تاجر تنظیموں کی شٹر ڈاؤن ہڑتال

آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کا دورہ اسلام آباد
ایف بی آر اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے

آئی ایم ایف کی ٹیم ایک بار پھر آفت بن کر اسلام آباد پہنچی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ انتالیس ماہ کا معاہدہ کر رکھا ہے، لہٰذا چھوٹے چھوٹے وقفے کے ساتھ آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان آرہی ہے۔ یہ ٹیم پچھلا ہوم ورک دیکھ کر اگلے نئے قرض کی سفارش کرتی ہے۔ اگر ٹیم مطمئن ہوئی تو پاکستان کو تین ہزار ارب کا نیا قرض مل جائے گا۔ آئی ایم ایف کی زبان تو بہت سادہ ہے مگر اس کی تاثیر بہت گرم اور سخت ہوتی ہے، اس کا ہمیشہ یہی مطالبہ رہا کہ ٹیکس اصلاحات لائی جائیں۔ بظاہر تو یہ بہت مفید مشورہ ہے، لیکن اس مشورے کی پڑیا میں جو زہر ہے اُس نے ملکی معیشت کا رنگ نیلا کر رکھا ہے، اسی لیے تاجر تنظیمیں ہڑتال پر مجبور ہوئی ہیں، اور دو روز کی ہڑتال کا اعلان ہوا ہے جس پر عمل درآمد کے لیے ہر تنظیم نے تاجروں کا اعتماد حاصل کررکھا ہے۔ مرکزی تنظیم تاجراں کے صدر کاشف چودھری نے جنہیں ملک بھر کی تاجر تنظیموں کا اعتماد حاصل ہے، ہڑتال کے لیے بھرپور ہوم ورک بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے سمیت تاجروں کا ہر جائز مطالبہ تسلیم کیا جائے۔ اسلام آباد رئیل اسٹیٹ ایسوسی ایشن کے مرکزی فنانس سیکریٹری سید عمران بخاری نے ان کی تائید کی اور یہی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت تاجر برادری سے مشاورت کرے اور ملکی مفاد کو مدنظر رکھے۔ چیئرمین ایف بی آر فکس ٹیکس اسکیم کے نفاذ، شناختی کارڈ کی وجہ سے کاروبار متاثر ہونے اور شناختی کارڈ کی شرط میں نرمی کے دعوے تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نظر نہیں آتا، کوئی مسودہئ قانون ابھی تک ایف بی آر نے تاجر برادری کے سامنے پیش نہیں کیا، اسمال و میڈیم سائز کے تاجروں کے سیلزٹیکس رجسٹریشن سے استثنیٰ، ودہولڈنگ ایجنٹ نہ بنانے، ٹرن اوور کی بنیاد پر سادہ اور آسان فکسڈ ٹیکس اسکیم کا اجرا کرنے، ٹرن اوور ٹیکس کی شرح 1.5 فیصد سے کم کرکے 0.25 کرنے، پچھلے چھ سال کی پوچھ گچھ سے تحفظ، آئندہ ٹیکس آڈٹ سے استثنیٰ، تاجر نمائندوں پر مبنی ریجنل سطح کی کمیٹیوں کے قیام، چھوٹے تاجروں کے چھوٹے اثاثے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ریگولر کرنے، بجلی کے بل کی سالانہ شرح 6 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ کرنے، ایک ہزار مربع فٹ کی شرح سے مختلف کاروباروں کو نکالنے سمیت متعدد امور پر اصولی اتفاق ہوا، اور یہ بھی طے ہوگیا تھا کہ یہ تمام کام قانون سازی کے ذریعے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے تاجروں سے مشاورت کے بغیر ہی آئی ایم ایف سے ایک غیر فطری معاہدہ کیا جو زمینی حقائق کے بالکل برعکس تھا، دو روزہ ہڑتال کے بعد بھی مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ہم مشاورت کے ساتھ مزید ہڑتال کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔ یہی بات ملک کی رئیل اسٹیٹ کی سب سے بڑی تنظیم فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان نے بھی دہرائی ہے۔ اس کے کوآرڈینیٹر اسرار الحق مشوانی کہتے ہیں کہ تاجر برادری کے مطالبات جائز ہیں، حکومت اور ایف بی آر ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے بجائے تاجر برادری کو ہراساں کررہے ہیں، ایف بی آر کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ورنہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کے دورانیے میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ تاجر برادری نے وزیراعظم عمران خان پر زور دیا کہ وہ ان کے مسائل دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ شٹر ڈاؤن ہڑتال کی وجہ سے معیشت کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سے ایف بی آر کی تمام شرائط تسلیم کرلی جائیں، حکومت کو تاجروں کے ساتھ مذاکرات کرکے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
