قومی وطن پارٹی کے الیکشن کمیشن کے چیئرمین معروف قانون دان اور کالم نگار جمیل مرغز نے پارٹی کے نومنتخب مرکزی اور صوبائی عہدیداروں کا نوٹیفکیشن پارٹی سیکرٹریٹ وطن کور پشاور سے جاری کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق آئندہ چار سال کے لیے قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ، سینئر وائس چیئرمین حاجی محمد غفران، جنرل سیکرٹری انیسہ زیب طاہر خیلی، ڈپٹی جنرل سیکرٹری احمد نواز جدون، نائب چیئرمین خلیل مردانزئے، سردار احمد نواز اور ضرار بٹ، ایڈیشنل سیکرٹری شیر محمد درانی، سیکرٹری اطلاعات مسرور شاہ ایڈووکیٹ اور جوائنٹ سیکرٹری ہاشم رضا ایڈووکیٹ منتخب ہوئے۔ جبکہ صوبائی عہدیداروں میں سکندر حیات خان شیرپاؤ صوبائی چیئرمین، ہاشم بابر جنرل سیکرٹری، فضل الرحمان نونو ڈپٹی جنرل سیکرٹری، طارق احمد خان اور ارشد عمر زئے سینئر وائس چیئرمین، عدنان وزیر، پروفیسر حمیدالرحمان، بیدار شاہ اور افضل پنیالہ وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ اسد آفریدی ایڈووکیٹ سیکرٹری اطلاعات، ڈاکٹر عالم یوسف زئی کلچر سیکرٹری، تانیہ گل، الحاج ہاشم خان اور مرزا باچا جوائنٹ سیکرٹری اور نسرین خٹک سوشل میڈیا سیکرٹری منتخب ہوئیں۔
بعد ازاں قومی وطن پارٹی کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس وطن کور پشاور میں منعقد ہوا جس کی صدارت پارٹی کے نومنتخب مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کی۔ اجلاس سے اپنے خطاب میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے پارٹی کارکنوں اور عہدیداروں کو خصوصی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ قومی وطن پارٹی آنے والے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی اور پارٹی عہدیدار اور کارکن ابھی سے ان انتخابات کی تیاریاں شروع کردیں۔ انہوں نے کہا کہ 2018ء کے متنازع عام انتخابات کے بعد آئندہ بلدیاتی انتخابات…… جن سے موجودہ حکومت راہِ فرار اختیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے…… میں بطور ایک بڑی جماعت کامیابی پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اجلاس میں پارٹی کی تمام تنظیموں کو جلد ازجلد مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی گئی، اور وطن پال لائرز ونگ کو ازسرنو منظم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ قومی وطن پارٹی پختونوں کی نمائندہ جماعت ہے، جو ان کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے ہر فورم پر جدوجہد جاری رکھے گی۔ انھوں نے کہا کہ قومی وطن پارٹی پختونوں کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کررہی ہے اور ان کو کسی بھی صورت تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ موجودہ صورتِ حال میں پختونوں کو دہشت گردی، انتہا پسندی، بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے، لیکن تبدیلی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والوں نے صوبے کی ترقی اور امن کے قیام کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا، صوبائی حکومت عوام سے کیے گئے وعدے ایفا کرنے میں سنجیدہ نہیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے اقتدار کو طول دے رہی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں صوبے میں کوئی میگا پراجیکٹ شروع نہیں کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ لاکھوں پختون ملک بھر میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی وطن پارٹی میں اضلاع، مرکزی اور صوبائی انتخابات کے بعد نچلی سطح پر کارکن سازی کا عمل شروع کیا جائے گا، اور اس میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں،خواتین اور معاشرے کے تمام طبقات کو یکساں نمائندگی دی جائے گی۔
پارٹی کے اندر انتخابات کے سلسلے میں گزشتہ دنوں سٹی ڈسٹرکٹ پشاور کے انتخابات بھی منعقد کیے گئے جس کے سلسلے میں قومی وطن پارٹی سٹی ڈسٹرکٹ پشاور کا ایک اجلاس وطن کور پشاور میں منعقد ہوا، جس میں پارٹی کے رہنما سکندر حیات خان شیرپاؤ، قومی وطن پارٹی الیکشن کمیشن کے رکن اسد آفریدی ایڈووکیٹ اور سٹی ڈسٹرکٹ پشاور کے آرگنائزر افضل خان پنیالہ کے علاوہ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر سٹی ڈسٹرکٹ پشاور کے لیے ملک محمد عدیل متفقہ طور پر چیئرمین، حاجی شمس الدین سینئر وائس چیئرمین، محمد شاہ جنرل سیکرٹری، انگور شاہ، ارشد خان ایڈووکیٹ، فیض اللہ، ڈاکٹر عمر فاروق، فرید بنگش، عدیل باچا، سرفراز خان اور صابر شاہ نائب صدور چن لیے گئے، جبکہ گوہر باغی ڈپٹی جنرل سیکرٹری، خالد خان باغی انفارمیشن سیکرٹری اور عارف شاہ جوائنٹ سیکرٹری منتخب کیے گئے۔ سکندر شیرپاؤ نے سٹی ڈسٹرکٹ پشاور کی نومنتخب کابینہ کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ نومنتخب کابینہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں بروئے کار لاکر پارٹی کی ترقی اور مزید فعالیت کے لیے اہم اور کلیدی کردار ادا کریں۔
