سیرت ِسیّد الابرارؐ

نام کتاب : سیرت ِسیّد الابرارؐ
(اوّل صدارتی ایوارڈ یافتہ)
مصنف : محترم منیر احمد خلیلی
صفحات : 782 قیمت:1200روپے
ناشر : اسلامک ریسرچ اکیڈمی۔ کراچی
(ادارہ معارفِ اسلامی کراچی)
ای میل : irak.pk@gmail.com
ویب گاہ : www.irak.pk
تقسیم کنندہ اکیڈمی بک سینٹر (A.B.C)ڈی۔35، بلاک۔5، فیڈرل بی ایریا کراچی 75950
فون 021-36809201, 36349840
ہم تمام مسلمانوں کو جو شدید محبت اور دلی تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اس کا اظہار مختلف شکلوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔ ان میں جن حضرات کو تحریر کا ملکہ اللہ جل شانہٗ نے عطا کیا ہے وہ اپنی صلاحیت قرآن و سنت کی توضیح و تشریح، اور سیرتِ نبویؐ کی تفہیم و بیان میں صرف کرتے ہیں۔ کثرت سے سیرتِ نبویؐ پر کتابیں منصۂ شہود پر آتی رہتی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’سیرتِ سید الابرارؐ‘‘ بھی اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن دسمبر 2016ء میں شائع ہوا، اور اب یہ تیسرا ایڈیشن مئی 2019ء میں طبع ہوا ہے۔ کتاب کا مبسوط مقدمہ ممتاز عالم دین، داعی و مبلغِ دین، بلند پایہ محقق، معروف صاحبِ قلم اور دانشور جناب رضی الاسلام ندوی نے تحریر کیا ہے، اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’سیرتِ نبوی پر کچھ لکھنا اور سیرت نگاروں کے کارواں میں شامل ہونا بڑی سعادت کی بات ہے۔ اس سعادت کے حصول کے لیے لوگ ہر زمانے میں کوشاں رہے ہیں اور مختلف زبانوں میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں، پھر بھی طبیعتیں سیر نہیں ہوئیں اور برابر نئی نئی کتابیں شائع ہورہی ہیں۔ اس معاملے میں اردو زبان بہت مالامال ہے کہ اس میں بڑا قابلِ قدر لٹریچر موجود ہے، پھر بھی اس میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ حال میں ایک نئی کتاب ’سیرتِ سید الابرار‘ کے نام سے منظرِعام پر آئی ہے۔
اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ حصۂ اوّل کو مصنف نے روایتی اور حصۂ دوم کو غیر روایتی مطالعۂ سیرت قرار دیا ہے۔ حصۂ اوّل میں زمانی ترتیب سے واقعاتِ سیرت بیان کیے گئے ہیں اور حصۂ دوم میں چند اہم موضوعات پر قرآن، حدیث، سیرت اور اسوۂ صحابہ کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ اس طرح مصنف نے اصلاً علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کے نقشِ قدم کی پیروی کی ہے، جن کی کتاب ’سیرۃ النبی‘ کی دو جلدیں روایتی اور پانچ جلدیں غیر روایتی انداز میں سیرتِ نبوی پیش کرتی ہیں۔ حصۂ دوم (200 صفحات) کی تالیف انہوں نے پہلے کرلی تھی، حصۂ اوّل کی تالیف بعد میں کی، جس کے مباحث کو ڈیڑھ دوسو صفحات میں سمیٹ لینے کا ارادہ تھا، لیکن لکھنے کا آغاز کیا تو پیش کردہ مواد پانچ سو صفحات تک پھیل گیا۔ حصۂ دوم بہت قیمتی مباحث پر مشتمل ہے۔ اس میں انہوں نے حیاتِ طیبہ کے مختلف گوشوں، مثلاً رحم و کرم اور حسنِ اخلاق، تربیت و تزکیہ، دعوت و تبلیغ، تذکیر و شہادت، تبشیر و انذار، صبر، جہاد اور اظہار و غلبۂ دین پر روشنی ڈالی ہے۔ آخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تین حقوق بیان کیے ہیں: محبت، تعظیم اور اطاعت۔ پھر سیرتِ صحابہ سے ان کی مثالیں پیش کی ہیں۔
