تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے پندرہ ماہ ہونے کو ہیں مگر اپنے دعووں کے برعکس تاحال یہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ملک کی شہ رگ کشمیر میں بھارت کے ظالمانہ طرزِعمل، انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور سخت کرفیو کو تین ماہ گزرنے کے باوجود حکومت عالمی رائے عامہ کو بھارتی ظلم و جبر کے خلاف متحرک کرنے کے لیے کچھ بھی تو نہیں کرپائی۔ یوں ملک بین الاقوامی سطح پر بڑی حد تک تنہائی سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ اندرونِ ملک بھی حکمرانوں سے سیاست چل رہی ہے اور نہ معیشت۔ بڑی اور مؤثر سیاسی جماعتوں کی اکثریت حکومتی پالیسیوں سے نالاں اور حکمرانوں کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر ہے۔ معیشت کا یہ حال ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کے لیے زندگی محال کردی ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ سرکاری پالیسیوں سے نالاں ہے۔ کسان اور ڈاکٹر پہلے ہی سراپا احتجاج تھے، اب تاجروں نے بھی ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام اور شناختی کارڈ سمیت سرکاری محکموں کی مختلف ناقابلِ عمل شرائط کے خلاف ملک گیر اور بھرپور ہڑتال کے ذریعے اپنے عدم اطمینان اور عدم تعاون کا اعلان کردیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے مشن نے اپنے دیئے گئے قرضے کی پہلی قسط کے ساتھ عائد کی گئی شرائط اور ٹیکس اصلاحات پر پیش رفت کے جائزے کے لیے دورۂ پاکستان کے دوران حکومتی معاشی ٹیم سے مذاکرات کے بعد آئندہ دنوں میں پاکستانی معیشت کے لیے مزید مشکلات کی پیش گوئی کی ہے۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ مالی سال کا جو جائزہ 28 اکتوبر کو پیش کیا ہے اُس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اقتصادی ترقی کی شرح گزشتہ 9 برس کی کم ترین سطح پر آگئی ہے اورمہنگائی بھی 4 سال بعد اپنے ہدف سے زائد رہی۔ معاشی سست روی سے گھریلو اخراجات میں کٹوتی دیکھی گئی۔ دیہی اور شہری آمدنی میں کمی ہوئی۔ روپے کی قدر میں کمی سے درآمدی اشیاء پر اثر پڑا۔ مالی سال 2019ء کی آخری سہ ماہی میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بھاری اضافہ مہنگائی کا سبب بنا۔ شرح سود میں اضافہ ہوا، بجلی اور گیس مہنگی ہوئی، پالیسی ریٹ میں لگاتار اضافے نے نرخوں پر طلب کا دبائو کم کرنے میں مدد دی۔ لیکن پالیسی ریٹ میں مسلسل اضافے کے باوجود مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2018-19ء کے 6.2 فیصد ہدف کے مقابلے میں معاشی ترقی کی شرح نمو 3.3 فیصد رہی۔ زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں کی نمو کا ہدف بھی پورا نہ ہوسکا، زرعی شعبے کی شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم یعنی اعشاریہ 8 فیصد رہی۔ وفاقی حکومت ٹیکس رعایتوں میں کمی اور ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کے باوجود ٹیکس محاصل کا ہدف پورا نہ کرسکی۔ حکومت ٹیکس وصولی کے لیے گنے چنے شعبوں پر انحصار کررہی ہے اور نان ٹیکس محاصل پر انحصار حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ گزشتہ مالی سال اسٹیٹ بینک پر قرضوں کے انحصار سے سخت مانیٹری پالیسی کے اثرات بھی زائل ہوتے رہے۔ جائزے میں آئندہ دنوں میں حالات کی بہتری کو بھی خارج از امکان قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی گئی ہے کہ رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرحِ نمو 3 سے 4 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ مہنگائی کو 8.5 فیصد تک محدود رکھنے کا ہدف ناقابلِ حصول رہے گا اور مہنگائی کی شرح 12 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ مالیاتی خسارہ 6.5 فیصد سے 7.5 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ جاری کھاتے کا خسارہ 2.5 فیصد سے 3.5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ رواں سال برآمدات کا 26.2 ارب ڈالر کا ہدف بھی مشکل ہے، اور برآمدات 25.4 سے 25.9 ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ان اقتصادی جائزوں میں ملک کے آئندہ معاشی حالات کی جو خوفناک اور مایوس کن تصویرکشی کی گئی ہے اُس کا تقاضا ہے کہ اربابِ اختیار ضد، ہٹ دھرمی اور اَنا پرستی کا رویہ ترک کرکے تاجروں، صنعت کاروں اور دیگر طبقات کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر سنجیدگی سے اُن کی شکایات، مطالبات اور تجاویز کا جائزہ لیں اور ظالمانہ ٹیکس نظام میں ترامیم کرکے اسے آسان، سہل اور فریقین کے لیے قابلِ قبول بنایا جائے، تاکہ ملکی معیشت پر مرتب ہونے والے انتہائی منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ تاجروں، صنعت کاروں اور دوسرے طبقات کو آئے روز کی ہڑتالوں کے بجائے معیشت کے استحکام و ترقی کا سبب بننے والی مثبت سرگرمیوں میں مصروف کیا جا سکے۔ کیونکہ یہ احتجاج اور ہڑتالیں ملکی معیشت کے علاوہ عام آدمی کے لیے بھی سوہانِ روح اور خود احتجاج کرنے والوں کے لیے بھی نقصان کا سبب اور غیر مفید ہیں… اس لیے جیسے بھی ممکن ہو، ان سے احتراز کی راہ تلاش کی جانی چاہیے۔
(حامد ریاض ڈوگر)