اسلامی نظام تعلیم اور قائداعظمؒ

تحریکِ پاکستان کے دنوں میں مسلم ماہرینِ تعلیم پر مشتمل کمیٹی کی تاریخی روداد
جلیس سلاسل
(چوتھی و آخری قسط)
بیگم صاحبہ مولانا محمد علی کی صدارت میں تعلیم نسواں کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ علی گڑھ ویمن کالج کے عملے نے خاص طور پر ان کی مدد کی تھی۔ امرتسر کے اسٹافورڈ ( stafford) کالج برائے خواتین کی پرنسپل ڈاکٹر مس فیروز الدین کو جنھیں کمیٹی کا کنوینر مقر ر کیا گیا تھا، حکومتِ پنجاب نے اس کمیٹی میں کام کرنے سے منع کردیا ہے۔ ان کی غیر حاضری میں بیگم صاحبہ اعزاز رسول کو کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے تعلیم نسواں پر ایک سوالنامہ تیار کیا ہے۔ علی گڑھ ویمن کالج کی مسز این صدیقی نے تعلیم نسواں کی ایک اسکیم کا مسودہ پیش کیا تھا جس پر کمیٹی میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ مسلم یونیورسٹی پری پراٹری ( preparatary)اسکول کی ہیڈ مسٹریس مس قمر جہاں نے اس کمیٹی کی رپورٹ تیار کی ہے، جسے پیش کرنے سے پہلے اراکین میں تقسیم کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا مشاورتی کمیٹیوں کی رپورٹوں کی تیاری کے بعد ایجوکیشن کمیٹی کا آئند ہ پروگرام حسب ذیل ہے:
1۔مسلم تعلیم کے موجودہ نظام اور اس کی حالت کا جائزہ لیا جائے گا۔
2۔ تفویضِ کار کی شرائط کی روشنی میں اور اسلام کے مقاصد اور تصورات کے مطابق ہندوستان کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی مابعد جنگ تعلیم کے سلسلے میں تجاویز وضع کی جائیں گی۔
3۔ہندوستان کے مختلف صوبوں میں نئی اسکیم پر عمل کرنے اور مسلمانوں کے تعلیمی فروغ کے لیے ایک ملک گیر تحریک چلانے پر تجاویز پیش کی جائیں گی۔ (جنا ح پیپرز، جلد دہم۔ دستاویز نمبر612)

کمیٹی آف ایکشن کی رپورٹ فروری تاجولائی 1944ء
بلاتاریخ اگست 1944ء
دسمبر1943 ء میں کراچی کے سالانہ اجلاسِ میں آل انڈیا مسلم لیگ نے قرار داد نمبر1/2 منظور کی تھی ، جس کے تحت کمیٹی آف ایکشن قائم کی گئی اور اس کی پہلی میٹنگ 2 فروری1944ء کو لاہور میں منعقد ہوئی ۔
اب آپ کو قائداعظم ؒکی تعلیم سے دلچسپی کا اندازہ اس اجمالی روداد سے بھی ہوجائے گا۔ انہوں نے تعلیم سے متعلق مختلف تعلیمی اداروں میں جو خطابات کیے، یا دیگر مواقع پر تعلیم سے متعلق اپنے زریں خیالات سے قوم کو آگاہ کیاہے یہ کاوش صفدر علی نجمی صاحب کی کتاب ’’قائداعظم کا تصوّرِتعلیم اور پاکستان‘‘ سے صیقل کی گئی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒ تعلیم کی کلیدی اہمیت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم کرتے تھے، بلکہ طالب علموں کی سرپرستی و رہنمائی، تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات کی بہتری اور طلبہ اور تعلیمی اداروں کی جانب سے منعقد کی جانے والی تقریبات کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قائداعظم کی طلبہ اور ان کی تعلیم کے حوالے سے فکر جمہوریت پسندی پر مبنی تھی تو بے جا نہ ہوگا۔ بالعموم نصابِ تعلیم کی کتابوں میں قدیم و جدید تصوراتِ تعلیم کا تذکرہ ملتا ہے، لیکن قائداعظم نے طالب علموں کی کلیدی اہمیت کے ضمن میں ایک علیحدہ اور درخشاں باب اپنی کتابِ زندگی میں رقم کیا۔ تعلیم کی ترویج واشاعت، تعلیمی اداروں کی سرپرستی اور طلبہ کی رہنمائی کے حوالے سے آپ کی مصروفیات پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آپ نے اپنی فہم وفراست سے انگلستان میں بسنے والے ہندوستانی طلبہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے طول و عرض میں بسنے والے مسلمان طالب علموں کو بھی مستفید فرمایا۔ بالخصوص کراچی، علی گڑھ، دہلی، جالندھر، لاہور، پشاور، ممبئی،کوئٹہ، بنگلور اور مدراس کے طالب علموں کو آپ کی ذہنی و علمی قربت کا حصہ ملا۔ ذیل میں بیان کردہ مختلف مثالوں سے برصغیر کی مختلف طلبہ تنظیموں اور تعلیمی اداروں میں قائداعظم کی تعلیمی مصروفیات کے تناظر میں آپ کی نگاہ میں تعلیم کی اہمیت بخوبی آشکار ہوتی ہے:
