ڈاکٹر ممتاز عمر
اقبال کے نزدیک انسانی شخصیت کی تکمیل اُس وقت ہوتی ہے جب انسان اپنی ہستی کو مٹا کر سپردگی اختیار کرے، اور نبیٔ محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے زندہ تعلق بیدار کرتے ہوئے ان کے عشق میں ڈوب کر عقیدت کی جبیں جھکا دے۔ اس طرح وہ اپنی خودی سے آگاہ ہوکر مردِ مومن کی صفات پاسکتا ہے۔ لہٰذا پیرویٔ رسولؐ کو اختیار کرکے منزلِ مقصود پائی جاسکتی ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز
خاکی و نوری نہاد بندئہ مولیٰ صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
علامہ اقبال کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے عام فہم الفاظ کو نئے معنی و مطالب سے آشنا کیا۔ اس لیے ان کے لب و لہجے کو ایک منفرد انداز نصیب ہوا۔ وہ رمز و کنایہ کے رنگ و آہنگ کو اپناتے ہوئے فکر و فلسفے کی گہرائی میں نہ صرف خود اترتے ہیں بلکہ پڑھنے والا بھی ان کے ساتھ معنویت کی تہ در تہ پرتوں کو ہٹاتے ہوئے نئے نئے موضوعات سے روشناس ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام تنوع اور وسعت کی بنا پر منفرد لب و لہجے کا عکاس ہے۔
میرے ہم سفر کہکشاں اور بھی ہیں
ابھی راہ میں سختیاں اور بھی ہیں
ستاروں میں کچھ بستیاں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اقبال سے قبل ہماری شاعری میں ایسا پیغام اس جوش و خروش اور سوز و درد کے ساتھ کسی شاعر نے نہ دیا تھا، کیونکہ ہمارے شاعر یا تو دربار کے ساتھ وابستہ رہے یا خانقاہ سے۔ اسی سبب سے ان کے یہاں یا تو حسن و جوانی کے تذکرے اور سازِ عشرت پر چھیڑے ہوئے گیت تھے، یا پھر روحانیت و تصوف اور بے ثباتیٔ عالم کے مضامین کے انبار۔ لیکن اقبال نے قوم کے خوابِ گراں کو جذبۂ بیدار میں بدل دیا، قوم کے رگ و پے میں زندگی کی ایک لہر دوڑا دی، اور مسلمان کو قوم و وطن کے حقیقی تصور سے روشناس کرادیا۔
سوائے کینہ نہیں کچھ بھی جن کے سینوں میں
گھرا ہوا ہوں انہیں حاشیہ نشینوں میں
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا اللہ
علامہ اقبال نے فکرِ اسلام کی ترجمانی کے لیے شاعری کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ ان کی شاعری عزائم کو سینوں میں بیدار کرتی، روح کو تازگی اور قلب کو حرارت بخشتی ہے۔ شانِ خلیل ان کی تخلیق کا اہم جوہر ہے۔ وہ حضرتِ انسان کی اندھیری رات کو سحر کے نور سے روشن کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصدِ حیات آدم یزدانی صفات کو بتانِ آذری کی حکمرانی سے آزاد دیکھنا تھا۔ انہوں نے اسلامی نظام حیات کو اپنی منزل جانا جو انسان پر انسان کی خدائی کی جڑ کاٹتا اور تمام انسانیت کو فلاح و کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کرنا چاہتا ہے۔
یہاں ذرّے کریں گے صورتِ شمس و قمر پیدا
یہی صحرا کرے گا اہلِ دل اہلِ نظر پیدا
یہاں کثرت سے ہوں گے صاحبِ علم و خبر پیدا
سر اشکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گوہر پیدا
تحریک ِخلافت کی ناکامی کے بعد ہندوستان کا مسلمان خود کو بے یارو مددگار سمجھنے میں حق بجانب تھا کیونکہ نہرو رپورٹ نے ہندوئوں کے متعصبانہ نظریات آشکار کردیے تھے۔ کچھ اشک شوئی قائد اعظم کے چودہ نکات سے ہوپائی، مگر اصل حوصلہ اور نیا عزم مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد کے بعد نکھر کر سامنے آیا جب علامہ اقبال نے مسلم اکثریتی علاقوں کی آزادی کا تصور پیش کیا۔ بظاہر ان کا لب و لہجہ غمزدہ تھا، مگر ان کی حساسیت مایوسی اور قنوطیت کے بجائے رجائیت کا بلند آہنگ لیے سامنے آئی۔ ان کے عزائم توانا تھے، وہ سخت ترین حالات میں بھی ڈٹ کر کھڑے رہنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کا مسلمان قوتِ عمل سے سرشار فتح مندی کے جوش میں کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا۔
نہ رہ مطمئن خواہش و آرزو پر
نہ کر اکتفا بحث اور گفتگو پر
توانائیاں صرف کو جستجو پر
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
ایک بات اور قابلِ غور ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ ہندوستانی جمہوریت اور سیکولرازم میں انہیں اپنی قومی انفرادیت اور اپنے مذہب کی بنیاد پر سیاسی استحکام و قومی اتحاد کو خیر باد کہنا پڑتا۔ اگر انہیں مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا تھا تو علیحدہ تشخص برقرار رکھنا ضروری تھا۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ
علامہ اقبال کا ہماری قوم پر یہ ایک عظیم احسان ہے کہ انہوں نے جداگانہ مسلم قومیت کے خطوط کو روشن کیا جب دیگر مسلمان زعما اور عمائدین ہندوئوں کے ساتھ مل کر ہندوستانی قومیت کے مکر و فریب کا شکار ہوگئے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی جیسے جید عالم نے جب کہا کہ اقوام اوطان سے بنتی ہیں، تو علامہ اقبال نے نہایت بروقت اس خطرے کو بھانپ لیا اور کہا ’’قومیں اوطان سے نہیں مذہب سے بنتی ہیں‘‘۔ ہندوئوں کے ساتھ مل کر ایک قومی ریاست بنانے اور ہندوستانی قومیت میں مسلم قومیت کے ضم ہونے کے خدشے کی جس طرح علامہ اقبال نے نشاندہی کی اس نے جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کو ہندوئوں کے رحم و کرم پر پڑے رہنے سے بچالیا، اور مسلمانوں کو خلفشار و انتشار سے نکال کر ایک مثبت سیاسی لائحہ عمل عطا کرکے حصولِ پاکستان کی جدوجہد کی راہ پر ڈال دیا۔
اقبال نے روایت سے ہٹ کر اپنی شاعری کو ایک پیغام بنایا۔ انہوں نے عشقِ مجازی کے رنگ میں محبوب کے لب و رخسار اور نازو ادا کو اپنانے کے بجائے قوم کو جہدِ مسلسل کرتے رہنے کا درس دیا، کیونکہ غلامی کی زندگی مرعوبیت پیدا کرتی ہے جو انسان میں احساسِ شکست بیدار کرتی ہے۔ جس کا سدباب یہی ہے کہ ملت کو خوابِ غفلت سے جگا کر کامیابی کے سفر پر رواں دواں کیا جائے، اور جب قوم بیدار ہوکر اٹھے تو پھر آزادی کا کارواں پیہم رواں دو قومی نظریے کی تکمیل کے لیے قیام پاکستان کی صورت میں اپنی منزلِ مقصود کو پاجاتا ہے۔