قاضی مظہرالدین طارق
اللہ ربّ العٰلمین نےزمین پر حیات کے پیدا ہونے،پنپنےاورزندہ رہنے کیلئے ایک مناسب درجہ حرارت مقرر کر رکھاہے،جب تک عظیم خالق زمین پر حیات کو برقرار رکھنا چاہے گا ، وہ ہرگزبھی تبدیل نہیں ہوگی ۔
زمین کروڑوں سال سے ایک خاص تپشی ضابطے میں ہے ، اس کا درجۂ حرارت اَوسط سے کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے مگر ایک خاص حد کے اندررہتے ہوئے، درجۂ حرارت کی ان حدود کو مستقل برقرار رکھنے والے بہت سارے عوامل کام کر رہے ہیں ، ان عوامل کو خالقِ اَرض و سما نے نہایت ہی باریک بین ، نازک حساب کتاب ، غلطی سے پاک تخمینوںاور ناقابلِ ترمیم قدروں کے ساتھ مقررکی ہوئی ہیں اور پھر تسلسل کے ساتھ برقرار رکھنےکا ذمہ بھی اپنے سر لے رکھاہے۔
ان عوامل میں
�سورج کا خاص حجم:
ہمارا سورج ایک درمیانہ حجم کا ستارہ ہے ،اس کا ایک خاص قطر ہے ،خاص حرارت ہے اور خاص عمر ہے۔
�سورج کا زمین سے فاصلہ:
سورج کا زمین سے خاص طے شدہ مناسب فاصلہ ہے،یہ تھوڑا سا بھی کم یا زیادہ ہو جائے توزمین پر حیات سردی سے جم کر ختم ہو جائے یاگرمی سے جل کربھسم ہوجائے ۔
�سورج کی حدّـت:
وقفے وقفے سے سورج کی بھٹـی میں اُبال آتا ہے ،اِس کی حدّـت بڑھ جاتی ہے ، جس کے اثر سے زمین کا درجۂ حرارت میںبھی اضافہ ہو جا تا ہے، پھر بھی حرارت کا اَوسط نہیں بگڑتا۔
�زمین کی محوری گردش:
زمین کا اپنے محور(Axis)کے گرد خاص رفتار سے گھو منا (Spining)یعنی۲۴گھنٹے میں ایک چکّر مکمل ہونا۔
�پانی اور خشکی کا تناسب:
زمین پر پانی اور خشکی کے رَقبات کا تناسب ،سترفیصد70% پانی اور تیس فیصد30% خشکی کی موجودگی۔
�پانی سے گھری خشکی :
سمندروں کا خشکی کو گھیرے میں رکھنا ،کہیں جزیرے، کہیں جزیرے نما،کہیں برِاعظموں کوپانی کا اپنے گھیرے میں رکھنا۔
�ساحلوں کا کٹائو:
کہیں پانی خشکی کے اندر جا رہا ہے، کہیں خشکی پانی میں، خلیج اور جزیرہ نما ۔
�نشیب و فراز:
زمین کے نشیب و فرازکہیں پہاڑ کہیں میدان،کہیں سطح سمندر سے نیچی خشکی،کہیں سمندر سطح سمندر سے بلند،بحرِ اسود۔
� ہوائیں:
ہوا کا زمین پر چلنے کا نظام ،سمندروں سے خشکی کی طرف ، خشکی سے سمندر کی طرف یا زیادہ دباؤسے کم دباؤ کی طرف، ہوائوں کا چلنا،گرم ہوا کا اوپر اُٹھنا اورٹھنڈی ہوا کا اُس کی جگہ لینا۔
�بحری روئیں:
سمندروں کے اندر بھی بحری روئوں (Sea currunts) کےسرد پانی کا گرم خطوںکی طرف حرکت اور گرم پانی کا سرد خطوںکی طرف حرکت کرنا ۔
�بارشیں :
سمندر سےبادل اُٹھتے ہیں،ہوائیں اُن کو لیجاتی اور بارش برساتی ہیں ۔
�دھوپ اور چھاؤں :
زمین پر پہاڑوں، درختوں اور نباتات کے ذریعے پڑ نے والی چھائوں۔
�محوری جھکاؤ:
پھر زمین کے محوری جھکائو (Orbital Tilt) کی وجہ سے دھوپ کاہر روز اپنا زاویہ بدلتے رہنا،اسی وجہ سے سال بھر موسموں کا بدلنا،زمین کے دو حصے ہیں ، شمالی نصف کرہ اور جنوبی نصف کرہ،ایک میں گرمی ہوتی ہے تو دوسرے میں سردی،ایک میں بہار ہوتی ہے تو دوسرے میں خزاں،اسی جھکاؤ کی وجہ سے قطب شمالی پر دن ہوتا ہے تو قطب جنوبی پر رات ۔