1910 ء…سندھ کی تعلیمی صورتِ حال پر اظہارِ خیال
1911ء…مسلمان وقف بل پر خطاب کے دوران پارلیمنٹ میں ندوۃ العلماء کی تعریف و توصیف
اپریل 1912ء…گو کھلے کے پیش کردہ ایلیمنٹری ایجوکیشن بل کی حمایت
دسمبر1912-13 ء…محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کے ٹرسٹیوں میں شمولیت
28 جون 1913ء …کیکسٹن ہال لندن میں ہندوستانی طلبہ سے خطاب
1913ء …لندن میں سینٹرل ایسوسی ایشن آف انڈین اسٹوڈنٹس میں فعال کردار ادا کیا جس کے بعد حکومت ِبرطانیہ نے پاکستانی طالب علموں کے مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بنائی۔
28جون 1917ء…پارلیمنٹ میں ایلیمنٹری ایجوکیشن بل کی تائید
دسمبر1920ء…عدم تعاون تحریک کے زیر اثر تعلیمی مقاصد سے اختلاف کا اعلان۔آپ نے اس دوران گاندھی جی سے فرمایا: ــ’’ تمہارا راستہ غلط ہے اور میرا راستہ صحیح ہے، کیونکہ آئینی اور قانونی راستہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے‘‘۔
محمد علی جناح اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ ایسی تحریک کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے جس میںلڑکوں کو کالجوں اور اسکولوں سے اٹھا کر ہنگاموں کی راہ پر لگا دیا جائے!
2مارچ1924ء …پارلیمنٹ میں ملٹری ایجوکیشن پر خطاب
23فروری 1928ء…حکومت ِبرطانیہ سے محروم لوگوں اور شیڈول کاسٹ کے لیے تعلیمی سہولتوں کی حمایت میں تقریر
10 اپریل 1936ء … طلبہ اورآل انڈیا مسلم لیگ کے منشور میں شق منظور کروائی
14اکتوبر 1936ء …طلبہ یونین لاہور سے لالہ لاجپت رائے ہال میں’’ طلبہ اور ہندوستان کا مستقبل ‘‘کے موضوع پر تقریر
جنوری 1939ء لکھنؤ میں مسلم اسٹوڈنٹس کانفرنس سے خطاب، جہاں اتحاد، ایمان اور تنظیم کا اصول دیا
5فروری 1938ء … مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے خطاب
14فروری 1938ء … مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میگزین کی اشاعت پر پیغام
26دسمبر 1938ء… پٹنہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں واردھا اسکیم پر اظہارِ خیال
30مئی 1939ء … پارلیمنٹ کے کاغذات پر تعلیمی اداروں سے متعلق یادداشتوں کی تحریر
28 ستمبر 1939ء…عثمانیہ یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن سے خطاب
2 مارچ 1940ء…مسلم یونیورسٹی علی گڑھ یونین سے خطاب
25 مارچ 1941ء…اسلامیہ کالج برائے خواتین لاہورسے خطاب
نومبر 1940ء… مسلم اسٹوڈنٹس کانفرنس دہلی سے خطاب
10 مارچ 1941ء… مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اجلاس سے خطاب
30 مارچ 1941ء…کان پور میں مسلم اسٹوڈنٹس کانفرنس کی پہلی کانفرنس سے خطاب
اپریل 1942ء…بنگلور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے ملاقاتیںاور پیغام
14 نومبر 1942ء…اسلامیہ کالج جالندھر کی افتتاحی تقریب سے خطاب
15 نومبر 1942ء…جالندھر میں آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب
1942ء…بیگم گیتی ابرار بشیر احمد کے نام مکتوب میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اظہارِ خیال
