نریندر مودی نے پانچ اگست کو جس مسئلہ کشمیر کو ’’اٹوٹ انگ‘‘ اور ’’داخلی معاملہ‘‘جیسی اصطلاحات اور عذرہائے لنگ کے تابوت میں بند کردیا تھا وہ کفن پھاڑ کر بول رہا ہے۔ صرف کشمیر اور پاکستان کے اندر سے ہی نہیں، دنیا کے ہر کونے سے کسی نہ کسی شکل میں بلند ہونے والی آواز اٹوٹ انگ کے دعوے اور فلسفے کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ دنیا کے کانوں اور آنکھوں پر تجارت، مصلحت اور منافقت کی پٹی ضرور چڑھی، مگر اس کے باجود کان ان آوازوں کو سننے اور آنکھیں ان مناظر کو دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہر آواز یہ بتا رہی ہے کہ کشمیر نہ تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، نہ داخلی معاملہ… بلکہ یہ عالمی اور علاقائی تنازع ہے جو حقِ خودارادیت کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے۔ دو ملکوں کی ایٹمی صلاحیت نے اربوں انسانوں کے مستقبل کو بھی اس مسئلے سے جوڑ دیا ہے۔
امریکی کانگریس میں ہونے والی حالیہ کارروائی بھی ایسی ہی ایک آواز تھی جس میں کانگریس کے ارکان نے نہ صرف ایک دوسرے کو سنا، امریکی حکومت سے سوالات پوچھے کہ وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت ہونے کی وجہ سے اس معاملے میں کیا کردار ادا کررہی ہے، بلکہ خود کشمیریوں کو ایک متاثرہ فریق کے طور پر سنا گیا۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں ہونے والی سماعت کو گزشتہ بیس سال میں اپنی نوعیت کی منفرد سرگرمی کہا گیا۔ اس سماعت میں علاقائی ملکوں کے کئی دوسرے مسائل پر بھی بحث ہورہی تھی جن میں آسام میں مسلمانوں، سندھ میں ہندوئوں اور میانمر سمیت کئی دوسرے معاملات پر بحث ہوئی، مگر بحث اور وقت کا ستّر فیصد سے زیادہ حصہ کشمیر پر صرف ہوا۔ اس طرح امریکی ایوانِ نمائندگان میں اس بحث کا مرکزی اور غالب موضوع کشمیر ہی رہا۔ کمیٹی میں حکومتی نمائندگی اور سوالات کے جوابات دینے کے لیے امریکہ کی جنوبی اور وسطی ایشیا کے بارے میں قائم مقام وزیر خارجہ ایلس ویلز موجود تھیں۔ ارکانِ کانگریس کے سوالوں کے جواب میں ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ کشمیر میں حالات ابھی معمول پر نہیں آئے۔ امریکہ کو تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت سیاسی راہنمائوں اور مقامی افراد کی گرفتاریوں پر تشویش ہے اور اس تشویش سے بھارتی حکومت کا آگاہ کردیا گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے اور انٹرنیٹ اور موبائل سروس سمیت مواصلاتی نظام کو بحال کرے۔ ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی نے کشمیر میں مودی حکومت کے تین ماہ میں اُٹھائے گئے اقدامات پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اس وقت تک امریکی کانگریس کے 37 ارکان کشمیر کی صورتِ حال پر بہت کھل کر اظہارِ خیال کرچکے ہیں۔ ایوانِ نمائندگان کی اس کارروائی کی روشنی میں کانگریس امریکی صدر ٹرمپ کو مزید کارروائی کے لیے لکھ سکتی ہے، اور پھر یہ ٹرمپ پر منحصر ہے کہ وہ اس رائے پر مودی حکومت سے بات کرتے ہیں یا اسے ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔
