بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
مؤرخین اور مصنفین کو خدا معاف کرے، مقدس سے مقدس مقامات اور افضل سے افضل اوقات میں بھی یہ تاریخی ذوق اور طرزِ فکر ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا، اور وہ چند لمحات کے لیے بھی اس سے آزاد نہیں ہوپاتے۔ وہ جہاں بھی ہوتے ہیں اپنے علم و مطالعے کی فضا میں سانس لیتے ہیں اور حال کا رشتہ ہمیشہ ماضی سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ مناظر کو دیکھ کر ان کا ذہن بہت جلد اُس تاریخی منظر کی تلاش میں نکل جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان مناظر کا وجود اور نمود ہے۔
مجھے کل روضہ نبویؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔ میرے چاروں طرف نمازیوں اور عبادت گزاروں کا زبردست مجمع تھا۔ ان میں کچھ لوگ سجدے میں تھے اور کچھ رکوع میں۔ تلاوتِ قرآن کی آوازیں فضا میں اس طرح گونج رہی تھیں جس طرح شہد کی مکھیاں اپنے چھتے میں بھنبھنا رہی ہوں۔ اس وقت کا سماں کچھ ایسا تھا کہ مجھے تاریخ اور تاریخی شخصیات کو تھوڑی دیر کے لیے فراموش کردینا چاہیے تھا، لیکن تاریخ کی قدیم یادیں بادلوںکی طرح میرے دل و دماغ پر چھا گئیں اور میرا ان پر کوئی زور نہ چل سکا۔
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس امت کی نامور شخصیتوں اور رہنمائوں کو ایک نئی زندگی عطا کی گئی ہے اور وہ وفود کی شکل میں یکے بعد دیگرے بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہورہے ہیں، اور اسی عظیم مسجد میں فریضۂ نماز ادا کرنے کے بعد اسی عظیم نبیؐ کو ہدیۂ سلام اور خراجِ عقیدت و محبت پیش کررہے ہیں اور اس کے احسان کا اعتراف کررہے ہیں، اور (طبقاتی اختلاف کے باوجود) اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ یہ وہی نبیؐ ہیں جنہوں نے اللہ کے حکم سے ان کو ظلمت سے روشنی کی طرف، تیرہ بختی سے خوش بختی کی طرف، مخلوق کی عبادت سے خدائے واحد کی عبادت کی طرف، مذاہب کے ظلم و استبداد سے اسلام کے عدل و انصاف کی طرف، اور دنیا کی تنگی سے اس کی کشادگی کی طرف نکالا۔ وہ اعتراف کررہے ہیں کہ وہ اسلام کی پیداوار ہیں اور ان کا سارا وجود اور زندگی نبوت کی مرہونِ منت ہے، اگر خدانخواستہ ان سے وہ سب واپس لے لیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس نبیؐ کے ذریعے عطا کیا تھا اور نبوت کے وہ عطیے ان سے چھین لیے جائیں جنہوں نے دنیا میں ان کو عزت و سرفرازی بخشی تھی تو ان کی حیثیت ایک بے روح اور بے جان ڈھانچے اور چند مبہم اور بے مقصد خطوط و اشکال سے زیادہ نہ جائے گی اور وہ تاریخ کے تاریک ترین عہد، جنگلیوں کے قانون و رہزنوں اور لٹیروں کی حکومت کی طرف واپس چلے جائیں گے اور موجودہ تہذیب و تمدن کا نام ونشان تک مٹ جائے گا۔
