بلیو مسجد

ابوسعدی
بلیو مسجد سلطان احمد مسجد ہی کا نام ہے، لیکن یہ زیادہ تر بلیو مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 1609ء اور 1616ء کے درمیان ہوئی اور اس کا سہرا سلطان احمد اول کے سر جاتا ہے۔ اس کا بڑا گنبد احمد Tomb کہلاتا ہے، مسجد کے ساتھ ہی ایک بڑا مدرسہ اور رہائشی سلسلہ ہے۔ اس کے ”بلیو مسجد“ نام کی وجہ تسمیہ اس کی اندرونی دیواروں پر نیلی ٹائلوں کا استعمال ہے جو ہاتھ سے بنائی گئی ہیں، اور دوسری وجہ رات کو اس کے پانچ گنبدوں، چھ میناروں اور آٹھ ذیلی گنبدوں کا نیلی روشنیوں سے جگمگانا ہے۔ اس کے عمارت کار کو ترکی میں Mehmed Agha Sedefkar کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کا طرز تعمیر Ottoman کلاسیکی اسلامی آخری خلافت کے دور کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں دس ہزار لوگوں کی گنجائش ہے۔ اس کے باہر کے گنبد کی بلندی 141,00 فٹ اور چوڑائی 312 فٹ ہے۔ مینار کی بلندی 10فٹ ہے۔ اس کی اندرونی آرائش بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی دیواروں کے نچلے حصے پر خوبصورت ٹائل لگے ہیں جبکہ بلندی اور چھت پر بہت خوبصورت نقش و نگار پینٹ کیے گئے ہیں۔ Stain Glass سے مزین 200 کھڑکیاں ہیں جو قدرتی روشنی کے لیے بنائی گئی ہیں، اس کے علاوہ بڑے اور خوبصورت Chandeliers ہیں جن کی بناوٹ اندرونی آرائش کو اور دیدہ زیب بنادیتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآنی آیات بھی کندہ ہیں جو اُس وقت کے نامور کیلی گرافر Seyyid Kasim Gobari کے فنِ کتابت اور آرٹ کا عمدہ نمونہ ہیں۔ فرش پر نہایت دیدہ زیب ڈیزائن کے قالین بچھے ہیں، جو وقتاً فوقتاً بدلتے رہتے ہیں۔ مسجد کی اندرونی محرابیں سنگِ مرمر کو تراش کر بنائی گئی ہیں۔ باہر کے صحن میں وضو خانے بنے ہیں اور درمیان میں ایک شش جہت پویلین ہے جس میں فوارے لگے ہیں۔ مسجد کے اطراف بہت خوبصورت باغ ہے جہاں سیاح اور مسلمان زیارت کے بعد اپنی تھکن اتارتے ہیں۔
(اقبال احمد صدیقی۔ ’’عمارت کار‘‘)

تاریخ کے لحاظ سے سیرۃ طیبہ (10)۔

تحریر: اُم احمد
رمی جمار:10 ذی الحجہ۔
خطبہ منیٰ (یوم النحر): 10 ذی الحجہ 10ہجری۔
قربانی خطبہ کے بعد: 10 ذی الحجہ10 ہجری۔
منیٰ سے مکہ روانگی: 10 ذی الحجہ 10ہجری (حلق راس کے بعد)۔
مکہ سے منیٰ واپسی: 11 ذی الحجہ 10ہجری۔
دوسرا خطبہ منیٰ: 11 ذی الحجہ 10ہجری۔
منیٰ سے مکہ روانگی: 13۔14ذی الحجہ کی درمیانی شب 10 ہجری۔
جیش اسامہ کی روانگی کا حکم: ربیع الاول 11 ہجری۔
مرض الموت کا آغاز: ماہ صفر کے آخری پیر (29 تاریخ) کے روز 11 ہجری۔
مرض کی مدت: 13 تا 14 دن۔
حالت ِمرض میں نماز کی امامت: 11 دن نماز پڑھائی۔
آخری ایام کہاں گزارے؟: ام المومنین حضرت عائشہؓ کے ہاں۔
مسجد میں آخری نماز اور خطبہ: وفات سے 5 دن پہلے۔
وفات: 12 ربیع الاول 11 ہجری۔
تدفین: 13۔14 ربیع الاول 11 ہجری کی درمیانی شب۔
روضہ مبارک: حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ میں آپؐ کو دفن کیا گیا۔

انگریز اور شاہ عبدالعزیز

ایک انگریز جو عربی فارسی خاصی جانتا تھا، جامع مسجد میں آیا، حضرت شاہ عبدالعزیز وعظ فرما رہے تھے۔ یہ بھی بیٹھ کر وعظ سننے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے بہ آوازِ بلند یہ شعر پڑھا:۔
کسے بہ گفت کہ عیسیٰ از مصطفیٰ اعلیٰ است
کہ این بہ زیر زمین است آں بہ اوج سما است
(کسی نے کہاکہ حضرت عیسیٰ محمد مصطفیٰؐ سے اعلیٰ ہیں کیونکہ یہ زمین کے نیچے ہیں اور وہ آسمان پر) شاہ صاحب نے جواب میں اسی وقت یہ شعر پڑھ دیا:۔
بکفتمش کہ نہ ایں حجت و قوی باشد
حباب بر سر آب و گہر تہ دریا است
(میں نے اس سے کہاکہ تیری یہ دلیل قوی نہیں ہے کیونکہ بلبلہ پانی کی سطح پر ہوتا ہے اور موتی دریا کی تہ میں) انگریز یہ جواب سن کر لاجواب ہوگیا۔
(ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ، جون 2004ء)

حکایت

دہلی کالج میں اضلاع میرٹھ، بجنور، سہارن پور، مظفر نگر، پانی پت، گوڑ گانوہ، علی گڑھ وغیرہ کے اکثر طلبہ پڑھتے تھے اور ان کی بولی میں ایک طرح کی سختی ہوتی تھی۔ ہر ایک حرف کو مشدد بولتے۔ نوں کو ڑون کہتے جیسے آٹّا، روٹّی، بیٹّا، دانے کو دانڑاں، پانی کو پانڑیں، کھانے کو کھانڑا۔ اور دہلی کے لوگ ان کی گفتگو پر ہنسا کرتے تھے۔
ایک شخص ان میں تازہ وارد تھا۔ ہم وطنوں نے مل کر اُس کو سمجھایا کہ ’’میاں اب تم یہاں آئے ہو تو ذرا زبان سنبھال کر بولنا۔ ایسا نہ ہو روٹّی، آٹّا کہہ بیٹھو اور دلی والوں کو چھیڑنے کا موقع ملے‘‘۔
یہ سن کر تو اس شخص نے تشدید کی قسم کھائی اور یہاں تک تخفیف کی مشق بہم پہنچائی کہ واللہ باللہ۔ کُتّا بلّی کو بھی کُتا بلی کہنے لگا۔ دلی والے اس تشدید پر اتنا نہیں ہنستے تھے جتنا اس تخفیف پر لوٹ لوٹ جاتے تھے۔ اسی طرح وہ بیچارہ نووارد ڑے سے کچھ ایسا ڈر سا گیا کہ کانڑیں کو بھی کانا کہتا تھا۔ دلی کے لوگ اس کو دونا چھیڑتے۔
حاصل: جہاں عقل کو دخل نہ ہو وہاں عقل کو دخل دینا بھی بے وقوفی ہے۔
(نذیر احمد دہلوی۔ منتخب الحکایات)