ہے،، جلسے سے کلیدی خطاب میں مولانا نے وزیر اعظم کے استعفی سمیت چار مطالبات حکومت کے سامنے رکھے اور ساتھ دو دن کی مہلت دینے کا اعلان کردیا باضابطہ طور پر جے یو آئی کے یہ مطالبات پہلی بار سامنے آئے، اور اے پی سی میں شامل جماعتوں کی رہبر کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کرلیا طے شدہ پلان کے مطابق رہبر کمیٹی نے بھی جے یو آئی نے مطالبات کی توثیق کردی تو یہ مطالبات رہبر کمیٹی کے مطالبات بن گئے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہو گئے حکومتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ارکان کی ملاقات میں اپوزیشن نے اپنا چار نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ باضابطہ طور پر حکومت کو پیش کیا حکومتی ٹیم نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ مسترد کر دیا اور پارلیمینٹ کی بالادستی کا مطالبہ تسلیم کرلیا اسی دوران حکومت کے اتحادیوں چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی نے مولانا فضل الرحمٰن سے طویل مذاکرات کیے جس کے بعدبرف پگھلنے کا اشارہ ملا۔ حکومت جس لانگ مارچ کو اہمیت نہیں دے رہی تھی پہلی بار وزیر اعظم نے دباؤ محسوس کیا اور اتحادی پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں کہا کہ”تیاری کرو، دھرنا ٹو بھی شروع ہوچکا ہے،، وزیراعظم عمران خان نے اتحادی حلقوں کے پارلیمانی ارکان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے سخت مؤقف کا اعادہ کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ان کے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے تصادم کی جانب بڑھ سکتے ہیں، دھرنا ٹو کی تفصیلات کیا ہیں اتحادیوں کے اجلاس میں بھی اس کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم پارٹی رہنماؤں کو یہ اطلاع دے دینا ہی کافی ہے، بحران گہرا ہوتا ہو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ(ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کو معاملہ حل کرنے کا ٹاسک دے کر میدان میں اتارا گیا مذاکراتی عمل میں ان کی شرکت سے مذاکرات ٹوٹتے ٹوٹتے بچے ہیں وزیر اعظم عمران خان کے ذہن میں یہ سوچ گھر کرچکی ہے کہ ان کی سیاست صرف اس طرح زندہ رہ سکتی ہے کہ ماضی کی حکمران جماعتوں کو کرپٹ کہتے رہیں اور اپوزیشن کو دیوار سے لگائے رکھیں انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ ا جماعتوں میں رہنے والے کرپشن میں لتھڑے ہوئے لوگ تحریک انصاف میں کیوں جگہ بنا رہے ہیں، بطور وزیر اعظم انہیں پارلیمنٹ کو جواب دہ ہونا ہے سفارتی محاذ اور حکومتی امور کی باریکیوں کو سمجھنا کتنا ضروری ہے لیکن وہ اہمیت دینے کی بجائے ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں حکومت کا یہی رویہ تاجروں کے ساتھ ہے اور بیورو کریسی بھی پریشان ہے کہ وزیر اعظم نیب کے ہاتھوں پریشان بیورو کریسی کی پشت پر نہیں کھڑے ہورہے نتیجہ یہ نکل رہا ہے حکومت میں کام نہیں ہورہے اور ملکی معیشت بیٹھ رہی ہے یہ صورت حال چوکیداروں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہی ہے ان کی کوشش ہے کہ حکومت کام کرے لیکن گاڑی چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی، طے شدہ امر ہے کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو، بیورو کریسی ہمیشہ ایک بڑے اسٹیک ہولڈر کی حیثیت رکھتی ہے، بیوروکریسی کا اونٹ بھڑک جائے تو کوئی حکومت سنبھل نہیں سکتی، تحریک انصاف کی حکومت میں عوام تو پریشان ہیں ہی، تاجروں کے بعد اب بیوروکریسی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے، بڑے