نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار

رشد و ہدایت
رشد و ہدایت

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم

حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: حیا اور ایمان کو ایک جگہ رکھا گیا ہے، یعنی وہ ایک دوسرے کے ساتھی یا ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے جب ایک کو اٹھایا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔ ابن عباسؓ کی روایت میں یوں ہے کہ ان میں سے جب ایک کو دور کیا جاتا ہے تو دوسرا بھی جاتا رہتا ہے۔ (بیہقی)۔

جس سرزمین میں انسانوں کے درمیان امتیاز نسل، قبیلے اور رنگ کی بنا پر ہوتا تھا وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پکار انسان کی حیثیت سے بلند کی، ایک عرب نیشنلسٹ کی حیثیت سے نہیں، اور نہ عرب یا ایشیا کا جھنڈا بلند کرنے کےلیے کی تھی۔ آپؐ نے پکار کر فرمایا:۔
’’اے انسانو! میں تم سب کی طرف مبعوث ہوا ہوں‘‘۔
اور جو بات پیش کی وہ یہ کہ:
’’اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تم کو قبیلوں اور گروہوں میں اس لیے بانٹا ہے کہ تم کو باہم تعارف ہو۔ اللہ کے نزدیک برتر اور عزت والا وہ ہے جو اس سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے‘‘۔
آپؐ نے فرمایا کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اس حیثیت سے بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔
تم کو قبائل میں پیدا کیا تعارف کے لیے۔
یعنی یہاں جو کچھ بھی فرق ہے اس سے مقصود تعارف ہے۔ اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ خاندان جمع ہوتے ہیں تو ایک بستی بن جاتی ہے، اور بستیاں جمع ہوتی ہیں تو ایک وطن وجود میں آجاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے ہے۔ رنگ، نسل اور زبان میں بھی جو کچھ فرق ہے وہ صرف تعارف کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فطری فرق صرف تعارف کے لیے رکھا ہے، اور یہ فرق باہمی تعاون (Co-Operation) کے لیے ہے، نہ کہ بغض، عداوت اور امتیاز کے لیے۔

اسلام میں برتری کا تصور:۔

اب دنیا میں برتری کا تصور ہے تو رنگ کی بنا پر، کالے یا گورے ہونے کی بنا پر۔ لیکن اس بنا پر برتری نہیں کہ کون برائیوں سے زیادہ بچنے والا ہے، کون نیکیوں کو زیادہ اختیار کرنے والا ہے، کون اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کون ایشیا میں پیدا ہوا ہے، اور کون یورپ میں۔ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ دیکھنے کی اصل چیزیں یہ نہیں بلکہ انسان کے اخلاق ہیں۔ یہ دیکھیے کہ کون خدا سے ڈرتا ہے اور کون نہیں۔ اگر آپ کا حقیقی بھائی خدا کے خوف سے عاری ہے تو وہ قابلِ قدر نہیں ہے، لیکن دور کی قوم کا کوئی آدمی خواہ وہ کالے رنگ ہی کا کیوں نہ ہو، اگر خدا کا خوف رکھتا ہے تو وہ آپ کی نگاہ میں زیادہ قابلِ قدر ہونا چاہیے۔

امت ِوسط کا قیام:۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم فلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کردیا۔ آپؐ نے اس بنیاد پر ایک امت بنائی اور اسے بتایا کہ:
جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ
امتِ وسط سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو جانبداری کے لحاظ سے نہ کسی کی دشمن ہے نہ کسی کی دوست۔ اس کی حیثیت ایک جج کی سی ہے جو ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہوتا ہے۔ وہ نہ کسی کا دوست ہوتا ہے کہ جانبدار بن جائے، نہ دشمن ہوتا ہے کہ مخالفت میں توازن کھودے۔ اس کا مقام یہ ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بھی اگر کوئی جرم کردے تو وہ اُسے بھی سزا دینے میں تامل نہیں کرے گا۔
جج کی یہی حیثیت پوری امت کو دے دی گئی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ مسلمان قوم امتِ عادل ہے۔
اب یہ امت عادل بنتی کس چیز پر ہے؟ یہ کسی قبیلے پر نہیں بنتی، کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی۔ یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر، یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم تسلیم کرلو تو جہاں بھی پیدا ہوئے ہو، جو بھی رنگ ہے، بھائی بھائی ہو۔ اس برادری میں جو بھی شامل ہوجاتا ہے اس کے حقوق سب کے ساتھ برابر ہیں۔ کسی سید اور شیخ میں کوئی فرق نہیں، اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے۔ اس کلمے میں شریک ہوگئے تو سب برابر۔ حضورؐ نے اسی لیے فرمایا تھا:
”کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی کالے کو گورے پر فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت پانے والا وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے۔“