یکم فروری 1943ء…اسماعیل یوسف کالج ممبئی، طلبہ کی ہاسٹل پارلیمنٹ سے خطاب
14 اپریل 1943ء…سرحد مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کوپیغام
1943ء…سندھ مسلم کالج کراچی کا افتتاح اور پیغام
9 مارچ 1944ء…مسلم یونیورسٹی علی گڑھ یونین سے خطاب
مئی 1944ء…سیالکوٹ میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب
14 اگست 1944ء… سری نگر سے جنوبی افریقہ کے مسلمانوں کی ڈربن ایجوکیشن اینڈ کلچر کانفرنس کے نام پیغام
14 جنوری 1945ء…چو تھی گجرات مسلم ایجوکیشن کانفرنس سے خطاب
12 مئی 1945ء… Matheran Muslim Schoolمیں تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب
18 اکتوبر 1945ء…بلوچستان مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے کوئٹہ میں خطاب
27 نومبر 1945ء…ایڈورڈز کالج پشاور سے خطاب
اگست 1947ء… 14اگست کے فوراً بعد گورنر جنرل ہاؤس کی ایک تقریب میں ماہرینِ تعلیم کو پاکستان کا نظامِ تعلیم تشکیل دینے کی دعوت
26ستمبر 1947ء…ولیکا ملزکے افتتاح کے موقع پر جدید تعلیم کا تذکرہ
27 نومبر 1947ء…پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کراچی کے نام پیغام
24 مارچ 1948ء…ڈھاکا یونیورسٹی کانووکیشن سے خطاب
12اپریل 1948ء…اسلامیہ کالج پشاور سے خطاب
18اپریل 1948ء…ایڈورڈز کالج پشاور کے طلبہ اور اساتذہ سے خطاب
اب میں نظام تعلیم کے بارے میں کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورِ حکومت میں مرکزی وزیر تعلیم، نامور مؤرخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے لیے گئے طویل انٹرویوز سے صرف دو سوالوں کے جوابات صیقل کررہا ہوں، جو بالترتیب 1978ء اور 1973ء میں لیے گئے ہیں اور 1995ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’ٹیبل ٹاکس‘‘ میں شائع ہوئے ہیں۔
سوال: کیا مسلم لیگ 1947ء میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی تھی؟ جب کہ میرا خیال اس کے برعکس ہے۔ آپ نے چونکہ تحریک پاکستان میں بھی اہم کردار ادا کیا اور ابھی قومی اتحاد کی تحریک میں بھی آپ کا کردار بڑا بھرپور تھا، اس لیے آپ کی رائے مطلوب ہے؟
جواب: آپ کے خیال میں مسلم لیگ 1947ء میں اپنا مقصد حاصل نہ کرسکی، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ اس لیے کہ مسلم لیگ کی تحریک کے نیتجے میں ہمیں یہ ملک حاصل ہوا جس کا نام پاکستان ہے اور آپ جس کے باشندے ہیں۔ ہاں آپ کے نصف اعتراض کا میں اعتراف کرتا ہوں کہ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا ہم نے اس سے انحراف کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا اصل سبب قیاد ت کا فقدان ہے۔ ہمیں تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگ کی قیادت کے لیے قائداعظم جیسی شخصیت میسر آئی تو ہم نے ایک وطن تک حاصل کرلیا۔ چونکہ قیام پاکستان کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی مہلت ہی نہیں دی کہ وہ اپنے آزاد وطن میں اسلامی نظام کے لیے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے۔ لیکن انہوں نے اس مختصر سے عرصے میں بھی اپنی قوم کو قیام پاکستان کے مقاصد سے اپنی تقاریر اور بیانات کے ذریعے آگاہ رکھا۔ اور قیام پاکستان سے قبل صرف چار، پانچ سال میں عالم اسلام کے اتحاد کے لیے جدوجہد ہی نہیں کی بلکہ مستقبل کے لیے پلاننگ کمیٹی، نظام تعلیم کمیٹی، اقتصادی کمیٹیاں قائم کیں۔ نظامِ تعلیم کے لیے اعلیٰ کمیٹی میں مجھ کو بھی شامل کیا۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد جہاں تک لیاقت علی خان مرحوم کا تعلق ہے، قوم سے ان کو وہ اعتماد نہ مل سکا جو قوم نے قائداعظم کو دیا تھا۔ اس لیے ہمارا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔
سوال: اسلامی نظام تعلیم کیا ہے؟ یا اسلام میں کوئی تعلیمی سسٹم نہیں ہے؟
جواب: آپ کی بات کا جواب چند جملوں میں نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام ایک مکمل دین ہے تو اس میں تعلیم کیوں نہیں ہوگی؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ دنیا کے تمام علوم کا مرکز ومنبع قرآن ہے۔ قرآن نے آپ کو آپ کے ماضی سے آگاہ کیا، حال کی نشاندہی کررہا ہے اور مستقبل کی راہ دکھا رہا ہے۔ آپ کی انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی تک، اور ایک فرد سے ایک قوم تک، ایک دوست سے دشمنوں کے گروہوں تک سے آپ کو واقف کروا رہا ہے۔ آپ کی زندگی امن وسکون سے گزارنے کے طریقے بتارہا ہے اور کائنات کو تسخیر کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ پھر تعلیم کے ساتھ تربیت کے لیے سرکارِ دوعالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم بناکر بھیجا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امتِ مسلمہ کو سائنس، عدالت، معاشرت ہر شعبے میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور اپنے کردار و اخلاق سے ان کا عملی نمونہ پیش کرکے تربیت بھی دی۔ آپ کہتے ہیں کہ اسلام میں تعلیمی نظام بھی ہے کہ نہیں!
سوال: لیکن ہمارے اساتذہ نے توکبھی موجوہ نظام تعلیم کی مخالفت نہیں کی، نہ کسی طرح سے اس کے بارے میں نفرت کا اظہار کیا؟
جواب: ہمارے ملک کے اساتذہ نے نظام تعلیم پر ناپسندیدگی کا اظہار تو کیا لیکن اس کے خاتمے کے لیے تحریک وغیرہ نہیں چلائی۔ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ پاکستان کے اساتذہ نے جب کبھی تحریک چلائی، ہڑتالیں کیں تو صرف اور صرف اپنی تنخواہوں اور اپنے گریڈ میں اضافے کے لیے۔ ان بے چاروں نے تو تعلیمی نظام کی تبدیلی کے لیے کبھی کوشش بھی اس لیے نہیں کی کہ کہیں کسی ماہ حکومت ان کی تنخواہ نہ روک لے۔
سوال: لیکن آپ کا اپنے نظامِ تعلیم کی تبدیلی کے سلسلے میں کیا کردار رہا ہے؟
جواب: میرے کردار کے بارے میں میرے طالب علم زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔ میں شروع سے ہی یہ کہتا رہا ہوں کہ موجودہ نظام تعلیم کو ختم کرکے ایک بامقصد نظام رائج کیا جائے جو ہماری ترقی میں ہمارا معاون ہو، اور ہماری ایک پاکستانی اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے شناخت کا باعث بن سکے۔ یہ کام میں تنہا نہیں کرسکتا تھا، اس کے لیے ایک بڑی ٹیم کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ٹیم ورک ہے۔ آپ کے تو علم میں ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے کئی سال قبل ہی نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کے لیے علیحدہ علیحدہ اور ہر سطح پر کمیٹیاں بنائیں، اور انہوں نے بنیادی کام کردیا جو راہنمائی کے لیے کافی ہے۔ آپ اسلامی نظام تعلیم کے سلسلے میں ماہرین تعلیم سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے ہیں، وہ میری نظر سے گزری ہیں۔ آپ مخلص ہیں اور نوجوان بھی، گو کہ یہ ایک بڑا بلکہ بہت بڑا کام ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے مخلص وبے لوث کام کرنے والے ہی ایسے کام کرتے ہیں۔ ویسے میں اس سلسلے میں ایک کتاب “Education in Pakistan” لکھ رہا ہوں، اس سے بھی استفادہ کرلینا۔