سرمایہ داروں نے آرمی چیف سے ملاقات کے بعد ریلیف لیا اور نیب مقدمات کے جائزہ کے لیے اب ایک کمیٹی بن چکی ہے، بیوروکریسی بھی اب یہی چاہتی ہے بیوروکریسی کے بڑے اور نمائندہ وفد نے ملک کی ایک اہم شخصیت سے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات میں بھی نیب کے خلاف شکایات کا انبار لگا دیا، تاجروں کے بعد بیوروکریسی کی یہ ملاقات حکومت کے لیے ایک بڑا امتحان ہے، لیکن حکومت بے پرواہ ہے، وہ تمام فرائض جو بطور انتظامیہ حکومت کو خود انجام دینے چاہئیں۔ ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں بڑی بڑی پارلیمانی جماعتوں کی حکومتیں چٹکی بجتے ہی ختم ہوتے ہوئے دیکھی گئی ہیں یہ سیاسی حقائق ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ان حقائق سے واقف نہیں ہیں انہیں ادراک ہی نہیں ان کی حکومت کی چولیں ہل چکی ہیں تحریک انصاف کی حکومت تو قومی اسمبلی میں بڑی اکثریت کی بجائے اتحادیوں کے محض چار ارکان کی برتری سے قائم ہے یہ چار ارکان کسی بھی وقت وفاداری تبدیل کر سکتے ہیں۔ جے یو آئی کے دھرنے کی اصل کامیابی یہی ہوگی کہ حکومت پر کاری ضرب لگا کر بنیاد ہلا کر رکھ دی ہے۔جے یو آئی اور اپوزیشن جماعتیں آزادی مارچ سے جلسہ اور پھر دھرنا تک کے سفر میں بہت کچھ حاصل کرچکی ہیں یہ تینوں مرحلے اعصاب شکن تھے اپوزیشن جماعتوں کی سب سے ًری کامیابی یہی تھی کہ انہوں نے اپنے کارڈ چھپا کر رکھے اور حکومت کو متحدہ نہ ہونے کا تاثر دیے رکھا جلسے میں مولانا فضل الرحمن نے اداروں سے غیر جانب دار رہنے کی اپیل کی اشاروں کے غلاف میں لپٹی ہوئی اس اپیل کا نشانہ خطا نہیں گیا، مولانا سے ان کے بیان کی وضاحت مانگی گئی اور مشورہ دیا کہ الیکشن کے بارے تحفظات متعلقہ ادارے کے پاس لے جائیں، مولانا نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن تو تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کا ہی فیصلہ نہیں کرسکا، اگے ہی روز الیکشن کمشن بھی متحرک ہوا اور تحریک انصاف کو سکروٹنی کمیٹی میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کردیا، اس پیش رفت کے بعد دھرنے کا ڈراپ سین کرنے کا بھی سوچا گیا اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویز الہی متحرک ہوئے اور کہا کہ”وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنا غیر آئینی اور غیرجمہوری ہے اداروں کو متنازع بنانا قومی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہے لڑائی میں فوج کو گھسیٹ کر جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی جارہی اور نہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے فوج کی طرف سے بھی وضاحت آ چکی ہے بہتر یہ ہو گا کہ فضل الرحمن اپنے بیان سے رجوع فرما لیں، معاہدے کی پاسداری لازم ہے مصالحتی کمیٹی کی وجہ سے ہی ان کا قافلہ اسلام آباد میں داخل ہواہے اگر کمیٹی درمیان میں نہ ہوتی تو مولانا کے لوگوں کو اسلام آباد میں آنے ہی نہیں دیا جانا تھا لوگوں کو قابو میں رکھنا انہی کی ذمہ داری ہے وزیراعظم عمران خان کو مدت پوری کرنے کا اسی طرح حق ہے جس طرح ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے پوری کی ہیں،، اس کے بعد چودھری شجاعت حسین کی ٹیلی فون پر مولانا سے گفتگو ہوئی اور ملاقات کرنے کا فیصلہ ہوا چودھری شجاعت اگلے روز ملاقات کے لیے مولانا کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے لیکن وزراء اپنے بیانات کے ذریعے تلخی بھی پیدا کرتے رہے، بظاہر حکومت سیاسی ڈائیلاگ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ اسلام آباد کے ہر باخبر حلقے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور پوری کابینہ سیاست کی باریکیوں سے نابلد ہے کابینہ کے وزراء کے بیانات تو آگ کو ہوا دیتے رہے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کی شکائت پر وزیر اعظم نے بعد از خرابی بسیار، وزراء کو بیان بازی سے منع کردیا ہے۔ ابتداء خود وزیر اعظم نے کی تھی ان کے بعدوزراء کی بیان بازی کے نتائج اب سامنے ہیں اصل تجزیہ یہی ہے کہ اسلام آباد میں آزادی مارچ کا کریڈٹ حکومت کو ہی جاتا ہے کہ حکومت اپنے غیر ذمہ دارانہ مزاج کے باعث اپوزیشن کے لیے ناقابل برداشت زبان استعمال کرتی رہی، گلگت میں وزیر اعظم نے رد عمل دیا کہ مولانا فضل الرحمن بھارتی شہری لگتے ہیں وزیر اعظم کی سطح پر اپوزیشن کے خلاف ایسی زبان استعمال کرنے سے بکھری ہوئی اپوزیشن پھر سے متحد ہوگئی اور مولانا نے ٹف ٹائم دینے کے لیے دھرنے کی قسمت کا فیصلہ کل جماعتی کانفرنس کی رکن جماعتوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا یہ ایک نئی صورت حال تھی جس سے نمٹنے کے لیے مسلم لیگ(ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کو بھیجا گیا تاکہ اے پی سی کو غیر موئثر کیا جاسکے لیکن حکومت نے انہیں تاخیر سے استعمال کیا ہے اس لیے نتائج بھی تاخیر سے ملے، اور اب مستقبل میں ملک کی سیاسی صورت حال میں ایک بڑی تبدیلی آنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو چاہتا ہے کہ جو طبلِ جنگ بجا ہے وہ اب یُدھ میں بدل جائے۔

حزب اختلاف کو پیغام

چودھری شجاعت حسین اور پرویزالٰہی دھرنا ختم کرانے کا ٹاسک لے کر مولانا فضل الرحمان کے گھر پہنچے اور طویل ملاقات کی، اگلی ملاقات چودھری شجاعت حسین کے گھر پر ہوئی۔ ملاقات میں اپوزیشن کے مطالبات:
٭وزیراعظم مستعفی ہوں
٭انتخابات الیکشن کمیشن کی مکمل زیرنگرانی ہوں
٭فوری انتخابات کرائے جائیں
٭تمام معاملات میں آئین کی پاسداری کی جائے
پر بات چیت ہوئی، اپوزیشن کو سمجھا دیا گیا کہ وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا تو ایک نیا بحران پیدا ہوجائے گا اور وہ سیاسی شہید بن جائیں گے، سیاسی طور پر آزادی مارچ کے ذریعے عمران خان کا جانا اُن کے لیے فائدے مند اور اپوزیشن کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ یہ پیغام دے کر اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے کہ دھرنے ابھی اس ملک میں نظام بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے، اپوزیشن کو اپنی شرائط میں جمہوری آزادیوں، الیکشن میں غیر جانب داری، احتساب میں زیادتیوں اور اسمبلیوں کی بہتر کارکردگی کو شامل کرنا چاہیے۔ ان مطالبات یا شرائط پر اتفاقِ رائے ہوا تو یہ عمران خان کی شکست اور اپوزیشن کی فتح ہوگی۔ پھر معاملہ اٹھا کہ اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کی اشک شوئی کیسے کی جائے؟ فیصلہ یہی ہوا کہ حکومت فیس سیونگ دے گی اور دھرنا کی واپسی کے لیے سہولت کار بنے گی۔
اسلام آباد میں بارش اور تیز ہوائیں چلنے کے باعث جب سردی کی شدت بڑھی جس کی وجہ سے دھرنے کے شرکاء کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور کئی عارضی خیمے بھی تیز ہواؤں کی وجہ سے اڑ گئے تو وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایت کی کہ دھرنے کے شرکاء کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے۔

بلوچستان اور جے یو آئی (ف) کا آزادی مارچ

