(اس مضمون کو غور سے پڑھیے اور اپنے بیٹے اور بیٹی کو بھی پڑھوایئے)
پروفیسر اطہر صدیقی
اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ایک متوسط خاندان میں روزانہ ہوتا رہتا ہے۔ بیٹا اپنے والد کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتا، اس لیے کہ اس کے والد مستقل اس کی سرزنش کرتے رہتے تھے۔
’’تم نے کمرے سے باہر نکلتے وقت پنکھا بند نہیں کیا، ٹی وی چل رہا ہے لیکن کوئی دیکھنے والا نہیں ہے، اسے بند کیوں نہیں کیا، قلم کو اس کی جگہ قلم دان میں رکھو، میز پر پڑا نہیں چھوڑنا چاہیے‘‘۔
بیٹے کو اپنے والد کی اس طرح کی بے حد معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر مستقل نکتہ چینی بالکل پسند نہیں تھی، لیکن وہ یہ سب کل تک اس لیے برداشت کرتا تھا کہ وہ سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ لیکن آج ایک نوکری کے لیے اسے دعوت نامہ ملا تھا۔ ’’جیسے ہی مجھے کوئی نوکری ملتی ہے، میں اس شہر ہی کو چھوڑ دوں گا، پھر مجھے اپنے والد کی مستقل سرزنشوں سے آزادی مل جائے گی‘‘ اس نے سوچا۔
وہ جب انٹرویو کے لیے جانے والا تھا والد نے اسے نصیحت کی ’’تم سے جو سوال کیے جائیں، ان کا جواب کسی ہچکچاہٹ کے بغیر دینا، چاہے تمہیں سوال کا جواب نہ بھی آتا ہو تب بھی پُراعتمادی سے جواب دینا‘‘۔ انہوں نے اس کو زیادہ رقم دی، گو کہ انٹرویو کے لیے اتنی رقم کی ضرورت نہیں تھی۔بیٹا انٹرویو کی عمارت میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ کوئی محاظ گیٹ پر موجود نہیں تھا، گوکہ دروازہ کھلا تھا، اس کا سرکوڑا باہر کو نکلا ہوا تھا اور داخل ہونے والے اس سے ٹکرا سکتے تھے۔ اس نے سرکوڑے کو ٹھیک سے اپنی جگہ کیا تاکہ کسی آنے والے کو اس سے مزاحمت نہ ہو۔ گیٹ ٹھیک سے بند کیا اور دفتر میں داخل ہوا۔ راستے میں دونوں طرف اسے خوب صورت پھولوں کے گملے نظر آئے۔ مالی نے ہوز پائپ میں پانی چلتا چھوڑ دیا تھا اور وہ کہیں نظر بھی نہیں آرہا تھا۔ پانی راستے میں بہہ رہا تھا۔ اس نے ہوز پائپ کو اٹھایا اور ایک پودے کے نزدیک رکھ دیا۔ استقبالیہ میز پر کوئی موجود نہیں تھا، البتہ وہاں ایک نوٹس لگا تھا جس پر لکھا تھا کہ انٹرویو پہلی منزل پر ہے۔ وہ آہستگی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ جو لائٹ پچھلی رات کو جلائی گئی تھی، وہ ابھی تک دن کے دس بجے بھی جل رہی تھی۔ اسے اپنے والد کی نصیحت یاد آئی ’’تم لائٹ بند کیے بغیر کمرہ کیوں چھوڑ رہے ہو؟‘‘ ایسے جیسے وہ اب تک اس کے کانوں میں گونج رہی ہو۔ اس نے اس ناخوش گواری کو یاد تو کیا لیکن روشنی کا سوئچ تلاش کرکے لائٹ بند کردی۔ دوسری منزل پر ایک بڑے سے ہال میں بہت سے امیدوار اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے وہاں لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور سوچنے لگا کہ اس نوکری کے لیے میرا کوئی چانس بھی ہے! وہ ہال میں ہچکچاہٹ کے ساتھ داخل ہوا اور دروازے کے پاس رکھے ہوئے ’’ویلکم‘‘ میٹ کو دیکھا جو الٹا رکھا ہوا تھا۔ اس نے اسے بیزاری کے ساتھ سیدھا کیا۔ پرانی عادتیں مشکل سے جاتی ہیں۔ اس نے دیکھا سامنے کی قطار میں بہت سے امیدوار اپنی باری کے منتظر بیٹھے ہوئے تھے، جب کہ پچھلی قطاروں میں کرسیاں خالی پڑی ہوئی تھیں اور ان کے اوپر چھت پر لگے کئی پنکھے چل رہے تھے۔ اس نے پھر اپنے والد کی آواز سنی ’’کمرے میں جہاں کوئی نہیں بیٹھا وہاں پنکھے کیوں چل رہے ہیں؟‘‘ اس نے ان پنکھوں کے سوئچ بند کردیے جہاں ان کی ضرورت نہیں تھی اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور فوراً ہی دوسرے دروازے سے نکل جاتے ہیں۔ بس، اس طرح کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ کسی کو بھی یہ معلوم ہوسکتا کہ اندر انٹرویو میں کیا پوچھا جارہا ہے۔ جب اس کی باری آئی، وہ اندر داخل ہوا اور ہچکچاہٹ اور تشویش کے ساتھ انٹرویو لینے والے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ افسر نے اُس سے اُس کے سرٹیفکیٹ لے لیے اور ان کو دیکھے بغیر اس سے دریافت کیا:
