اندھیر نگری- چوپٹ راج

۔’’ایک بار پھر قوم پر یہ تلخ حقیقت آشکار ہوگئی کہ پاکستان کی سیاست کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، شریف خاندان، ملک کا پورا نظامِ انصاف، عمران خان اور ان کی جماعت، ذرائع ابلاغ

بلاشبہ تاریخ ہر جگہ خود کو دہراتی ہے، مگر پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان میں تاریخ کو ’’کولہو کا بیل‘‘ بنادیا ہے، چنانچہ وطنِ عزیز میں تاریخ خود کو صرف ایک سال میں بھی دہرا سکتی ہے۔ آج سے صرف 13ماہ قبل فرائیڈے اسپیشل کی ’’ٹائٹل اسٹوری‘‘ کا عنوان تھا:
’’پسِ پردہ ’’ڈیل‘‘ یا ’’ڈھیل‘‘ اور شریفوں کو ملنے والی رہائی کی بھیک‘‘
اس عنوان کے تحت ہم نے فرائیڈے اسپیشل میں لکھا تھا:
’’ایک بار پھر قوم پر یہ تلخ حقیقت آشکار ہوگئی کہ پاکستان کی سیاست کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، شریف خاندان، ملک کا پورا نظامِ انصاف، عمران خان اور ان کی جماعت، ذرائع ابلاغ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ گزشتہ قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ اپنے طاقتور لوگوں کو اُن کے جرائم کی سزا سے محفوظ رکھتی تھیں اور اپنے معاشرے کے کمزور لوگوں پر سزائیں مسلط کرتی تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا۔ اسی لیے حضرت علیؓ نے کہا ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں مگر انصاف کے بغیر نہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوجی اور سول اشرافیہ کے لیے ان باتوں کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ ان کے لیے ان کے مفادات ہی ان کا مذہب ہیں۔ ان کی فکری گمراہیاں ہی ان کا الہام ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ انصاف کرو، کیوں کہ انصاف ’’تقویٰ‘‘ کے قریب ہے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کے نزدیک انصاف وہ ہے جو ’’بٹوے‘‘ اور ’’ڈنڈے‘‘ کے قریب ہے۔
ان تمام حقائق کا تازہ ترین مظہر میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی رہائی ہے۔ اس رہائی نے معاشرے میں عدل، انصاف، قانون، حُسن، خیر، صداقت، اخلاق، کردار غرض یہ کہ ہر اُس قدر کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے جس سے معاشرہ، معاشرہ بنتا ہے۔ لوگ قانون شکنی دیکھتے ہیں تو اسے جنگل کا قانون قرار دیتے ہیں، لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے جنگل کے قانون کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ جنگل کے قانون کے نہیں، جرنیلوں اور اُن کے باج گزار سیاست دانوں کے قانون کے چنگل میں پھنس چکا ہے‘‘۔
(فرائیڈے اسپیشل۔ 28 ستمبر تا 4 اکتوبر 2018ء)
دنیا کے کسی بھی ملک میں نظامِ انصاف ’’کھل جا سم سم‘‘ اور ’’بند ہوجا سم سم‘‘ کی طرح کام نہیں کرتا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کے نظام کو کھل جا سم سم اور بند ہوجا سم سم کے مصداق بنادیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ میاں نوازشریف کو لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے جو ضمانت اور رہائی میسر آئی ہے وہ ’’طبی بنیادوں‘‘ کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ کہا گیا میاں نوازشریف کے پلیٹ لیٹس اچانک بہت کم ہوگئے تھے اور ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا، اور خدانخواستہ میاں نوازشریف کی موت بھی واقع ہوسکتی تھی، چنانچہ اسٹیبلشمنٹ، عمران خان کی حکومت، دو اعلیٰ عدالتیں میاں صاحب کی موت سے ڈر گئیں اور انہوں نے ان کی ممکنہ موت کا بوجھ اٹھانے سے صاف انکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت کوئی بھی میاں صاحب کی موت کو ’’ہینڈل‘‘ نہیں کرسکتا تھا۔ آیئے اس حوالے سے پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا ہوا، قائداعظم کا آدھا پاکستان مرگیا، اور پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کو آدھے پاکستان کی موت کو ہینڈل کرنے میں آج تک رتی برابر دشواری نہیں ہوئی۔ 16 دسمبر 1971ء کو آدھی پاکستانی قوم مرگئی اور پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کو آدھی پاکستانی قوم کی موت کو ہینڈل کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ 1951ء میں پاکستان کے بانی رہنما، قائداعظم کے معتمد اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو دن دہاڑے راولپنڈی میں قتل کردیا گیا اور پاکستان کی فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ کو لیاقت علی خان کی موت کا بوجھ اٹھانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ 1979ء میں جنرل ضیا الحق نے ملک کے مقبول رہنما اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ایسے مقدمے میں پھانسی چڑھوا دیا جو سرے سے مقدمہ ہی نہیں تھا، مگر نہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھٹو کی پھانسی کا بوجھ اٹھانے میں کوئی دقت ہوئی، نہ عدالتی اسٹیبلشمنٹ پر بھٹو کی لاش بوجھ بنی۔ جنرل پرویز کے دورِ حکومت میں بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا اور پاکستان کی فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ نے نہایت آسانی کے ساتھ بے نظیر کے قتل کو ’’ہینڈل‘‘ کرکے دکھا دیا، حالانکہ بے نظیر نے تحریری طور پر کہا تھا کہ انہیں قتل کیا گیا تو اس کے ذمے دار جنرل پرویزمشرف ہوں گے۔ جنرل پرویز کے دور ہی میں نواب اکبر بگٹی کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا۔ اُن کے قتل سے پہلے جنرل پرویز دھمکی دے چکے تھے کہ نواب اکبر بگٹی کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ کس چیز نے انہیں کہاں سے آکر ہٹ کیا۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کی وجہ سے بلوچستان آتش فشاں بن گیا اور ہمارے ہاتھ سے نکلتے نکلتے بچا، مگر فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ نے نواب اکبر بگٹی کی موت کو ’’ہینڈل‘‘ کرکے دکھا دیا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 45 لاکھ قبائلیوں کو چند گھنٹے کے نوٹس پر اُن کے گھروں سے نکال کر تقریباً بے یارو مددگار کھڑا کردیا، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے اپنے ہی ملک میں 45 لاکھ قبائلیوں کی جلاوطنی کو ’’ہینڈل‘‘ کرکے دکھا دیا۔ سابق ڈی جی رینجرز سندھ محمد سعید نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ گزشتہ 35 برسوں میں کراچی میں 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اتنی زیادہ ہلاکتوں پر فوجی اسٹیبلشمنٹ، میاں نوازشریف یا کسی اور سول حکمران کو ’’چھینکتے‘‘ ہوئے بھی نہ دیکھا جاسکا۔ کراچی میں 92 ہزار افراد کتے، بلیوں اور چوہوں کی طرح مار دیے گئے اور ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ، سول اسٹیبلشمنٹ اور عدالتی اسٹیبلشمنٹ نے 92 ہزار لاشوں کے بوجھ کو ’’ہینڈل‘‘ کرکے دکھا دیا۔ مگر پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ، عمران خان کی حکومت اور عدالتی اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف کی ’’امکانی موت‘‘ کا بوجھ اٹھانے سے بھی صاف انکار کردیا اور انصاف کے ہر تصور پر تھوک دیا۔ کیا میاں نوازشریف کی امکانی موت آدھے پاکستان کی موت اور آدھی پاکستانی قوم کی حقیقی موت سے بھی زیادہ بڑا سانحہ ہے؟ سوال یہ ہے کہ آخر میاں نوازشریف میں ایسے کون سے موتی جڑے ہیں جن کی وجہ سے اُن کی جان اللہ کے نظام قانون اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس روایت سے بھی زیادہ قیمتی ہے جو انصاف کے حوالے سے مرتب ہوئی ہے؟