اسلامی عدل کی ایک مثال:۔

اسی چیز کو میں ایک واقعے سے آپ کو سمجھاتا ہوں۔ غزوۂ بنی مصطلق میں مہاجرین اور انصار دونوں شریک تھے۔ اتفاق سے پانی پر ایک مہاجر اور انصار کا جھگڑا ہوگیا۔ مہاجر نے مہاجر کو پکارا اور انصار نے انصار کو۔ آپؐ نے یہ پکار سنی، تو غضب ناک ہوکر فرمایا:
”یہ کیسی جاہلیت کی پکار ہے۔ چھوڑ دو اس متعفن پکار کو۔“
اس سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ اگر ایک شخص دوسرے شخص پر ظلم ڈھا رہا ہے تو مظلوم کا ساری امتِ مسلمہ پر حق ہے کہ وہ اس کی مدد کو پہنچے، نہ کہ کسی ایک قبیلے اور برادری کا۔ لیکن صرف اپنی ہی برادری کو پکارنا جاہلیت کا شیوہ ہے۔ مظلوم کی حمایت مہاجر اور انصار دونوں پر فرض تھی۔ اگر ظالم کسی کا حقیقی بھائی ہے تو اس کا فرض ہے کہ سب سے پہلے وہ اس کے خلاف خود اٹھے۔ لیکن اپنے گروہ کو پکارنا یہ اسلام نہیں جاہلیت ہے۔ اسلام اسی لیے کہتا ہے:
’’كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ‘‘عدل کو قائم کرنے والے بنو۔

تسخیرِ انسانیت کا وصف:۔

اس امت میں بلال حبشیؓ بھی تھے، سلمان فارسیؓ بھی اور صہیب رومیؓ بھی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ساری دنیا کو اسلام کے قدموں میں لا ڈالا۔ خلافت ِراشدہ کے عہد ِمبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چلا گیا۔ اس لیے نہیں کہ مسلمان کی تلوار سخت تھی، بلکہ اس لیے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکتی۔ ایران میں ویسا ہی اونچ نیچ کا فرق تھا جیسا کہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خودبخود مسخر ہوگئے۔ اسی طرح مسلمان مصر میں گئے تو وہاں بھی اسی اصول نے اپنا اعجاز دکھایا۔ غرض مسلمان جہاں جہاں بھی گئے لوگوں کے دل مسخر ہوتے گئے۔ اس تسخیر میں تلوار نے اگر ایک فیصد کام کیا ہے تو اس اصولِ عدل نے ننانوے فیصد کام کیا۔
آج دنیا کا کون سا خطہ ہے جہاں مسلمان نہیں ہے! حج کے موقع پر ہر ملک کا مسلمان جمع ہوجاتا ہے۔ امریکہ کے مسلمان نیگرو رہنما میلکم ایکس نے حج کا یہ منظر دیکھ کر کہا تھا ’’نسلی مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے‘‘۔ صرف یہی وہ چیز ہے جس پر دنیا کے تمام انسان جمع ہوسکتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ انسان کہیں بھی پیدا ہو، وہ اپنی وطنیت تبدیل نہیں کرسکتا۔ لیکن ایک اصول کا عامل ضرور بن سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو ایک ایسا کلمہ دے دیا جس پر وہ جمع بھی ہوسکتے ہیں اور ایک عالمی ریاست بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔

مسلمانوں پر زوال کیوں آیا؟

مسلمان جب بھی اس اصول سے ہٹے، مار کھائی۔ اسپین پر مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت رہی۔ جب مسلمان وہاں سے نکلے تو اس کی وجہ تھی قبائلی عصبیت کی بنا پر باہمی چپقلش۔ ایک قبیلہ دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور باہم دگر لڑنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور وہ وہاں سے ایسے مٹے کہ آج وہاں ایک مسلمان بھی دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی طاقت کیوں ٹوٹی؟ ان میں وہی جاہلیت کی عصبیتیں ابھر آئی تھیں۔ کوئی اپنے مغل ہونے پر ناز کرتا تھا تو کوئی پٹھان ہونے پر، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پہلے مرہٹوں سے پٹے، پھر سکھوں سے پٹے اور آخر میں چھ ہزار میل دور سے ایک غیر قوم آکر ان پر حاکم بن گئی۔
اسی صدی میں ترکی کی عظیم الشان سلطنت ختم ہوگئی۔ عرب ترکوں سے برسرپیکار ہوگئے۔ عرب اپنے نزدیک اپنے لیے آزادی حاصل کررہے تھے، لیکن ہو یہ رہا تھا کہ سلطنتِ عثمانیہ کا جو بھی ٹکڑا ترکوں کے تسلط سے نکلتا تھا وہ یا تو انگریزوں کے قبضے میں پہنچ جاتا تھا، یا فرانسیسیوں کی نذر ہوجاتا تھا۔
(تفہیمات،حصہ چہارم)