محمد رضی الاسلام ندوی
مصنفہ: کیرن آرم اسٹرانگ
مترجمین: نعیم احمد غازی، سید عبید الرحمن
ناشر: گلوبل میڈیا پبلی کیشنز، E-42، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی، ص: 220، قیمت195روپے
موجودہ دور میں، جب کہ عالمی سطح پر اور خاص طور سے مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید بغض و نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے، اسلام کو تشدد کا علَم بردار اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ دہشت گرد بتایا جا رہا ہے اور نفرت انگیز کارٹونوں کی مہم چھڑی ہوئی ہے، کسی مغربی دانش ور کے قلم سے ایسی کتاب سامنے آتی ہے جس میں معروضی انداز میں اسلام کا تعارف کرایا گیا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو بہت مثبت انداز میں عقیدت کے ساتھ خراجِِ تحسین پیش کیا گیا ہو تو بڑی مسرت و فرحت کا احساس ہوتا ہے اور دل و دماغ کو ٹھنڈک اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ زیرنظر کتاب کا مطالعہ کرکے ایسا ہی احساس ہوا۔
کیرن آرم اسٹرانگ (Keran Armstrong) ]ولادت 1944ء[ ایک برطانوی عیسائی خاتون ہیں۔ ان کا شمار دورِ حاضر میں ’تقابلِ ادیان‘ کے موضوع پر عالمی شہرت کے حامل اہم مصنفین میں ہوتا ہے۔ ان کی چند اہم تصنیفات یہ ہیں:
(1) A History of God: The 4000 year Quest of Judaism, christianity and Islam (2) Field of Blood: Religion and History of Voilence (3) Holy War: The Crusade and their Impact (4) Islam: A Short History of Today’s World.
موصوفہ اُن چند مغربی مصنفین میں سے ہیں جنہوں نے مثبت انداز میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ایک کتاب 1991ء میں Mohammad: A Biography of the Prophet کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ 9/11 کے حادثے کے بعد انہیں احساس ہوا ہے کہ اس موضوع کے بعض دوسرے پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک دوسری کتاب Mohammad: Prophet for Our Time لکھی، جو 2002ء میں شائع ہوئی۔ زیرِ نظر کتاب اسی کا ترجمہ ہے۔
یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے: مکہ، جاہلیہ، ہجرت، جہاد اور سلامتی۔ فاضل مصنفہ نے زمانی ترتیب سے سیرتِ نبوی پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے تمام پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا ہے، خاص طور سے ان موضوعات پر عمدہ بحث کی ہے جن کو مغرب میں تنقید و جرح کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ جن مسائل پر مسلم علماء اور اسکالر دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان پر بھی انہوں نے پورے اعتماد اور قوت کے ساتھ اظہارِ خیال کیا ہے اور اسلام کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال اور رویوں کا دفاع کیا ہے۔