اچانک میری نگاہ ایک طرف اٹھ گئی۔ میں نے دیکھا کہ بابِ جبریل سے (جو مجھ سے سب سے زیادہ قریب تھا) ایک جماعت داخل ہورہی ہے، سکون و وقار میں ڈوبے ہوئے، ان کی پیشانی سے علم کا نور اور ذہانت کی روشنی صاف عیاں تھی۔ وہ باب الرحمت اور بابِ جبریل کے درمیانی حصے میں پھیل گئے، وہ اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ ان کے شمار کا کوئی سوال نہیں تھا۔ میں نے دربان سے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ اس نے کہا کہ اس امت کے امام اور رہنما، انسانیت کے محسن اور نوعِ انسانی کے ممتاز اور قابلِ فخر نمونے ہیں، ان میں سے ہر ایک پوری پوری قوم کا امام، پورے پورے کتب خانے اور مکتبِ فکر کا بانی اور موسس، پوری نسلِ انسانی کا مربی اور ہر علم و فن کا موجد ہے۔ ان کے لازوال آثار اور لافانی شاہکار اور نمونے آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کے علم و اجتہاد اور تحقیق کی روشنی میں کئی کئی نسلوں نے سفرِ زندگی طے کیا ہے۔ اس نے عجلت کے ساتھ چند ہستیوں کے نام بھی مجھے بتادیئے۔ حضرت مالک بن انسؓ، امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، لیث بن سعد مصریؒ، امام اوزاعیؒ، امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، تقی الدین بن تیمیہؒ، ابن قدامہؒ، ابواسحاق الشاطبیؒ، کمال ابن الہمامؒ، شاہ ولی اللہؒ دہلوی۔ یہ لوگ تھے جنہوں نے زمان و مکان کے تفاوت اور فرقِِ مراتب اور اختلافِ درجات کے ساتھ بارگاہِ نبویؐ میں خراجِ عقیدت پیش کیا اور اشکِ ندامت نذر کیے۔
میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے انہوں نے تحیتہ السجد کی دوگانہ بہت خشوع و خضوع اور حضوریِ قلب کے ساتھ ادا کی، پھر بہت ادب اور تواضع کے ساتھ قبرِ مبارک کی طرف بڑھے اور بہت جچے تلے، مختصر معانی سے لبریز گہرے اور پُرمغز کلمات کے ساتھ سلام پیش کیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آواز اس وقت بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور آواز میں رقت۔ وہ کہہ رہے تھے:
’’یارسول اللہ! اگر آپ کی لازوال، وسیع اور جامع، عادلانہ اور کشادہ شریعت نہ ہوتی، اور اس کے وہ اصول نہ ہوتے جن سے انسانی ذہن اور انسانی صلاحیت نے نئے نئے گل بوٹے پیدا کیے اور زمین کا دامن بیش قیمت اور عطر بیز پھولوں سے بھر دیا، اور اس کا وہ حکیمانہ اور معجزانہ نظام نہ ہوتا جس نے انسانی فکر و تدبر اور اخذ و استنباط کی صلاحیت کو بیدار کردیا، اور اگر انسانیت کو اس کی احتیاج نہ ہوتی تو نہ اس عظیم فقہ کا کوئی وجود ہوتا، نہ اس عظیم اسلامی قانون سے کوئی واقف ہوتا جس سے اس وقت ہر قوم کا دامن خالی تھا۔ نہ اتنا بڑا اسلامی کتب خانہ وجود میں آتا جس کے سامنے دنیا کا سارا مذہبی لٹریچر ہیچ ہے۔ اگر علم کی اشاعت اور خدا کی نشانیوں اور اس کی قدرتِ کاملہ میں غور و فکر اور استعمالِ عقل کے لیے آپ جدوجہد نہ فرماتے تو یہ شجرِ علم زیادہ دنوں تک برگ و بار نہ لاسکتا، اور نہ اس کی وہ اشاعت ہوتی جو آج نظر آرہی ہے۔ عقلِ انسانی پہلے کی طرح پابہ زنجیر ہوتی اور دنیا استفادے سے محروم‘‘۔
