سیاسی زلزلے کا مرکز کہاں ہے
مولانا فضل الرحمان اپنے آزادی مارچ پہ روانہ ہوچکے ہیں، اور اُن کے ساتھ کُل جماعتی کانفرنس کی تمام جماعتیں شامل ہیں۔ مارچ کی ابتدا اگرچہ جان دار ہے لیکن اس کے باوجود ابھی معاملہ جلوس اور اسلام آباد میں 31 اکتوبر کو جلسے تک ہی محدود لگتا ہے، تاہم حافظ حمداللہ کی شہریت منسوخ کیے جانے، مفتی کفایت اللہ کی گرفتاری، اور فاٹا میں جے یو آئی کے رہنما پر قاتلانہ حملے نے تلخی پیدا کردی ہے۔ اب چاہے مختصر ہی ہو، احتجاج کی شکل کچھ بھی ہو، یہ صورت حال چند روز لے سکتی ہے۔ اگرچہ جلسے کی جگہ کا بھی فیصلہ ہوچکا ہے لیکن اسلام آباد کسی بھی لمحے میدانِ جنگ بن سکتا ہے۔ ایک منظر تو یہ ہے کہ حکومتی ٹیم اور کل جماعتی کانفرنس کی رہبر کمیٹی میں دو ملاقاتوں میں ہی مولانا فضل الرحمان اور رہبر کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کے استعفے کی شرط منوائے بغیر اس شرط پر مذاکرات شروع کردیئے کہ اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دی جائے۔ سچ یہ ہے کہ مذاکرات کا اندرونی ماحول نہایت مضحکہ خیز تھا۔ حکومتی ٹیم کے ہاتھوں میں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں کی نقول تھیں جن میں دھرنے کے خلاف فیصلہ دیاگیا تھا اور حقِ اجتماع کی حدود و قیود بیان کی گئی تھیں۔ 126روزہ دھرنا کرنے والی حکومتی ٹیم کا اصرار تھا کہ اپوزیشن جلسہ کرے اور دھرنا نہ دے۔ پارلیمنٹ ہاؤس سے آٹھ کلومیٹر دور جلسہ کرنے پر اتفاق کے باوجود حکومت اس قدر خوف زدہ ہے کہ پورا شہر بند کررکھا ہے۔ حکومت کو خطرہ ہے کہ اسلام آباد پہنچ کر آزادی مارچ کی قیادت فیصلہ تبدیل کرسکتی ہے۔
جے یو آئی کا آزادی مارچ کیوں شروع ہوا؟ اس سوال کا ہر پہلو سے جواب موجود ہے، لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکومت اس سے خوف زدہ کیوں ہے؟ لانگ مارچ اور دھرنے کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، لیکن اس سے پاکستان میں ایک نیا سیاسی منظرنامہ ابھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ دو سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے نجات حاصل کرنے کی ایک سوچ پائی جاتی تھی، سوچا گیا کہ تحریک انصاف ان دونوں سیاسی جماعتوں کا سیاسی خلا پُر کرسکتی ہے۔ اس سوچ نے لوگوں کے ذہنوں میں جو سیاسی اسکیم ڈالی تھی، بدقسمتی سے وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کے بارے میں جیسا سوچا گیا ویسا نتیجہ نہیں ملا۔ لہٰذا اب جے یوآئی کے آزادی مارچ اور حکومت کے خوف کی وجوہات جاننے کے لیے ہمیں کچھ ایسے حقائق پر بات کرنا ہوگی جو ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ یہ حقائق ہیں کہ انہیں ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے اقتدار ملا، ان کی خامیاں بھی ہیں اور خوبیاں بھی۔ خوبی یہی ہے کہ مستقل مزاج ہیں۔ لیکن خامیاں خوبیوں پر بھاری ہیں۔ عمران خان میں پانچ بڑی خامیاں ہیں۔ (1) ان میں عاجزی نہیں ہے، (2) ان کا سیاسی اور معاملات کو سمجھنے کا علم سطحی سا ہے‘ (3) خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں، (4) نکمے لوگوں کی ٹیم بنائی ہے، اور (5) مغرور ہیں اور ہر وقت تکبر میں رہتے ہیں۔ عمران خان کو لانے والے بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ حکومت میں صرف عمران خان ان کے لیے قابل قبول ہیں، ان کی ٹیم میں کوئی ایسا نہیں جسے بھروسے کے قابل سمجھا جائے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آزادی مارچ کے بعد وزیراعظم کی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئے گی۔