اپنے پیش لفظ میں مصنفہ نے مغرب میں اسلام مخالف رجحان پر نقد کیا ہے۔ لکھتی ہیں: ’’ہمارے اپنے مغربی معاشرے میں اسلام مخالف جذبات نئے نہیں ہیں۔ ان کی بنیاد تقریباً آٹھ سو سال پہلے کی صلیبی جنگوں کے دوران پڑی، بارہویں صدی عیسوی میں عیسائی مذہبی رہنمائوں نے یہ پروپیگنڈا بڑے پیمانے پر کیا کہ اسلام ایک متشدد مذہب ہے اور صرف تلوار کے زور پر اس کو زبردستی لاد دیا گیا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو یہ بھی یقین دلانے کی کوشش کی کہ محمدؐ (نعوذ باللہ) ایک جھوٹے نبی ہیں، جنہوں نے زبردستی اپنے مذہب کو طاقت کے زور سے لوگوں پر لاد دیا ہے‘‘۔ (ص 14)اس معاملے میں انہوں نے اپنا فیصلہ صاف الفاظ میں سناتے ہوئے مطالعے کی صحیح جہت کی طرف رہنمائی کی ہے۔ لکھتی ہیں: ’’حضرت محمدؐ جنگجوئیت اور تشدد کے حامی نہیں تھے۔ ہمیں ان کی زندگی کا مطالعہ متوازن انداز میں کرنا پڑے گا، تبھی آپؐ کی بے شمار کامیابیوں اور امتیازات کو ہم قدر کی نظر سے دیکھ سکیں گے۔ تعصب اور بدگمانی پر مبنی نقطۂ نظر اس تحمل، رواداری، آزادی اور محبت کے لیے ضرر رساں ثابت ہوسکتا ہے، جس کے لیے مغرب کو آج جانا جاتا ہے‘‘۔ (ص 5)
موجودہ دور میں لفظ ’جہاد‘ کو دہشت گردی اور خوں آشامی کے ہم معنیٰ بنادیا گیا ہے۔ کان میں یہ لفظ پڑتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور نفرت و کراہیت ہونے لگتی ہے۔ مصنفہ اس کا صحیح مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں: ’’یہ لفظ جسے ہم آج کل عموماً سنتے ہیں، اس کا بنیادی معنیٰ ’مقدس جنگ‘ نہیں، بلکہ کوشش کرنا اور جدوجہد کرنا ہے۔ یہ کوشش اور جدوجہد صرف اس لیے کہ خدا کی مرضی کا نفاذ ہوجائے۔ مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے ہر طرح کی جدوجہد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس میں دانش ورانہ (intellectual)، سماجی، معاشی، روحانی اور گھریلو ہر طرح کی کوششیں شامل ہیں۔ کبھی کبھی اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ان کو لڑنا بھی پڑسکتا ہے۔ لیکن یہی بنیادی کام نہیں ہے۔‘‘ (ص 129)
سیرتِ نبویؐ پر جو کتابیں لکھی جاتی رہی ہیں ان میں ’مغازی‘ کا باب بہت طویل اور نمایاں رہا ہے۔ اس بنا پر حیاتِ رسولؐ کی غیر متوازن تصویر سامنے آتی ہے۔ مصنفہ نے اس پہلو پر اچھی بحث کی ہے۔ انہوں نے اسلام کے نظریۂ جنگ کی بالکل صحیح ترجمانی کی ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے: ’’قرآن میں خود حفاظتی جنگ کی تو اجازت ہے، کیوں کہ اس کے بغیر اس نئے دین کو دشمن ختم کرنے کے درپے تھے، لیکن دوسروں کو کچلنے کے لیے جنگ کی شروعات کرنے کی اسلام نے مذمت کی ہے۔ جنگ ایک خوفناک برائی ہے، لیکن بعض حالات میں یہ ضرورت بن جاتی ہے۔ آزادیٔ مذہب کے حصول کے لیے اس کی اہمیت اپنی جگہ ناگزیر ہے، لیکن اس موقع پر بھی اسلام نے تکثیریت کو نظرانداز نہیں کیا، اس نے صاف صاف کہا کہ معبد اور گرجا گھروں کی کسی بھی قیمت پر حفاظت کرنی ہوگی۔‘‘ (ص 121-120)
نبوی غزوات و سرایا میں ’غزوۂ بنی قریظہ‘ کو بعض پہلوئوں سے بہت ابھار کر پیش کیا گیا ہے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر یہودی قبیلے بنو قریظہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور مسلمانوں سے غداری کرکے ان کے دشمنوں سے جاملے، چنانچہ احزاب سے فراغت پانے کے بعد ان پر فوج کشی کی گئی اور ان کے تمام جنگجو افراد کو قتل کردیا گیا۔ مغربی مصنفین اس واقعے کو بہت بھیانک بناکر پیش کرتے ہیں، لیکن مصنفہ نے اس کے تذکرے میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ لکھتی ہیں: ’’عصرِ حاضر میں یہ ہمیں چاہے کتنا نفرت انگیز کیوں نہ لگے، لیکن اُس زمانے کے عرب میں تقریباً ہر ایک کو اسی فیصلے کی توقع تھی۔ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ قریظہ کو بھی اس فیصلے پر حیرت نہیں ہوئی… یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قریظہ کو مذہبی یا قومی وجوہ کی بنا پر قتل نہیں کیا گیا۔ کسی دوسرے یہودی قبیلے نے نہ تو اس پر اعتراض جتایا اور نہ مداخلت کی۔ ان سب کو یہ ایک سیاسی فیصلہ لگا… قریظہ کے یہودیوں کو غداری کے جرم میں مارا گیا تھا… دوسرے 17 یہودی قبائل اب بھی مدینہ کے نخلستان میں آباد تھے۔ قریظہ کی تباہی کے بعد بھی یہ قبائل سالہا سال تک مدینہ میں رہتے رہے… مستقبل کی اسلامی حکومتوں میں بھی یہودی مستقلاً مکمل آزادی کے حق دار رہے۔ یہودی مخالفت اور یہودیوں سے دشمنی کبھی بھی اسلام کا حصہ نہیں تھی۔‘‘ (ص 154)
’حقوقِ نسواں، مصنفہ کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اس پر لکھتے ہوئے ان کے قلم میں روانی آجاتی ہے۔ (ص 50-38) وہ عورتوں پر اسلام کے احسانات بیان کرتے ہوئے بہت پُرجوش ہوجاتی ہیں۔ لکھتی ہیں: ’’قرآن معاشرے میں خواتین کو وہ حقوق دینے کی کوشش کررہا تھا جو مغرب میں خواتین کو انیسویں صدی تک بھی حاصل نہیں ہوسکے تھے۔ عورتوں کی آزادی ایک ایسا موضوع تھا جو کہ رسالت مآبؐ کو بہت عزیز تھا…‘‘ (ص 140) ’’اب عورتوں کو معاشی آسودگی اور اطمینان بھی میسر آگیا… ساتویں صدی کے عرب میں یہ ایسی جدت طرازی تھی جس پر یقین کرنا اُس زمانے میں ہی نہیں، بلکہ بعد میں بھی دوسرے علاقوں میں مشکل تھا۔‘‘ (ص 148)
اسلام پر اعتراض کرنے والوں نے اس میں تعدّد ازدواج کی اجازت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کے جواب میں علمائے اسلام کا انداز عموماً مدافعانہ ہوجاتا ہے۔ مصنفہ نے اس موضوع پر اسلام کے نقطۂ نظر کی بہترین ترجمانی کی ہے۔ لکھا ہے: ’’ناقدین نے تعدّد ازدواج کو مسلم خواتین کی حالتِ زار کا ذمہ دار ٹھیرانے کی کوشش کی ہے، لیکن جس وقت یہ وحی نازل ہورہی تھی، اُس وقت یہ اپنے وقت سے آگے کی چیز تھی۔ تعدّد ازدواج کی اجازت ایک عظیم الشان سماجی قانون سازی کا حصہ تھی۔ اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ مردوں کی نہ ختم ہونے والی جنسی ضرورتوں کی تکمیل ہوسکے، بلکہ اس لیے تاکہ اس ناانصافی کو ختم کیا جاسکے جو کہ بیوائوں، یتیموں اور دوسری خواتین کے حصے میں آتی تھی… تعدد ازدواج کی اجازت اس لیے دی گئی کہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ایسی بے سہارا عورتوں کو بھی ازدواجی زندگی کی مسرتیں مل سکیں اور ان کو سہارا دیا جا سکے۔‘‘ (ص 139-138)
