استاد، جنسی ہراسانی، انصاف، خودکشی

انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل بھی ثابت ہوتی ہے

ساہیوال واقعے کے بعد سے تو ’انصافی حکومت‘ سے کسی قسم کا انصاف ملنے کی توقع لاحاصل محسوس ہوتی ہے۔ ویسے ماضی میں بھی انصاف کی فراہمی کا یہی مسئلہ رہا ہے۔ لیکن ہم انصاف سے زیادہ معاشرتی رویوں اور معاشرتی اقدار میں ہونے والی تبدیلی کی جانب متوجہ کریں گے تاکہ جو ہمارے کرنے کا کام ہے وہ تو ہم عبرت پکڑ کر کرسکیں، کیوں کہ ہم سب ایک ہی قبیل کے افراد ہیں، یعنی ’مظلوم کمزور عوام‘۔ امسال ہونے والے دو اہم ’’جھوٹے‘‘ واقعات نے معاشرتی رویوں پر گہری ضرب لگا کر معاشرے کو متوجہ کیا ہے۔ سماجی میڈیا کے ہوتے ہوئے اب کم ازکم ہر طرح کی ’آواز‘ ضرور بلند ہوجاتی ہے اور لوگ فوراً رائے بنا لیتے ہیں۔ اس میں اصل متاثر وہ ہوتے ہیں جن کی عزت اُچھال دی جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں سماجی میڈیا پر سندھ کے ایک نوجوان نے فیس بک لائیو کے پلیٹ فارم سے اپنی مبینہ محبت میں ناکامی پر خودکشی نشر کرکے کئی دل دہلا دیئے۔ بظاہر تو ماہرینِ نفسیات نے خودکشی کو ایک مرض قرار دیا ہے۔ ڈپریشن و مایوسی کی ایسی حالت جو انسان کو اس انتہائی قدم کی جانب لے جاتی ہے۔ خودکشی کا یہ خطرناک کلچر مغرب سے تیرتا ہوا پاکستان بھی آن پہنچا ہے۔ اسی طرح یہ جو Metooکا نعرہ ہے اس نے بھی ہمارے تہذیبی دائرے میں خاصی ہلچل مچائی ہے۔ سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً اس ہیش ٹیگ کے ساتھ پوسٹیں یا مہم چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق ان کا تعلق بھی ایک قسم کے نفسیاتی ڈس آرڈر سے ہے۔ اس مہم کے مطابق اگر آپ کے ساتھ کبھی کسی قسم کی جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے خواہ کسی نے بھی کیا ہے، تو آپ خاموش نہ رہیں بلکہ کھل کر سب کو بتائیں کہ آپ بھی ایسے کسی درندے کا شکار ہوئے ہیں یا ہوئی ہیں۔ اس کا آغاز تو معروف سیلیبرٹیز نے اپنی داستانوں سے کیا، پھر یہ پھیلتا چلا گیا۔ مغرب کی اخلاقی اقدار بڑی حد تک پامال ہوچکی ہیں اور جنسی اعتبار سے تو آج کا مغرب بدترین اخلاقی زوال و گراوٹ کا شکار ہے۔ اب یہ اثرات اطراف میں بھی پھیلتے جارہے ہیں۔ ہم بات کریں گے کسی بھی معاشرتی ڈھانچے کو کھڑا کرنے والے اہم ستون یعنی استاد کی۔
امریکہ کی ایک ریاست ایریزونا کے مؤقر روزنامے کے مطابق ریاست اپنے بچوں کو اساتذہ کے ظلم کا شکار ہونے سے بچانے میں ناکام ہے۔
Teachers accused of sexual misconduct are investigated, but Arizona falls short in protecting kids
Educators are disciplined for sexual misconduct at a higher rate than for any other offense, but loopholes exist
رپورٹ کے مطابق ایریزونا میں 55000سند یافتہ اساتذہ ہیں ،جن میں سے ہر سال جنسی ہراسانی کیس کی وجہ سے 40کے قریب اساتذہ کی سند واپس لے لی جاتی ہے۔
اسی طرح American Association of University Women (AAUW)کی جانب سے 2006ء کے جنسی ہراسانی کے حوالے سے جامعات وکالج کے طلبہ وطالبات سے ایک سروے کرایا گیا، جس کے مطابق
the AAUW claimed that while both men and women were targets of sexual harassment, “women are disproportionately negatively affected.”62% of female college students and 61% of male college students report having been sexually harassed at their university.