’’آپ کب سے کام پر آسکتے ہیں؟‘‘اس نے سوچا ’’انٹرویو میں ایسا پوچھا جانا کیا کوئی ٹیڑھا سوال ہے، یا یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ مجھے یہ نوکری مل گئی ہے؟‘‘ وہ الجھن میں گرفتار ہوگیا۔
’’تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ مالک نے پوچھا ’’ہم نے یہاں کسی سے بھی کوئی سوال نہیں پوچھا۔ چند سوالات پوچھنے سے ہم کسی کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتے۔ اس لیے ہمارا امتحان یہ جانچنے کے لیے ہوتا ہے کہ کسی بھی امیدوار کا رویہ اور اندازِ فکر کیسا ہے؟ ہم نے امیدواروں کے پرکھنے کے کچھ طریقے رکھے ہیں اور سی سی ٹی وی کے ذریعے ہر شخص کا رویہ دیکھتے رہے ہیں۔ جتنے لوگ بھی آج آئے کسی نے دروازے کا سرکوڑا ٹھیک سے نہیں لگایا، ہوز پائپ یا ویلکم میٹ کو درست نہیں کیا، بے کار میں چلتے ہوئے پنکھے یا غیر ضروری روشنیاں بند نہیں کیں۔ صرف تم ایک ایسے شخص نکلے جس نے یہ سب کیا۔ اسی لیے ہم نے تمہیں اس نوکری کے لیے چنا ہے‘‘۔ مالک نے کہا۔
وہ ایسی ہی باتوں پر اپنے والد کی سرزنش پر ہمیشہ برافروختہ ہوجاتا تھا۔ اب اسے احساس ہوا کہ بچپن سے والد کی نظم و ضبط کی ہدایتوں نے اسے یہ نوکری دلائی ہے۔ اپنے والد کی طرف سے اُس میں جو غصہ اور جھنجھلاہٹ تھی وہ یکسر مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ اس نے طے کیا کہ وہ اپنے والد کو بھی اپنے نئے کام کی جگہ لائے گا اور خوشی خوشی گھر کے لیے روانہ ہوگیا۔آپ کے والدین آپ کو جو بھی ہدایتیں کرتے ہیں وہ آپ کی بھلائی ہی کے لیے ہوتی ہیں تاکہ آپ کا مستقبل روشن ہوسکے۔ پتھر کا ایک ٹکڑا ایک خوب صورت مورتی نہیں بن جاتا اگر وہ چھینی کے استعمال کی تکلیف نہیں برداشت کرسکتا۔ ہمارے لیے ایک خوب صورت مجسمہ اور اچھا انسان بن جانے کے لیے ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم سرزنشوں کو قبول کریں اور بری عادتوں اور برتائو میں تبدیلی لائیں۔ یہی تو ہمارے والد ہمیں نظم و ضبط سکھانے کے لیے کرتے ہیں۔
ماں بچے کو گود میں اٹھاتی ہے دودھ پلانے کے لیے، اور پیار سے اس کو سلاتی ہے۔ لیکن والد ایسے نہیں ہوتے۔ وہ اپنے بچے کو اٹھاتے ہیں اور اپنے کاندھے پر بٹھاتے ہیں تاکہ وہ دور تک دیکھ سکے، جہاں تک وہ خود بھی نہیں دیکھ سکتے۔ (یہاں مجھے مشہور سائنس دان نیوٹن کا قول یاد آتا ہے ’’میں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ دوسروں کے کاندھے پر بیٹھ کر سیکھا ہے‘‘)
ہم اپنی والدہ کا درد اُن کی باتیں سن کر سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اپنے والد کے درد کا احساس اُسی وقت ہوسکتا ہے جب دوسرے اس کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ ہمارے والد ہمارے معلم ہیں، جب ہم پانچ سال کے ہوتے ہیں تو وہ ایک ظالم شخصیت نظر آتے ہیں، لیکن جب ہم بیس برس کے ہوتے ہیں تو وہ ایک راستہ دکھانے والے ہوتے ہیں جب تک وہ زندہ رہیں۔ مائیں اپنی بیٹیوں یا بیٹوں کے گھر جاسکتی ہیں جب وہ بوڑھی ہوجائیں، لیکن والد نہیں جانتے کہ ایسا کیسے کیا جاسکتا ہے۔
والدین کو تکلیف پہنچانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک وہ زندہ ہیں، اور ان کو یاد کرنا چاہیے ان کے گزر جانے کے بعد۔ ان کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتائو کرنا چاہیے۔ یہی ایک مثال ہے اچھی تربیت دینے والے کی۔