آزادی مارچ کا پس منظر یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے ہوئے بمشکل ڈیڑھ سال ہوا ہے، اتنے کم عرصے میں اسے حکومت مخالف لانگ مارچ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو اس کی کچھ تو وجہ ہوگی۔ اس حکومت کے بارے میں آغاز سے ہی ایک رائے موجود ہے کہ اسے لایا گیا ہے، اور یہ رائے بلاسبب بھی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے بھی کبھی اس رائے کو مسترد نہیں کیا بلکہ مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے ہر حد تک اس سے اپنے لیے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہی۔ آج کے سیاسی بحران کے تجزیے کے لیے صرف ایک سال پیچھے جانا ہوگا کہ جب اقتدار میں آنے کے پہلے چھ ماہ تحریک انصاف کی حکومت کو دیئے گئے کہ وہ معاملات کو سمجھ جائے اور اس کے بعد وہ ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کے قابل ہوجائے گی۔ اس حکومت کے لیے اپوزیشن اور میڈیا دونوں کو باقاعدہ ہدف بناکر کام کیا گیا اور انہیں ایک حد میں رکھا گیا۔ میڈیا سے کہا گیا کہ وہ چھ ماہ تک تنقید نہیں صرف ترقی دکھائے۔ میڈیا نے اس حکم کی پابندی کی اور حکومت کے لیے بہت نرم گوشہ رکھا۔ اسی طرح اپوزیشن کے لیے سیاسی کھیل کا میدان تنگ اور محدود کردیا گیا، بلکہ اسے مقدمات میں الجھا دیا گیا۔ خالی میدان مل جانے کے باوجود حکومت کہیں نظر نہیں آرہی تھی، پہلے چھ ماہ گزرنے کے بعد حکومت سے کہا گیا کہ اب وہ ماضی کو کوسنے کے بجائے کام کرے، سیاسی اور پارلیمانی روایات کو اہمیت دے اور اپنے طرزِعمل میں بھی بہتری لائے، معیشت بہتر بنانے کے لیے قابلِ عمل فیصلے کرے۔ لیکن حکومت کے پاس کوئی قابلِ عمل منصوبہ نہیں تھا، وہ صرف ماضی کی حکومتوں کو کوستی رہی اور ملک کی بیوروکریسی سے بھی الجھتی رہی۔ اس کے باوجود حکومت کو کچھ عرصہ مزید مہلت دی گئی اور پانی سر سے گزرنے لگا تو حکومت سے اپنی معاشی ٹیم تبدیل کرنے کی سخت تنبیہ کردی گئی، جس کے نتیجے میں اسد عمر سے وزارت واپس لے کر اُن کی جگہ آزمودہ کار حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ بنایا گیا، اور شبر زیدی کی خدمات لے کر انہیں ایف بی آر میں تعینات کیا گیا، اور ڈالر کنٹرول کرنے کے لیے باقر رضا کے ذریعے اسٹیٹ بینک میں بھی تبدیلیاں لائی گئیں۔ یوں وزیراعظم کو باقاعدہ ایک نئی معاشی ٹیم بناکر دی گئی۔ اس ٹیم نے معیشت کی ایک سمت متعین کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم ابھی تک اسے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی پالیسیوں سے عوام کو کب ریلیف ملے گا؟ اس کے بارے میں تحریک انصاف والے بھی کچھ نہیں جانتے۔ حکومت آئی ایم ایف سے قسط وار قرضے لے کر معیشت کو مزید کمزور کرچکی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں 800 سے لے کر 950 پوائنٹس گرنا اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے آبادی کے تمام گروہ اور طبقات یکساں پریشان ہیں، اور وہ اپنے اپنے انداز میں تحفظات کا اظہار اور احتجاج کررہے ہیں۔ ملکی معیشت کا حال یہ ہے کہ عام صارف کے لیے بجلی، گیس کے بل وبالِ جان بن چکے ہیں۔ پورے ملک میں معیشت کا پہیہ جام ہے۔