�مقناطیسی میدان:
مضرِ حیات اَشعاع کو جو زمین تک پہنچ سکتی ہے رُوکنے کے لئے خود باری تعالیٰ نے دو انتظامات کر رکھے ہیں،ایک مقناطیسی میدان اور دوسرا زمین کے اطراف اُوزون کا غلاف ۔
� اُوزون کا غلاف:
انسان اپنے بے اعتدالیوں سے اس غلاف کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔
�گرین ہائوس :
فوسل فیول کا گاڑیوں،فیکٹریوں حتیٰ کہ کھاد اور بجلی بنانے کے لئےبے دریغ استعمال،جنگوں میںبارود کےبے تحاشہ کاروائیوں کی وجہ سے کاربنڈائی آکسائیڈ کا تناسب بڑھ سکتا ہے ۔
آج کل دنیا عالمی حِدـّت (گلوبل وارمنگ) کی بنا پرموسمیاتی تبدیلیوں سے بڑی پریشان ہے۔ کہتے ہیں کہ زمین کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے ، حیات خطرے میں ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے قریباً چالیس سال قبل اس وارمنگ کا بڑا چرچا تھا،ماڈل اور نقشے بنائے گئے تھے ، ان کا کہنا تھابیس سال میں زمین اتنی گرم ہو جائے گی کہ بہت سے ممالک سمندر بُرد ہو جائیں گے۔مالدیپ نے تو اس خوف سے اپنی آبادی کو منتقل کرنے کے لئے جزیرہ خرید لیا،لیکن دو دفعہ بیس سال گزر چکے ایسا کچھ نہیں ہوا۔
یہ صحیح ہے کہ موسمی تغیر آرہا ہے ، مگر یہ قدرتی عمل ہے،اس کو رُوکنا انسان کے بس میں نہیں ہے ،قطب شمالی قطب تارے کے بجائے ارسا مائینر(دُبِ اصغر) کی طرف جھک رہا ہے ،اور زمین کا دائری مدار(سرکیولرآربٹ)سے بیضوی(اَیلِپٹیکل) مدار میں تبدیل ہو رہا ہے، ایسا ہر چند ہزار سال کے خاص وقففے سے بار بار ہوتا ہے،اس موسمی تبدیلی کے مطابق انسان کو خود تبدیل ہونا ہے۔
ایک جدید سائنسدان گریگ بریڈن ـ(ماہرِ ارضیات)نے قطب جنوبی اورشمالی کے گلیشئرز کی تہوںسے نمونے حاصل کئے اور اُس سے خالص سائنسی طریقہ پر چار لاکھ بیس کروڑ سال کا زمین کی حدّــت کا رِکارڈ نکالا ،پھر دو ہزار سال کاایک گراف بنایا۔
اس گراف کو دیکھنےسے معلوم ہوا کہ زمین کا ایک اَوسط درجہ ٔحرارت ہے ، جس سے درجۂ حرارت کبھی بہت اُوپر اور کبھی بہت نیچے جاتا رہتاہے ،یہ نشیب و فراز ایک لَے(ردھم )سے اُوپر نیچے جاتے ہیں ،اس وقت وہ اَوسط سے ذرا ہی اُوپر ہے ، ہاں اور اُوپر جانے میں خطرہ ضرور ہے مگر تین گُنا حدّت بڑھ بھی جائے جو تاریخ میں کئی بار ہو چکی ہے تو کوئی فوری خطرہ نہیں ہے ، یہ گراف یہ بھی ظاہرکر رہا کہ حدّت پہلے بڑھتی ہے پھر کاربن ڈائی آکسائیڈ ، جب کاربن کا تناسب زیادہ ہوتا تو حدّت کم ہوتی ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے یہ ہم کو نہیں معلوم ۔ (واللہ اعلم!)
غور فرمائیں اس وقت کاربنڈائی آکسائیڈ کا تناسب تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے لیکن درجۂ حرارت اَوسط سے کچھ ہی بلند ہے ، یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اگر کاربن کی بنا پر تپش بڑھتی ہے تواس وقت زمین کا درجۂ حرارت بلند تریں سطح پر کیوں نہیں ہے ؟
٭٭٭٭٭