مدینۃ النبیؐ

آغاشورش کاشمیری
اے کرۂ ارض کے سرتاج! اے سرتاج الانبیا کی آرام گاہ! ایک انسان کی بدولت کروڑوں انسانوں کو زندگی بخشنے والے، اے کلام اللہ کے 86430 کلمات اور 3 لاکھ 23 ہزار 7 سو 60 حروف میں سے مدنی آیتوں کی جائے نزول، اے اس آخری نبیؐ کے مدفنِ مبارک جس کی ذاتِ اقدس پر 22 سال 5ماہ کے عرصے میں 6666 آیتیں نازل ہوئیں، اے رحمتوں اور فضیلتوں کے شہر، اے عظیم انسانوں کے مامن، اے زبان و بیان کی روحِ رواں، اے سپہ سالاروں کے دل کی دھڑکن، اے انشا پردازوں کے علوفکر، اے شاعروں کے تخیل کی معراج، اے خطیبوں کے ولولہ خطابت کی آبرو، عالموں کے افکار کی آرزو، اے دانش وروں کے علم و حکمت کی جستجو، اے اہل اللہ کے آستانہ آخر، اے عابدوں کی جبین کے ناز، اے زاہدوں کی محبت کے محور، اے جود و سخا کے مخزن، اے جمالِ دولت کے مسکن، اے گناہ گاروں کی بخشش گاہ، اے بلدۂ رسالت پناہ، اے مرکزِ دل و نگاہ، اے انس و ملک کی بوسہ گاہ، اے خطاکاروں کے خطا پوش، اے ہر عہد کے فضلا کی منزل، اے عاشقانِ صادق کے محل، اے بیچ مداں اور بے سروساماں کا سلام قبول کر۔
اے مدینۃ النبیؐ تُو مرکزِ انوارِ الٰہی ہے، تُو نے سب غایتوں کی غایتِ اولیٰ کو دیکھا اور جاوداں ہوگیا۔ اللہ نے تجھے ہمیشگی بخشی ہے۔ فرشتے اللہ کے عرش سے تیرے فرش پر سلام و درود کے تحفے لاتے ہیں۔ تُو نے اسلام کو رونق بخشی اور تاریخ کو عزت دی ہے۔ تُو نے ادب کو درخشاں کیا، تُو نے زبان کو رعنائی، بیان کو زیبائی اور فکر کو گہرائی بخشی ہے۔ ہم تیرے اور تُو ہمارا ہے۔ تیری صبحوں میں صحابہ کا سوزِدروں اور انصار و مہاجرین کا جوش ِجنوں ہے۔ تُو شب زندہ داروں کی بلاواسطہ حکایت کا گہر مکنوں ہے۔ تُو عرش سے نازک تر ہے۔ تیری آغوش میں منصف ِاسلام سو رہا ہے۔ تیری مٹی پاتال تک مقدس ہے۔ تُو سب سے بڑی تاریخ ہے۔ تیرے شمال میں احد ہے جس نے بہ قول ابوالحسن علی ندوی لغت کو شجاعت کے لیے بے شمار الفاظ دیے ہیں۔ وہ پہاڑ جو قیامت کے روز جنت میں اٹھایا جائے گا۔ تیرے مشرق میںجنت البقیع ہے جہاں وہ لوگ سو رہے ہیں جوابدلا باد تک زندہ ہیں، جن کے لیے موت نہیں، جن سے موت بھاگتی رہی اور ہمیشہ کے لیے بھاگ گئی، جن کے چہروں کی غیرت نے عرش و فرش سے سلام لیے ہیں، جو صرف زندہ رہنے کے لیے پیدا کیے گئے، جن کا عقیدہ تھا کہ موت زندگی کی ابتدا ہے اور وہ مر کے زندگی کی ابتدا کرگئے، وہی زندگی تب سے اب تک رواں دواں ہے۔
(ترتیب و انتخاب:سید عزیز الرحمن،تعمیر افکار، کراچی، مارچ2010ء)

اے روحِ محمدؐ

شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر
اب تُو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
وہ لذتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں
پوشیدہ ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے!
ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے!
اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ!
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے!

ملت ِ مرحوم: لفظی معنی وہ قوم جس پر رحم کیا گیا ہو، ملت ِ اسلامیہ۔ شیرازہ: وہ رشتہ جس سے کتابوں کی جلد بندی کی جاتی ہے۔ مراد ہے نظم و انتظام سے۔ آشوب: طوفان، شورش، ہنگامہ۔ راحلہ: سواری۔ زاد: توشہ، سفر کا سامان۔ حدی خوان: حدی اس نغمے کو کہتے ہیں جو ساربان اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے گاتے ہیں۔ حدی خوان: حدی گانے والا۔
-1 ملّتِ اسلامیہ کا نظام ابتر ہوگیا۔ اے حضرت رسول اکرمؐ کی روحِ پاک تُو ہی بتاکہ اب مسلمان کس کا دامن پکڑے، کدھر جائے اور کیا کرے؟
-2 عرب کے سمندر میں طوفان، جوش اور ہنگامے کی کوئی لذت باقی نہ رہی۔ میرے دل میں جو طوفان چھپا ہوا ہے وہ کہاں بپا ہو؟ کس سمندر کا رخ کرے؟
-3 عرب کے پہاڑوں اور بیابانوں میں جو حدی خواں بیٹھے ہیں اگرچہ ان کے قافلے نہیں رہے، سواریاں بھی غائب ہوگئیں، سفرکا سامان بھی ان کے پاس نظر نہیں آتا، لیکن وہ ان پہاڑوں اور بیابانوں کو چھوڑ کر کہاں جائیں؟
-4 اے رسول اکرمؐ کی روحِ پاک! میں تیرے سوا یہ راز کس سے پوچھوں کہ مسلمان جو خدا کی آیات کا نگہبان اور محافظ ہے، پریشانی کی اس حالت میں کس کے پاس جائے؟