یہ تو تھا مغرب کا منظرنامہ۔ اب ہم چلتے ہیں پاکستان کی جانب۔ میرا ماننا ہے کہ پاکستان صرف خطۂ زمین نہیں بلکہ خالقِ حقیقی کی جانب سے ہمارے لیے ایک انعام ہے۔ پاکستان اوّل تا آخر نظریے کا نام ہے جسے پاکستان کے نام سے جدا کرنے، اذہان، افکار و اعمال سے نکالنے کے لیے دنیا کی تمام طاغوتی قوتیں متحرک ہیں۔ استاد کا مقام ہماری تہذیب میں نہایت اعلیٰ قرار دیا جاتا ہے۔ اسلام نے تو اللہ، رسول کے بعد والدین، اور والدین کے بعد استادکا درجہ مقرر کیا ہے۔ یہ تو اسکول، کالج یا جامعات کا چکر انگریز دور کی پیداوار ہے، وگرنہ اس سے قبل ہماری مذہبی وتہذیبی تاریخ میں استاد شاگرد کے رشتے کی اتنی مضبوط، شاندار، اعلیٰ روایات ہیں جن کا کوئی آج تک کہیں سے مثل نہیں لا سکتا۔ ’استاد‘ دراصل ایک جامع پیکیج کی مانند ہوتا ہے جس میں اُس کی شخصیت، بلند اخلاق، برداشت، اعلیٰ ظرفی، حلم، علم، بردباری، متانت کے ساتھ اپنے مضامین کے ساتھ انسانی نفسیات کا بھی پتا ہوتا ہے۔ اس عظیم تاریخی روایت کی ایک ہی مثال دیکھ لیں: حضرت علامہ اقبالؒ اپنے احباب کے ساتھ بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ ایک دم اٹھے اور سامنے سے آتے ایک شخص کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے، پھر تھوڑی دیر بعد ان کو گھر تک چھوڑ کر واپس آئے، احباب نے پوچھا: یہ کون تھے جن کے لیے آپ ایسے اٹھ کر گئے؟ آپ نے جواب دیا: یہ میرے استاد مولوی میر حسن تھے۔ دوست کہنے لگے کہ اِن کو دیکھ کر تو آپ اپنا جوتا پہننا بھی بھول گئے تھے۔ آپ فرمانے لگے کہ ان کی تعظیم میں کمی یا تاخیر نہ ہو اس سبب مجھے جوتے چپل کا ہوش ہی نہیں رہا۔
المیہ یہ ہے کہ آج استاد کے اس مقام کو ذاتی مقاصد کے لیے مختلف انداز سے روندا جارہا ہے۔ ہماری تہذیب، تاریخ سے جو چیزیں گم ہوئی ہیں ان میں ’استاد کا مقام‘ بھی شامل ہے۔ کچھ روز قبل ایک خبر آئی کہ لاہور کے ایک مشہور گورنمنٹ ایم او کالج کے لیکچرار انگریزی محمد افضل نے خودکشی کرلی۔ افضل محمود کی لاش کے ساتھ اُن کی اپنی تحریر میں ایک خط موجود تھا جس پر تحریر تھا کہ وہ اپنا معاملہ اب اللہ کے سپرد کررہے ہیں اور ان کی موت کے بارے میں کسی سے نہ تفتیش کریں اور نہ ہی زحمت دیں۔ استاد نے مذکورہ کیس میں قائم انکوائری کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ کے نام اپنے آخری خط میں اس کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ ’’مجھ پر ایک طالبہ کی طرف سے ہراسمنٹ کا جھوٹا الزام لگایا گیا، جسے تین ماہ قبل انکوائری کمیٹی نے جھوٹ قرار دے کر رپورٹ پرنسپل کو بھیجی، مگر انہوں نے میرے بار بار اصرار پر مجھے اس کی سرکاری طور پر کاپی جاری نہیں کی، جس کی وجہ سے میری بیوی مجھے چھوڑ گئی، اور مَیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا، اِس لیے مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔ میڈیا کیس کو جس طرح اچھال رہا تھا اس کے نتیجے میں استاد کی عزتِ نفس انتہائی مجروح ہورہی تھی۔ ایک شادی شدہ، باعزت گھرانے کا فرد کس طرح اچانک اس قسم کے سنگین الزام کو برداشت کرسکتا تھا! خصوصاً جب تین ماہ سے رپورٹ سرد خانے میں جا چکی ہو اور مجاز اتھارٹی اس کی بے گناہی کا لیٹر جاری نہ کررہی ہو۔ چنانچہ اس نے خط کے ذریعے متعلقہ انکوائری افسر کو متنبہ کرکے اتمام حجت کی کوشش کی۔ زندوں کے بیانات کے مطابق افضل کو زبانی بتادیا گیا تھاکہ وہ بے گناہ ہے، جلد ہی لیٹر یا فرمان جاری کردیا جائے گا۔ افضل محمود کو انتظامیہ کی جانب سے اس بے وجہ کی تاخیر پر شدید ڈپریشن کا سامنا ہوا، جس کا اختتام اس کی خودکشی کی صورت میں نکلا۔ اگر محمد افضل قصوروار تھا تو اُسے چارج شیٹ کرکے ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو بھیج دینا چاہیے تھا، اور اگر بے قصور تھا تو فوراً سامنے لاکر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ پھر یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب 8 اکتوبر کو لکھے گئے محمد افضل کے خط کو انکوائری افسر ڈاکٹر عالیہ رحمن خان پرنسپل رحمن خان کے پاس لے گئیں تو انہوں نے اُس وقت بھی کوئی مثبت ایکشن لینے کے بجائے معاملے کو زیر التوا رکھنے کو کہا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محمد افضل سے ذاتی طور پر انتقام لے رہے تھے، کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ محمد افضل کی حالت سے بے خبر ہوں۔ جب پورے کالج کو معلوم تھا کہ محمد افضل اس الزام کی وجہ سے بہت پریشان ہے اور انتہائی مایوسی کی حالت میں کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے تو سربراہِ ادارہ کیسے اُس سے بے خبر رہ سکتا ہے؟ اس مجرمانہ عمل یا غفلت کی کیا توجیہ پیش کی جا سکتی ہے؟ بعد میں آنے والے بیانات کی روشنی میں پرنسپل کالج ڈاکٹر فرحان عبادت اور ڈاکٹر عالیہ کے درمیان اندرونی سیاست بھی نظر آئی کہ دونوں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے رہے۔ آج بھی ان باتوں کا بظاہر کوئی حاصل اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل بھی ثابت ہوتی ہے۔ انکوائری مکمل ہوجانے کے بعد 3ماہ کی تاخیر کی کوئی تُک اور وجہ نہیں بنتی۔ اس سوال کا پرنسپل آج تک جواب نہیں دے سکے بلکہ الزام جھوٹ ثابت ہونے پر الزام لگانے والے کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ لیکن کیا کریں کہ ایک استاد کی اب معاشرے میں ایسی ہی عزت رہ گئی ہے کہ اُسے اپنی بے گناہی یا مقام کے لیے خودکشی کرکے بتانا پڑ رہا ہے۔
اتفاق سے اسی نوعیت کا ایک اور سنگین واقعہ کچھ روز قبل جامعہ کراچی میں پیش آیا۔ شعبۂ ابلاغِ عامہ کے ایک استاد ڈاکٹر اسامہ شفیق اور دوسرے استاد نعمان انصاری پر صبح کی شفٹ کی کچھ طالبات کی جانب سے جنسی ہراسانی کے سخت الزامات کی شکایت شام کی شفٹ کے ایک طالب علم نے جمع کرائی۔ صرف جمع ہی نہیں کرائی بلکہ ساتھ ہی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق یہ خبر الیکٹرانک میڈیا پر بھی خوب نشر کروائی۔ راتوں رات خبر سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی۔ اساتذہ کا مؤقف جانے بغیر یک طرفہ خبریں چلا کر جو کچھ اس دوران سوشل میڈیا پر کیا جاتا رہا اُس سے تو لگ یہ رہا تھا کہ کوئی منظم گروہ ہے جو کسی مقصد کے حصول کے لیے دونوں اساتذہ کے ہاتھ دھوکر پیچھے پڑ گیا ہے۔ اگلے دن ایک ٹی وی پر خاتون نے آکر شو بھی کیا اور کچھ واٹس ایپ میسجز بھی اسکرین پر دکھا دیئے۔ یہ سب کچھ اتنی بھرپور ابلاغی مہم کے ساتھ ہورہا تھاکہ متاثر ہونے والے اساتذہ کو صرف اپنی بے گناہی اور سچ پر ہونے کا یقین ہی ہمت دلاتا رہا اور انہوں نے ڈٹ کر اس پورے کیس کا سامنا کیا۔ ایک استاد نعمان انصاری پر شدید ڈپریشن کی کیفیت طاری ہوئی۔ باوجود اس کے کہ ان کا نام اچانک ہی تمام ابلاغی مہم سے باہر ہوگیا تھا انہوں نے یونیورسٹی کو خیرباد کہہ دیا اور شہر ہی چھوڑ گئے۔ ڈاکٹر اسامہ نے محکمانہ کارروائی کے ساتھ ساتھ اپنے دفاع میں عدالت اور پیمرا سے بھی یک طرفہ خبریں چلانے پر ہمت کے ساتھ رجوع کیا۔ ان کی استقامت اور حالات کا سامنا کرنے کی قوت تھی کہ جب انکوائری کمیٹیوں نے معاملات کو گہرائی میں دیکھا تو وہ دونوں بالکل بے گناہ ثابت ہوئے اور درخواست جمع کرانے والے طالب علم تہماس علی کے خلاف شدید انضباطی کارروائی ہوئی اور اُسے جامعہ سے نکال دیا گیا۔ یہی نہیں، عدالتی فیصلہ بھی ان اساتذہ کے حق میں آیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے الزامات و میڈیا مہم کے ساتھ اگر ڈاکٹراسامہ پر بھی طاری شدہ ڈپریشن حاوی ہوجاتا تو کیا ہوتا؟
دونوں کیسز میں اہم بات یہ تھی کہ طالبات نے اپنی اپنی شکایات میں جو وجہ بیان کی اس کے مطابق کلاسز میں اُن کی اپنی کم حاضری اور کم محنت سے زیادہ نمبروں کے حصول کی خواہش نے استاد کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی راہ ہموار کی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے کمزور جامعات کے یہ اساتذہ ہیں جن پر اب کوئی بھی سچی جھوٹی تہمت لگائی جاسکتی ہے۔ معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے، کیونکہ ایسا کرنے والے بھی ان کے بیچ میں ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ سوال بھی بجا ہے کہ مرد استاد کی عزت اور مقام کو کیوں حساس معاملہ نہیں سمجھا جاتا؟ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جنسی ہراسانی کے زیادہ تر کیسز میں لوگ اندرونی سیاست کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اب مزے دار بات یہ ہے کہ جب واقعات جھوٹے ثابت ہوئے تو اڑائی گئی عزت کی دھجیاں کون سمیٹے گا؟ جس کسی کی نظر سے وہ معافی یا خبر غلط ہونے کی معلومات سامنے نہ آئی ہو اُس کی نظر میں تو وہ استاد ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ ہی ہوگیا ناں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر الزام جھوٹا ہوتا ہے، تاہم بات یہی ہے کہ انصاف اور اس کی بروقت فراہمی نہ ہونے کے سبب جو ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا ہے ہمیں وہ سمجھنا ہوگا، اور کوئی واقعہ سننے، پڑھنے کے ساتھ ہی رائے بنانے کا عمل نہیں ہونا چاہیے۔