تاجر تنظیموں اور ان کے نمائندوں کا مؤقف بڑا جان دار ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکس چوری کا کلچر عام ہے، لیکن عام آدمی کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے، اس کے باوجود وہ پس رہا ہے۔ جن لوگوں کو ٹیکس دینا ہے اور جس طبقے کی آمدنی ٹیکس دینے کے قابل ہے انہیں تو چیئرمین نیب نے بھی سہولت فراہم کردی ہے کہ کمیٹی بناؤ، اور یہی کمیٹی سفارش کرے کہ کون ٹیکس چوری کا مجرم ہے تو نیب اسی پر ہاتھ ڈالے گا۔ ایف بی آر ملک میں ٹیکس وصول کرنے والا ادارہ ہے۔ خود ٹیکس وصول کرنے والے ادارے ٹیکس چوری کے نت نئے طریقے ٹیکس دہندگان کو بتاتے ہیں جس کی وجہ سے آج تک ٹیکس وصولی کا متعینہ ہدف پورا نہیں ہوسکا۔ اب عالمی بینک اور قرضہ فراہم کرنے والے دیگر عالمی اداروں کی طرف سے حکومت کو ٹیکس نظام بہتر بنانے اور ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف پورا کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ ایف بی آر کی طرف سے اس ضمن میں اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے مختلف طبقات میں جو بے چینی اور اضطراب پیدا ہوا ہے حکومت کا فرض ہے کہ وہ انہیں دور کرے، تاکہ باہمی اختلافات کو ختم کیا جا سکے اور ٹیکس کا نیا اصلاحاتی نظام فعال ہو۔
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا یہ بیان کہ 5 سال میں غیر ملکی قرضوں میں کمی کا امکان نہیں ہے، ہماری معاشی صورتِ حال کی ابتری ظاہر کررہا ہے جو اس امر کا عندیہ ہے کہ معاشی ابتری اور غیر ملکی قرضوں سے نجات کے لیے حکومت کو ابھی مزید کئی سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ یاد رہے کہ عوام نے موجودہ حکومت کو ووٹ مہنگائی اور بدحالی سے نکالنے کے وعدوں پر دیا تھا۔ اس لیے حکومت کو عوام کے ریلیف کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہوگا۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے جائزہ مشن نے پاکستان کے دورے کے پہلے روز حکومتی معاشی ٹیم سے مذاکرات کیے۔ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے پاکستان کے دورے کے پہلے روز وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام سے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ذرائع کے مطابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے جائزہ مشن کو ایف بی آر کی پہلی سہ ماہی میں اہداف اور وصولیوں سے آگاہ کیا۔ ایف بی آر حکام کاکہنا تھا کہ درآمدات میں کمی کی وجہ سے ریونیو شارٹ فال پر بھی بات چیت ہوئی، جولائی تا ستمبر ٹیکس محاصل میں 16 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ مقامی ٹیکس محاصل میں 26 فیصد اضافہ ہوا۔ حکام کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس 19 فیصد، سیلز ٹیکس 21 فیصد اور ایکسائز ڈیوٹی محاصل میں 19 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔ ایف بی آر حکام کا کہنا تھا کہ درآمدات میں 3 ارب ڈالر کمی سے کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی میں 3 فیصد کمی آئی۔ جبکہ وزارتِ خزانہ کی طرف سے مالی کارکردگی کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی۔