میں اس جماعت کو جی بھر کر دیکھ بھی نہ سکا تھا کہ میری نظر ایک دوسرے گروہ پر پڑی جو باب الرحمت سے ہوکر اندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ صلاح و تقویٰ اور زہد و عبادت کے آثار ان کے چہروں سے صاف ظاہر تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ اس جماعت میں حسن بصریؒ، عمر بن عبدالعزیزؒ، سفیان ثوریؒ، فضیل بن عیاضؒ، دائود الطائیؒ، ابن السمکؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، نظام الدین اولیاؒ اور عبدالوہاب المتقیؒ جیسے حضرات بھی رونق بخش ہیں، جنہوں نے قابلِ رشک پیش روئوں کی یاد تازہ کردی۔ نماز کے بعد یہ لوگ بھی قبرِ مبارک کے سامنے کھڑے ہوئے اور اپنے نبی و پیشوا اور سب سے بڑے معلم اور رہنماکو درود و سلام کا تحفہ پیش کرنے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے:
’’یارسول اللہ! اگر ہمارے سامنے وہ عملی مثال نہ ہوتی جو آپ نے پیش فرمائی تھی، اور وہ مینارۂ نور نہ ہوتا جس کو آپ نے بعد کے آنے والوں کے لیے قائم فرمایا تھا، اگر آپ کا یہ قول نہ ہوتا کہ ’’اے اللہ زندگی تو آخرت کی زندگی ہے‘‘، اگر آپ کی یہ وصیت نہ ہوتی کہ ’’دنیا میں اس طرح زندگی گزارو جس طرح کوئی مسافر یا راہی زندگی گزارتا ہے‘‘، اگر زندگی کا وہ طرز نہ ہوتا جس کا ذکر حضرت عائشہؓ نے اس طرح کیا ہے کہ ’’ایک چاند کے بعد دوسرا چاند اور دوسرے کے بعد تیسرا چاند نکل آتا تھا اور آپ کے گھر میں نہ آگ جلتی تھی نہ چولہے پر دیگچی چڑھانے کی نوبت آتی تھی‘‘ تو ہم دنیا پر اس طرح آخرت کو ترجیح نہ دے سکتے، اور ان ضروریاتِ زندگی پر جو صحت کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں، نہ ہم نفس کی ترغیبات پر قابو پاسکتے اور نہ دنیا کے حسن و جمال، اس کی رعنائی و زیبائی اور عہدہ و منصب کی طاقت اور کشش کا اس طرح مقابلہ کرسکتے‘‘۔
ان کے حکیمانہ الفاظ ابھی پوری طرح میرے دل اور دماغ میں پیوست بھی نہ ہوئے تھے کہ میری نظر ایک اور گروہ پر پڑی جو ’’باب النساء‘‘ سے بہت حجاب اور ادب کے ساتھ گزر رہا تھا۔ ظاہری آرائش اور آزاد روی کے ان مناظر سے جو اسلامی اصول و آداب کے منافی ہیں، یہ گروہ بالکل محفوظ اور خالی تھا۔ یہ مختلف قوموں اور دور دراز ملکوں کی صالح، عبادت گزار اور عفیف خواتین تھیں جو عرب و عجم اور مشرق و مغرب کے مختلف خطوں سے تعلق رکھتی تھیں، بہت دبی زبان میں اور پورا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ اپنے جذباتِ تشکر و عقیدت کا اظہار اس طرح کررہی تھیں:
’’ہم آپؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اے رسول اللہ، ایسے طبقے کا درود و سلام جس پر آپؐ کا سب سے بڑا احسان ہے، آپ نے ہم کو خدا کی مدد سے جاہلیت کی بیڑیوں اور بندشوں، جاہلی عادات و روایات، سوسائٹی کے ظلم اور مردوں کی زور دستی اور زیادتی سے نجات بخشی، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے رواج کو ختم کیا۔ مائوں کی نافرمانی پر وعید سنائی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے، آپؐ نے وراثت میں ہم کو شریک کیا اور اس میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے ہم کو حصہ دلایا۔ یومِ عرفہ کے مشہور تاریخی خطبے میں بھی آپؐ نے ہمیں فراموش نہیں کیا اور کہا کہ ’’عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کے نام کے واسطے سے حاصل کیا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر آپؐ نے مردوں کو عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک، ادائے حقوق اور بہتر معاشرت کی ترغیب دی۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو ہمارے طبقے کی طرف سے وہ بہتر سے بہتر جزا دے جو انبیا و مرسلین اور اللہ کے نیک اور صالح بندوں کو دی جاسکتی ہے۔‘‘
یہ نرم آوازیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں کہ ایک اور جماعت نظر آئی جو بابِ السلام کی طرف سے آرہی تھی۔ میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علوم و فنون کے موجد، مرتب اور آئمہ نحو و لغت و بلاغت کی جماعت تھی۔ ان میں ابوالاسود الاولی، خلیل بن احمد، سیبویہ، کسائی، ابوعلی الفارسی، عبدالقادر الجرجانی، السکاکی، مجدالدین فیروز آبادی، سید مرتضیٰ الزبیدی بھی تھے جو اپنے علوم کا سلام پیش کررہے تھے اور اپنی شہرت اور مرتبۂ علمی کا خراج ادا کرنے آئے تھے۔ میں نے دیکھا وہ بہت بلیغ اور ادبی الفاظ میں اس طرح گویا ہیں:
’’یارسول اللہ! اگر آپ نہ ہوتے اور یہ مقدس کتاب نہ ہوتی جو آؐپ پر نازل ہوئی، اگر آپؐ کی احادیث نہ ہوتیں اور یہ شریعت نہ ہوتی جس کے سامنے ساری دنیا نے سرِ تسلیم خم کردیا تھا اور وہ اس کی وجہ سے عربی زبان سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے پر مجبور تھی، تو پھر یہ علوم بھی نہ ہوتے جن میں آج ہم کو رہنمائی اور برتری کا شرف حاصل ہے۔ نحو، بیان اور بلاغت، ان میں سے کسی چیز کا بھی وجود نہ ہوتا۔ نہ یہ بڑی بڑی معاجم اور لغات نظر آتیں، نہ عربی زبان کے مفردات میں یہ نکتہ آفرینیاں اور دقیقہ سنجیاں ہوتیں، نہ ہم اس راستے میں اتنی زبردست اور طویل جدوجہد کے لیے تیار ہوتے۔ عجم کو (جس کے ہاں زبانوں اور لہجوں کی کوئی کمی نہ تھی) عربی سیکھنے اور اس پر عبور حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہ ہوتی، اور نہ ان میں وہ مصنفین اور اہلِ قلم پیدا ہوتے جن کے ادبی مرتبے اور مہارتِ فن کے اعتراف پر ادبائِ عرب بھی مجبور ہیں۔ اے رسول اللہ! آپ ہی ہمارے درمیان اور اسلام میں پیدا ہونے والے ان علوم کے درمیان رابطہ اور واسطہ تھے جو آپ کے عہدِ رسالت اور عہدِ امامت میں پیدا ہوئے۔ درحقیقت صرف آپ ہی عرب اور عجم میں رابطے کا ذریعہ ہیں۔ آپ ہی کی ذات ہے جس نے اس درمیانی خلا کو پُر کیا ہے اور عرب و عجم، قریب و بعید کو گلے ملا دیا ہے۔ آپ کا کتنا احسان ہے ہماری اس ذہانت، طباعی اور تبحر علمی پر، اور آپ کا کتنا کرم ہے علم کی اس ثروت پر، انسانی عقل کی زرخیزی پر اور قلم کی گلکاری پر! اے رسول اللہ! اگر آپ نہ ہوتے تو یہ زبان بھی بہت سی اور زبانوں کی طرح صفحہ ہستی سے ناپید ہوجاتی۔ اگر قرآن مجید کا معجزہ نہ ہوتا تو اس پر تحریف کا ایسا عملِ جراحی ہوتا کہ اس کی صورت ہی مسخ ہوجاتی جیسا بکثرت دوسری زبانوں کے ساتھ ہوا ہے۔ عجمی لہجے اور مقامی زبانیں اس کو جذب کرلیتیں یا نگل لیتیں اور اس کی فصاحت یکسر ختم ہوجاتی۔ یہ آپ کے وجودِ مبارک، شریعتِ اسلامی اور اس کتابِ مقدس کا فیض ہے جس نے اس زبان کو فنا کے دستبرد سے محفوظ رکھا ہے اور عالم اسلام کے لیے اس کی عزت و محبت واجب کردی ہے اور ہر مسلمان کے دل کو اس کی محبت و عقیدت سے لبریز کردیا ہے۔ آپ ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس زبان کو دوام بخشا اور اس کی بقاء و ترقی کی ضمانت لی۔ اس لیے ہر اُس شخص پر جو اس زبان میں بات کرتا ہے یا لکھتا ہے، یا اس کی وجہ سے کوئی مرتبہ حاصل کرتا ہے، یا اس کی دعوت دیتا ہے آپ کا احسان ہے، اور وہ اس احسان کو ماننے پر مجبور ہے‘‘۔
میں ان کے اس اعتراف و اظہارِ حقیقت کو غور سے سن رہا تھا کہ اچانک میری نگاہ ’’باب عبدالعزیز‘‘ پر جاکر ٹھیر گئی، اس دروازے سے ایک ایسا گروہ داخل ہورہا تھا جس پر مختلف قوموں اور مختلف ملکوں کے رنگ نمایاں تھے، اس میں دنیا کے بڑے بڑے سلاطین اور تاریخ کے ممتاز ترین بادشاہ اور فرمانروا شامل تھے۔ ہارون رشید، ولید بن عبدالملک، ملک شاہ سلجوقی، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، طاہر بیرس، سلیمان القانونی، اورنگ زیب عالمگیر بھی اس گروہ میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنے خادموں اور سپاہیوں کو دروازے کے باہر ہی چھوڑ دیا تھا اور نظریں جھکائے، تواضع و انکسار کا مجسمہ بنے ہوئے بہت آہستہ آہستہ گفتگو کرتے ہوئے چل رہے تھے۔ میری نظر کے سامنے ان سب کی شخصیتیں اور کارنامے اُبھرنے لگے، میری آنکھوں میں اس طویل و عریض دنیا کا نقشہ پھر گیا جس پر ان کا سکہ چلتا تھا۔ اس غلبے اور اقتدار کی تصویر یکایک میرے سامنے آگئی جو اِن کو دنیا کی بڑی بڑی قوموں، طاقتور سلطنتوں اور جابر بادشاہوں پر حاصل تھا۔ ان میں وہ شخص بھی تھا جس نے بادل کے ایک ٹکڑے کو دیکھ کر یہ تاریخی جملہ کہا تھا ’’تُو جہاں چاہے جا کے برس، تیرا خراج آخرکار میرے ہی خزانے میں آئے گا‘‘ (ہارون رشید کی طرف اشارہ ہے)۔ وہ شخص بھی تھا جس کی سلطنت کی وسعت کا عالم یہ تھا کہ اگر سب سے تیز رفتار اونٹ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا چاہتا تو یہ 15 ماہ سے کم میں ناممکن تھا۔ ان میں وہ فرماں روا بھی تھے جو نصف کرۂ ارض پر حکومت کرتے تھے اور بڑے بڑے بادشاہ ان کو خراج پیش کرنے پر مجبور تھے (ولید بن عبدالملک اور سلیمان قانونی کی طرف اشارہ ہے)۔ ایسے فرمانروا بھی تھے جن کی ہیبت سے سارا یورپ لرزہ براندام تھا اور جن کے زمانے میں مسلمانوں کو عزت کا یہ مقام حاصل تھا کہ جب وہ یورپ کے ملکوں میں جاتے تھے تو ان کے دین کے احترام اور ان کے غلبے و سطوت کے اثر سے گرجوں کے گھنٹے بجنا بند ہوجاتے تھے (سلیمان بن سلیم العثمانی کی طرف اشارہ ہے)۔ غرض اسی طرح کے نہ جانے کتنے بادشاہ اور فرمانروا اس مجمع میں موجود تھے۔ وہ مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کے لیے آگے کی طرف بڑھ رہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو درود و سلام کا ہدیہ پیش کرنا چاہتے تھے اور اس کو اپنے لیے سب سے بڑا شرف و اعزاز اور سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے، اور تمنا کرتے تھے کہ کاش ان کی یہ نماز اور یہ درود و سلام قبول ہو۔ میں نے دیکھا کہ وہ لرزتے ہوئے قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے دلوں پر ہیبت طاری تھی۔ یہاں تک کہ وہ ’’صفہ‘‘ کے نزدیک پہنچ گئے جو فقراء صحابہ کا مسکن اور جائے قیام تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے وہاں رُک گئے اور عزت و احترام اور شرم و حیا کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس کو دیکھنے لگے۔ اس کے قریب ہی انہوں نے تحیتہ المسجد کے طور پر دو رکعتیں پڑھیں اور قبرِ مبارک کی طرف بڑھے اور پھر ان کی محبت و عقیدت، جذبات و احساسات اور علم و ایمان کی زبان نے جو کچھ کہلوایا وہ انہوں نے اس بارگاہِ نبوی میں عرض کیا لیکن شریعت کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے اور توحیدِ خالص کو پیش نظر رکھ کر۔ میں نے سُنا وہ کہہ رہے تھے:
’’اے رسول اللہ! اگر آپ نہ ہوتے اور آپ کا یہ جہاد اور یہ دعوت نہ ہوتی جو دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئی اور جس نے بڑے بڑے ملکوں کو فتح کرلیا، اور اگر آپ کا یہ دین نہ ہوتا جس پر ایمان لانے کے بعد ہمارے آباو اجداد گوشہ عزلت اور قعرِ مذلت سے نکل کر عزت و سربلندی، حوصلہ مندی اور بلند ہمتی کی وسیع زندگی میں داخل ہوئے، پھر اس کے نتیجے میں انہوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں، دور دراز ملکوں کو فتح کیا اور ان قوموں سے خراج وصول کیا جو کسی زمانے میں ان کو اپنی لاٹھی سے ہانکتی تھیں اور بھیڑ بکری کے گلّے کی طرح ان کی پاسبانی اور حفاظت کرتی تھیں۔ اگر جاہلیت سے اسلام کی طرف اور گوشۂ گمنامی اور تنگ و محدود قبائلی زندگی سے تسخیر عالم کی طرف یہ مبارک سفر نہ ہوتا جو آپ کی برکت سے انجام پذیر ہوا تو دنیا میں کسی جگہ بھی ہمارا جھنڈا سربلند نہ ہوتا، اور نہ ہماری کہانی کسی جگہ سنائی جاتی۔ ہم اسی طرح بے آب و گیاہ، خشک و ویران صحرائوں اور حقیر وادیوں میں باہم دست و گریباں رہتے، جو طاقتور ہوتا وہ کمزور پر ظلم کرتا، بڑا چھوٹے پر زیادتی کرتا۔ ہماری غذا بہت ہی حقیر اور معیار اتنا پست تھا کہ اس سے زیادہ پست کا تصور مشکل ہے۔ ہم اس گائوں یا اپنے محدود قبیلے سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے جس میں ہماری ساری زندگی اور ساری جدوجہد محصور تھی۔ ہماری مثال تالاب کی مچھلیوں اور کنویں کے مینڈکوں کی سی تھی۔ ہم اپنے محدود تجربوں کے جال میں گرفتار تھے اور اپنے جاہل اور بے عقل آباو اجداد کے گن گاتے تھے۔
