جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت نے دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے تقریباً تین ماہ بعد ریاست کو سرکاری طور پر دو مرکزی علاقوں ’جموں و کشمیر‘ اور ’لداخ‘ میں تقسیم کردیا۔ بھارت میں اب ریاستوں کی کُل تعداد 28 رہ گئی، جبکہ مجموعی طور پر یونین ٹیریٹریز کی تعداد 9ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کا آئین اور پینل کوڈ ختم ہوگیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتظامی لحاظ سے بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ جموں و کشمیر کے یونین ٹیریٹریز میں پانڈیچری جیسی مقننہ ہوگی، جبکہ لداخ چندی گڑھ کی طرح مقننہ کے بغیر ایک یونین ٹیریٹری ہوگا، اور ایکٹ کے مطابق دونوں یونین ٹیریٹریز کی سربراہی دو الگ لیفٹیننٹ گورنر کریں گے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مرکز اور پولیس کا براہِ راست کنٹرول ہوگا۔ لداخ کی یونین ٹیریٹری مرکزی حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں ہوگی جو گورنرکے ذریعے خطے کا انتظام کرے گی۔ سرکاری محکموں کے ناموں میں بھی تبدیلی کرلی گئی ہے، جن میں ’جموں اینڈ کشمیر اسٹیٹ ویجیلنس ڈپارٹمنٹ‘ کا نام بدل کر ’جموں و کشمیر ویجیلنس ڈپارٹمنٹ‘، اور’جموں اینڈ کشمیر اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن‘ کا نام بدل کر ’جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن‘ ہوگیا ہے۔ 31 اکتوبر کے بعد ریاست کے مزید کئی قوانین بھی منسوخ ہوجائیں گے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے محکموں کے ناموں سے ’ریاست‘ کا لفظ نکالا جائے گا، یہ مرکز کے زیر انتظام آنے کے بعد سب سے پہلی تبدیلی دیکھی جائے گی۔ ریاست کے اب یہ محکمے مرکز کی براہِ راست نگرانی میں کام کریں گے۔ سابق ریاست جموں و کشمیر کے لیے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس)، انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) اور انڈین فاریسٹ سروس (آئی ایف ایس) کے کیڈرزکے ارکان موجودہ پوزیشنوں پر کام جاری رکھیں گے اور مرکزکے تحت کام کریں گے۔ مستقبل میں آل انڈیا سروس کے افسروں کو جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے یا لداخ کے مرکزی علاقے میں تعینات کیا جائے گا۔ ایک ایکٹ کے تحت، جو مرکز کے ذریعے پارلیمنٹ میں منتقل ہونے کے صرف چار دن بعد 9 اگست کو صدر کی رضامندی پاس کیا گیا تھا، کہا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو مقررہ دن سے فوراً پہلے ریاست جموں و کشمیر میں سرکاری خدمات انجام دے رہا تھا، جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے عام یا خصوصی حکم کے تحت، جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے اور لداخ کے یونین کے علاقے کے امور کے سلسلے میں عارضی طور پر خدمات انجام دیتا رہے گا، مرکز کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپنے جاری کردہ کسی بھی آرڈر پر نظرثانی کرے۔ کشمیر کے علاقوں کے لیے جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن بنایا جائے گا۔ جبکہ بھارت کا یونین پبلک سروس کمیشن صدر کی منظوری سے لداخ کے علاقوں کی ضروریات کو پورا کرے گا۔
اس تقسیم کے بعد مقبوضہ کشمیر کے کس حصے کو کتنا مالی فائدہ یا نقصان ہوگا، اس حوالے سے ساؤتھ ایشین وائر نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ لداخ کو اس تقسیم میں زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان نہیں ہے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کس طرح ہوگی، اس بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں۔ ریاست جموں وکشمیرکے بیشتر اثاثے جموں و کشمیر کے علاقوں میں واقع ہیں۔ لداخ ڈیموں، بجلی کے منصوبوں اور پاور اسٹیشنوں میں زیادہ رقم حاصل نہیں کرسکے گا،کیونکہ وہ جموں اور کشمیر میں ہیں۔ اور جو بھی پاور اسٹیشن لداخ اور جموں و کشمیر کے علاقوں میں واقع ہیں، وہ وہیں موجود رہیں گے۔ جموں و کشمیر کو لداخ میں موجود پاور اسٹیشنوں سے بجلی کی ضرورت پڑے گی، کیونکہ جموں وکشمیر میں آبادی زیادہ ہے، لہٰذا لداخ کو بھی اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اس وقت جس ریاست میں بجلی گھر واقع ہے، اسے فروخت پر 12 فیصد رائلٹی ملتی ہے، تاہم لداخ کو جموں و کشمیر کے باہر واقع کچھ اثاثے ملنے کا امکان ہے۔ سابق ریاست کی دہلی، امرتسر، چندی گڑھ اور ممبئی میں چھ جائدادیں ہیں، جنھیں دونوں مرکزی علاقوں کے درمیان یکساں تقسیم کیا جائے گا۔ 9 ستمبر کو دونوں یونین ٹیریٹریز میں اثاثوں اور واجبات کو تقسیم کرنے کے لیے تشکیل دی گئی تین رکنی مشاورتی کمیٹی اس معاملے پر غور کررہی ہے۔ سابق سیکرٹری دفاع سنجے میترا کی سربراہی میں بننے والی اس کمیٹی کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ حکومتی عہدیداروں کے مطابق لداخ کے لوگوں کے جذبات کو دیکھتے ہوئے لیہہ کو لداخ کا دارالحکومت بنایا گیا ہے۔
دفعہ 370 کی منسوخی سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں تبدیل کرنے کے بعد مختلف کمیشنزکو ختم کرنے کے ساتھ ہی ان کمیشنزمیں زیر سماعت عام لوگوں کی ہزاروں درخواستوں کا مستقبل بھی مخدوش نظر آرہا ہے۔ حکومت نے 31 اکتوبر سے جے اینڈ کے اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن، اسٹیٹ انفارمیشن کمیشن، اسٹیٹ کنزیومر ڈسپیوٹس ریڈرسل کمیشن، اسٹیٹ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن، اسٹیٹ کمیشن برائے تحفظ حقوقِ خواتین و اطفال، اسٹیٹ احتساب کمیشن اور اسٹیٹ کمیشن آف پرسنز وتھ ڈس ایبلیٹیز کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ حکم نامے کے مطابق جے اینڈ کے ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کے تناظر میں ان سبھی کمیشنز سے متعلق تمام ایکٹ منسوخ قرار دیئے گئے ہیں۔ اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن میں قریباً پانچ سو درخواستیں زیر سماعت تھیں جن کے مستقبل کے بارے میں ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ یہ کمیشن دو دہائی قبل قائم کیا گیا تھا جس میں ریاست میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے متعلق درج شکایات کی سماعت اور ان کا ازالہ کیا جاتا تھا۔ اس کمیشن میں مارچ 2019ء تک 8529کیس درج کیے گئے، جن میں 7725کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ اس کمیشن کی جانب سے سرکار کو مختلف شکایات سے متعلق 1822سفارشات بھی کی گئی تھیں۔ اسٹیٹ انفارمیشن کمیشن میں 350 سے زائد درخواستیں زیر سماعت تھیں جن کے بارے میں بھی کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی ہے۔ کمیشن کے قیام کے بعد 4216کیس اور 1037شکایتیں موصول ہوئی تھیں جن کا فیصلہ بھی کردیا گیا۔ القمرآن لائن کے مطابق جموں و کشمیر Right To Information Act 2009کو ختم کرنے کے بعد کمیشن بھی ختم کردیا گیا اور اس میں زیر سماعت سینکڑوں درخواستیں التوا میں ہیں۔ ویمن اینڈ چائلڈ رائٹس کمیشن کو ختم کرنے کے ساتھ ہی اس میں زیر سماعت 200 مختلف شکایات، جن میں گھریلو تشدد سے متعلق کیسز کی تعداد زیادہ تھی، کے متعلق بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ اس کمیشن میں اب تک گھریلو تشدد سے متعلق 3141کیس درج کیے گئے تھے۔ اب یہ تمام ریکارڈ اور دیگر سامان جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے سپرد کردیا گیا ہے۔ کمیشنز کے بند ہونے سے ان کے صدور، سرپرست اور اراکین بھی اپنے عہدوں سے فارغ ہوگئے ہیں۔
آن لائن خریداری سے مقبوضہ کشمیر کی کوریئر کمپنیوں کے کام کاج میں بے حد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے وہاں سینکڑوں نوجوان اپنا روزگار چلا رہے ہیں۔یہ کوریئر آن لائن خریدی گئی اشیاء کے ساتھ ساتھ بعض حیات بخش ادویہ بھی لوگوں کے گھروں یا دفاتر تک پہنچا رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ 95 دنوں سے انٹرنیٹ پر عائد پابندی سے وادی کشمیر میں 18کوریئر کمپنیاں اپنا کام نہیں کر پا رہی ہیں، کیونکہ یہ دفاتر پوری طرح سے انٹرنیٹ پر ہی منحصر ہیں۔ اس طرح ان کمپنیوں میں ملازمت کرنے والے تین ہزار ملازمین بھی روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