بلوچستان کے اندر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے خلاف بلوچستان حکومت نے کوئی اقدام نہ کیا، اور 28 اکتوبر کو ہزاروں افراد پنجاب کی حدود میں داخل ہوگئے۔ اس میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء و کارکن بھی شامل تھے۔ لسبیلہ، گوادر اور اس سے متصل علاقوں کے کارکن براستہ کراچی، جبکہ نصیرآباد ڈویژن کی تنظیمیں جیکب آباد اور سکھر کے راستے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئیں۔ نیشنل پارٹی جے یو آئی کی اس تحریک میں شامل ہے۔ پکڑ دھکڑ اور راستے بند کرنے کی فضا بنانے کی وفاقی حکومت نے کوششیں ضرور کیں، تاہم اس کے باوجود اسلام آباد میں میدان سج گیا۔ پنجاب، خیبر پختون خوا اور وفاق کی حکومتیں ان کے تدارک کے لیے حکومتی طاقت کا استعمال کرتیں، تو یقینی طور پر بلوچستان حکومت بھی اس سیاہ عمل میں پیچھے نہ ہوتی۔ جمعیت علمائے اسلام کے انصارالاسلام کو کالعدم قرار دیا گیا۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے بھی انصارالاسلام کے بارے میں وفاقی حکومت کی تقلید کی اور کہا کہ اس تنظیم کو سرگرمیوں کو اجازت نہیں دی جائے گی، ڈنڈا بردار فورس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ ضلع دکی کے اندر وہاں کی انتظامیہ نے جے یو آئی کے ان رضا کاروں کے ساتھ گویا جان بوجھ کر مڈبھیڑ کی، منفی اور گمراہ کن تاثر پھیلانے کی کوشش کی، انصارالاسلام کے کارکنوں پر مقدمہ درج کیا گیا۔ صوبائی حکومت کے اس نمائندے نے یہ رائے بنانے کی کوشش کی کہ مارچ میں بلوچستان سے لوگوں کی حاضری کم تھی، حالاں کہ اس بات کی نفی ان کے اس اقدام سے بھی ہوتی ہے کہ محض صوبے کے دور دراز علاقے دکی میں انہوں نے مارچ کے لیے جانے والے جے یو آئی کے ڈھائی سو کارکنوں پر مقدمہ درج کرایا۔ یقینی طور پر بلوچستان کے اندر سے سیاسی کارکنوں کی شرکت مثالی تھی۔
(جلال نورزئی)

عمران خان کی سیاسی تنہائی

اب یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ بڑے اور بھاری دھرنے کے باوجود ثابت ہوگیا کہ سیاست میں اعدادو شمار نہیں بلکہ زمینی حقائق کی زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ دھرنے سے جے یو آئی سے زیادہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی فائدہ ملنے کی منتظر ہیں، اور جے یو آئی کے پاس ٹھوس جواب نہیں کہ دھرنے کا چراغ کس قیمت پر گل ہوا؟ لیکن اس دھرنے کو حتمی انجام تک پہنچانے والے فیصلے سے دو باتیں بڑی واضح سامنے آئی ہیں کہ دھرنا دینے والی قوتوں اور حکومت دونوں کی کمزوریاں پوری طرح بے نقاب ہوئی ہیں، نتیجہ یہ نکلا کہ ایک کی چونچ اور دوسرے کی دُم غائب ہوگئی ہے۔ اصل کامیابی اس نظام کے چوکیداروں کوملی۔ آزادی مارچ کی پسلی سے مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز کی عبوری رہائی نے جنم لیا، اگلے مرحلے میں پیپلز پارٹی کے صحن میں مسرت کے پھول کھلنے والے ہیں۔ اب یہ دونوں جماعتیں ریلیف مل جانے کے بعد اپنا بیانیہ تبدیل کریں گی، کیونکہ حکومت این آر او دے اور اپوزیشن این آر او لے چکی ہے۔ اب اپوزیشن اور حکومت مستقبل میں مشروط ماحول میں کام کریں گی، لیکن چونکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لہٰذا حکومت اور اپوزیشن سیز فائر کو زیادہ عرصہ برقرار نہیں رکھ سکیں گی، اور کچھ عرصے کے بعد ملک میں ایک نیا سیاسی منظر ہوگا۔ عمران خان سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ اُن کی جلدبازی اور غیر ضروری اقدامات ہیں۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو بدنام اور رسوا کرنے کے عمل میں بہت دور جا چکے ہیں، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کو بھی بے وقعت کرنے کا باعث بنے ہیں۔