سیرت کے موضوع پر ماضیِ قریب میں عربی اور اردو میں بہت اچھی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں۔ یہ کتاب جدید اردو کتبِ سیرت میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔ اس کی خصوصیات کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ قرآن کریم 23 برس کے عرصے میں برابر نازل ہوتا رہا۔ اس میں عہدِ نبوی میں پیش آنے والے بہت سے واقعات کا بیان ہے اور مختلف واقعات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہدایات دی جاتی رہی ہیں۔ اس طرح اسے واقعاتِ سیرت کے معاملے میں سب سے مستند ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ مصنف نے سیرت نگاری میں قرآن کریم کو اوّلین حیثیت دی ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے بنیادی مصادر میں کتبِ احادیث کو بھی رکھا ہے اور ان سے استشہاد اور حوالہ دینے کا التزام کیا ہے۔ اس معاملے میں ان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے صرف صحیح احادیث سے استدلال کیا ہے اور کتبِ حدیث و سیرت میں جو ضعیف اور موضوع روایات درآئی ہیں ان سے احتراز کیا ہے۔
2۔ فاضل مصنف کے پیش نظر سیرتِ نبوی پر قدیم اور جدید تمام مراجع رہے ہیں۔ انہوں نے ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے اور جا بہ جا ان کے حوالے دیے ہیں۔ کہیں ان کے تائیدی اقتباسات پیش کیے ہیں، تو کہیں ان سے دلائل کے ساتھ اختلاف کیا ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ اپنے نتائجِ تحقیق پیش کیے ہیں۔
3۔ مصنف کا اسلوبِ تحریر عصری ہے۔ وہ بہت خوب صورتی کے ساتھ جدید تعبیرات استعمال کرتے ہیں، جس سے باتیں سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور وہ اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔
4۔ احادیث اور کتبِ سیرت میں بعض بیانات ایسے ملتے ہیں جو قارئین کو خلجان میں مبتلا کرتے ہیں، مصنف نے ان پر بحث کے دوران ان کی ایسی عمدہ تشریحات کی ہیں جن سے خلجان دور ہوجاتا ہے اور شبہات رفع ہوجاتے ہیں، ان تشریحات سے متعلقہ احادیث کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
5۔ سیرت میں بہت سے واقعات ایسے مشہور ہوگئے ہیں جو قطعاً غلط اور بے بنیاد معلوم ہوتے ہیں۔ فاضل مصنف نے ان پر اچھی گفتگو کی ہے اور ان کا بطلان واضح کیا ہے، مثال کے طور پر ’’قصہ غرانیق علیٰ‘‘۔
6۔ موجودہ دور میں سیرت نگاری کا ایک نیا اسلوب متعارف ہوا ہے جسے ’فقہ السیرۃ‘ کا نام دیا گیا ہے، اس میں واقعات ِ سیرت پیش کرکے ان سے دروس و نصائح نکالے جاتے اور احکام مستنبط کیے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی مصنف نے یہ اسلوب اختیار کیا ہے اور بہت اچھی طرح اس کی ترجمانی کی ہے۔
7۔ موجودہ دور میں بعض مصنفین نے اسلام کے لیے ’تحریک‘ کی تعبیر اختیار کی ہے، وہ غلبۂ اسلام کی کوشش کو ’’تحریکِ اسلامی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ فاضل مصنف بھی ان کے ہم خیال ہیں۔ کتاب میں ان کا یہ اسلوب نمایاں ہے۔ ایک جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حالیہ دور میں تحریکِ اسلامی کی اصطلاح کو موافقین و مخالفین یکساں طور پر اسلام کے صرف سیاسی پہلو سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ لفظ ’تحریک‘ جو ہماری اس تحریر میں جا بہ جا آرہا ہے اس کا اصل مفہوم کسی عظیم نصب العین کے حصول کی جدوجہد میں پالیسیوں اور اقدامات کو گہرے مدبرانہ انداز میں اس کڑی در کڑی اور مرحلہ در مرحلہ نتائج کی طرف بڑھانا ہے کہ سلسلۂ واقعات میں کوئی خلا نہ رہ جائے۔‘‘ (ص 159)
8۔ مصنف نے سیرت نگاری کے دوران سماج میں رائج بعض غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی ہے اور بہت عمدہ اسلوب میں صحیح اسلامی تعلیمات پیش کی ہیں۔
9۔ فاضل مصنف نے جابہ جا تقابلی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اس طرح وہ اسلامی اقدار اور تعلیمات کا موازنہ جدید زمانے سے کرتے ہیں اور اسلام کی برتری ثابت کرتے ہیں۔‘‘
جناب رضی الاسلام ندوی نے اپنے مقدمے میں نکاتِ بالا کی مثالیں بھی تحریر کی ہیں، ہم یہاں جگہ کی کمی کی وجہ سے انہیں درج نہیں کرتے۔ جیسا کہ تحریر ہوا کتاب دو حصوں میں منقسم ہے، پہلا حصہ سیرت کے بیان پر مبنی ہے اور دوسرا حصہ حیاتِ طیبہ کے مختلف گوشوں کے بیان و تشریح پر مشتمل ہے۔