(واضح رہے کہ یہ کتاب 1976ء میں شائع ہوئی۔ یہ انٹرویو میں نے 1973ء میں کیا تھا)
اب میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی کتاب “Education in Pakistan” کے اردو ترجمہ سے ’’رہنما اصولوں کا مسئلہ‘‘ کے عنوان سے صفحہ نمبر 33 سے ایک اقتباس پیش رہا ہوں۔ ملاحظہ کیجیے:
’’قائداعظم گو کہ خود کوئی ماہرِ تعلیم نہیں تھے، لیکن وہ پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں کی راہ متعین کرنے کے سلسلے میں درست رہنمائی کی اہمیت سے پوری طرح آگاہی رکھتے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے 1942ء میں بعض ماہرینِ تعلیم پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی تاکہ اگر پاکستان کا قیام عمل میں آئے تو وہاں پر رائج کرنے کے لیے ایک نظامِ تعلیم کا خاکہ تیار کرلیا جائے، کیوں کہ اُس وقت تک یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی تھی کہ ایک آزاد وطن کے لیے مسلمانوں کا خواب پورا ہو بھی سکے گا۔ اس کمیٹی کا اجلاس علی گڑھ میں منعقد ہوا، اور سارے برصغیر سے نامور مسلم ماہرینِ تعلیم کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی، تاکہ وہ غور و خوض میں اس کمیٹی کی مدد کریں۔ اس موقع پر جمع ہونے والے تمام لوگوں پر یہ بات واضح تھی کہ مختلف علوم کو اسلامی نظریے وفلسفے میں ڈھالنا ہوگا۔ سب سے اہم یہی نظریہ تھا، اور اُس وقت اس بات پر صاف دلی سے یہ یقین کرلیا گیا تھا کہ اگرچہ یہ کام بہت شاندار ہے، لیکن اس میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ تاہم سنجیدگی کے ساتھ پاکستان میں اس کو رائج کرنا بہرحال ممکن ہوجائے گا۔‘‘
قیامِ پاکستان کے بعد بھی گورنر جنرل قائداعظم ؒ کا نظام تعلیم کی پالیسی میں دلچسپی کا مظہر
قائداعظم کے ذہن میں یہ فکر بالکل تازہ تھی کہ نئی مملکت کے لیے ایک اچھی تعلیمی پالیسی کی تشکیل ضروری تھی۔ 14 اگست 1947ء کے بعد گورنمنٹ ہائوس میں انہوں نے مجلس ِ قانون ساز کے اراکین سے ملاقات کے لیے تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں ایک گروہ کے ارکان جو کہ علمی پس منظر اور تعلیم کے شعبے سے دلچسپی رکھتے تھے، ایک وسیع سبزہ زار کے ایک کونے میں جمع ہوکر بہت انہماک سے گفتگو میں مشغول تھے۔ قائداعظم جو کہ میزبان کی حیثیت سے مہمانوں کے پاس جاکر ان سے ملاقات کررہے تھے، اس گروہ کی جانب تشریف لائے اور فرمایا ’’یہ رہے وہ طائرانِ ہم جنس جو ایک ساتھ اڑان بھرتے ہیں‘‘ (ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر محمود حسین)۔ اس کے بعد سنجیدہ لہجے میں کہنے لگے ’’اب جب کہ ہم اپنے لیے ایک مملکت حاصل کرچکے ہیں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ ایک ایسا پائیدار، مفید اور مضبوط نظامِ تعلیم قائم کریں جو ہماری ضرورتوں کو بخوبی پورا کرسکے۔ یہ نظام ہماری تاریخ اور ہمارے قومی نصب العین کا آئینہ دار ہو۔ تمام مفید منصوبوں کے لیے آپ کو کافی وسائل و ذرائع مل جائیں گے۔ آپ لوگ اپنی تجاویز و خیالات بلا تامل و تردّد حکومت کو پیش کردیجیے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ان تجاویز پر پوری توجہ دی جائے گی۔ (صفحہ نمبر 34۔ پاکستان میں تعلیم)