آپ نے اے رسولؐ اللہ ہم کو اپنے دین کی ایسی روشنی عطا کی کہ ہماری آنکھیں کھل گئیں۔ خیال میں وسعت پیدا ہوئی، نظر کو جِلا ہوئی۔ اس کے بعد ہم اس وسیع اور جامع دین اور روحانی رشتے اور رابطے کو لے کر خدا کی وسیع اور کشادہ زمین میں پھیل گئے۔ ہم نے اپنی تمام خوابیدہ اور جامد صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے شرک و بُت پرستی اور ظلم و جہالت کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا اور ایسی عظیم الشان حکومتیں قائم کیں جن کے سائے میں ہم، ہماری اولاد اور ہمارے بھائی صدیوں تک آرام اور فائدہ اُٹھاتے رہے۔ آج ہم آپ کی خدمت میں نذرِ عقیدت پیش کرنے آئے ہیں اور اپنے جذبۂ محبت اور عزت و احترام کا خراج یا ٹیکس اپنی خوشی و مرضی سے ادا کررہے ہیں اور اس کو اپنے لیے باعثِ فخر اور وسیلۂ شرف سمجھتے ہیں۔
ہمیں پورا اعتراف ہے کہ اس دین کے احکام و قوانین کے نفاذ کے سلسلے میں جس سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو سرفراز کیا تھا، ہم سے یقیناً بڑی کوتاہی ہوئی۔ ہم اللہ سے استغفار کرتے ہیں۔ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔
میں ان بادشاہوں کی طرف متوجہ تھا۔ میری نظریں ان کے خاموش اور باادب چہروں پر مرکوز تھیں۔ میرے کان ان کے ان پُرخلوص، نیاز مندانہ الفاظ پر لگے ہوئے تھے جو اس سے قبل میں نے اُن سے کسی موقع پر نہیں سنے تھے کہ ایک اور جماعت داخل ہوئی اور ان بادشاہوں اور فرماں روائوں کی پروا کیے بغیر ان کی صفوں سے ہوتی ہوئی سامنے آگئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان بادشاہوں کے رعب و دبدبے اور قوت و اقتدار کا ان پر کوئی اثر نہیں ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یا تو یہ شاعر ہیں یا انقلابی۔ یہ اندازہ غلط نہ تھا، اس لیے کہ یہ جماعت ان دونوں گروہوں پر مشتمل تھی۔ اس میں سید جمال الدین افغانی، امیر سعید حلیم، مولانا محمد علی، امام حسن البنا کے پہلو بہ پہلو ترکی کے مشہور شاعر محمد عاکف اور ڈاکٹر محمد اقبال بھی موجود تھے۔ ترجمانی کے لیے ان لوگوں نے آخر الذکر کا انتخاب کیا اور لائق ترجمان نے ان الفاظ میں اپنے جذباتِ عقیدت کا اظہار کیا:
’’یا رسول اللہ! میں آپ سے اس قوم کی شکایت کرنے آیا ہوں جو آج بھی آپ کے خوانِ نعمت سے لطف اندوز ہورہی ہے اور آپ کے سایۂ رحمت میں زندگی گزار رہی ہے اور آپ ہی کے لگائے ہوئے باغ کے پھل کھا رہی ہے، وہ ان ملکوں میں جن کو آپ نے قفسِ استبداد سے آزاد کرایا تھا اور سورج کی روشنی اور کھلی ہوا عطا کی تھی، وہ آج آزادی کے ساتھ اور اپنی مرضی کے مطابق حکومت کررہی ہے۔ لیکن یہی قوم اے رسولؐ اللہ آج اسی بنیاد کو اکھاڑ رہی ہے جس پر اس عظیم امت کے وجود کا دارومدار ہے۔ اس کے رہنما اور لیڈر آج یہ کوشش کررہے ہیں کہ اس امتِ واحدہ کو کثیر التعداد قومیتوں میں تقسیم کردیں، وہ اسی چیز کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جس کو آپ نے ختم کیا تھا، اسی چیز کو بگاڑ رہے ہیں جس کو آپ نے بنایا تھا۔ وہ اس امت کو عہدِ جاہلیت کی طرف دوبارہ واپس لے جانا چاہتے ہیں، جس سے آپ نے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکالا تھا، اور اس معاملے میں یورپ کی تقلید کررہے ہیں جو خود زبردست ذہنی افلاس اور انتشار اور بے یقینی کا شکار ہے۔ وہ اللہ کی نعمت کو ناشکری سے تبدیل کرکے اپنی قوم کو تباہی کے گھر کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ ’’چراغِ مصطفوی‘‘ اور ’’شرارِبولہی‘‘ کی معرکہ آرائی آج پھر قائم ہے۔ بدقسمتی سے ابولہب کے کیمپ کی طرف وہ لوگ نظر آرہے ہیں جو اسلام کی طرف اپنا انتساب کرتے ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں۔ وہ آج اپنے جاہلی کارناموں اور اصنام پر فخر کرنے لگے ہیں جن کو آپ نے پاش پاش کردیا تھا۔ یہ لوگ ان تاجروں میں ہیں جو سودا خریدتے وقت تو زیادہ لینا چاہتے ہیں اور بیچتے وقت کم دیتے ہیں۔ آپ سے انہوں نے ہر چیز حاصل کی اور ہر طرح کی قوت و عزت سے بہرہ مند ہوئے۔ اب وہ ان قوموں کے ساتھ جن کے وہ حاکم اور نگراں ہیں یہ سلوک کررہے ہیں کہ ان کو بالجبر یورپ کے قدموں میں ڈال دینا چاہتے ہیں اور اس کو جاہلی فلسفوں، نیشنلزم، سوشلزم، کمیونزم کے حوالے کررہے ہیں۔
آپؐ نے جن بُتوں سے کعبہ کو پاک کیا تھا، وہ آج مسلمان قوموں کے سروں پر نئے نئے ناموں اور نئے نئے لباس میں پھر مسلط کیے جارہے ہیں۔ مجھے عالمِ عربی کے بعض حصوں میں جن کو آپ کا مرکز اور قلعہ ہونا چاہیے تھا، ایک عام بغاوت نظر آرہی ہے لیکن کوئی فاروقؓ نہیں۔ فکری و ذہنی ارتداد کی آگ تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور کوئی ابوبکرؓ نہیں جو اس کے لیے مردانہ وار میدان میں آئے اور اس آگ کو بجھائے۔ میری طرف سے اور میرے تمام ساتھیوں کی طرف سے جن کی نمائندگی اور ترجمانی کا فخر مجھے حاصل ہوا ہے، آپ کو دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے اور عقیدت و جذبات کے احترام میں ڈوبے ہوئے سلام کا تحفہ قبول ہو۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اور اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ہم ان تمام لیڈروں اور رہنمائوں سے بری اور بیزار ہیں جنہوں نے اپنا رُخ اسلام کے قبلے کی طرف سے پھیر کر مغرب کی طرف کرلیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آپ سے اور آپ کے دین سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا ہے۔ ہم آپ کی وفاداری اور اطاعت شعاری کا پھر اعلان کرتے ہیں اور جب تک زندگی ہے، اسلام کی اسی رسّی کو ان شاء اللہ مضبوطی سے پکڑے رہیں گے۔‘‘
یہ بلیغ اور ایمان و یقین سے لبریز الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ مسجد نبوی کے میناروں سے اذان کی دلنواز صدا بلند ہوئی۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، میں یکبارگی ہوشیار ہوگیا اور تخیلات کا یہ حسین سلسلہ جو تاریخ کے سہارے قائم ہوا تھا، ٹوٹ گیا۔ میں اب پھر اُسی دُنیا میں واپس آگیا تھا جہاں سے چلا تھا۔ کچھ لوگ نماز میں مشغول تھے اور کچھ تلاوت کررہے تھے۔ عالم اسلام کے مختلف وفود اور جماعتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیۂ سلام پیش کررہی تھیں، زبانوں اور لہجوں کے اختلافات کے ساتھ جذبات و تاثرات کے اتحاد نے ایک عجیب سماں پیدا کردیا تھا۔