اس کارروائی سے بہت سی چیزیں ریکارڈ پر آچکی ہیں اور یہ بھارت کے لیے پابندیوں کا نقطہ آغاز بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، مگر سرِدست امریکہ سے اس حد تک کھل کر سامنے آنے کی توقع نہیں۔ امریکہ کے یہ وہی ایوان ہیں جہاں چند برس پہلے تک پاکستان کو ایک مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تھا، اور پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کیا جاتا تھا جبکہ بھارت پر داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے تھے۔ اُسے امنِ عالم کا ایک اہم ضامن بناکر پیش کیا جاتا تھا۔ آج انہی جمہوری ایوانوں میں کشمیر بھارت کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے اور امریکہ کے حکومتی عہدیداروں کو بھی بھارت کی وکالت کے لیے مناسب الفاظ دستیاب نہیں ہوتے۔ یہ منظرنامہ بتارہا ہے کہ امریکہ میں اداروں کا موڈ اب بھارت کے حوالے سے بدل رہا ہے۔ یہی نہیں، ترکی اور ملائشیا نے کشمیر کی بنیاد پر دنیا کو مصلحت اور مفاد کی زنجیریں توڑنے کا انداز اور ادا بھی سکھا اور دکھا دی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ترک صدر رجب طیب اردوان اور ملائشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے جس جرأت کے ساتھ کشمیریوں کی وکالت کی اس نے دنیا بالخصوص مسلم دنیا میں سوچ کے کئی نئے دریچے وا کیے ہیں۔ بھارت نے ان دونوں راہنمائوں کی تقریروں کو ناپسند کیا اور دونوں راہنمائوں سے اپنا مؤقف واپس لینے یا نرم کرنے کی درخواستیں کی جاتی رہیں، مگر دونوں راہنمائوں نے اپنے بولے گئے ایک ایک لفظ کی ذمہ داری قبول کی، جس کے بعد بھارت نے دونوں ملکوں سے تجارتی تعلقات محدود کرنے کی دھمکیاں دیں، مگر دونوں شخصیات نے ان دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاکر جرأت کو نئے مفاہیم دئیے۔ بھارت نے نریندر مودی کا مجوزہ دورۂ ترکی منسوخ کردیا۔ بھارتی صحافی سہانی حیدر کی ایک رپورٹ کے مطابق اوساکا میں رجب طیب اردوان اور نریندر مودی کی ملاقات میں یہ طے ہوا تھا کہ مودی ترکی کا دورہ کریں گے جہاں دونوں رہنمائوں کے درمیان بحری جہازوں کی خرید کے معاہدے پر بھی بات ہونا تھی، مگر طیب اردوان کے کشمیر پر مؤقف کے بعد مودی اب دورۂ ترکی سے مکر گئے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ ملائشیا کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ بھارت ملائشیا کے پام آئل اور پام آئل مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ رواں برس کے پہلے نو مہینوں میں بھارت نے ملائشیا سے 3.9 ملین ٹن پام آئل خریدا ہے۔کشمیر پر مہاتیر محمد کے خطاب اور اس کے بعد اپنے مؤقف کے اعادے اور اصرار پر بھارت نے پام آئل کی خریداری کم کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر مہاتیر محمد نے بے نیازی سے تبصرہ کیا کہ بھارت کے ساتھ تجارت یک طرفہ نہیں دوطرفہ معاملہ ہے۔ یعنی یہ کہ بھارت پام آئل خرید کر کوئی احسان نہیں کررہا، جواب میں ملائشیا بھی بھارت کی بہت سی اشیاء خریدتا ہے۔
ترکی اور ملائشیا کی یہ سوچ مسلمان دنیا میں پھیل بھی سکتی ہے۔ مسلمان دنیا بالخصوص عرب ممالک سود وزیاں کے چکر سے نکل کر کشمیریوں کی حمایت کے بارے سوچنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ عربوں کے علاوہ ایران کے لیے بھی ان دومسلمان ملکوں کی اس روش میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔
اپنی منڈیوں کے سحر میں مبتلا نریندر مودی کے لیے دنیا کی بدلتی ہوئی اس فضا اور رویوں میں کئی پیغام مضمر ہیں۔ بھارت نے کشمیر کے معاملے پر اپنی روش نہ بدلی تو زمانے کی پھٹکار کا یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جائے گا، کیونکہ کشمیریوں کا مؤقف مبنی برحق ہے اور وہ مظلوم ہیں۔