غالباً یہ قائداعظم کی ذاتی لگن کا ہی نتیجہ تھا کہ حکومت نے 27 نومبر 1947ء کو پاکستان کی آئندہ تعلیمی پالیسی کی راہ متعین کرنے کے لیے ماہرینِ تعلیم اور دیگر متعلقہ لوگوں کی ایک کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ قائداعظم نے ہی اس کی تجویز دی تھی۔ (بانی پاکستان نے مملکت ِ خداداد کے وجود میں آنے کے فوری بعد تعلیم کی اہمیت کا احساس بیدار کرنے کے لیے نومبر 1947ء میں ’’کُل پاکستان تعلیمی کانفرنس‘‘ کی تجویز دیتے ہوئے فرمایا ’’قوموں کی موت وحیات تعلیم سے وابستہ ہے، اور دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہی ہے وہ تعلیم ہی کی بدولت ہے۔ اگر ہم نے نظام ِ تعلیم کو صحیح خطوط پر استوار نہ کیا تو ہم دیگر اقوام سے پیچھے رہ جائیں گے، ممکن ہے ہم اپنا وجود ہی کھو بیٹھیں‘‘۔ اس تعلیمی کانفرنس سے ان (مرکزی وزیر تعلیم فضل الرحمن) کا خطاب پاکستان میں تعلیم کی تاریخ کے طالب علموں کے لیے بہت قدر وقیمت کا حامل ہے۔ نئی پالیسی بنانے کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ اوپر بیان کیے گئے الفاظ اور تقریر کے اس اقتباس سے ہوتا ہے جو ذیل میں بیان کی جارہی ہے:
’’حکومتِ پاکستان کو اس بات کی گہری فکر ہے کہ مہاجرین کی آبادکاری جلد ہو۔ لیکن ہماری قومی آفت کیسی ہی فکر انگیز بات کیوں نہ ہو، ہم اس بات کا عزم رکھتے ہیں کہ یہ فکر، ہماری بصارت سے یہ بات اوجھل نہ کردے کہ قومی ترقی کے لیے ہمارے طویل المیعاد مقاصد ہیں جن میں تعلیم سرفہرست ہے۔ لہٰذا یہ امر میرے لیے انتہائی اطمینان کا باعث ہے کہ ہمیں اپنے سامنے اپنی تمام تر تعلیمی پالیسی کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے پھر سے نیا رخ دینے اور ان نظریات کا آئینہ دار بنانے کا موقع ملا ہے جن کی بنیاد پر پاکستان ایک اسلامی مملکت کی حیثیت سے قائم ہوا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا بلکہ نادر موقع ہے، اس سے بھی عظیم تر اور اہم تر بات ذمہ داری کا وہ بار ہے جو اس موقع کی بدولت ہم پر عائد ہوتا ہے۔‘‘ (’’ پاکستان میں تعلیم ‘‘مطبوعہ، صفحہ 36)
میں نے قائداعظم ؒ کے سابق آنریری سیکریٹری سید شریف الدین پیرزادہ سے روزنامہ ’’انٹرنیشنل پاکستانی اخبار‘‘ کے 23 مارچ 2016ء کے خصوصی ایڈیشن کے لیے ایک طویل انٹرویو کیا تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے متعلق صرف وہ اقتباس پیش کررہا ہوں جو اسلامی نظام سے متعلق ہے (جبکہ میرے اس سوال کے جواب میں سید شریف الدین پیپرزادہ ایڈووکیٹ نے مولانا مودودیؒ کی توصیف میں بہت کچھ کہا تھا)کہ بتائیں کہ مولانا مودودیؒ کے بارے میں جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف تھے اور قائداعظم ؒ کے مخالفین میں شامل تھے۔ قائداعظمؒ کے سیکریٹری سید شریف الدین پیرزادہ ایڈووکیٹ نے اُن کی تحریکِ پاکستان اور قائداعظم سے متعلق خدمت اور خیالات کا تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد آخرمیں اسلامی نظام تعلیم سے متعلق فرمایا کہ ’’تو اصل حقیقت کیا ہے؟اس کا آخری ثبوت یہ ہے کہ قائداعظم کے ایماء پر ہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ریڈیو پاکستان سے پانچ تقریریں اسلام کا تعلیمی نظام، سیاسی، عسکری، معاشی نظام پر تھیں۔‘‘
مجھے یقینِ واثق ہے کہ دیگر قارئین کے علاوہ ہمارے تاریخ کے اساتذہ کو بھی اس کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ قائداعظم ؒ نے قیام پاکستان سے چار سال قبل ہی تعلیمی امور کے بارے میں نہ صرف دلچسپی لی بلکہ اپنا بھرپور کردار بھی ادا کیا، اور قیام پاکستان کے بعد بھی اس سے پہلوتہی نہیں کی۔ انہوں نے تعلیم کی اہمیت کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ قائداعظم زندہ باد