دریں اثناء قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اسلام آباد میں جمعیت (ف) کے زیرانتظام اپوزیشن جماعتوں کے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کی قیادت بلند بانگ دعوے کررہی تھی لیکن بدقسمتی سے اپنی ایک سال کی کارکردگی کی روشنی میں وہ ان پڑھ نکلی ہے۔ عمران خان اپنے وعدوں کے برعکس نہ صرف آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے، بلکہ اپنی ناقص اقتصادی حکمت عملی کے نتیجے میں یہ حکومت پچھلے ایک سال کے دوران اگر ایک طرف اب تک ایک ہزار ارب روپے کا اضافی قرض لے چکی ہے تو دوسری جانب بیرونی سرمایہ کاری میں 52 فیصد کمی کے باعث ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر تاریخ کی پست ترین سطح تک پہنچنے کے نتیجے میں مہنگائی کا وہ طوفان آیا ہوا ہے جس کی نظیر پاکستان کی ستّر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کا کہناتھا کہ جنہوں نے موجودہ وزیراعظم کو سلیکٹ کیا وہ اب خود بھی اپنی انتخاب پر پریشان بلکہ پشیمان ہیں۔ حکومت کے پاس ہر سال قبائلی اضلاع کو 100ارب روپے کا پیکیج دینے کے وسائل نہیں ہیں،قبائلی اضلاع کے انضمام کو اپنی غیر سنجیدگی کے نتیجے میں مذاق بنا دیاگیا ہے، قبائل سے کیاگیا ایک بھی وعدہ اب تک نہیں نبھایا گیا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے،اس پر ہمیں سخت تشویش ہے۔ انہوں نے جمعیت (ف) کے دھرنے اور وزیر اعظم عمران خان کے مستعفی ہونے کے اپوزیشن کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس حکومت کو مزید مہلت دی گئی تو یہ ملک کی رہی سہی کسر کو بھی خاک میں ملا دے گی۔
آفتاب احمد خان شیرپاؤ کا قومی وطن پارٹی کا اگلے چار سال کے لیے مرکزی چیئرمین، اور ان کے سیاسی جانشین اور فرزند سکندر حیات شیرپاؤ کا دوبارہ بلکہ شاید سہ بارہ پارٹی کا صوبائی چیئرمین منتخب ہونا بظاہر تو کوئی بڑی خبر نہیں ہے، لیکن وطنِ عزیز میں اس جدید دور اور ستّر سال کے سیاسی ارتقاء کے باوجود موروثی سیاست کا جادو جس دھڑلے سے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور سیاست کا یہ بدنما دھبہ جتنی شدت کے ساتھ شرفِ قبولیت پا رہا ہے وہ ہماری مستقبل کی سیاست کے لیے یقیناًکوئی نیک شگون نہیں ہے۔ ملک کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی میں موروثیت کی جڑیں جتنی مضبوط ہوچکی ہیں اسے مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ ہم کبھی اس عفریت سے جان چھڑا سکیں گے۔ ابھی حال ہی میں اے این پی نے جس دیدہ دلیری سے باپ بیٹے کو پارٹی کا مرکزی اور صوبائی صدور بنایا اور اس کے بعد جمعیت (ف) اور جمعیت(س) کی مرکزی اور صوبائی صدارت جس طرح دو بھائیوں اور باپ سے بیٹے کو منتقل ہوئی اسے دیکھتے ہوئے اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ موروثی سیاست کے تسلسل اور اسے استحکام دینے میں مذہبی اور غیر مذہبی کی تفریق سے بالاتر ہوکر تمام سیاسی جماعتیں یکساں طور پر ملوث ہیں۔ حیرت ہے کہ قومی وطن پارٹی جس کو بنے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے، اور جو پیپلز پارٹی اور اے این پی کی روایتی موروثی سیاست کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے ایک پڑھی لکھی مڈل کلاس جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی، اور جس میں اعلیٰ پائے کے قانون دان، صحافی، دانشور اور مختلف پیشوں سے وابستہ کہنہ مشق افراد آگے آگے تھے وہ جماعت بھی خود کو اپنے قیام کے دس سال بعد بھی موروثی سیاست کے الزام اور داغ سے نہیں بچا سکی ہے۔ عام توقع تھی کہ 2018ء کے انتخابات کے تلخ نتائج کے بعد قومی وطن پارٹی اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے پارٹی کے دوسرے قائدین کو بھی اپنی صفوں میں جگہ دینے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں اور خاص کر متوسط طبقے کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے کوئی متبادل حکمت عملی بنائے گی، اور اس کام کا آغاز پارٹی قیادت میں مناسب تبدیلیوں کے ساتھ کیا جائے گا، لیکن گزشتہ دنوں انتخابات کے نام پر سلیکشن کا جو ڈھونگ رچایا گیا اُس کے نتیجے میں قومی وطن پارٹی کا اے این پی یا پھر صوبے میں اثر رسوخ رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے مقابلے پرایسے وقت میں آنا جب صوبے اور مرکز میں پی ٹی آئی برسراقتدار ہے یقینا ایک بڑا چیلنج اور مشکل ٹاسک ہوگا۔