مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے تحت فکری فورم سے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان اور میڈیا ہینڈلنگ کے فنی ماہر امیر العظیم کا تجزیہ
جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ اُن کی خوبیوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرچکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ ہر دم متحرک اور ہروقت مصروف رہنے کے باوجود وہ دن اور رات کے کسی بھی پہر خلقِ خدا کی خدمت کے لیے آمادہ و تیار رہتے ہیں۔ اپنے وقت کا جتنا اچھا اور نتیجہ خیز استعمال وہ کرتے ہیں وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی ان کی صلاحیتوں، اخلاص، جرأت اور حسنِ انتظام کی معترف ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے اپنی تحریکی و سیاسی زندگی کے سفر کا آغاز کرنے والے جناب امیرالعظیم اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے ناظم مقرر ہوئے تو آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ اپنے سینئرز کا اعتماد اور جونیئرز کی محبت و تعاون انہیں ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ وہ طلبہ کی اس ملک گیر، منظم اور شاندار روایات کی حامل تنظیم کے مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے مرکزی معتمد عام کے عہدے تک پہنچے، اور پھر اسلامی جمعیت طلبہ کے ارکان نے انہیں اپنے بھرپور اعتماد کے ساتھ اس ملک گیر تنظیم کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا۔ وہ غالباً لاہور جمعیت کے ناظم تھے تو قیادت نے انہیں جامعہ پنجاب منتقل کردیا، جہاں وہ نووارد ہونے کے باوجود اپنے محبت بھرے رویّے، تقریری و انتظامی صلاحیتوں اور طلبہ کی خدمت کے علاوہ تمام اساتذہ کے لیے احترام کے بے پناہ جذبات رکھنے اور اُن کا عملی مظاہرہ کرنے کے باعث بآسانی پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوگئے۔ یہ وہ کانٹے دار انتخاب تھا جس میں حافظ سلمان بٹ جیسے مضبوط اور مقبول امیدوار جنرل سیکرٹری کے طور پر شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ پنجاب کی تاریخ میں امیرالعظیم سب سے شریف النفس، روادار، طلبہ و اساتذہ اور انتظامیہ کے لیے قابلِ قبول اور دوست دشمن سب میں مقبول ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مارشل لا حکومت نے طلبہ یونینز پر پابندی لگائی۔ چنانچہ امیرالعظیم طلبہ حقوق کی سب سے توانا اور جرأت مند آواز بن کر ابھرے۔ لاہور میں مسلم لیگی رہنما ملک محمدقاسم کے بیٹے کی شادی میں غالباً صدر جنرل ضیا الحق کے سامنے ان کی جرأت مندانہ گرفتاری کا واقعہ طلبہ حقوق اور جمہوری جدوجہدکا ایک روشن باب ہے۔ اس جدوجہد میں بار بار وہ قید وبند کے مراحل سے بھی گزرے اور ہر بار نئے حوصلے کے ساتھ اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی میں اپنے کام کا آغاز کیا، اور معتمد جماعت اسلامی لاہور، پھر ضلعی امیر وسطی رہے۔ قاضی حسین احمد نے انہیں مرکزی سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا تو اپنی محنت، صلاحیت اور لگن کے باعث نہ صرف وہ اس محاذ پر جماعت اسلامی کا اثاثہ ثابت ہوئے بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے مثال اور آئیڈیل بن گئے۔ جناب سراج الحق نے انہیں پہلے جماعت اسلامی کا مرکزی ترجمان مقرر کیا، پھر امیر جماعت کی خواہش پر مرکزی مجلس شوریٰ نے انہیں تحریک اسلامی کا قیم یا سیکرٹری جنرل مقرر کردیا۔ عام لوگ جناب امیرالعظیم کو اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ، پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے منتخب صدر اور جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما کے طور پر ہی جانتے ہیں، لیکن اب وہ میڈیا ہینڈلنگ کے ایک تکنیکی و فنی ماہر کے طور پر بھی اپنی شناخت منوا چکے ہیں۔ جناب امیرالعظیم کی ایک حیثیت ایڈورٹائزنگ کے شعبے کے تجربہ کار ماہر کی بھی ہے۔ وہ تعلیم سے فراغت کے بعد سے ایڈورٹائزنگ بزنس سے وابستہ ہیں۔ اُن کی خوبی ہے کہ وہ خواتین کی تصاویر پر مبنی اشتہاری بزنس نہیں لیتے اور سرکاری بزنس سے بھی حتی المقدور گریز کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ میڈیا کے موجودہ بحران میں ایڈور ٹائزنگ بزنس میں آنے والی کمی کا بھی ہاتھ ہے۔ اخباری مالکان اورٹی وی چینلز کے کرتا دھرتا مسلسل یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ میڈیا کا موجودہ بحران حکومت کا پیدا کردہ ہے، جس نے نہ صرف سرکاری اشتہارات کو ابتدائی طور پر بند کیا، پھر بحال کیا تو اس کی مقدار بہت کم کردی۔ ساتھ ہی اخبارات اور چینلز کے واجب الادا کروڑوں روپے حکومت ادا نہیں کررہی۔ یہ اشتہارات سابقہ حکومتوں نے اخبارات اور چینلز میں شائع اور نشر کروائے تھے۔ مالکانِ اخبارات کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اُن کی مقروض حکومت ہے، اخبارات و چینلز کسی فرد سے نہیں وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے ساتھ معاہدے کے تحت اُن کے اشتہارات شائع یا نشر کرتے ہیں، اس لیے حکومت کی تبدیلی سے اُن کے واجبات روکنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ نئی حکومت کے اس اقدام کے باعث اخبارات اور چینلز کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ اُن کا سرکاری بزنس سکڑگیا اور سابقہ ادائیگیاں بھی نہیں ہورہیں جس کی وجہ سے کئی اخبارات و چینلز کوبندکرنا پڑا ہے، ساتھ ہی ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتیاں بھی کرنا پڑیں، لیکن اب وہاں چھانٹیوں تک کی نوبت آگئی ہے۔ اس حوالے سے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ فکری فورم نے جو میڈیا کے موضوعات پر ہرہفتے ایک فکری اور بامقصد نشست کا اہتمام کرتاہے، گزشتہ ہفتے جناب امیرالعظیم کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا۔ یہاں وہ سیاست دان کے طور پر نہیں بلکہ ایڈورٹائزنگ ایکسپرٹ کے طور پر مدعو تھے۔ اُن کا موضوع تھا ’’میڈیا کے حالیہ بحران میں ایڈورٹائزنگ بزنس کا کردار‘‘۔ جناب امیرالعظیم نے بھی اس فورم پر کسی قسم کی سیاسی بات کرنے کے بجائے علمی اور تکنیکی گفتگو کی، جبکہ شرکائے محفل نے… جن میں سوشل سائنسز اور ابلاغیات کے اساتذہ، لسانیات کے ماہر، صحافی، وکلا، سماجی کارکن اور مختلف شعبوں کے ماہرین شامل تھے… کوئی سیاسی سوال کرنے کے بجائے اپنے سوالات اور شرکت کو خالصتاً موضوع تک محدود رکھا۔ اس نشست کی صدارت مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب خالد محمود، اور فکری فورم کے سربراہ ڈاکٹر شفیق جالندھری نے کی۔ نظامت کے فرائض راقم الحروف نے ادا کیے۔
امیرالعظیم نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا کہ وہ اس فورم میں بطور سامع شریک ہونا چاہتے تھے مگر اپنی مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہوسکے۔ میڈیا کے حالیہ بحران کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ واقعتاً اس وقت ملکی میڈیا ایک بڑے بحران سے دوچار ہے، موجودہ بحران ماضی کے بحرانوں سے بڑا لگتا ہے، حکومت نے اشتہارات بند یاکم کرکے میڈیا انڈسٹری کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ سابقہ اشتہارات کی ادائیگیاں روک کر اس انڈسٹری کے گلے پر انگوٹھا رکھ دیا گیاہے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال مالکان کے لیے مشکل اور پریشان کن ضرور ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اُن کے لیے اخبار یا چینل چلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مالکان ماضی میں بے پناہ منافع کماتے رہے ہیں، وہ شاید منافع کی اسی شرح کے عادی ہوگئے ہیں اس لیے منافع میں کمی انہیں ہضم نہیں ہورہی۔ سردست اُن کے منافع میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن پرائیویٹ اشتہارات اور سرکولیشن کے ذریعے اُن کے باقی معاملات چل رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے حامی اخبارات و چینلز ماضی کے مختلف ادوار میں وقفے وقفے سے طویل عرصے تک سرکاری اشتہارات سے محروم رہ چکے ہیں لیکن اُس وقت نہ تو کوئی ادارہ بند ہوا نہ کسی کارکن کی تنخواہ میں کٹوتی کی گئی، اور نہ اس طرح کی بے رحمانہ چھانٹیاں ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف موجودہ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کے نام پر میڈیا کو دبائو میں لارہی تھی تاکہ اُس سے من پسند مقاصد حاصل کرسکے، تو دوسری جانب مالکانِ اخبارات و چینلز نے اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کٹوتیاں اور چھانٹیاں کرکے کارکنوں کو سڑک پر لاکھڑا کیا تاکہ ان بے روزگار کارکنوں اور صحافیوں کے احتجاج کے نتیجے میں حکومت اپنا فیصلہ واپس لے لے۔ حکومتی پالیسی کے نتیجے میں مالکان نے پہلے اُن صحافیوں اور کارکنوں کو فارغ کیا جن کو وہ پہلے سے بوجھ جان رہے تھے۔ اس لہر میںبہت سے دوسرے کارکن اور صحافی بھی لپیٹے گئے۔ انہوں نے کہا کہ جن اخباری اداروں کو بند کیا گیا ہے اُن کا ماضی کا منافع بے پناہ ہے اور ہر کاروبار میں منافع کو مندی کے دنوں میں استعمال کرکے کاروبار اور کارکنوں کو بچایا جاتا ہے لیکن اِس بار مالکان نے ایسا نہیں کیا۔ یقینا چھوٹے ادارے زیادہ مشکلات کا شکار ہوئے لیکن بڑے بڑے اخبارات جو اعلانیہ دس دس اخبارات و جرائد کی چین اور خفیہ طور پر درجنوں اخبارات و جرائد ڈمی کے طور پر شائع کررہے تھے اُن کے لیے اپنے اخبارات جاری رکھنا ناممکن نہیں تھا۔ یہی صورت حال اُن چینلز کی تھی جو ماضی میں اشتہارات کے منہ مانگے ریٹس لے رہے تھے۔ اب ریٹس طے ہونے پر سابقہ منافع کو کام میں لاسکتے تھے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ مالکان نے ماضیِ قریب میں اپنا بیشتر منافع بیرونِ ملک منتقل کردیا اور اب وہ ڈے بائی ڈے ہونے والی آمدنی سے ہی اخبارات یا چینلز چلانا چاہتے تھے۔ لیکن اب منافع کی شرح کم ہوجانے اور ماضی کے منافع کی رقم موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ مشکلات کا شکار ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ میڈیا کے اشتہارات کے ماضی اور حال کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ میڈیا اس صورت حال سے ماضی کی طرح نمٹ سکتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 2017ء میں الیکٹرونک میڈیا کے سرکاری و غیر سرکاری اشتہارات کا حجم 42 بلین روپے تھا، جو 2018ء میں کم ہو کر 35بلین رہ گیا ۔ مگر میڈیا انڈسٹری نے یہ دھچکا قبول کرلیا۔ اب یہ حجم مزید کم ہو کر33 بلین روپے ہوگیا ہے۔ کارکنوں کو نکالے بغیر مالکان اپنے منافع میں اس کمی کو بھی برداشت کرسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 2017ء میں پرنٹ میڈیا کے اشتہارات کا حجم 20 ارب روپے تھا جو اب 18 ارب روپے رہ گیا ہے۔ کاروبار میں اتنا نفع نقصان ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے سدباب کے لیے اخبارات نے اپنی قیمتوں میں اضافہ، صفحات میں کمی اور صفحات کے سائز کو بھی کم کیا، لیکن شاید وہ خسارے کے توازن کو مینج نہیں کرسکے۔ انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ماضی میں جب میڈیا انڈسٹری کو اشتہارات میں کمی کا سامنا کرنا پڑا تو شاید کسی خفیہ ہاتھ نے یہ کمی پوری کردی۔ اِس بار ایسا نہیں ہوسکا، اس لیے مالکان نے ادارے بند کرکے اور کارکنوں کو نکال کر پریشر بلڈ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں امیرالعظیم نے کہا کہ موجودہ بحران کے باوجود نئے آنے والوں کے لیے میدان کھلا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا تیزی سے آگے آرہا ہے، اس لیے نوجوان سوشل میڈیا میں محنت کرکے اپنے لیے جگہ بنا سکتے ہیں۔
آخر میں سوال و جواب کے بعد صدرِ مجلس خالد محمود نے معزز مقرر اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور پاکستانی میڈیا کے حوالے سے بعض سوالات اٹھائے۔ اس طرح نمازِ مغرب کے ساتھ یہ سودمند نشست اختتام پذیر ہوئی۔