آئی ایم ایف جائزہ مشن کے مذاکرات کل بھی جاری رہیں گے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 6 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت عالمی مالیاتی فنڈ تین سالہ معاشی پیکیج کے تحت پاکستان کو یہ رقم فراہم کرے گا۔ رواں سال جون میں پاکستان اور عالمی بینک کے درمیان 91 کروڑ 80 لاکھ ڈالر قرض کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ ملکی معیشت کی بحالی میں صنعتی شعبے کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کا فوری ازالہ تو بوجوہ ممکن نہیں، لیکن بنیادی طور پر زرعی ملک ہونے کی بنا پر قومی معیشت کی جلد بحالی میں ہمارا زرعی شعبہ یقیناً بہت مفید کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس تناظر میں وفاقی حکومت کی جانب سے زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے گزشتہ سال کے 0.85 فیصد کے مقابلے میں 3.5 فیصد اضافے کا ہدف مقرر کرنا واضح طور پر ایک دانش مندانہ حکمتِ عملی ہے، اور ایک تازہ اخباری رپورٹ کے مطابق چھوٹی بڑی تمام فصلوں کی بالعموم بہتر صورتِ حال اور لائیو اسٹاک میں مستحکم اضافے کے پیش نظر اس بڑے ہدف کے حصول کے امکانات بہت روشن قرار دیے جارہے ہیں۔ مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح کا پچھلے سال کے 3.3 فیصد کی نسبت آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال میں گھٹ کر محض 2.4 فیصد رہ جانے کا اندیشہ ہمارے معاشی حکمت کاروں کے لیے واضح طور پر ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومتی حلقے اگرچہ توقع رکھتے ہیں کہ مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح 3.3 سے 3.5 فیصد رہے گی، تاہم یہ حقائق نظرانداز نہیں کیے جا سکتے کہ صنعتوں کی کارکردگی بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے اور خدمات کے شعبے کی صورت حال بھی حوصلہ افزا نہیں۔ ان حالات میں زرعی شعبے ہی سے معاشی بہتری کی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں، لیکن یہ کام خوش گمانیوں سے نہیں بلکہ بہتر عملی اقدامات ہی سے ممکن ہے۔ متعدد زرعی ماہرین کے نزدیک مجموعی طور پر بہتر صورت حال کے باوجود خریف کی بڑی فصلوں میں ملا جلا رجحان رہا ہے، چاول اور مکئی کی پیداوار کا ہدف پورا ہوا مگر گنے اور کپاس کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔ خصوصاً کپاس کی پیداوار ہدف سے بہت کم اور پچھلے سال کی نسبت صرف دو تہائی رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے حکومتی عہدیداروں نے قوم کو آنے والے دنوں میں معیشت کی بتدریج بحالی کی نوید سنائی اور ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران جو مشکل فیصلے کیے تھے ان کے مثبت نتائج آنے لگے ہیں۔ مالی سال 2019-20ء کے پہلے تین ماہ میں وصولیوں کے اعداد و شمار بھی بہتر ہوئے ہیں۔ اسی دوران روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر بھی سنبھلی ہے۔ تاہم یہ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ وزارتِ خزانہ کی قرضہ حکمت عملی کے تحت پاکستان آئندہ پانچ برسوں کے دوران مجموعی طور پر 11075ارب روپے کے قرضے حاصل کرے گا، جس میں سے 4177ارب بیرونی اور 6898 ارب مقامی ذرائع سے لیے جائیں گے، جس کی رو سے اِس سال 3173ارب روپے حاصل کیے جائیں گے۔ یہ رقوم گزشتہ برسوں کے دوران لیے گئے قرضوں کے سود کی مد میں آئندہ پانچ سال کے دوران خرچ ہوں گی۔ پچھلے قرضے اتارنے کی یہ کیفیت نئی نہیں، گزشتہ حکومتوں کے دور سے چلی آرہی ہے۔ ادائیگیاں بروقت نہ ہونے سے ان کی مالیت بڑھتی گئی، حتیٰ کہ سود در سود سے آج یہ حجم 45 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ آنے والے برسوں کے دوران جو 6898 ارب روپے مقامی ذرائع سے لیے جائیں گے، حالیہ دنوں میں شرح سود میں ہونے والے اضافے سے ان کی مالیت میں بھی خطیر اضافہ ہوگا، اور 2024ء تک پاکستان کا بیرونی قرضہ بتدریج کم ہوتا جائے گا۔ اگرچہ یہ حوصلہ افزا بات ہے، لیکن اس کے لیے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام سمیت جملہ زمینی حقائق خصوصاً نئی سرمایہ کاری، حکومتی اخراجات پر کنٹرول، سالانہ اقتصادی اہداف کی تکمیل، بدعنوانی اور رشوت کی شکل میں چلنے والی غیر قانونی متوازی معیشت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو قرضوں کا بوجھ مزید بڑھے گا۔