نیب کی مزید کارروائیاں بیوروکریٹس کو بھی کھَل رہی ہیں۔ تاجر اور صنعت کار جو ایف بی آر کی ہٹ دھرمی سے بیزار ہوچکے ہیں، اپنا لائحہ عمل ترتیب دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹروں کی ہڑتالیں اور وکلا کی بے چینی اب آخری حدوں کو چھورہی ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، اوپر سے لاقانونیت بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ پھر مرکز اور صوبوں میں تناؤ کھل کر سامنے آچکا ہے۔ وفاقی سیکریٹریز بھی ہر ماہ اجلاس کرتے ہیں جس میں تمام اہم ایشوز زیر بحث لائے جاتے ہیں، اس اجلاس کو سیکریٹریز کمیٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے ہر اجلاس میں نیب زیر بحث رہا کہ یہ گڈگورننس اور سروس ڈیلیوری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ سیکریٹریز کمیٹی کے مطابق نیب اقدامات سے حکومت اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے قابل نہیں رہے گی، فیصلہ سازی کے لیے بیوروکریسی کو منصفانہ اور سازگار ماحول کی فراہمی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے نیب نے فیصلہ سازی میں شامل ہر فرد سے سوالات کرنا شروع کردیے ہیں، معمولی وجوہات پر بیوروکریسی کو سمن اور گرفتاریاں ناقابلِ قبول ہیں، آفیسرز کو بغیر ٹھوس ثبوت کے بلایا اور ڈرایا جاتا ہے۔ بیوروکریسی نے اپنے اجلاس میں یہ بھی کہا کہ سول سرونٹس کی تضحیک گڈ گورننس کے اصولوں کے منافی اور ناقابلِ قبول ہے۔
وزیراعظم کی دوسری بڑی ناکامی اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ نہ ملانا ہے، بلکہ اپنی تسکین کے لیے وہ اسے دیوار میں چن دینا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن سے ہاتھ نہ ملانے کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی نہیں ہورہی، متعدد بار بلائے گئے اجلاس بھی ملتوی کرنا پڑے ہیں۔ حکومت اپوزیشن آئینی ورکنگ ریلیشن شپ نہ ہونے سے الیکشن کمیشن میں دو ارکان کی تقرری کا معاملہ اس وقت متنازع بنا ہوا ہے، بلکہ چیف الیکشن کمشنر نے حکومت کے بھیجے ہوئے دونوں نام مسترد کردیے ہیں، یوں الیکشن کمیشن اور حکومت ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں دو ارکان کی تقرری خالصتاً ایک آئینی معاملہ ہے جس میں وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف کے مابین باقاعدہ بامعنی مشاورت ہونا لازمی ہے، لیکن اسے حکومت نے اپنی نااہلی کی وجہ سے متنازع اور کسی حد تک سیاسی بنادیا ہے۔ تحریک انصاف کا غیر ملکی فنڈنگ کیس بھی ایک امتحان سے کم نہیں ہے۔ سیاسی خرابی یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے قانون سازی کے بجائے معاملات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چلائے جارہے ہیں، حتیٰ کہ نیب قانون میں ترمیم بھی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لائے جانے کی تجویز کو اہمیت دی گئی۔ ویسے تو اور بہت سے مسائل ہیں، لیکن یہ چند بڑے مسائل ہیں، اس لیے ان کا ذکر مناسب سمجھا۔
جب یہ حکومت قائم ہوئی تھی تو خیال یہ تھا کہ وزارتِ اطلاعات، داخلہ، خزانہ، خارجہ اور وزارت دفاع مل کر ایک ایسی حکمت عملی بنائیں گی کہ جس سے ملکی سلامتی کے تمام پہلو اور تقاضے ہم آہنگی کے ساتھ پورے کیے جاسکیں۔ حکومت بری طرح اس میں ناکام ہوئی ہے۔ خارجہ محاذ پر حکومت امریکہ پر ضرورت سے بہت زیادہ انحصار کررہی ہے، کشمیر ایک ایسا نکتہ ہے جس کے لیے حکومت اور وزیراعظم کا کہیں بھی ہوم ورک نظر نہیں آیا۔ وزیراعظم کا ویژن یہ ہے کہ کشمیر کے یوم سیاہ کے روز کشمیر کی یاد میں پودا لگایا۔ وزارتِ خارجہ کے سفارت کاروں کا گلہ ہے کہ اُن کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ خارجہ محاذ پر ایک بڑا امتحان یہ درپیش ہے کہ چین ناراضی اور تحفظات کا اظہار کررہا ہے، افغانستان کے حالات سنجیدہ رویّے کے متقاضی ہیں، پاکستان کے تزویراتی مفادات دیکھے بغیر کیسے اسلام آباد کسی معاہدے کی حمایت کرسکتا ہے! لیکن حکومت کی کوئی واضح رہنمائی کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔ چین اور امریکہ کے بلاکس میں سے کسی ایک کا انتخاب بھی پاکستان کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے، کیونکہ اس وجہ سے بھی پاکستان پر بہت زیادہ بیرونی دباؤ ہے، لیکن حکومت حکمت عملی سے خالی ہے۔ نئے سیاسی منظرنامے میں نئی سیاسی قوتوں کا کردار بن رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیے بھی گنجائش پیدا ہورہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی صورت حال میں کس کو آگے آنے دیا جاتا ہے اور کس کو روکا جاتا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ تاجر ٹیکس چور ہیں، بیوروکریسی کام نہیں کرتی۔ تحریک انصاف کو آئین کی اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے وفاق چلانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، گویا حکومت نے کہیں بھی اپنی ناکامی اور نالائقی تسلیم نہیں کی، وہ سارا ملبہ دوسروں پر ڈال رہی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت کے خلاف جے یو آئی کیوں میدان میں اتری، جب کہ اسے نیب سمیت کوئی مشکل درپیش نہیں ہے؟ حکومت کے خلاف احتجاج اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) منظم کرتیں تو کہا جاتا کہ دونوں جماعتیں ذاتی چوٹیں سہلانا چاہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کے لیے اپوزیشن کی جماعت جے یو آئی مرکزِ انتخاب بنی ہے، اسی لیے حیرت انگیز طور پر اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں اس طوفان میں بہے چلی جارہی ہیں۔ وہ مولانا کو اپنا پیش امام مان چکی ہیں۔ یہ آزادی مارچ بھی اس بار بے لگام نہیں ہوگا، اسی لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا، جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ اپوزیشن ریڈ زون میں داخل نہیں ہوگی اور پارلیمنٹ ہاؤس اور ڈی چوک سے آٹھ کلومیٹر دور پشاور موڑ چوک میں جلسہ کرے گی۔ اس مارچ میں سب کچھ طے ہے کہ چارٹرڈ آف ڈیمانڈ وہی ہوگا جو فی الحال اس نظام کو ہلانے کے لیے بنیاد فراہم نہیں کرے گا۔ اپوزیشن کے آزادی مارچ کے شرکاء کی تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی، اصل معاملہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اپوزیشن اتنا ہی کلمہئ حق کہے گی جتنی اس کو اجازت ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کو فی الحال عارضی ہی سہی، ریلیف ملتے ہی دھرنا پلان بھی منسوخ کردیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم خان درانی نے واضح کردیا ہے کہ آزادی مارچ زیادہ طویل نہیں ہوگا، جبکہ مارچ وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون کی جانب بھی نہیں جائے گا۔ ممکنہ طور پر آزادی مارچ اسلام آباد میں ایک جلسے کے بعد ختم ہوجائے گا۔ اب اس احتجاج کے نتیجے میں اب تک جو ہوا اُسے ایک بڑی سیاسی پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔
بڑی اپوزیشن جماعتوں سے بھی یہی کہا جائے گا ریلیف پالینے کے بعد اب ملک میں سیاسی استحکام کی طرف آئیں تاکہ ملکی معیشت چل سکے اس آزادی مارچ کے بعد ملک میں اعلانیہ یا غیر اعلانیہ ایک نیا سیاسی سوشل کنٹریکٹ سامنے آجائے گا جس کی پاسداری حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی اس سارے منظر نامے کا اصل تجزیہ یہ ہے کہ حکومت اور آزادی مارچ کی نکیل ایک ہی ہاتھ میں ہے لہٰذا آزادی مارچ کا آغاز بھی معلوم ہے اور انجام بھی۔