اتفاق سے میاں نوازشریف کی سب سے اہم قدر وقیمت کی نشاندہی خود میاں نوازشریف کے صحافتی کیمپ کے ایک ’’سپاہی‘‘ حذیفہ رحمن نے اپنے کالم میں کھل کر کی ہوئی ہے۔ حذیفہ رحمن کی اہمیت یہ ہے کہ وہ شریف خاندان کے اتنے وفادار اور اتنے قریبی ہیں کہ انہوں نے روزنامہ جنگ کے ایک کالم میں لکھا:
’’سول اور عسکری تعلقات کے حوالے سے شہبازشریف کے جو نظریات ہیں، شاید مجھ سے بہتر کوئی نہ جانتا ہو‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 5 اکتوبر 2017ء)
اسی کالم میں حذیفہ رحمن نے میاں نوازشریف میں جڑے ہوئے سب سے اہم اور قیمتی موتی کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا:
’’پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ ’’پنجابی سیاست دان‘‘ اور ’’متحرک قوتوں‘‘ کا آمنا سامنا ہوا ہے۔ اِس مرتبہ اکھاڑہ پنجاب ہے۔ ’’پنجابی سیاست دان‘‘ (یعنی نوازشریف) کو مائنس کرنا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 5 اکتوبر 2017ء)
حذیفہ رحمن کا یہ کالم کئی اعتبار سے اہم ہے۔ اس کالم سے معلوم ہوتا ہے کہ نوازشریف کو اُن کے سیاسی و صحافتی حلقے میں کس طرح دیکھا جاتا ہے۔ حذیفہ رحمن کے اس کالم میں ’’متحرک قوتوں‘‘ سے مراد فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے، اور حذیفہ کو اس بات کا شعور ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو میاں نوازشریف سے مقابلے میں دشواری کا سامنا ہے، کیونکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کی قوت کا مرکز پنجاب ہے۔ حذیفہ کے کالم سے عیاں ہے کہ انہیں دو سال پہلے بھی معلوم تھا کہ متحرک قوتوں کے لیے ’’پنجابی رہنما‘‘ کو سیاست سے “Minus” کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اتفاق سے ان کا تجزیہ سو فیصد درست ثابت ہوا ہے۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اللہ کی ’’رسّی ‘‘ کو مضبوطی سے تھام لو۔ مگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں کوئی کہہ رہا ہے ’’فوجی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو۔ کوئی فرما رہا ہے پنجابیت کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ کوئی کہہ رہا ہے مہاجریت کی رسّی کے سوا تمہارے کچھ کام نہیں آئے گا۔ کوئی کہہ رہا ہے سندھیت کی رسّی ہی اصل چیز ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں اللہ کی رسّی کے بجائے تعصبات کی رسیوں کو پکڑنے کا عمل ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسجد میںگھس کر شعوری طور پر پیشاب کردے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’جو تعصب پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ اسلام انسانوں کو ’’قبائلیت‘‘ سے بلند کرنے آیا تھا، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر طرف قبائلیت چل رہی ہے ۔ حکمران قبائلیت کی بنیاد پر سوچتے ہیں، یہاں تک کہ عدالتیں بھی قبائلیت کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت بدعنوانی کے الزام کے تحت برطرف ہوتی ہے اور سپریم کورٹ اسے بحال کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ میاں نوازشریف کی حکومت بدعنوانی کے الزام پر برطرف ہوتی ہے اور وہی سپریم کورٹ میاں صاحب کی حکومت کو بحال کردیتی ہے۔