کتبِ احادیث و سیرت میں بیان کیا گیا ہے کہ اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ کا نکاح چھ سال کی عمر میں اور رخصی نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ اس پر اعتراض کی شدت کو محسوس کرکے موجودہ دور کے بعض مسلم دانش وروں نے چھ کو سولہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس موضوع پر مصنفہ کی بحث عمدہ ہے۔ انہوں نے وقتِ نکاح ان کی عمر چھ سال سال مانی ہے، پھر لکھا ہے: ’’اللہ کے رسولؐ اور ان کی ازواجِ مطہرات کے بارے میں مغرب نے بہت سی فحش باتیں مشہور کر رکھی ہیں، لیکن عرب، جہاں تعدد ازدواج کا عام رواج تھا، یہ ایک عام بات تھی… محمدؐ کی عائشہؓ سے منگنی میں کوئی غیر معقولیت نہیں تھی۔ خاندان اور قبائلی تعلقات کو بہتر بنانے کی خاطر یہ شادیاں معاہدوں کی مانند ہوا کرتی تھیں اور بسا اوقات لڑکیاں عائشہؓ سے بھی کم عمر ہوا کرتی تھیں، بلکہ یورپ میں تو یہ رواج جدید زمانے تک موجود تھا۔ اس کا کوئی سوال ہی نہیں تھا کہ عائشہؓ کی رخصتی ان کی بلوغت سے پہلے ہوجائے۔ عام لڑکیوں کی ہی طرح ان کی رخصتی بلوغت کے فوراً بعد کردی گئی، جو اُس زمانے میں ایک عام بات تھی۔‘‘ (ص 99)
بہ حیثیتِ مجموعی کتاب کی خوبیوں کے اعتراف کے ساتھ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مصنفہ کے بہت سے بیانات صحیح نہیں ہیں۔ مثلاً ہجرتِ مدینہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے تجارتی قافلوں کی خبر گیری کے لیے جو ’سرایا‘ بھیجے تھے ان کا تذکرہ انہوں نے اس انداز میں کیا ہے کہ ان کے ذریعے لوٹ مار کی گئی، جس سے مسلمانوں کی معیشت مضبوط ہوئی (ص 119)۔ پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی نے اپنی کتاب ’غزواتِ نبوی کی اقتصادی جہات‘ میں اس بات کا مدلل جواب دیا ہے۔ ’الغرانیق العلیٰ‘ والے مشہورِ عام واقعے کے ضمن میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’مشرکانہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوگئے تھے، بعد میں جبریلؑ نے آکر تنبیہ کی‘‘ (ص 67-66)۔ یہ واقعہ اگرچہ کتبِ سیرت میں ملتا ہے، لیکن محققین کے نزدیک اس کی بیشتر تفصیلات من گھڑت ہیں۔ امہات المومنین کے انہوں نے دو گروپ قرار دیے ہیں: ایک اعلیٰ طبقہ، جس کی قیادت حضرت اُم سلمہؓ کررہی تھیں، اور دوسرا متوسط طبقہ، جس میں حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ وغیرہ تھیں۔ ان کے مطابق ان گروپوں میں کش مکش ہوتی رہتی تھی۔ یہ بیان حقیقتِ واقعہ سے میل نہیں کھاتا۔ فتحِ مکہ کے ضمن میں وہ بیان کرتی ہیں کہ ’’خانۂ کعبہ کے اندر حضرت عیسیٰؑ اور مریم کی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ آپؐ نے انہیں صاف کرنے سے منع کردیا‘‘ (ص 188)۔ حالاں کہ کتبِ حدیث و سیرت میں صراحت ہے کہ آپؐ نے انہیں مٹوا دیا تھا۔ جس سفر میں صلحِ حدیبیہ ہوئی تھی اس کے تذکرے میں وہ بار بار لکھتی ہیں کہ ’’آپؐ حج کے ارادے سے نکلے تھے‘‘ (ص 165-164)۔ حالانکہ اس میں آپؐ نے عمرہ کا قصد کیا تھا۔ اُم المومنین حضرت زینب بنتِ خزیمہؓ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ وہ قبیلۂ عامر کے سردار کی بیٹی تھیں۔ ان کے شوہر غزوۂ بدر میں شہید ہوگئے تھے۔ اس سردار کا نام ابوبراء لکھا ہے اور اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خسر بتایا ہے (ص 141-140)۔ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ حضرت زینبؓ کے شوہر غزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے۔ کتبِ سیرت میں عثمان بن طلحہ (کلید بردارِ کعبہ) سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو دو مواقع کی منقول ہے: ایک عہدِ مکی میں، جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کنجی مانگنے پر اس نے دینے سے انکار کردیا تھا اور درشتی سے جواب دیا تھا۔ دوسرے فتحِ مکہ کے موقع کی۔ مصنفہ نے دونوں گفتگوئوں کو خلط ملط کرکے ایک ساتھ فتح مکہ کے موقع پر بیان کیا ہے (ص 192)۔ سفر طائف سے واپسی پر مکہ کے جس سردار نے آپؐ کو ’جوار‘ عطا کی تھی، اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کا نام نوفل تھا اور وہ قبیلۂ مطعم کا سردار تھا (ص 88)۔ صحیح یہ ہے کہ ان کا نام مطعم بن عدی تھا اور وہ قریش کے قبیلے عبد مناف سے تھے۔ قبلِ بعثت جو حضرات ’دینِ حنیف‘ پر قائم تھے اُن میں سے ایک کو زید بن عمر کا بھتیجا لکھا ہے (ص 44)۔ حالاں کہ ان کا نام زید بن عمرو بن نفیل تھا۔ اُم المومنین حضرت میمونہؓ کو حضرت عباسؓ کی بہن قرار دیا ہے (ص 182)۔ حالاں کہ وہ ان کی سالی تھیں۔ اس کے علاوہ مصنفہ کی اور بھی فروگزاشتیں ہیں، جن کا اس تبصرے میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ مصنفہ کے افکار کے جائزے پر بعض مقالات لکھے گئے ہیں اور کتابیں تصنیف کی گئی ہیں، مثلاً بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے سیرت سیمینار 2011ء میں محترمہ سمیہ اطہر نے مصنفہ کی تصانیف ِ سیرت کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ پیش کیا تھا (اس سیمینار کے مقالات کا مجموعہ شائع ہوگیا ہے)، اور جناب محمد اسماعیل بدایونی کی کتاب ’استشراقی فریب‘ اسلامک ریسرچ سوسائٹی کراچی سے شائع ہوئی ہے۔
فاضل مترجمین نے کتاب کا بہت رواں اور شستہ ترجمہ کیا ہے، جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے جابجا مصنفہ کے بیانات پر استدراکات اور توضیحی نوٹس لکھے ہیں، لیکن انہیں کتاب کے متن ہی میں قوسین میں درج کردیا ہے۔ بہتر تھا کہ ان کا اندراج الگ سے حواشی میں کیا جاتا۔ شخصیات اور جگہوں کے ناموں کے تلفظ میں مترجمین سے بڑی فاش غلطیاں ہوئی ہیں۔ مثلاً (قوسین میں صحیح لفظ لکھ دیا گیا ہے) ابوالدغنّہ (ابن الدغنّہ)، مارور (معرور)، نخلع (نخلہ)، قلیح (قیلہ)، عقبہ بن ربیعہ (عتبہ)، محمد بن سعید (سعد)، ابوجریر طبری (ابن جریر)، جہیم (جحیم)، سلّام بن مشکان (مشکم)، صفوان بن المعتل (المعطل)، مریسی (مریسیع)، سفیاں بن امیہ (صفوان)، حلیت (حلیس)، قبیلۂ جمع (جمح)۔ یہودی قبیلہ ’بنو نضیر‘ کو ہر جگہ ’نذیر‘ اور ’بنو قریظہ‘ کو بیشتر جگہوں پر ’قریضہ‘ لکھا گیا ہے۔ کتاب کا ترجمہ شروع کرنے سے پہلے اگر سیرت پر کسی اردو کتاب کو غور سے پڑھ لیا گیا ہوتا تو یہ غلطیاں نہ ہوتیں۔ عربی شاعر کہتا ہے: ہل انا الا من غزیّۃ… کہ میں تو قبیلہ غزیہ کا ایک فرد ہوں۔ اس کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے: ’’میں تو غازیوں میں سے ایک ہوں۔‘‘ (ص 24)
اس کتاب کے ترجمے پر مترجمین اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ امید ہے، اگلے ایڈیشن سے قبل مذکورہ فروگزاشتوں کو درست کرلیا جائے گا اور مصنفہ کی غلطیوں پر بھی توضیحی نوٹس کا اضافہ کردیا جائے گا۔