میاں نوازشریف کی بیماری کے حقیقی یا غیر حقیقی ہونے پر ہر اہم سرکل میں گفتگو ہورہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی زندگی میں اس قدر جھوٹ موجود ہے کہ سچ ’’مشتبہ‘‘ لگتا ہے اور جھوٹ پر ’’مستند‘‘ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ اتفاق سے ہم اس وقت ’’مابعد صداقت معاشرے‘‘ یا “Post Truth Society” کا حصہ ہیں۔ آپ اس اصطلاح کی ’’غرابت‘‘ سے گھبرائیں نہیں۔ آسان لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں ’’تاثر‘‘ اصل ’’حقیقت‘‘ سے زیادہ قوی ہوگیا ہے۔ اس کی ایک بہت ہی بڑی مثال یہ ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے صدام حسین کے عراق کے حوالے سے اس ’’تاثر‘‘ کو پروان چڑھایا کہ اس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ حالانکہ ’’حقیقت‘‘ یہ تھی کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے۔ مگر جب ہزاروں ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات نے یہ ڈھول پیٹنا شروع کیا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں تو ہتھیاروں کی موجودگی کا ’’تاثر‘‘ اس حقیقت سے کروڑوں گنا قوی ہوگیا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اب ’’صداقت‘‘ سے زیادہ اہم کسی چیز کے ہونے کا وہ ’’تاثر‘‘ یا ’’گمان‘‘ ہے جسے ذرائع ابلاغ یا کسی اور چیز کی قوت کے ذریعے ہر طرف پھیلا دیا گیا ہو۔ ہمارے زمانے میں ذرائع ابلاغ کی ’’ابلاغی قوت‘‘ ایک ’’جادو‘‘ بن گئی ہے۔ اگر دوپہر بارہ بجے ہر چینل یہ کہنا شروع کردے کہ اِس وقت رات ہورہی ہے تو کروڑوں لوگوں کو چند لمحوں کے لیے اپنی آنکھوں پر شبہ ہوجائے گا۔ اس تناظر میں ممکن ہے کہ میاں نوازشریف واقعتاً شدید بیمار ہوں، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ ذرائع ابلاغ کی طاقت کے ذریعے اُن کی بیماری کے ’’تاثر‘‘ کو اُن کے بیمار نہ ہونے کی ’’حقیقت‘‘ پر غالب کردیا گیا ہو۔ میاں نوازشریف کی صحت ایک ’’راز‘‘ ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے جیل میں اپنے نجی معالجین کے سوا کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔ چنانچہ یا تو میاں صاحب اور اُن کے اہلِ خانہ جانتے ہیں کہ وہ بیمار ہیں یا نہیں، یا پھر اسٹیبلشمنٹ اپنی ’’معلومات‘‘ کی بنیاد پر جانتی ہے کہ میاں صاحب صحت مند ہیں یا بیمار؟ میاں نوازشریف کی صحت کے حوالے سے شک و شبہ کی وجہ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات بھی ہیں۔ اس کی ایک ٹھوس مثال یہ ہے کہ 27 اکتوبر 2019ء کی رات اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’’دی رپورٹرز‘‘ میں چودھری غلام حسین نے دعویٰ کیا کہ میاں صاحب کی ضمانت ڈیل کا نتیجہ ہے، ورنہ میاں صاحب کی صحت ٹھیک ہے، وہ خوب کھا پی رہے ہیں، صبح سے شام تک لوگوں سے مل رہے ہیں، گپیں لگا رہے ہیں۔ چودھری غلام حسین نے پروگرام کے میزبان صابر شاکر سے کہاکہ آپ تو باخبر صحافی ہیں، آپ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے کہ کیا ڈیل ہورہی ہے؟
اہم بات یہ ہے کہ صابر شاکر نے چودھری غلام حسین کی کسی بات کی تردید نہ کی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں صحافی اسٹیبلشمنٹ سے قربت کے لیے معروف ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ڈیل اور ڈھیل کی باتوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر سخت ناراض ہوئے، انہوں نے نجی ٹی وی چینلز کے پانچ میزبانوں کو عدالت میں طلب کرکے انہیں توہینِ عدالت کا نوٹس دے دیا۔ معزز ججوں نے فرمایا: کیس بعد میں آتا ہے، میڈیا ٹرائل پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ عسکری اداروں اور وزیراعظم کو بدنام کیا جارہا ہے۔ عدلیہ پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے۔ ٹی وی پر ریڑھی والے کی زبان استعمال ہورہی ہوتی ہے اور پیمرا انجوائے کررہا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں عدلیہ کے ادارے کی تاریخ افسوس ناک ہی نہیں، شرمناک بھی ہے۔ یہ اعلیٰ عدالتوں کے معزز جج صاحبان ہی ہیں جنہوں نے ہر آنے والے فوجی آمر کو سندِ جواز سے نوازا۔ جسٹس منیر نے ایک منتخب وزیراعظم کی برطرفی کو نظریۂ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا۔ یہ سپریم کورٹ کے معزز جج ہی تھے جنہوں نے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دبائو میں آکر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی اور معاشرے کو ’’جوڈیشل مرڈر‘‘ کی اصطلاح کا تحفہ دیا۔ شہبازشریف اور جسٹس قیوم کی گفتگو کی آڈیو پوری دنیا سن چکی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی ہماری معزز عدالت نے سانحہ ساہیوال کے تمام مجرموں کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا۔ ماتحت عدالتوں کا یہ حال ہے کہ وہاں لوگ کہتے ہیں وکیل نہ کرو جج کر لو۔ یہ صورتِ حال ذرائع ابلاغ کی پیدا کردہ نہیں ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالتیں مدتوں سے سیاسی فیصلے کر رہی ہیں، چنانچہ ان کے بارے میں گفتگو ضرور ہوگی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو ججوں کو ذرائع ابلاغ کے ہاتھوں توہینِ عدالت کا خیال تو آگیا، مگر ہماری عدالتوں کو ذرائع ابلاغ یعنی ٹیلی وژن کی اسکرین اور اخبارات کے صفحات پر ہونے والی ’’توہینِ اسلام‘‘ نظر نہیں آتی۔ ٹی وی کی اسکرین پر عریانی و فحاشی کا سیلاب نظر نہیں آتا۔ عورت کی تذلیل دکھائی نہیں دیتی۔ تہذیب اور تاریخ کا قیمہ بنتا ہوا نظر نہیں آتا۔ انہیں فکر ہے تو اس بات کی کہ جج ڈیل کا حصہ ہوں مگر اس کا ذکر کہیں نہ ہو۔ کیا میاں نوازشریف 2000ء میں جنرل پرویزمشرف کے ساتھ ڈیل کرکے ملک سے فرار نہیں ہوئے تھے؟ اور کیا اس ڈیل نے انصاف کے اصولوں کی دھجیاں نہیں اڑائی تھیں؟ چنانچہ ذرائع ابلاغ کو اگر ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ اور میاں نوازشریف کے درمیان ڈیل ہوتی نظر آرہی ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے! ویسے بھی اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ صرف اپنا ’’تجزیہ‘‘ پیش کررہے ہیں۔ تجزیہ غلط بھی ہوسکتا ہے اور صحیح بھی۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کام ’’مجرموں والے‘‘ کرتے ہیں مگر عزت ’’اولیاء‘‘ کی درکار ہوتی ہے۔
میاں نوازشریف کے سلسلے میں بنیادی بات یہ نہیں ہے کہ وہ بیمار ہیں، بلکہ ان کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ قومی مجرم ہیں اور انہیں ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے سزائیں دی ہیں۔ مگر میاں نوازشریف کا سیاسی اور صحافتی کیمپ میاں صاحب کی بیماری اور زندگی کو ملک و قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ بلاشبہ علاج کا حق مجرموں کو بھی حاصل ہے، مگر بیماری کی آڑ میں قومی مجرم کو ’’ہیرو‘‘ اور ’’بیچارہ‘‘ بناکر پیش کرنا بجائے خود ایک بہت بڑا روحانی اور اخلاقی جرم ہے۔ بدقسمتی سے میاں نوازشریف کے ’’سیاسی اور صحافتی مجاہد‘‘ نہ صرف یہ کہ میاں صاحب کی عوامی مقبولیت کو ان کے سلسلے میں حتمی معیار اور حتمی تناظر بنانے کی کوشش کررہے ہیں، بلکہ وہ میاں نوازشریف کو ’’پنجابی عصبیت‘‘ کی علامت کے طور پر اُبھار کر قومی زندگی کی زہر آلودگی میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس حوالے سے حذیفہ رحمن کے کالم کی مثال ہم پیش کرچکے، اب آپ جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور میاں نوازشریف کے ’’صحافتی مجاہد‘‘ خورشید ندیم کے تازہ ترین کالم کے دو اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔ ’’فاتح نوازشریف‘‘ کے عنوان کے تحت لکھے گئے کالم میں خورشید ندیم نے لکھا:
’’نوازشریف کا سب کچھ چھینا جاچکا تھا، صرف جان باقی تھی۔ جان کے لالے پڑے تو حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اُسے اندازہ ہوا کہ جو لاوا پک چکا اب بہنے کو ہے۔ خدانخواستہ انہیں کچھ ہوا تو پاکستان بالخصوص پنجاب میں نفرت اور انتقام کی وہ لہر اُٹھ سکتی ہے جس کے سبب کسی کے سر پر تاج باقی رہنا مشکل ہوجائے گا۔ چنانچہ نوازشریف کو رہائی دینی پڑی۔‘‘
(روزنامہ دنیا۔ 28 اکتوبر 2019ء)
شریف خاندان اور نواز لیگ کہہ رہی ہے کہ میاں نوازشریف کی بیماری پر کوئی سیاست نہ کرے۔ مگر میاں نوازشریف کا پورا کیمپ اُن کی بیماری پر پوری بے حیائی کے ساتھ سیاست کررہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ شریف کیمپ ایک جانب میاں صاحب کی بیماری کو پستول کی طرح استعمال کررہا ہے، دوسری جانب وہ انہیں بیماری کی آڑ میں ’’مجرم‘‘ سے ’’ہیرو‘‘ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ آخر شریف کیمپ یہ کیوں نہیں کہہ رہا کہ میاں صاحب کو علاج کی بہترین سہولتیں دی جائیں؟ آخر شریف کیمپ یہ کیوں کہتا نظر آرہا ہے کہ میاں صاحب کی تمام سزائیں معاف کردی جائیں؟ یہاں خورشید ندیم سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ جب 1971ء میں ملک ٹوٹا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے تو پورے مغربی پاکستان اور پنجاب میں سقوطِ ڈھاکا کے ذمے داروں کے خلاف اندر ہی اندر لاوا کیوں نہ پکا اور بالآخر کیوں نہ بہا؟ اور آخر میاں صاحب کے لیے یہ لاوا کیوں پک رہا ہے اور کیوں بہنے پر آمادہ ہے؟ خورشید ندیم کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ خدانخواستہ میاں صاحب کو کچھ ہوا تو ان کے الفاظ میں ’’بالخصوص پنجاب‘‘ میں ہی کیوں نفرت اور انتقام کی لہر اُٹھے گی؟ خیر یہ تو نرم بات تھی، اب آپ خورشید ندیم کے کالم کا اصل اقتباس ملاحظہ فرمائیے، لکھتے ہیں:
’’پہلی بات تو نوازشریف کی عصبیت ہے۔ وہ پاکستان کے سب سے مقبول عوامی رہنما ہیں۔ یہ عصبیت چالیس سالہ سیاست کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ میں یہ بات تکرار کے ساتھ لکھتا رہا ہوں کہ جب کسی ایک فرد کو ’’سیاسی عصبیت‘‘ حاصل ہوجاتی ہے تو اُس کے ساتھ عام آدمی جیسا معاملہ نہیں کیا جاسکتا۔ قانون ایسے فرد کے خلاف اس طرح متحرک نہیں ہوسکتا جیسے وہ عام حالات میں متحرک ہوتا ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 28 اکتوبر 2019ء)
پوری قوم کو اس بات پر خورشید ندیم کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے محبوب رہنما کے ظاہر و باطن اور ان کی طاقت کے اصل مرکز کو عیاں کردیا۔ ذرا خورشید ندیم یہ تو بتائیں کہ میاں نوازشریف کی ’’سیاسی عصبیت ‘‘ کی تعریف کیا ہے؟ کیا میاں صاحب کی سیاسی عصبیت ’’اسلامی عصبیت‘‘ ہے؟ کیا میاں نوازشریف کی سیاسی عصبیت برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی ’’تہذہبی عصبیت ہے؟ کیا میاں صاحب کی سیاسی عصبیت ’’پاکستانیت‘‘ کی عصبیت ہے؟ یا میاں صاحب کی عصبیت پنجاب کی عصبیت ہے؟ ظاہر ہے کہ میاں صاحب کبھی اسلامی عصبیت کے ترجمان نہیں رہے۔ انہوں نے آج تک برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ وہ کبھی ’’پاکستان کی عصبیت‘‘ کے ترجمان بھی نہیں رہے۔ چناں چہ لے دے کر پنجاب یا پنجابیت کی عصبیت ہی رہ جاتی ہے۔ تو کیا میاں صاحب چالیس سال سے پنجاب کی عصبیت کی سیاست کررہے ہیں؟ اگر ہاں، تو خورشید ندیم نے اس کا ذکر اتنے فخر اور اہمیت کے ساتھ کیوں کیا ہے؟ کیا ایک مسلمان اور ایک اسلامی ریاست کے لیے لسانی یا صوبائی عصبیت بڑے فخر کی بات ہے؟ تو کیا پاکستان پنجابی عصبیت، مہاجر عصبیت، سندھی عصبیت، بلوچ عصبیت، پشتون عصبیت اور فوجی عصبیت کے لیے قائم کیا گیا تھا؟ کیا نوازشریف کیمپ اسی عصبیت کو بروئے کار لاکر پاکستان کو خورشید ندیم کے الفاظ میں ’’نفرت اور انتقام‘‘ سے بھر دینا چاہتا ہے؟ بلاشبہ میاں صاحب کو ’’قومی رہنما‘‘ بننے کے بڑے مواقع ملے، مگر انہوں نے کبھی پنجاب سے اوپر اُٹھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ وہ جب اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کررہے تھے تب بھی جاگ پنجابی جاگ کے نعرے لگارہے تھے، اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کے بقول چند سال پہلے میاں نوازشریف کے برادرِ خورد میاں شہبازشریف گریٹر پنجاب کی سیاست کرتے ہوئے پائے گئے تھے، اور اب جبکہ میاں نوازشریف قومی وسائل کی لوٹ مار کے تحت زیر عتاب ہیں تو اُن کا کیمپ پنجاب کی عصبیت کو ہوا دینے کے لیے کوشاں ہے۔
بلاشبہ میاں نوازشریف کی موت کے اندیشے نے چند روز پیشتر عمران خان، تحریک انصاف، نیب اور اعلیٰ عدالتوں ہی کی نہیں، اسٹیبلشمنٹ کی بھی ساری قوتِ فکر و عمل سلب کرلی تھی۔ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب آپ کا کوئی نظریہ نہ ہو، جب آپ کی کوئی اخلاقیات نہ ہو۔ مگر چند دن گزرنے کے بعد عمران خان کی قوتِ فکر و عمل بھی بحال ہوئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے کہ وہ کسی لٹیرے کو این آر او نہیں دیں گے۔ نیب نے العزیزیہ کیس میں میاں نوازشریف کی ضمانت کی مزاحمت کی، اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی مذکورہ مسئلے میں میاں صاحب کو طبی بنیادوں پر 8 ہفتے کا ریلیف دیا ہے۔ میاں صاحب بیمار ہیں تو انہیں علاج کی سہولتیں ملنی چاہئیں۔ وہ بیرونِ ملک سے معالج بلانا چاہیں تو انہیں اس کی بھی اجازت ہونی چاہیے، مگر ان کو قومی مجرم سے قومی ہیرو بنانے کی ہر کوشش کی مزاحمت ہونی چاہیے۔ خورشید ندیم فرماتے ہیں کہ جب فرد سیاسی عصبیت پیدا کرلیتا ہے تو پھر قانون اسے اس طرح Treat نہیں کرسکتا۔ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر فاطمہؓ بھی چوری کرتیں تو ان کا ہاتھ کاٹا جاتا۔ تو کیا معاذاللہ میاں نوازشریف حضرت فاطمہؓ سے بھی زیادہ مکرم و محترم ہیں؟ آخر نوازشریف کیمپ پاکستانی معاشرے کو کتنا ابتر بنانا چاہتا ہے!
ان سطور کی اشاعت تک مولانا فضل الرحمن اپنے آزادی مارچ کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ شریف خاندان کو اس مارچ سے بڑی اُمیدیں ہیں۔ روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر کے مطابق مولانا نے اس مارچ پر ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مولانا اسلام آباد میں کچھ کرنے آرہے ہیں۔ بظاہر ان کے اور انتظامیہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت مولانا ایک خاص مقام پر جلسے کے پابند ہیں، مگر ہماری سیاست اصولوں کی نہیں طاقت کی سیاست ہے۔ چنانچہ اسلام آباد میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ میاں نوازشریف جو کچھ بھی ہیں ہم اُن کی قوت اور اثرات کو “Under Estimate” نہیں کرسکتے۔ وہ ملک کے واحد سیاست دان ہیں جو ایک سے زیادہ مواقع پر فوج کے ڈسپلن کو توڑ چکے ہیں۔ ہماری فوج کا ڈسپلن ایسا ہے کہ ملک ٹوٹ جاتا ہے مگر فوج کا ڈسپلن نہیں ٹوٹتا۔ مگر میاں صاحب فوج کا ڈسپلن توڑ کر ضیاء الدین بٹ تخلیق کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اُن کی یہ صلاحیت کم نہیں ہوئی، اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ان کی بیماری نے خورشید ندیم کی اصطلاح میں ان کی ’’سیاسی عصبیت‘‘ کو بڑھا دیا ہے۔